آنسوؤں کا خراج

بابائے پبلک ریلشن مراتب علی شیخ کی خدمت میں

مراتب علی شیخ 3 اپریل 2004ء کو ہم سے جدا ہوگئے۔ وہ میرے روحانی باپ اور استاد بھی تھے ‘ ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات آج بھی میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں اکتوبر1994ء میں بنک آف پنجاب میں انٹرویو کے لیے پہنچا تو انہوں نے نہایت شفقت و محبت سے میرا انٹرویوکیا اور مجھے کامیاب قرار دے دیا۔ پھر جب مجھے بنک میں ملازمت مل گئی تو ابتدا میں میری وابستگی جنرل منیجر ڈاکٹر سید ریاض احمد کے ساتھ تھی لیکن مراتب علی شیخ صاحب کے لیے میرے دل میں بے حد احترام اس وقت بھی موجود تھا۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اگر وہ چاہتے تو مجھے انٹرویو میں فیل بھی کر سکتے تھے لیکن انتہائی مثبت سوچ کے حامل اس انسان نے جس نے اپنی ساری زندگی دوسروں کے لیے وقف کر رکھی تھی‘ مجھے بھی اپنی سرپرستی سے محروم نہ رکھا۔ پھر جب ڈاکٹر سید ریاض احمد بنک کو خیرباد کہہ گئے تو مجھے براہ راست اس عظیم انسان (جو ہر وقت اچھائی کی ہی تبلیغ کرتا اور لوگوں کے دکھ ہی بانٹتا رہتا تھا) کے ماتحت کر دیاگیا۔ یہی وہ لمحات سے تھے جب شیخ صاحب نے میری ذہنی‘ روحانی اور قلبی تربیت کا فریضہ انجام دینا شروع کیا۔ اس وقت میں کبھی کبھار ایڈیٹر کی ڈاک میں خط لکھا کرتا تھا۔ کالم لکھنے کی کبھی نہ تو ہمت ہوئی اور نہ ہی میں اس کی خود میں اہلیت محسوس کرتا تھا‘لیکن شیخ صاحب نے میری تحریروں کو دیکھ کر مجھے کالم لکھنے پر آمادہ کیا۔ ان کے ایک دوست جمیل اطہر صاحب روزنامہ جرأت کے چیف ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے فون پر بات کرکے مجھے ان کے پاس بھیجا جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے دلنشین انداز میں مجھے بتایا کہ مراتب علی شیخ میرے لیے بہت بڑا حوالہ ہیں اس لیے آپ ہمارے اخبار کے لیے لکھیں۔ ہم آپ کاکالم روزانہ شائع کیاکریں گے۔ ان دنوں چونکہ مجھے لکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اس لیے اخبار میں لکھنے اور چھپنے کا مجھے ایک اچھا موقع مل گیا۔ پھر میں ہر روز ایک کالم لکھنے لگا جسے مراتب علی شیخ صاحب چیک کرتے پھر میں وہی کالم روزنامہ جرأت میں چھپنے کے لیے دے آتا ۔ کالموں کی اشاعت کا سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ وہ بڑے شوق سے پڑھے جانے لگے۔ حسن اتفاق سے اس وقت روزنامہ خبریں ‘ پاکستان‘ دن‘ انصاف ‘ ایکسپریس نے اپنی اشاعت ابھی شروع نہیں کی تھی اور روزنامہ جرأت ‘ جنگ اور نوائے وقت کے بعد نہ صرف سب سے معتبر اخبار تصور کیا جاتا تھا بلکہ ریڈرشپ کے اعتبار سے بھی اس کا تیسرا نمبر تھا۔ جرأت میں کالموں کی اشاعت کا سلسلہ تین سال تک جاری رہا اور تقریباً تین سو کالم جرأت میں شائع ہوئے۔ بعد میں مراتب علی شیخ صاحب کے حوالے سے ہی میرے کالم روزنامہ دن میں کالم چھپنے لگے‘ جہاں ادارتی صفحے کے انچارج توصیف احمد خان تھے اب وہ بھی شیخ صاحب کے دوست تھے۔ پھر ایک دن مراتب علی شیخ صاحب کو پشاور سے عبدالواحد یوسفی صاحب ملنے کے لیے بنک آئے۔اسے میں اپنی خوش قسمتی قرار دوں گا کہ جب بھی شیخ صاحب کے پاس کوئی شخص ملنے کے لیے آتا تو شیخ صاحب ان سے میرا تعارف ضرور کراتے۔ چونکہ ان سے ملنے والوں کا زیادہ تر تعلق شعبہ صحافت سے ہی ہوتا اس لیے ایک بند کمرے میں بیٹھنے کے باوجود میرا حلقہ احباب وسیع ہوتا چلا گیا۔ بہرکیف پشاور سے آنے والے عبدالواحد یوسفی صاحب سے شیخ صاحب نے میرا تعارف کچھ اس طرح کرایا کہ وہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھا۔ انہوں نے کہا‘ یہ اسلم لودھی ہیں جو بہت اچھا لکھتے ہیں اور ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ان کا شمار ملک کے بڑے لکھنے والوں میں ہوگا۔ جب شیخ صاحب یہ تعارف کروا رہے تھے‘ میں احتراماً اپنی نگاہوں کو جھکا کر کھڑا ہوا تھا۔ میرے لیے شیخ صاحب کے الفاظ کسی سند سے کم نہ تھے۔ عبدالواحد یوسفی صاحب نے میرے بارے میں شیخ صاحب کے تاثرات سنے تو انہوں نے اپنے اخبار‘ روزنامہ ’’آج‘‘ پشاور کے لیے مجھے لکھنے کی دعوت دی۔ یہ میرے لیے بڑا اعزاز تھا کہ لاہور سے باہر کسی اور صوبے میں میری تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوں اور جب تحریریں شائع ہو رہی ہوں تو قارئین کا حلقہ خود بخود وسیع ہوتا جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے ایک دن میں دو کالم لکھنے شروع کر دیئے۔ ایک کالم روزنامہ جرأت کے لیے اور دوسرا کالم روزنامہ ’’آج‘‘ پشاور کے لیے۔ روزنامہ" آج" کا لاہور میں ایک بیورو آفس موجود تھا جس کے انچارج انور بھٹی تھے۔ ہر روز مجھے ’’آج‘‘ اخبار پہنچانا اور اشاعت کے لیے مجھ سے کالم وصول کرنے کا فریضہ ان کا معاون‘ سہیل انجام دیتا تھا۔ چنانچہ ڈیڑھ دو سال تک روزنامہ ’’آج‘‘ پشاور میں میرے کالم ہر دوسرے یا تیسرے دن چھپتے رہے۔ کالموں کی تسلسل سے اشاعت نے نہ صرف قارئین کا حلقہ بڑھایا بلکہ میری تحریروں میں بھی بڑی حد تک نکھار پیدا کر دیا‘جس کا کریڈٹ بلاشبہ مراتب علی شیخ صاحب کوہی جاتا ہے۔ حالانکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ کوئی آفیسر ماتحت کو اپنے سے آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ ماتحت کے ہر اچھے کام میں بھی اس لیے کیڑے نکالتا ہے کہ ماتحت خود کو کہیں برتر نہ سمجھنے لگے ‘ لیکن یہ خوبی مراتب علی شیخ صاحب کی ذات کا بلاشبہ حصہ تھی کہ انہوں نے کبھی مجھے کم تر نہیں سمجھا بلکہ اگر کہیں مجھ سے غلطی ہو بھی گئی تو اس کی نشاندہی اتنے دھیمے لہجے میں کرتے کہ میرے دل کو اس سے ٹھیس نہ لگے۔ یہ بات بھی ان کی خوبیوں میں شامل تھی کہ جب بھی وہ صبح دس بجے حسب معمول آنے والی چائے پینے لگتے تو مجھے اپنے پاس بلا لیتے اور بڑی محبت سے پلیٹ میں بسکٹ رکھ کر پیش کرتے۔ میرے علاوہ ان کے ماتحتوں میں مس نگہت طاہرہ‘ ناصر علی ‘ افراز خان‘ شارق کمال‘ محمدالطاف‘ محمد امجد بھی شامل تھے۔ ناصر علی چونکہ خاصے پڑھے لکھے تھے اس لیے ان کی شیخ صاحب سے خوب دوستی تھی اور شیخ صاحب ہر معاملے میں ان سے مشورہ کرتے۔ یہی حال ناصر علی کا تھا۔ شارق کمال( جو آجکل پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ڈی آئی جی کے عہدے پر فائز ہیں ) چونکہ شیخ صاحب کے دیرینہ دوست ادریس صاحب کے بیٹے تھے اس لیے ان دونوں کے درمیان اکثر والد کے حوالے سے ہی گفتگو چلتی رہتی۔ شارق کمال بھی شیخ صاحب کا بے حد احترام کرتے تھے۔ مس نگہت طاہرہ کو میرے بعد اس لیے سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی کہ ان کا آبائی تعلق ناروال سے تھا جسے وہ ناروے کہہ کر پکارتی تھیں۔ چونکہ مس نگہت طاہرہ اپنی دلکشی‘ رعنائی اور نسوانی حسن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھیں اس لیے ہر کوئی

(2)
اس سے متاثر تھا۔ لیکن شیخ صاحب ہمیشہ مس نگہت سے جہاں حقیقی بزرگ کی طرح پیش آتے بلکہ ہر صبح جب نگہت حسب معمول لیٹ آتی تو نگہت کی یہ بات شیخ صاحب کو ناگوار گزرتی لیکن انہوں نے کبھی اپنی ناراضگی مس نگہت پر ظاہر نہ ہونے دی بلکہ جب بھی مس نگہت کمرے میں داخل ہوتے ہی مخاطب کرکے کہتی کہ شیخ صاحب کیا حال ہے تو شیخ صاحب نظریں چرا کر اپنا رُخ دوسری طرف کرکے فرماتے ‘ میں ٹھیک ہوں ‘ لیکن چند ہی منٹوں بعد شیخ صاحب کا موڈ پھر دوستانہ ہوجاتا اور ناراضگی جاتی رہتی۔ ایک اور انفرادیت شیخ صاحب میں موجود تھی کہ وہ جب بھی رقم گنتے تو میز کے نیچے چھپا کر گنتے ‘ وہ اپنے ناروال پر بے حد فخر کرتے۔انہی دنوں شیخ صاحب نے ایک بہت ہی دل کش مضمون ناروال کے حوالے سے لکھا ۔ اور وہ بہت سے اخبارات میں شائع بھی ہوا‘ جس کا عنوان تھا ’’گڈی آئی گڈی ناروال دی۔‘‘ اس مضمون کے ایک ایک لفظ میں ناروال کی محبت رچی بسی تھی۔ میں نے شیخ صاحب کے ساتھ آٹھ سال کام کرتے ہوئے یہ بات شدت سے محسوس کی تھی کہ نہ وہ خود چھٹی کرتے تھے اور نہ ہی کسی اور کی چھٹی کو اچھی نظر سے دیکھتے تھے۔ میں جب بھی چھٹی کی درخواست انہیں پیش کرتا‘ وہ بڑے پیار سے فرماتے ‘ یارا گھر میں بیٹھ کر کیا کرو گے۔ دفتر آ جانا یہاں دل بھی لگا رہے گا اور کام بھی چلتا رہے گا۔ فضول چھٹی کرکے گھر بیٹھنے والے لوگ زندگی میں کامیاب نہیں ہوا کرتے۔ حالانکہ مجھے ان کی اس بات سے اتفاق تھا لیکن انسان ہونے کے ناطے کبھی نہ کبھی چھٹی تو کرنی ہی پڑ جاتی تھی‘ لیکن جب بھی میں گھر سے ان کو چھٹی کے لیے فون کرتا تو وہ غصے میں فون بند کر دیتے بلکہ کئی دنوں تک میں ان کی شفقت سے میں محروم ہوجاتا۔لیکن ان کا یہ غصہ اور خفگی زیادہ دن تک قائم نہ رہتی اور ہمیشہ کی طرح شفیق اور ہمدرد ہی دکھائی دیتے ۔

ایک مرتبہ جب ناصر علی پلاننگ ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز ڈیپارٹمنٹ سے ٹرانسفر ہوکر ایڈمنسٹریشن ڈویژن میں چلے گئے وہاں انہیں جنرل منیجر ایڈمنسٹریشن ڈاکٹر آصف حفیظ شیخ کے ساتھ پرائیویٹ سیکرٹری کی ڈیوٹی ملی تو ایک صبح جنرل منیجر ایڈمنسٹریشن کے دستخطوں سے مجھے ایک لیٹر موصول ہوا جس میں مجھے ہیڈ آفس سے بنک کی ایل سی سی ایچ برانچ میں ٹرانسفر کردیاگیاتھا۔ چونکہ میری تمام تر سروس ہیڈ آفس کی تھی اس لیے برانچ میں ٹرانسفر نے مجھے پریشان کر د یا۔ میں تو اپنی جگہ پریشان ہی تھا۔ شیخ صاحب مجھ سے زیادہ پریشان تھے۔کیونکہ ان کے بقول میری خدمات کی انہیں اس لیے زیادہ ضرورت تھی کہ میں ان کے ہر کام میں معاونت کرتا تھا بلکہ بہت سے معاملات میں میں نے ان کا بوجھ کم کر رکھا تھا۔ بدقسمتی سے انہی دنوں ارشد احمد خان جنرل منیجر (جن کے ہم اب ماتحت بن چکے تھے) انہوں نے ہمیں پانچویں فلور سے پہلے فلور پر اپنے پاس بلا لیا۔ شیخ صاحب نے جب میری ٹرانسفر رکوانے کے لیے ارشد احمد خان سے بات کی تو انہوں نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ میرے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور ٹرانسفر بنک کی جاب کا ایک حصہ ہے۔ اس جواب سے شیخ صاحب مطمئن نہ ہوئے۔ایک دن انہوں نے ڈاکٹر آصف حفیظ شیخ کو میری ٹرانسفر منسوخ کرنے پر بالآخر آمادہ کر ہی لیا۔ جب مجھے اس بات کی اطلاع ملی تو دل سے شیخ صاحب کے لیے دعا نکلی۔

یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ عمر کے آخری سالوں میں شیخ صاحب کانوں سے کم سننے لگے تھے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آخر ایسا ہوجاتا ہے۔( آجکل میں بھی شیخ کی طرح قوت سماعت میں کمی کا شکار ہوں ) لیکن شیخ صاحب جب ماچس کی تِلی کانوں میں پھیرتے تو انہیں ایک لطف سا محسوس ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں اسی لطف نے شیخ صاحب کی قوت سماعت کم کر دی تھی۔ جب بھی شیخ صاحب نے مجھ سے کوئی بات کرنی ہوتی یا مجھے ان سے کوئی بات کرنی پڑتی تو ہم دونوں کو ایک دوسرے کے بالکل قریب ہونا پڑتا۔ ہماری انہی باتوں کو دیکھ کر بنک کے دوسرے لوگ ہمیں چاچا بھتیجا کے لقب سے پکارنے لگے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم دونوں ہی اس رشتے سے انکاری نہ تھے۔ویسے میں یہ بتاتا چلوں کہ اب میری بھی قوت سماعت بہت حد تک کم ہوگئی ہے بلکہ دایاں کان بالکل بند ہوچکا ہے۔ بہت علاج کے باوجود کوئی افاقہ نہیں ہوا تو رب کی رضا سمجھ کر صبر کر لیا ہے۔ یہ نوبت بھی تِلی مارنے سے آئی ہے۔ پھر 2001ء مئی کا مہینہ تھا جب شیخ صاحب کے کنٹریکٹ کی تجدید ہونا تھی۔ جب ان کے کنٹریکٹ کا کیس بنک آف پنجاب کے (اس وقت کے) منیجنگ ڈائریکٹر سلیم جان کے پاس پہنچا تو سلیم جان( جو انتہائی بددماغ اور متکبر انسان تھا۔ انسانوں کی قدر ان سے چھو کر بھی نہ گزری تھی) نے شیخ صاحب کے کنٹریکٹ کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا۔ چونکہ مجھے اور شیخ صاحب کو اکٹھے کام کرتے ہوئے آٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا اس لیے ان کی جدائی نے مجھے بے حال کر دیا اور میں ہر نماز کے بعد ان کے کنٹریکٹ کی تجدید کے لیے دعا کرنے لگا۔ اس وقت بنک آف پنجا ب کے چیئرمین طارق سلطان تھے جو فاروق قمر کا سسر تھے۔ فاروق قمر ابتدا میں ہمارے ساتھ ہی کام کرتے تھے جو بعد میں کسی اور بنک میں چلے گئے۔ میں نے اس حوالے سے ان سے بھی بات کی انہوں نے اپنے سسر سے سفارش بھی کی ۔ طارق سلطان نے منیجنگ ڈائریکٹر سلیم جان کو کنٹریکٹ کی تجدید کے لیے کہا کہ مراتب علی شیخ صاحب جیسے تجربہ کار اور لائق لوگ ہر قوم کے لیے باعث سرمایہ ہوتے ہیں ۔پھر ایک صبح ایم ڈی صاحب نے مراتب علی شیخ صاحب کو اپنے آفس بلایا۔ ہم سمجھے کہ کنٹریکٹ کی تجدید ہوجائے گی لیکن واپسی پر معلوم ہوا کہ ایم ڈی نے کنٹریکٹ کی تجدید کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ اگر آپ نے ہر صورت بنک میں کام کرنا ہے توپھر وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجاتے ہیں۔

شیخ صاحب ‘ سلیم جان کو یہ کہہ کر واپس آگئے کہ تمہیں تمہاری نوکری مبارک ہو۔ مجھے اب بنک کی نوکری نہیں کرنی۔ بے شک شیخ صاحب کو بنک کی ملازمت جانے کا بے حد دکھ ہوا لیکن انہوں نے اسے رضا خداوندی سمجھ کر کے تسلیم کر لیا۔ شیخ صاحب نے ساری عمر بھر پور کام کیاتھا۔ملک معراج خالد‘ نواب صادق حسین قریشی‘ غلام مصطفےٰ کھر‘ جنرل عتیق الرحمان‘ جنرل ایف ایس لودھی‘ نواز شریف ‘ گورنر جنرل سوار خان‘ گورنر جنرل محمد اقبال خان‘ گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی خان جیسے نامور لوگوں کے ساتھ بطور ڈائریکٹر پبلک ریلیشن کام کیا تھا بلکہ ان تمام شخصیات کے اظہار کا ایک مؤثر ذریعہ بنے تھے کیونکہ وزیراعلیٰ یا گورنر جو کچھ کہتا ہے یا اس کے جو بیانات اخبارا ت اور ٹی وی پر نشر ہوتے ہیں وہ اپنے نہیں ہوتے بلکہ ان کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشن ہی کا ذہن کام کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کریڈٹ بلاشبہ شیخ صاحب کو جاتا ہے کہ انہوں نے ارباب اقتدار کے اتنا نزدیک رہنے کے باوجود کوئی پلاٹ یا کوئی اور مالی فائدہ حاصل نہیں کیا اور عمر کا بڑا حصہ جی اور آر تھری شادمان کے سرکاری گھر میں گزار دیا جو پہلے مراتب علی شیخ صاحب کے نام تھا۔پھر وہ مکان کے بڑے بیٹے کے نام الاٹ ہوگیا۔جو کسی سرکاری محکمے میں ڈاکٹر کی حیثیت سے ملازم تھے۔

مجھے بھی اس گھر میں کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔ اس گھر کا بڑا سا لان جامن کے اور آم کے درختوں سے آراستہ تھا۔ جامن لگنے کا موسم جب آتا تو گھر والوں کی آنکھ بچا کر محلے کے بچے بھی گیٹ کھول کر داخل ہوجاتے اور زمین پر گرے ہوئے جامن اٹھا کر بھاگ جاتے۔ کبھی کبھی وہ مزے دار اور موٹے موٹے جامن حاصل کرنے کے لیے جامن کے درخت کو پتھر بھی مارتے ۔ درخت کے پتوں میں جب پتھر لگتا تو گھر خاموشی کا سکوت تار تار ہوجاتا۔ شیخ صاحب اگر گھر سے باہر نکلتے تو وہ بچوں کو ڈانٹنے کی بجائے دوبارہ ایسا نہ کرنے کا کہتے۔ سچ تو یہ ہے کہ بچے بھی شیخ صاحب سے بہت مانوس تھے اور شیخ صاحب بھی بچوں کو بے حد پیار کرتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے اپنے گھر کے آنگن میں بھی ان کے پوتی پوتیاں کھیلتی تھیں۔ حالانکہ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا شیبا(فرحان علی شیخ) جو اب جوان ہوچکا تھا ‘ لیکن شیخ صاحب بالخصوص شیبا کو ایسے پیار کرتے جیسے ابھی وہ دودھ پیتا بچہ ہو۔ شیخ صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ شبیا ابھی بہت چھوٹا تھا جب اس کی ماں اس دنیا فانی سے رخصت ہوگئی۔ ماں اور باپ دونوں کا پیار اسے مجھے ہی دینا ہے تاکہ اس کی شخصیت سازی میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ شیخ صاحب شیبا کو نہ صرف بہت اچھا رائٹر بلکہ کامیاب انسان دیکھنا چاہتے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ دنیا کی ہر خوبی شیبا میں دیکھنے کے آرزو مند تھے۔لیکن جب شیخ صاحب میرے سامنے شیبا کو مخاطب کرکے کہتے کہ دیکھو اسلم لودھی صاحب نے یہ ایک اور کتاب لکھی ہے‘ تم بھی لکھا کرو تو شیبا‘ شیخ صاحب کی بات کو سنی ان سنی کر دیتا۔ جس پر وقتی طور پر شیخ صاحب کوغصہ بھی آتا۔ پھر جب شیبا چند اشعار لکھ لیتا تو شیخ صاحب پھولے نہ سماتے اور خوش ہوتے کہ شبیا نے لکھنا شروع تو کیا ہے۔ دراصل ان کی یہ خواہش تھی کہ شعبہ صحافت اور پبلک ریلیشنز کے شعبے میں انہوں نے اپنی محنت سے جو مقام حاصل کیا تھا‘ اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر شیبا بھی کامیاب ترین انسان بن جائے۔ جب شیبا انگلینڈ چلاگیا ہے تو شیخ صاحب اتنے خوش تھے کہ الفاظ میں اس کا ذکر مشکل ہے۔ یہ تو بیٹے کے لیے ایک باپ کا خراج تھا۔

حسن اتفاق سے مجھے بھی شیخ صاحب کے گھر میں ایک فرد کا درجہ حاصل تھا۔میں جب بھی ان کے گھر جاتا تو شیخ صاحب کے سب بیٹے میرے لیے آنکھیں بچھاتے بلکہ میری کتابوں پر انتہائی عمیق انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے میرا دل جیتنے کی کوشش کرتے۔ ان کی تحسین بھری نظر میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔ میں سمجھتا ہوں یہ سب کچھ بھی شیخ صاحب کی ہی بدولت تھا۔کیونکہ وہ اکثر مجھے اپنی اولاد کے سامنے مثال بنا کر پیش کرتے۔ مجھے اچھی طرح یادہے کہ جب کبھی شیخ صاحب گھر پر نہ ہوتے اور نہ ہی کوئی بیٹا گھر پر موجود ہوتا تو شیخ کی بیٹی جالی دار دروازہ کھول کر مجھے بیٹھنے کو کہتی۔ پھر چند ہی لمحوں بعد جام شیریں شربت سے بھرا ہوا گلاس میرے سامنے ہوتا۔ یہ روایت اب بہت کم لوگوں میں موجود ہے۔وگرنہ میزبان گھر پر نہ ہو تو لوگ باہر سے ہی مہمان کو فارغ کر دیتے ہیں۔ شیخ صاحب اکثر میرے ساتھ اسی برآمدے میں بیٹھا کرتے تھے‘ جس کے درمیان میں گول میز رکھا ہوتا۔ ایک طرف پیڈسٹل فین گرمی کی شدت کو اپنی ہوا سے کم کرتا۔ اس میز کے اردگرد رکھی ہوئی کرسیوں پر ہی میں اور شیخ صاحب بیٹھتے۔ کبھی کبھار شیخ صاحب مجھے ایک بڑے سے ہال نما کمرے میں بھی بلا لیتے جہاں وہ اکثر زمین پر بچھے ہوئے گدے پر آرام کر رہے ہوتے۔ اس ڈرائنگ میں مختلف سربراہان اور اہم قومی شخصیات کے ساتھ شیخ صاحب کی تصویریں آویزاں تھیں۔ یہیں پر شیخ صاحب کے والدین اور ان کی اہلیہ کی تصویر بھی لگی ہوئی تھی۔اونچی چھت والے اس کمرے میں ہی ٹی وی رکھا ہوتا پھر کچھ لمحے بعد پلیٹ میں مٹھائی اور بسکٹ چائے کے ساتھ میرے سامنے ہوتی۔ شیخ صاحب مجھے مجبور کرتے کہ میں ساری مٹھائی اور بسکٹ کھاؤں۔ ماں باپ کے علاوہ کون اتنی محبت کرتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں بھی شیخ صاحب کو اپنا بزرگ اور رہنما تصور کرتا تھا اور اپنے دل کی ہر بات ان سے بلامبالغہ کہہ دیتا۔ بنک میں درپیش مشکلات کا جب میں ان سے ذکر کرتا تو وہ مجھے صبر کی تلقین کرتے کہ کبھی نہ کبھی تو ارباب اختیار کو خیال آ ہی جائے گا۔ جب وہ پنجاب یونیورسٹی میں سینئر پبلک ریلیشن آفیسر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے تو انہوں نے مجھے بھی اپنے پاس آنے کے لیے کہا پھر خود ہی روک دیا کہ بنک کی ملازمت‘ یونیورسٹی کی ملازمت سے حد درجہ بہتر ہے۔ آج نہیں تو کل ملازمت کی شرائط میں بہتری آسکتی ہے۔ یہ بات مجھے کہنے میں عار محسوس نہیں ہوتی کہ یونیورسٹی میں ملازمت کے دوران بھی شیخ صاحب نے میرا صحافتی قد بڑھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ان کی خواہش تھی کہ میں وائس چانسلر لیفٹیننٹ جنرل محمد ارشد اور کنٹرولر امتحانات کرنل احسان کو اپنی کتاب پیش کروں اس طرح میری کتابیں یونیورسٹی کی لائبریری کے لیے خرید ی جاسکتی تھیں۔ ان کی تمام تر کوشش کے باوجود یہ اس لیے ممکن نہ ہوسکا کہ جب میں یونیورسٹی جاتا تو مذکورہ بالا دونوں شخصیات مصروف ہوتیں یا یونیورسٹی سے باہر گئی ہوتیں۔ یونیورسٹی کے ماحول سے شیخ صاحب بہت خوش تھے۔ بڑے بڑے باغیچوں میں کھلے ہوئے گلاب اور دوسرے پھول شیخ صاحب کے لیے طمانیت کا سامان پیدا کرتے۔ شیخ صاحب اکثر اپنی گفتگو میں ان پھولوں کا ذکر کرتے۔ پھر یونیورسٹی کے اہل علم لوگوں سے والہانہ محبت بھی ان کی ذات کا اہم حصہ تھی۔ انہوں نے ملازمت کے دوران یونیورسٹی کی تعلیمی اور صحافتی سرگرمیوں کو اس قدر بام عروج پر پہنچا دیا کہ ہر دوسرے روز کسی نہ کسی اخبار میں وائس چانسلر کا انٹرویو چھپا ہوتا۔ گویا انہوں نے اپنے بہترین تجربے کو یونیورسٹی کی کارکردگی کی ترویج کے لیے استعمال کیا۔ چونکہ شعبہ صحافت میں شیخ صاحب کو بہت اعلی مقام حاصل تھا۔ اخبارات میں کام کرنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو انہیں نہ جانتا ہو‘ شعبہ صحافت میں ان کا نام ہی گرین کارڈ تھا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے شعبہ صحافت میں جب بھی کوئی مشکل پیش آتی۔ میں مراتب علی شیخ صاحب کا حوالہ استعمال کرتا تو جھٹ سے بند دروازہ کھل جاتا اور شعبہ صحافت کے بڑے بڑے نامور لوگ شیخ صاحب کا بے حد احترام کرتے تھے۔ چندایک ناموں کا ذکر یہاں کر دیتا ہوں جن سے اکثر میرا واسطہ پڑتا تھا۔ ان سے مجیب الرحمان شامی ‘ انور قدوائی‘ شیخ نثار‘ رضی الدین شیخ‘ اسد اﷲ غالب‘ توصیف احمد خان‘ سعادت خیالی‘ حسنین جاوید‘ احمد عزیز ضیا‘ سلیمان آفاقی ‘ محمد شریف کیانی‘ نذیر حسن‘ ممتاز مفتی‘ عالی رضوی‘ محمد طفیل‘ اختر حیات شامل ہیں۔ مجھے یہ فخر بھی حاصل ہے کہ جب بھی میری کتاب کی رونمائی ہوتی تو شیخ صاحب اپنی تمام تر مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر ضرور شریک ہوتے بلکہ اظہار خیال بھی کرتے۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ زندگی کے کسی بھی اہم موقع پر شیخ صاحب نے مجھے تنہا نہیں چھوڑا بلکہ ہر لمحے ان کی رہنمائی مجھے حاصل رہتی۔ میری کتاب کو وہ کئی مرتبہ پڑھتے بلکہ ان پر تبصرہ بھی کرکے میرا حوصلہ بھی بڑھاتے۔

پھر شیخ صاحب کو اس وقت یونیورسٹی کی ملازمت کو بھی خیرباد کہنا پڑا جب ان کو جسمانی کمزوری نے نڈھال کر دیا۔ٹانگوں کی کمزوری کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے میں دقت محسوس کرنے لگے۔ جی او آر تھری کا گھر جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال گزارے تھے۔ چھوڑ کر 232 ریواز گارڈن لاہور میں منتقل ہونا پڑا۔ پے در پے صدموں نے انہیں نڈھال کر دیا تھا۔ پہلے بیگم کی رحلت نے ان کے دل پر گہرے زخم لگائے۔ پھر جوان بیٹے(میثم علی شیخ) کی موت نے بہت عرصے تک ان سے خوشیاں چھین رکھیں۔ پھر شاہ عالم مارکیٹ میں نواز شریف دور میں جب پلازا گرایا گیا تو اس میں شیخ صاحب کے بیٹے کی دوکان بھی منہدم ہوگئی ‘ لاکھوں کا نقصان بھی شیخ صاحب کے لیے کم صدمہ نہیں تھا۔ وہ اسے اﷲ کی رضا تصور کرکے خاموش ہوگئے۔ ان کو اکثر بڑے بیٹے( ڈاکٹر لیاقت علی شیخ) کی بیماری نے بھی پریشان کیے رکھاجو میوہسپتال کے آئی وارڈ میں معالج کی حیثیت سے ملازم تھے ۔

عمر کے آخری دنوں میں جب وہ اپنے کمرے تک محدود ہوکر رہ گئے تھے تو وہ اکثر اپنے بچپن ‘ جوانی اور ملازمت کی باتیں کیا کرتے۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ ان کے پاس آنے والا شخص گھنٹوں ان کے پاس بیٹھا رہے اور وہ اپنے شان دار ماضی کو اس کے سامنے موتیوں کی طرح بکھیرتے رہیں۔ایک دن مجھے ان کی فون کال موصول ہوئی۔دوران گفتگو انہوں نے مس نگہت طاہرہ کے بارے میں معلوم کیا اور فرمایا کہ اسے کہو کہ کبھی وقت نکال کر وہ انکے پاس آئے تاکہ وہ جی بھر کے ان سے نارووال کی باتیں کر سکیں۔ دراصل نارووال سے شیخ صاحب کو والہانہ پیار تھا۔ ان کی گفتگو میں اکثر نارووال کا ذکر ضرور شامل تھا۔ پھر مرنے سے ایک ماہ پہلے میں ان کے حکم پر گھر گیا تو وہ ڈرائنگ روم میں ہی ایک چار پائی پر لیٹے انتہائی نحیف اور کمزور دکھائی دے رہے تھے۔ سفید شلوار اور ویل کی قمیض زیب تن تھی۔ میری آمد کا سن کر وہ خوشی سے اٹھ بیٹھے۔ میں نے ازراہ محبت انہیں جھک کر سلام کیا تو انہوں نے کہا کرسی میرے قریب کرلو۔ پھر انہوں نے مجھے خاکی لفافہ سلیب سے اٹھانے کا حکم دیا۔ جب لفافہ کھولا تو اس میں سے ڈیڑھ درجن مضامین نکلے جو شیخ صاحب نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار پر لکھے تھے۔ ان کی خواہش تھی اسے کتابی صورت دے دی جائے لیکن کوشش کے باوجود یہ کام ابھی تک ادھورا تھا۔ انہوں نے مجھے حکم دیاکہ میں اس کتاب کے طباعتی مراحل کی نگرانی کروں اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ہم دونوں مضامین کو ترتیب دیتے رہے۔ وہ ہر مضمون پکڑتے اور زبانی واقعات بتانے لگتے۔ ان کی باتوں سے محسوس ہو رہا تھا کہ بچپن‘ لڑکپن اور جوانی کی باتیں یاد کرکے انہیں بے حد خوشی ہو رہی ہے حالانکہ میں نے وہ تمام واقعات کئی مرتبہ ان کی زبانی سنے تھے لیکن شیخ صاحب کی دل جوئی کی خاطرمیں اپنی تمام تر دلچسپی ان کی طرف مرکوز رکھے ہوئے تھا۔ ان کی صحت کو دیکھ کر میں بخوبی اندازہ لگا سکتا تھا کہ اب شاید ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔ ابھی میں ان کی کتاب کے مضامین کو سمیٹ ہی رہا تھا کہ حسب روایت ٹینڈے‘ اچار اور چند ہلکے پھلکے میرے سامنے دسترخوان پر آراستہ ہوگئے۔ حالانکہ میں دفتر سے کھانا کھا کر آیا تھا۔ پھر بھی شیخ صاحب نے پہلے شربت کا گلاس پھر چائے اور بسکٹ سے تواضع کر دی تھی۔ اس لیے کھانے کی بالکل گنجائش نہ تھی لیکن میں شیخ صاحب کے مسلسل اصرار کے سامنے انکار نہ کر سکا اور چند لقمے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھا لیے۔ اس وقت ڈرائنگ روم کی گھڑی پر چار بج چکے تھے۔ ان کے بیٹے مطاہر میرے پاس کھڑے تھے ‘ ان کی موجودگی میں ‘ میں نے ان سے جانے کی اجازت لی کہ بہت جلد پھر ملاقات ہوگی‘لیکن زندگی نے دوبارہ ملاقات کی مہلت ہی نہ دی۔ پھر اس وقت ملاقات ہوئی جب مومن پورہ قبرستان میں وہ ایک چار پائی پر درواز لیٹ ہوئے آئے۔ وہاں بہت سے لوگ ان سے والہانہ محبت کے اظہار کے لیے موجود تھے۔ شیخ صاحب کی جدائی میں آنسو بہانے والوں میں‘ میں بھی شامل تھا۔ نماز جنازہ کا وقت ساڑھے پانچ بجے مقرر تھا‘ لیکن موچی گیٹ خواجگان ناروالی امام بارگاہ سے مومن پورہ قبرستان کا سفر کچھ زیادہ ہی وقت لے گیا۔ جونہی شیخ صاحب کی میت مومن پورہ قبرستان پہنچی تو میں نے بھی آگے بڑھ کر اپنے اس عظیم محسن اور سرپرست کو آخری کندھا دیا۔ پھر جنازگاہ میں چارپائی رکھ دی گئی اور لوگ دیوانہ وار ان کی زیارت کے لیے اردگرد جمع ہوگئے۔ جب میری نظر ان کے چہرے پر پڑی تو یوں محسوس ہوا جیسے وہ لمبا سفر طے کر کے ابھی ہی سوئے ہوں۔ اور کسی بھی وقت اٹھ کر مجھے کہیں گے یارا ..... توں آ گیا ایں۔ میں تیرا ای انتظار کر دا پیا سی۔ آج وہ توقع کے برعکس گہری نیند سو رہے تھے۔ کیونکہ وہ ایک ایسے جہان جا رہے تھے جہاں قیامت سے پہلے انہیں جگانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ پھر جب شام کے دھندلکے ماحول کو اپنی آغوش میں لے رہے تھے ۔ مراتب علی شیخ‘ صحافت کا بے تاج بادشاہ شعبہ پبلک ریلیشن کا عظیم استاد زمین کی گہرائی میں اتر چکا تھا۔ ان سے محبت کرنے والے اپنے آنسوؤں سے انہیں خراج پیش کر رہے تھے اور میں آنسو بہتا ہوا قبرستان سے نکل کر گھر کی جانب موٹرسائیکل پر روانہ ہوگیا لیکن میری آنکھوں میں آنسووں کا دریا بہہ رہا تھا جو خشک ہونے کانام نہیں لے رہاتھا ۔

بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

آج جب مراتب علی شیخ کے لاڈلے اور سب سے چھوٹے بیٹے فرحان علی شیخ ( شیبا) ماشاء اﷲ سترہویں گریڈ میں ڈائریکوریٹ جنرل پبلک ریلیشنز میں پبلک ریلیشن آفیسر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں اور مختلف وزراء کے ساتھ کام کرنے کے بعد اب وہ وزیر ریونیو اور وزیر ٹرانسپورٹ کے ساتھ بطور پبلک ریلیشن آفیسر تعینات ہیں ‘ ان ذہانت اور سمجھ بوجھ کو دیکھتے ہوئے یہ پیشین گوئی کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہت جلدگورنر اور وزیراعلی پنجاب کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز بن جائیں ۔لیکن فرحان علی شیخ کی ان کامیابیوں کو دیکھنے کے لیے ان کے شفیق والد اس دنیا میں موجود نہیں ہیں جن کی اولین خواہش تھی کہ شیبا ان کی زندگی میں کامیاب انسان بنے اور پبلک ریلیشنز کے شعبے میں ان کی طرح کارہائے نمایاں انجام دے ۔مراتب علی شیخ صاحب کی یہ خواہش اﷲ نے پوری تو کردی ہے لیکن مراتب علی شیخ صاحب کے دنیا سے جانے کے بعد ۔مجھے فخر ہے کہ مراتب علی شیخ صاحب جتنا پیار فرحان علی شیخ کو بیٹے کی حیثیت سے کرتے تھے‘ اتنی ہی محبت ان کو مجھ سے بھی تھی ۔سچی بات تو یہ ہے کہ وہ جسمانی طور پر نظروں سے اوجھل تو ہوئے ہیں لیکن آج بھی وہ خواب میں آکر میری وقتا فوقتا رہنمائی فرماتے ہیں وہ آج بھی میرے باس ہیں اور میں آج بھی ان کاشاگرد اور بیٹا بھی ہوں ۔

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784587 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.