مسئلہ کشمیر کے حوالے سے چند ایسے تاریخی حوالہ جات جات
پیش خدمت ہیں جس سے اس دیرینہ معاملے پر ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور کشمیریوں
کو فوج کی بندوق کی نوک پر فتح کرنے کی کوشش واضح ہوتی ہے ۔اس حقیقت کا
اعادہ بھی ہوتا ہے کہ ہندستانی کشمیریوں کے خلاف تمام تر ظلم و جبر،قتل و
ٖغارت گری کی مسلسل کاروائیوں کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو تسخیر
نہیں کر سکتا۔
پنڈت، پریم ناتھ بزاز نے 1954میں شائع اپنی کتابThe History of Struggle
for Freedom in Kashmir: Cultural and Political, from the Earliest Times
to the Present Day میں لکھتے ہیں کہ ’’ اگر حکومت بھارت نے زبردستی
کشمیریوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی، تو ریاست میں کبھی امن و امان
نہیں رہے گا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ بھارتی حکمران فوجی طاقت کے ذریعے
کشمیریوں کا سر جھکانا چاہتے ہیں۔ انہی بھارتی حکمرانوں نے ماضی میں
برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ مگر اب وہ کشمیریوں کو
محکوم بنالینا چاہتے ہیں‘‘۔
مشہور بھارتی قانون داں، ہرمز جی مانک جی نے اپنی تحقیقی کتاب Partition of
India, Legend and Realty میں ماؤنٹ بیٹن کے مکارانہ کھیل کا بڑی خوبی سے
پول کھولا ہے۔26 اکتوبر 1947کی صبح مگر بھارتی کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کے
اجلاس میں پیش ہونے والے تمام شواہد یہ سچائی عیاں کررہے تھے کہ ریاست جموں
و کشمیر کے بیشتر مسلمان بھارت سے الحاق نہیں چاہتے۔ اسی لیے جناح اور
پاکستان سے دشمنی رکھنے کے باوجود ماو ٹ بیٹن کے اصرار پہ ریاست جموں و
کشمیر کا بھارت سے الحاق اس شرط پر کیا گیا کہ جب حالات معمول پر آئیں گے
تو ریاست میں عوامی ریفرنڈم کرایا جائے گا۔ اس ریفرنڈم میں کشمیری عوام سے
پوچھا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ یا
ریاست کو آزاد و خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں۔
مشہور بھارتی صحافی پریم شنکر جہا نے اپنی کتاب Kashmir 1947: Rival
Versions of History میں انکشاف کیا ہے کہ مہاراجا ہری سنگھ نے اپریل
1947ہی میں فیصلہ کرلیا تھا کہ اگر وہ ریاست کو آزاد و خودمختار نہیں رکھ
سکا تو اسے بھارت میں ضم کردے گا۔جب ہری سنگھ نے ہندوستان اور پاکستان میں
شامل نہ ہونے کا فیصلہ کرنے میں تاخیرکرنا شروع کی تو تو اگست 1947میں
پونچھ میں لوگوں نے ڈوگرا حکومت کے خلاف بغاوت کردی۔ وزیراعظم پاکستان
لیاقت علی خان اور پاکستانی جرنیلوں کی خواہش تھی کہ اس تحریک آزادی میں
کشمیریوں کا ساتھ دیا جائے مگر پاکستانی فوج کی کمان ایک انگریز جنرل فرینک
میسروی کے ہاتھوں میں تھی۔ اس نے ریاست کشمیر میں فوج بھجوانے سے انکار
کردیا۔تبھی فیصلہ ہوا کہ کشمیر میں قبائلی لشکر بھجوا دیا جائے۔ قبائلیوں
نے 20 اکتوبر 1947کو کشمیر پر حملہ کردیا۔ تاہم وہ سری نگر پہنچنے میں
ناکام رہے۔ اس کی بنیادی وجہ لشکر کی سست رفتار پیش قدمی تھی۔
قبائلی لشکر کی آمد کا سن کر مہاراجا ہری سنگھ جموں فرار ہوگیا اور بھارت
سے فوجی مدد کا طلبگار ہوا۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو کا تعلق ریاست جموں
و کشمیر سے تھا۔ وہ شروع سے ریاست کو بھارت کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ مگر
پنڈت نہرو، دیگر بھارتی لیڈر اور برطانوی رہنما خوب جانتے تھے کہ ریاست کے
مسلم اکثریتی علاقوں میں آباد بیشتر مسلمان ریاست کا الحاق پاکستان سے
چاہتے ہیں۔ ریاست میں کرنل ڈبلیو ایف ویب (WF WEBB) برٹش ریزیڈینٹ تھا۔ وہ
متواتر رپورٹیں بھیج رہا تھا کہ ریاست کی مسلم آبادی پاکستان سے الحاق
چاہتی ہے۔ اس کے باوجود جب مہاراجا ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کرنا چاہا،
تو پنڈت نہرو نے اس کی درخواست قبول کرلی۔ ہری سنگھ نے 24 اکتوبر 1947کو
الحاق کی درخواست دی تھی۔
26 اکتوبر 1947کو صبح گیارہ بجے بھارتی کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی کا اجلاس
ہوا۔ اس میں مہاراجا ہری سنگھ کی درخواست الحاق زیر غور آئی۔ سب سے بڑا
مسئلہ یہی تھا کہ ریاست کے مسلمان بھارت سے الحاق کے متمنی نہیں تھے۔میٹنگ
میں شامل کشمیری رہنما،گوپال سوامی آئنگر ریاست کا دیوان رہ چکاتھا۔ اس نے
کابینہ کو بتایا کہ اگر مہاراجا کی درخواست الحاق منظور کرلی گئی تو ریاست
میں مزید خون خرابا ہوگا کیونکہ مسلمان بھارت میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔
مگر پنڈت نہرو نے بہت پہلے سے ریاست جموں و کشمیر کو ہر قیمت پر بھارت میں
شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔17 جون 1947کو پنڈت نہرو نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن
کے نام ایک طویل نوٹ میں لکھا ریاست کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتی،
کیونکہ (شیخ عبداﷲ کی جماعت) مسلم کانفرنس اور مہاراجا، دونوں ایسا نہیں
چاہتے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے۔ میرا خیال ہے
کہ پاکستان ایسا ہونے پر کسی قسم کا احتجاج نہیں کرے گا۔(Selected works of
Jawaharlal Nehru, Volume 3,Page 229)گویا 5 جون 1947کو تقسیم ہند کا اعلان
ہوتے ہی پنڈت نہرو نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر ہر حال میں
بھارت کا حصہ بن کر رہے گی۔
ادیب و صحافی،پریم شنکر جہا اپنی کتاب Kashmir 1947: Rival Versions of
History میں لکھتے ہیں، ’’ 26 اکتوبر 1947کو ڈیفنس کمیٹی نے وزارت داخلہ کو
ہدایت دی کہ مہاراجا ہری سنگھ کے نام ایک خط تیار کیا جائے تاکہ انہیں
اطلاع دی جاسکے کہ دستاویز الحاق عارضی طور پر منظور کرلی گئی ہے‘‘۔ جنوری
1948 میں برطانوی وزیر، آرتھر ہینڈرسن بھارت کے دورے پر آئے۔ لارڈ ماو ٹ
بیٹن نے انہیں بتایا کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کا الحاق عارضی ہے۔ انگریز
مورخ، ڈاکٹر لیونل کارٹر نے اس ملاقات کا احوال اپنی کتاب Partition
Observed: British Official Reports From South Asia, (14 August-15
October 1947),16 October 31 December 1947) (2 Vols. میں لکھا ہے۔
اس کے بعد پنڈت نہرو، شیخ عبداﷲ اور بھارتی وزیر داخلہ سردار پٹیل نے خفیہ
طور پر یہ معاہدہ کرلیا کہ ریاست میں عوامی ریفرنڈم نہ کرایا جائے کیونکہ
انہیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ دے گی۔
صرف ایک ماہ بعد 21 نومبر 1947کو پنڈت نہرو نے شیخ عبداﷲ کے نام ایک خط میں
اپنا خفیہ منصوبہ طشت ازبام کردیا۔ وہ لکھتے ہیں آپ جانتے ہیں کہ عوامی
ریفرنڈم نہ کرانے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں۔ ہم نے دنیا کے سامنے ریفرنڈم
کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اگر ہم اس وعدے سے پیچھے ہٹ گئے تو اقوام متحدہ میں
پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی۔ لیکن ریفرنڈم ہوا تو معاملات ہمارے
ہاتھوں سے نکل سکتے ہیں۔ (Selected works ofJawaharlal Nehru)
اشوک مترا بھارت کے ممتازدانشور گزرے ہیں۔ بھارتی حکومت کے چیف اکنامک
ایڈوائزر رہے۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر ایک مضمون لکھا جو 27 اگست 2010کو
دی ٹیلی گراف اخبار میں شائع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں، ’’ ریاست جموں و کشمیر
آئینی طور پر بھارت کا حصہ ہے۔ مگر یہ محض دھوکے کی ٹٹی ہے اس کے پیچھے یہ
سچائی پوشیدہ ہے کہ بھارت نے وادی کشمیر پر قبضہ کررکھا ہے۔ ذرا وہاں سے
سکیورٹی فورسز کے لاکھوں جوان تو ہٹائیے، کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیا
لاوا پھٹ پڑے گا۔ پتھر پھینکنے والے کچھ نوجوان پاکستان کے حامی ہیں۔ بعض
آزادی چاہتے ہیں لیکن وہ سب بھارت کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے
کہ آج بھی کشمیری بھارت میں اپنے آپ کو اجنبی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح بھارتی
قوم بھی کشمیریوں کو اپنا نہیں سکی‘‘۔
بر سر تذکرہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کشمیری برہمنوں کو پنڈت کا خطاب مغل
بادشاہ محمد شاہ ( 1719 تا 1747ء) نے دیا۔ایسا کشمیری برہمنوں کی فرمائش پر
کیا گیا تاکہ وہ دیگر ہندوستانی علاقوں کے برہمنوں سے اپنے آپ کو ممتاز
کرسکیں۔ یوں ریاست کے برہمن کشمیری پنڈت کہلانے لگے۔
|