اقتدار کی غیر آئینی یورش!

بیداری کے بغیر آئینی حقوق کی حفاظت نہیں کی جا سکتی

 ملک لہو لہان ہے۔ خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ اور اولیاے اسلام کی یہ سرزمین؛ جو کسی وقت لالہ زار تھی، ہری بھری تھی؛ مشرکوں کے نرغے میں ہے۔ ایک صدی سے ان کی کوششیں چمنِ اسلام کی تاراجی کی رہی ہے۔ کئی حملے ہوئے۔ کئی رخ سے مسلمانوں کو ستایا گیا۔ لہو خیزی سے مسلمان گزرے۔ آزادی کی اصل جدوجہد ہمارے اسلاف نے شروع کی۔ ۱۸۵۷ء میں سب سے زیادہ قربانیاں مسلمانوں نے دیں۔ علامہ فضل حق چشتی خیرآبادی کی قیادت میں علما سر سے کفن باندھ کر آئے۔ شہید کیے گئے۔ انگریز نے زیادتی کی، ان کا ساتھ اس زمانے کے میر جعفر و میر صادق نے دیا۔ مشرکین نے انگریز کی ہم نوائی کی۔علما نے جانیں قربان کیں۔ جزائر انڈمان کی قیدِ تنہائی میں جامِ شہادت نوش کیا۔ قربانیوں کے بعد ملک کو آزادی ملی۔ جنھوں نے آزاد کرایا، اُنھیں ہی ستانے کی مہم جاری ہے؎

پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں

ملک آزاد ہوا۔ دلوں کا زہر پھوٹ پڑا۔ تقسیم کے وقت ہزاروں/لاکھوں مسلمان زد پر آئے۔ شہید کیے گئے۔ مشرکین نے الگ غبار نکالا۔ انھوں نے مسلمانوں کو ہر وقت ستایا۔ خونین فسادات برپا کیے۔ مساجد شہید کیں۔ خونِ مسلم سے ہولی کھیلی۔ بھاگل پور، گجرات اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کی املاک جلائیں، عزتوں سے کھلواڑ کیا، جانیں لیں، مال برباد کیا گیا۔ جس نے زیادہ بربادی مچائی۔ اسی کو سازش کے ذریعے تخت تک پہنچایا گیا۔ گزرے ۵؍ سالہ دور میں حکمرانِ ہند نے ساری دُنیا میں اپنی حمایت میں ماحول سازگار کیا۔ قاتل تھا لیکن عربوں نے بھی گلے لگایا۔ اعزازات دیے۔ کسی نے نہ پوچھا کہ گجرات کے بھارتی مسلمانوں کے قتل کا کیا حساب دو گے؟ کسی نے جرائم پر ناراضی نہیں ظاہر کی۔ پھر نوٹ بندی سے ملک کی معاشی کمر توڑ دی۔ عوام پریشان، تاجر و آجر پریشان۔ پھر بھی ہندو توا غالب۔ دوسرے دور میں بھی مذہبی منافرت کی جیت ہوئی۔ نفرتوں کی جیت ہوئی۔جس کا فائدہ اُٹھایا گیا۔ دوسرے دور میں نفرتوں کی ایسی یلغار کی گئی کہ سب سے پہلے بابری مسجد کو معاذاللہ مندر میں بدل دیا گیا۔ نام نہاد قائدین نے ظالم اقتدار کا ساتھ دیا۔ کشمیر کے بھارتی مسلمانوں کی آزادی سلب کی گئی۔ منافقین نے ظالم کا ہی ساتھ دیا۔ ان کی حمایت میں مولوی آگے آئے اور کشمیری مظالم کو انعام سے تعبیر کیا۔ کشمیریوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا گیا۔ حالاں کہ دفعہ ۳۷۰؍ یہ ہند کا ہی بنایا ہوا قانون تھا؛ اسے ہٹا کر ایسے فتح منائی گئی جیسے یہ قانون مخالف کا وضع کیا ہوا ہو!! اہلِ کشمیر کے ساتھ زیادتی صرف اس لیے کی گئی کہ وہ مسلمان ہیں؛ ایمان والے ہیں؛ اگر وہ غیر مسلم ہوتے تو ان کی آزادی ہرگز نہیں چھینی جاتی۔

سی اے اے کے ذریعے مسلمانوں کے قتل کا منصوبہ صاف ظاہر ہوتا ہے۔ این آر سی، این پی آر کا مقصد صرف مسلمانوں کا گلہ گھونٹنا معلوم ہوتا ہے!! جب پاکستانیوں، بنگلہ دیشیوں، افغانستانیوں(غیر مسلموں) کو ہند لا بسانے(شہریت دینے) کی بات کی جا رہی ہے؛ تو صاف مطلب ہوا کہ ان ملکوں کے نام پر جو سیاست کی جاتی ہے وہ ان ملکوں سے نہیں بلکہ اسلام سے نفرت کی بنیاد پر ہے؛ اسی لیے ہند کے مسلمان کھٹک رہے ہیں، کسی کو تم شہریت دو اعتراض نہیں!! لیکن ملک کے بنیادی آئین میں جب مذہبی منافرت کی جگہ نہیں تو پھر مذہب کے نام پر تفریق کا واضح مطلب ہے کہ مسلمانوں کا خاتمہ تمہارا مقصد ہے!! جب سب کو شہریت دی جانی ہے؛ صرف مسلمان کو نہیں! تو بات ظاہر ہے کہ این آر سی، این پی آر، سی اے اے کی مکمل جدوجہد مسلم دُشمنی کی تسکین کے لیے ہے۔ یہ پورا ڈرامہ مسلمانوں کے وجود کو مٹانے کے لیے ہے، اس میں سب ایک ہیں۔ کوئی مسلمانوں کا سچا ہمدرد نہیں۔ سب ایک ملت ہیں۔ ایک جماعت ہیں۔ ایک فکر و مزاج کے ہیں۔ سیاسی فائدے کے لیے وہ کبھی کبھی مسلمانوں کی تائید کر دیتے ہیں۔

مسلسل حملے ہیں۔ یورشیں ہیں۔ آنکھیں ہم نے بند کی ہیں۔ ملک کے آئین نے مذہبی آزادی دی۔ مساوات دی۔ لیکن اب اس آزادی کے خاتمے کی تیاری کی جا چکی ہے۔ ایک ایک کر کے جمہوری دستوری حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ اس لیے آنکھیں کھولیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہتھیار اُٹھائیں؛ لیکن ایک پُر امن ہتھیار ہمارے ہاتھ ہے؛ جمہوری و دستوری جدوجہد۔ اس میں کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ اپنے جمہوری حقوق کے لیے سینہ سپر ہو جائیں۔ آزادی چھننے نہ دیں۔ اسے ہر حال میں بچائیں۔ منافقین کو پہچانیں۔ خاطر میں نہ لائیں۔ یاد رکھیں۔ اگر ہم نے کالے قانون کے آگے گردنیں جھکا دیں تو کل صرف اندھیرا ہوگا۔ اس لیے جاگیں۔ نگر میں آگ لگی ہے۔ گجرات ماڈل پورے ملک میں جارحانہ طریقے سے لاگو کرنے کی کوشش ہے۔ ہمیں ملک کے جمہوری حقوق کی حفاظت کے لیے، قیامِ امن کے لیے بیدار رہنا ہوگا۔ ورنہ کل تباہی کا رزلٹ لائے گا۔ وجودِ قومِ مسلم کے لیے تازہ دَم رہیں۔ جذبات کو غالب نہ آنے دیں۔ جذبات سلامت رکھیں۔ جمہوری اور پر امن جدوجہد کے ذریعے انصاف کے حصول کی تگ و دَو کرتے رہیں۔

یاد رکھیں! ہمیں کسی کو شہریت ملنے پر اعتراض نہیں۔ پہلے بھی شہریت کے لیے قوانین پر عمل کیا جاتا تھا؛ اصل اعتراض مذہب کے نام پر ہے۔ اس لیے جنھیں شہریت ملنی ہے؛ وہ نکتہ ہمارے لیے تعجب خیز نہیں، جنھیں چھوڑا گیا ہے یعنی ’’مسلمان‘‘ اس کا واضح مفہوم ہے کہ مسلمان کی شہریت چھیننے کی پوری کوشش ہے۔ اسی لیے سی اے اے واپس نہیں لیا جارہا ہے۔ اس کے بارے میں اقتدار اڑا ہوا ہے، کیوں کہ اسے بہر حال مسلمانوں کے وجود سے بیر ہے۔ ہدف ہے مسلمان! یہ مسلمان کی جان کے دُشمن ہیں۔ اگر دُشمن نہ ہوتے تو ملک کو بچالیتے۔ ملک میں دہشت گردی پھیلائی جا رہی ہے۔ یہ تشدد کے قائل صاحبانِ اقتدار ہیں۔ دہلی میں تشدد ان کی اپنی مرضی سے ہی ہوا ہوگا! ماضی قریب میں پر اَمن دَھرنوں/احتجاجوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ بنانے والے ان کے محفوظ گروہ آر ایس ایس کی سوچ کے حامل تھے۔ پولیس نے دامن جھاڑ لیا۔ کیوں کہ پولیس کو یہ کہنا تھا کہ حملہ ہم نے نہیں کیا۔ حالاں کہ حفاظتی دستوں کی موجودگی میں حملے ہوئے۔ طلبہ کو مارا گیا، علم کے دانش کدوں میں خون کی ہولی کھیلی گئی، خواتین کو ستایا گیا۔ یہ پیغام دیا گیا کہ ہم تمہیں نہیں بخشیں گے۔ پورے ملک میں ان کے دہشت گردوں کے دَستے کام کر رہے ہیں۔کم زوروں کو مٹا رہے ہیں۔ ظلم کر رہے ہیں۔ لیکن انھیں لگتا ہے کہ جان بوجھ کر چھوٹ دی جا رہی ہے۔ نفرتوں کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ تا کہ ان کی دہشت نہتوں پر بیٹھ جائے۔

بھارت کی زمیں کو خاک و خوں میں نہلانے والے اس نشے میں ہیں کہ وجودِ مسلم اس ملک سے مٹا دیں گے۔ یاد رکھیں اگر ہم بیدار ہو گئے تو قربانیوں کے بعد جو صبح نمودار ہوگی وہ دہشت گردوں کے زوال کی صبح ہوگی، لیکن اس ملک کی آبرو، عزت، امن و امان کی واپسی کے لیے ہمیں بیدار رہنا ہوگا- انصاف و قانون کے تقاضوں کی پاسداری کرتے ہوئے گلشنِ ہند کی آبیاری کرنی ہوگی۔ تشدد کے چہروں سے اس دیش کو پاک کرنا ہوگا اور اس کے لیے واحد راستہ آئینی حقوق کی حفاظت کے لیے پر امن جدوجہد ہے؎

اگر جواں ہوں مِری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.