بمصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست

بارہ ربیع الاوّل(ربیع النور) کا مبارک دن دِن پورے عالم اسلام کے لیے انتہائی مقدس اور اہمیت کا حامل دن ہے۔ کیونکہ اس مبارک دن حضور نبیِ اکرم شفیعِ مکرم فخرِ عرب و عجم والیِ کون و مکاں سیاحِ لامکاں سیدِ انس وجاں جلوہ ِ صبحِ ازل نورِ ذاتِ لم یزل فخرِ عالم و بنی آدم صاحبِ الم نشرح معصومِ آمنہ حضر ت محمد مصطفی ﷺتشریف لائے۔ آپ ﷺ کاا س دنیا میں آنا ہی ہے جس کی وجہ سے اس دنیا سے کفروشرک کی کالی گھٹائیں دور ہوئیں۔ آپ ﷺ ہی کی اعلیٰ ترین ہستی ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرمایا:۔ ترجمہ: ”اور ہم نے بلند کردیا آپ کا ذکر آپ کیلیے“۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت نے اپنے حبیب ﷺ کا ذکر بلند کردیا اور ایسا بلند کیا کہ کائنات میں ایسا مقام کسی کو حاصل ہوا ہی نہیں اور نہ کبھی حاصل ہو گا ہے۔ اب جہاں جہاں میرے خدا کی خدائی ہے وہاں وہاں میرے مصطفی ﷺ کی مصطفائی ہے۔ میرا یہ دعویٰ ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں میرے نبیﷺ کا بغض ہے چاہے وہ دنیا کے کسی ملک سے تعلق رکھتے ہوں ، چاہے وہ کعبہ کے اندر ہی کیوں نہ بیٹھنے والے ہوں اگر وہ قیامت تک الٹے بھی لٹک جائیں تو میرے پیارے نبی ﷺ کا ذکر ایک ذرہ برابر بھی کم نہیں کرسکتے۔

ایسے موقعے پہ اعلیٰ حضرت عظیم المرتب پروانہ شمع رسالت مفتی احمد رضا خان بریلوی رحمة اللہ فرماتے ہیں۔
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ
سب سے بالا و والا ہمارا نبی ﷺ
خلق سے اولیا ، اولیا سے رسل
سب رسولوں سے اعلی ہمارا نبی ﷺ

اور جناب عبدالستار نیازی صاحب کی محبت کا انداز کچھ یوں ہے ۔ میرے نبی پیارے نبی ،ہے مرتبہ بالا تیرا جس جا کوئی پہنچا نہیں ، دیکھا وہاں تلوا تیرا

ترجمہ: ”بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اُس نبی(غیب بتانے والے) پر اس لیے اے ایمان والو تم بھی اُن پر درود اور خوب سلام بھیجو“۔ ٭ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا اُس نے جنت کا راستہ کھو دیا۔ ٭ حضرت عمر بن خطاب ؓ فرماتے ہیں کہ جب تک نبی اکرم ﷺپر درود نہ پڑھا جائے اُس وقت تک آدمی کی دعا زمین اور آسمان کے درمیان لٹکتی رہتی ہے۔ لہٰذا ہمیں امام الانبیاء علیہ السلام پر درودوسلام کی کثرت کرنی چاہیے۔

ُبے شک اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول بھیجے ہیں۔ ان میں کوئی کسی ایک قوم کی طرف آیا اور کوئی کسی خاص علاقے کے لوگوں کی طرف آیا اور کوئی کسی خاص زمانے کیلیے آیا لیکن ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نہ کسی خاص قوم کے لیے نہ کسی خاص علاقے کیلیے اور نہ ہی ایک مخصوص زمانے کیلیے آئے ہیں بلکہ وہ تو پوری کائنات میں موجود ہر ایک کے لیے سراپا رحمت بن کے آئے ہیں جس کا اظہار خالقِ کائنات بزرگ و برتر نے اپنے کلام پاک میں بڑے واضح انداز میں کردیا ہے۔

ترجمہ: ”اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا“۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر ایک کیلیے رحمت بنایا ہے اس میں کوئی فرق نہیں رکھا کہ آپ ﷺ صرف مسلمانوں کیلیے رحمت ہیں یا صرف انسانوں کیلیے یا صرف جنوں کیلیے ، نہیں نہیں بلکہ آپ ﷺ تو انسان، جن، ملائکہ بلکہ اِس کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں ہر ایک کیلیے رحمت ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کی بارگاہ کے آداب سکھاتے ہوئے تاکید کرتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے آگے مت بڑھو، آپ کی بارگاہ میں آواز بلند مت کرو اور ایک دوسرے سے جس طرح گفتگو کرتے ہو ایسے نہ کرو ورنہ اس فعل کے نتیجے تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور تمہیں شعور بھی نہیں ہوگا۔کچھ لوگوں نے آپ ﷺ حجرے کے باہر سے آوازیں دیں تو اللہ نے فرمایا اگر یہ لوگ کچھ دیر صبر کر لیتے اور آپ ﷺ کے باہر تشریف لانے کا انتظار کر لیتے تو یہ ان کیلیے بہتر ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ﷺ سے بے پناہ محبت کرتا ہے اسی لیے تو آپ ﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے ” اللہ اور اُس کے رسول کی اعطاعت کرو “ اور پھر فرمایا” جس نے رسول ﷺ کی اعطاعت کی اُس نے میری اعطاعت کی“ ۔ایک اور جگہ فرمایا” نبی(محمد ﷺ) ایمان والوں پر اُن کی اپنی جانوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور اُن کی بیویاں ایمان والوں کی مائیں ہیں“۔ بخاری شریف ، کتاب الایمان میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اسے اُس کے والد، اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے عزیز ہوجاﺅں۔تمام مومنین کیلیے اُن کے کامل ایمان کی نشانیوں میں سے ایک اہم ترین نشانی یہ بھی ہے کہ اُس کے دل میں حضور اکرم ﷺ کی محبت اُس کی ہر چیز سے بڑھ کر ہو یہاں تک کہ آپﷺ اُسے اس کے والد ، اولاد، تمام عزیز وں اور دھن دولت جو وہ جمع کرتا ہے اُن سب سے عزیز ہوں۔ اور کیوں نہ ہوں یہ آپ ﷺ کا حق ہے۔ہمارا تو ایمان ہے کہ نبی آخرزماں سرورِ کائنات ﷺ کی شان میں ذرہ برابر بھی گستاخی کرنے والا مردود اور خارج از دائرہ اسلام ہے۔ اِس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ کیونکہ اسلام میں گستاخ رسول ﷺ کی سزا صرف اور صرف موت ہے۔

ایک گستاخِ رسول ابو لہب بھی تھا جو آپ ﷺ کی شان میں بہت گستاخیاں کرتا اور آپ ﷺکو بہت تکلیفیں دیتا تھا تو دیکھا اللہ تعالیٰ نے اسکی قرآن مجید بڑی سخت مذمت فرمائی ” ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو، نہ تو اِس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا اور نہ جو اُس نے کمایا، وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا، اور اِس کی جورُو بھی جو ایندھن سرپہ اُٹھائے پھرتی ہے، اِس کے گلے میں مونج کی رسی ہوگی“ ۔

لمحہ فکریہ سوچنے کی بات تو یہ ہے آج کل کے دور میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ کہتے تھکتے نہیں کہ معاذاللہ نبی ﷺ تو ہمارے جیسے ہیں ۔ نبی ﷺ کی عزت تو بڑے بھائی جیسی ہے۔ نبی کو دیوار کے پیچھے کا پتہ نہیں نبی کو یہ نہیں نبی کو وہ نہیں، پتہ نہیں یہ لوگ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔کیا قیامت کے دِن یہی سوال ہونگے کہ بتاﺅ نبی کے پاس غائب کا علم تھا یا کہ نہیں، کیا نبی کو دیوار کے پیچھے کا پتہ تھا یا نہیں۔ بتائیں وہ کونسا ان کا بھائی ہے جس کے بارے میں اتنی فضیلتیں ہیں جتنی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو عطا فرمائیں۔ جن کی بناء پر یہ نبی ﷺ کو بڑے بھائی جیسا مقام دیتے ہیں۔ میرا ان لوگوں سے ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام ِ پاک میں کتنا علم رکھا ہے ؟(یہ قرآن اگر پہاڑ پہ اُتارا جاتا تو وہ بھی اِس کی تاب نہ لاتے ہوئے ریز ہ ریز ہ ہوجاتا) جتنا علم قرآن پاک میں موجود ہے کیا نبی ﷺ کے پاس اتنا علم بھی ہے یا نہیں اور گر اتنا علم ہونا بھی مان جاتے ہیں تو بات ختم۔

میرا اس بات کا بھی دعویٰ ہے کہ دنیا کے تمام لوگ مل کر بھی نبی کریم ﷺ کی تعریف کرنا شروع کردیں تو آپ ﷺ کی مکمل تعریف بیان نہیں ہو سکتی کیوں کہ اللہ پاک نے اپنے محبوب کا ذکر بلند کردیا ہے اب اس ذکر خیر کی بلندیاں صرف اور صرف اللہ عزوجل ہی کے علم میں ہیں۔ میں اِس مختصر تحریر میں آپ ﷺ کی تعریف کرتے ہوئے صرف یہی بات کہہ سکتا ہوں ” یا صاحب الجمال و یا سید البشر من وجہک االمنیر لقد نور القمر لا یمکن الثنا کما کن حقہ بعد از خدا بزرک توئی قصہ مختصر“ حافظ شیرازی رحمة اللہ علیہ

نوٹ: اللہ تعالیٰ حاکم مطلق العنان اور ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ جیسے چاہے اور جب چاہے کر سکتا ہے اُسے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر وہ چاہتا تو پوری انسانیت کو اپنے ایک ہی حکم سے اپنی راہ پر چلا دیتا مگر اُس پاک ذات نے اپنے برگزیدہ بندے چنے اُنہیں نبوت و رسالت سے نوازہ پھر اُن میں سب کا سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ کو چنا۔ اور اپنے انبیاء سے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کی تصدیق کرائی یہاں تک کہ بعض نبیوں نے دعا کی کہ اے اللہ عزوجل ہمیں آپ ﷺ کی اُمت میں کر، ” سبحان اللہ“ آج ہم کتنی قسمت والے ہیں کہ سب سے زیادہ عظمت والے نبی ﷺ کی سب اُمتوں سے افضل اُمت میں سے ہیں۔ ہمارا حق یہ نہیں بنتا کہ اُس نبی ﷺ کی ذات پاک میں نقص ڈھونڈیں۔ اللہ پاک نے آپ ﷺ کو بالکل بے عیب بنایا ہے تو پھر کیسے ہم عیب تلاش کرسکتے ہیں۔ میری سب مسلمانوں سے ایک ہی عرض ہے کہ اللہ عزوجل خالق ہے اور نبی پاک ﷺ مخلوق ۔ خالق اور مخلوق کا کبھی بھی کسی بھی حال میں کوئی مقابلہ نہیں برائے مہربانی ہر بات میں نبی ﷺ کا یا کسی دوسری بزرگ ہستی کا اللہ عزوجل سے مقابلہ نہ شروع کردیا کریں۔ اللہ عزوجل سے ڈرتے رہیں اور اُسی کی عبادت کریں جس کے سوا پوری کائنات میں کوئی بھی لائقِ عبادت نہیں اور یہی اہلِ سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے۔ اِس میں کوئی شک نہی کہ اللہ عزوجل ہی سب سے بہتر علم والا ہے۔
Akhtar Abbas
About the Author: Akhtar Abbas Read More Articles by Akhtar Abbas: 22 Articles with 58542 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.