خواتین کے حقوق کے حوالے سے حالیہ دنوں میں گرم جوش بحثیں
جاری ہیں جس کی وجہ سے اصل مقاصد پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ مقصد کتنا ہی
اہم کیوں نہ ہو، ہمارے الفاظ اور رویئے اس پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ بات
کہنے والا کن الفاظ اور کیسے لہجے کا چناو کرتا ہے، یہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔
ہر معاشرہ کی اپنی اقدار اور تہذیبی روایات ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں
بالکل من و عن دوسرے معاشرہ میں نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ عورت مارچ کے حوالے
سے سب سے قابل اعتراض نعرہ " میرا جسم میری مرضی" کے ساتھ بھی یہی صورت حال
ہے۔ جہاں تک شخصی آزادی، عزت نفس اور مرضی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنا ہے
تو یہ ہر ایک انسان کا حق ہے جس میں عورت بھی شامل ہے۔ "میرا جسم میری
مرضی" کا نعرہ بلند کرنے والوں کی معلومات کے لئے بتانا چاہوں گا کہ کسی
غیر عورت کے جسم کو ہاتھ لگانا تو دور کی بات ہے قرآن نے اسے بے باک نظروں
سے دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دی اور حکم دیا کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اس
سے بڑھ کر عورت کا تحفظ اور عزت و تکریم کیا ہوگی۔ دنیا کا کوئی قانون کیا
ایسا تحفظ نہیں دے سکتا؟ یہ بالکل درست ہے کہ کسی غیر کو کوئی حق نہیں کہ
آپ کے جسم کو چھوئے یا آپ پر اپنا حکم مسلط کرے لیکن ساتھ ہی یہ اصول بھی
پیش نظر رہے کہ ایک مسلمان کے اردگرد ایک دائرہ ہے جسے حدود اﷲ کہتے ہیں۔
ہم اس دائرہ کے اندر جو چاہے کرسکتے ہیں لیکن اس دائرہ سے باہر نہیں
جاسکتے۔ آپ دوسروں اپنی اپنے سے بالکل روک سکتے ہیں لیکن اپنی جان کو جیسے
چاہیے استعمال میں نہیں لاسکتے اور جو مرضی چاہیں، نہیں کرسکتے۔ یہ اصول
دنیا کے تمام ممالک میں کسی نہ کسی طرح سے اس پر حدود و قیود اور قوانین
موجود ہیں۔ ایک مسلمان عورت ہو یا مرد اس کی اپنی جان بھی اپنی نہیں۔ سورہ
توبہ کی آیت ۱۱۱ میں یوں ہے "بے شک اﷲ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا
مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کے لیے جنت ہے" گویا جب آپ نے دین اسلام
کو اپنی زندگی کا ضابطہ تسلیم کیا آپ نے خدا سے یہ معائدہ کرلیا کہ اب میری
جان اور مال بھی میرا نہیں۔ مسلم خواتین کو اپنے حقوق کی جدوجہد میں مختلف
نعرے لگانے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف ایک نعرہ ہی کافی ہے جو انہیں تمام
حقوق، آزادی اور عزت و تکریم دلانے کا یقینی ضامن ہے۔ اس نعرہ کے ہوتے ہوئے
مزید کئی نعروں یا تقریروں کی ضرورت ہی نہیں اور نعرہ یہ ہونا چاہیے کہ ’’
عورت کو وہ حق دو - جو قرآن نے اسے دیا ہے‘‘
قرآن نے عورت کو جو حقوق دئیے ہیں ان پر ایک مختصر سی نظر ڈالتے ہیں۔ میاں
بیوی کے حقوق وفرائض کی تعلیمات دیتے ہوئے قرآن حکیم نے اس رشتہ کو حاکم
اور محکوم کا رشتہ نہیں کہا بلکہ اسے سکون، رحمت اور محبت کا تعلق قرار دیا
ہے(30/21) . میاں بیوی کی مثال جسم اور لباس کی ہے جس میں کوئی تیسری چیز
حائل نہیں ہوسکتی (30/31)۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے
والی تنظیموں نے بے تکے اور معاشرتی اقدار کے منافی نعرے بلند کرکے اپنی
تحریک کو خود نقصان پہنچایا ہے۔ یورپ میں ایک ربع صدی رہتے ہوئے اور سویڈن
جیسے آزاد خیال معاشرہ میں بھی ایسے نعرے خود یہاں کے باشندوں کے لئے حیرت
کا باعث ہوں گے اور نہ ہی یورپی گھروں میں ان کا عکس دیکھا ہے۔ میاں بیوی
کا رشتہ ایسے نعروں کا متقاضی نہیں ہوسکتا۔اﷲ تعالی نے اپنی آخری وحی میں
مرد و زن کے حقوق متعین کردئیے ہیں جن کا عملی مظاہرہ نبی رحمت? نے دنیا کے
سامنے پیش کیا۔ قرآن نے تو عورت اور مرد کو انسان ہونے کی حیثیت برابر عزت
و تکریم دی ہے لیکن اگر مسلم معاشرہ اس میں عمل پیرا ہونے میں پورا نہیں
اتر سکا تو یہ الگ بات ہے۔ خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد کی ہر ذی شعور مذمت
کرے گا۔ قرآن میاں بیوی کے رشتہ کو بہت اہمیت دیتا ہے اور اس لئے نکاح
لازمی ہے جسے ایک معائدہ قرار دیاہے (4/3) اور مرد کی عورت کو بھی اپنے
جیون ساتھی کے انتخاب کا پورا حق دیتا ہے (4/19)۔شادی کے لئے بلوغت کو
لازمی قرار دیتے ہوئے کم سنی کی شادی کی ممانعت کی ( 4/6,6/153,17/34)۔
قرآن نکاح کے موقع پر لڑکی کو کچھ (مہر) دینے کا حکم دیتا ہے، جو عورت کی
عزت افزائی ہے۔ مردوں پر معاشی ذمہ داری ڈالتے ہوئے انہیں ذمہ داری سونپی
ہے۔ عورتوں کو مردوں کا ہمدوش قرار دیتے ہوئے ان تمام صلاحیتوں اور خوبیوں
کی تفصیل بیان کردی ہے کہ جو خوبیاں مردوں میں ہیں وہی عورتوں میں بھی
موجود ہیں(33/35)۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ جس قدر عورتوں کی ذمہ داریاں ہیں
اسی قدر ان کے حقوق ہیں( 2/288)۔ جب قرآن حکیم یہ کہتا کہ تمام بنی نوع آدم
قابل عزت ہیں (17/70) تو اس میں مر اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔ مردوں کو یہ
تاکید کہ عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آو اور اگر ان کی کوئی بات ناگوار بھی
گذرے تو تحمل سے کام لو (4/19) جس کی وضاحت آقا? نے یوں کی کہ اگر اپنی
عورت کی کوئی بات اچھی نہیں لگتی تو اسے نظر انداز کرکے اس کی اچھی بات کو
مد نظر رکھو۔ عورت کی اﷲ نے یوں عزت افرائی کہ قرآن حکیم کی ایک بڑی سورہ
کا نام النساء رکھا ہے۔ آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں بھی
یہی کہا کہ عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آو اور اس معاملہ میں اﷲ سے ڈرو۔
حضرت عائشہ? سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ وہ آدمی تم میں سے زیادہ اچھا اور
بھلا ہے جو اپنی بیوی کے حق میں اچھا ہے اور فرمایا کہ میں اپنی بیویوں کے
لئے بہت اچھا ہوں۔ آپ نے کبھی اپنی کسی بیوی کو نہ گالی دی اور نہ ہی اس پر
ہاتھ اٹھایا۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے ان کو اﷲ کی امانت کے طور پر حاصل کیا
ہے اور اﷲ کے کلمات کے ذریعے ان کو اپنے لیے جائز و حلال کیا ہے۔ بیوی اور
اولا د کو قرآن حکیم نے آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا (25/75)۔ عورت کو دنیا
میں سب سے پہلے یہ عظیم مقام اور مرتبہ دینے والے نبی رحمت کے ساتھ بد
قسمتی سے ایسی روایات جن میں عورتوں کو کم تر، منحوس،کم عقل اور اسی طرح کی
اور باتیں منسوب کردی گئیں جو پر وضعی اور من گھڑت ہیں۔
مغربی معاشرہ نے عورت کو آزادی تو دی لیکن اسے شرف انسانیت سے دور کر دیا
ہے۔ وہاں عورت کو یہ ذہن نشین کرایا کہ تم مقصود بالذات نہیں ہو بلکہ تم
مرد کی تفریح اور تسکین کے لیے پیدا کی گئی ہو اسی لیے عورت کو اشتہار بنا
دیا گیا ہے۔ عورت کی حیثیت ایک Commodity اور ایک پر کشش چیز کی بنا دی گئی
ہے اور وہ مردوں میں جاذب نظر بننے کے لیے ہر طرح کے جتن کرتی ہے جیسے اس
کی اپنی کوئی ذات ہی نہ ہو۔ مشرق میں عورت کا استحصال جبر کے ساتھ اور مغرب
میں مکر کے ساتھ ہورہا ہے۔ سویڈن اور بہت سے اور یورپی ممالک میں عورتوں کی
تنخواہ مردوں کی نسبت کم ہے۔ خواتین کے حقوق کے علمبردار ملک سویڈن میں آج
تک کوئی عورت وزیر اعظم نہیں بن سکی۔ دوسری طرف اس حقیقت کا اعتراف کرنا
چاہیے کہ یورپ میں اکیلی عورت اپنی زندگی اپنی مرضی سے بسر کرسکتی ہے۔
ملازمت، زندگی کے شب و روز اور سفر بغیر کسی خدشہ کے کرسکتی ہے لیکن مشرقی
معاشرہ میں یہ ممکن نہیں، جس کی وجہ مردوں کا رویہ ہے۔ عورت کا اصل مسئلہ
ہی مردوں کا رویہ ہے اور یہ تب ہی دور ہوگا جب بچپن سے ہی ہم اپنے بچوں کو
عورت کی عزت کرنا سکھائیں گے اور انہیں یہ باور کرائیں گے کہ وہ بھی انسان
ہے۔ لڑکے کو لڑکی پر ترجیح نہیں دی جانی چاہیے اور نہ ہی لڑکے کو یہ احساس
دلانا چاہیے کہ وہ لڑکی سے برتر ہے۔ تصویر کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ جب عورت
کو موقع ملتا ہے تو بھی اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ ساس بھی تو عورت ہی
ہوتی ہے جو اپنی بہو کے ساتھ زیادتی کرتی ہے اور بہو بھی عورت ہی ہے کہ بہت
سے سسرال والوں کو دن میں تارے دیکھا دیتی ہے۔ عورت کو بھی چاہیے کہ وہ بھی
اپنی حیثیت کا ناجائیز فائدہ نہ اٹھائے اور گھر وہی جنت کا نمونہ ہوتا ہے
جس میں سب اپنے حقوق و فرائض کو پورا کریں اور حد سے نہ بڑھیں۔ جس رشتہ کو
خدا نے لباس اور زوج کی صورت قرار دیا ہے وہ محبت اور مودت سے متشکل ہو تو
گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ وہاں یہ سوال نہیں پیدا ہوتا ہے موزے کون
تلاش کرے اور کھانا کون گرم کرے۔
ایک محبت میں تم ہمارے ہو
ہمارا جو بھی ہے وہ سب تمہارا ہے
|