لفاظی سے معاشرے نہیں چلتے

ہم 1990سے خواتین کا عالمی دن منا رہے ہیں ۔یہ دن پوری دنیا میں 8 مارچ کو خواتین کے تحفظ اور حقوق کے حوالے سے منایا جاتا ہے مگر اب یہودی لابی کے مذموم نعروں اور’’ عورت آزادی مارچ ‘‘کی نذر ہو چکا ہے کہ چند آزاد خیال خواتین کے ہاتھوں وہ ایک دن جس میں خواتین پر جاری مظالم اور ان کا استحصال کرنے والے مردوں کے غیر انسانی سلوک اور غیر اسلامی رویوں پر بات کی جاتی تھی وہ نا ممکن ہوگئی ہے کیونکہ اب آزادی مافیا کے ڈائیلاگ کو پیش نگاہ رکھ کر عورت کو جنس سمجھنے والے مرد حضرات حقوق نسواں بحث کو اسلام سے متصادم اور بے راہ روی کا اعلانیہ قرار دے رہے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم جس مخصوص معاشرے میں رہتے ہیں اُس میں عملی زندگی میں مرد کا کردارمجموعی طور پر زیادہ نظر آتا ہے بدیں وجہ ہر طرح سے مرد کو برتری حاصل ہے ایسے میں ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘ کا نعرہ کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ آپ کسی بھی طبقے کی عورت کو لے لیں ہر عورت کسی نہ کسی تعلق میں مرد کے ساتھ ہی نظر آئے گی وہ اکیلی پر اعتماد ہو کر سر وائیو ہی نہیں کر سکتی کیونکہ کسی طرح بھی اس کی جان اور عزت محفوظ نہیں ہے کہ ہر قدم گھات لگائے درندہ نما مرد موجود ہیں ایسے میں یہ کہنا مناسب تھا کہ عورت کسی غیر ذمہ دار ،نا پسندیدہ اور گمراہ مرد سے آزادی اور اپنا اور اپنے حقوق کا تحفظ چاہتی ہے مگر ہر طرح سے آزاد خصلت رکھنے والی بعض خواتین نے ان کروڑوں قابل تعریف خواتین کے جائز مطالبے کو مسخ کر کے عظیم عورت کو تماشا بنا ڈالا ہے حالانکہ اسلام نے عورت کو جو بے پناہ عزت دی ہے ہر اچھی عورت اس کے مطابق جینا چاہتی ہے مگر آج بھی اسی استحصال کا شکار ہے جو زمانہ جاہلیت کے جہلامیں جاری تھا ۔میں جس طبقے کی بات کر رہی ہوں وہاں سالن ٹھنڈا دینے پر عورت کا گلا کاٹ دیا جاتا ہے ، کھانا وقت پر نہ پکنے پر ہاتھ کاٹ دئیے جاتے ہیں ، کپڑے دھلے نہ ملنے پر مار مار کر اپاہج بنا دیا جاتا ہے ، پسند کی شادی پر عبرت بنا دیا جاتا ہے ، بیٹی پیدا کرنے پر قتل کر دیا جاتا ہے ، بیٹا بچانے کے لیے 5سال کی بچی کو 60 سالہ بوڑھے سے بیاہ دیاجاتا ہے ، دوستی نہ کرنے پر تیزاب پھینک دیاجاتا ہے ،ازدواجی کوتاہی پر شراب پی کر تشدد کیاجاتا ہے اور عورت کی مرضی کے بغیر تعلقات قائم کئے جاتے ہیں اور پھر اسے بدنام کر کے بازار کی زینت بنا دیاجاتا ہے ۔ایسی خواتین کے لیے موم بتی مافیا بھی آواز نہیں اٹھاتی بلکہ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘کا نعرہ لگانے والی چند عورتوں کی ہمدرد ی بھی کبھی ایسی مظلوم عورت کے ساتھ نہیں ہوتی حتہ کہ جنسی زیادتی کاشکار ہونے والی لڑکیاں سرکاری تھانے میں ایف آئی آر درج نہ ہونے پر تھانے کے آگے خود کشی کریں ، خود کو زندہ جلائیں ، زہر پئیں ، مردہ حالت میں پائی جائیں ، زمانے میں در بدر کی ٹھوکریں کھا کر جسم فروشی پر مجبور ہوجائیں تب بھی یہ آزادی کی علمبردار نام نہاد خواتین نظر نہیں آتیں ۔

سوال تو یہ ہے کہ اگر یہ مارچ لابی عورت کی عظمت کی اتنی ہی علمبردار ہے تو پوراسال عورتوں کے استحصال کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتی اورحکومت وقت سے مطالبہ کیوں نہیں کرتی کہ اسلام نے عورت کو جو حقوق دئیے ہیں یعنی زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ، عزت دینا ، زمانہ جاہلیت کی رسموں کا محاسبہ کرنا اور جائیداد میں حصہ دینا جیسے جائز حقوق کو یقینی بنایا جائے ؟ہر دن عزتیں پامال ہو رہی ہیں ،تیزاب گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں ،جائیداد بچانے کے لیے بچیوں کو ونی اور بوڑھوں سے شادیاں کروائی جا رہی ہیں تو کوئی مارچ اور نعرہ کیوں نہیں لگایا گیا ؟بدقسمتی سے نام نہاد مسیحاؤں کے پاس بازاری گفتگو اور بیہودہ نعرے ہیں اور ان کا محاسبہ کرنے والے اسلام کے نام لیواؤں اور حیاء کے علمبرداروں کے پاس بھی صرف لفاظی ہی لفاظی ہے ۔دونوں کی منافقت اور قول و فعل کا تضاد واضح اور عیاں ہے کہ ان کی ریاستی زندگی میں صرف مارچ ہی مارچ تھا اور ہے اس کا مقصد یا اس سے حاصل کچھ بھی نہیں یا تو ان کے پاس اخلاص پر مبنی کوئی لائحہ عمل ہو یا ماضی میں ان کے منتخب عہدے داران نے ملک و ملت کے لیے کچھ کیا ہو دکھ یہ ہے کہ اس ملک میں ہر کسی کونام اور مال بنانے کیلئے سکیمیں سوجھتی ہیں تاکہ کسی نہ کسی پلیٹ فارم کو استعمال کر کے کسی طور اقتدار کے مزے لوٹ سکیں یہی وجہ ہے کہ آج سبھی اتنے غیر محفوظ ہوچکے ہیں جتنے اٹھائیس سال پہلے نہیں تھے ۔ حیرت ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں کیا کر رہی ہیں ،ان کے عہدے داران کو کس چیز کے ایوارڈز دئیے جاتے ہیں اور وہ جو بغیر سوچے سمجھے بیانات داغتے ہیں ان سے حاصل کیا ہوتا ہے؟ تنظیم سے یاد آیا کہ کل ہمارے ایک لکھاری ساتھی ناصر چوہان کی خبر نے مجھے چونکا دیا۔ ناصر چوہان پیشے کے اعتبار سے تو وکیل ہیں مگر ادبی ،سیاسی و صحافتی حلقوں میں اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں کیونکہ لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن ہیں کہ انسانی حقوق اور صحافتی تنظیموں میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ اس لیے عوامی مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں جنھیں اپنی تحریروں اور بیانات کے ذریعے اجاگر بھی کرتے رہتے ہیں مگر مجھے حیرت تب ہوئی جب پتہ چلا کہ دن دیہاڑے پھالیہ کورٹ کے اندر انھیں اغواء کرنے کی مذموم کوشش کی گئی جسے وکیل ساتھیوں نے ناکام بنا دیا مگر ان کے مطابق انھیں تاحال انصاف نہیں ملا۔۔یقیناً ایسے واقعات نئی بات نہیں مگر لمحہ فکریہ ہے کہ معاشرے کا کونسا طبقہ ہے جو محفوظ رہ گیا ہے اور کس طبقے کو بروقت انصاف میسر ہے ۔جو خود محفوظ نہیں وہ دوسروں کے تحفظ پر آوازکیسے اٹھائیں گے یقینا حقائق تلخ ہیں لیکن اس سے بڑھ کر افسوسناک بات یہ ہے کہ حل کسی کے پاس نہیں اور لفاظی سے معاشرے نہیں چلتے ۔

مجھے کہنے دیجئے کہ آپ اپنی ذات کو مرکز بنا کر سوچ رہے ہیں جو نہ آپ کی ذات کے لیے مفید ہے نہ ہی انسانیت کے لیے عین ممکن ہے کہ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو حالات آپ کے موافق ہی نہ رہیں لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ ایسے قوانین اور حکمت عملیوں کا اطلاق کیا جائے جو کہ موجودہ مسائل سے نپٹنے میں کار آمد ہو سکیں ۔مواقع پیدا ہوسکتے ہیں اورحالات بدل سکتے ہیں بشرطیکہ انسان پست ہمت نہ ہو اور اتنا دور اندیش ہو کہ خوش فہمیوں اور موہوم امیدوں کے سفری انجام سے آگاہ ہو جس میں بے خبری جان لیوا ٹھہرتی ہے اور اگلا لمحہ کوئی رعایت نہیں کرتا ۔یہ طے ہے کہ تاریخی تبدیلیاں لانے کیلئے ہر کسی کو باکردار بننا پڑے گا تب اُن سے منتخب ہو کر آنے والی قیادت با کردار ہوگی ۔

 

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 102874 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.