کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ جو لوگ دین یا کسی خدائی
نظام کو نہیں مانتے وہ ظاہری طور پر ہی سہی بہت مہذب، تعلیم یافتہ، خوش
اخلاق، ایماندار، مدلل اور پر اثر گفتگو کرنے والے نظر آتے ہیں اس کے
برخلاف ہماری اکثریت تہذیب و شائستگی سے عاری، غیر تعلیم یافتہ، غیر منطقی
اور بے سر پیر کی باتیں کرنے میں مہارت رکھتی ہے. حالانکہ ہمارا ایمان ہے
کہ ہمارے پاس آفاقی دین، سب سے اچھا دستور اور نظام حیات، سب سے بہترین
کتاب اور سنہری تاریخ ہے.
آپ ٹیلی ویژن چینل اٹھا کر دیکھ لیں. ڈسکوری اور نیشنل جغرفک جیسے چینل نئے
نئے سائنسی انکشافات کرتے نظر آئیں گے. ہمارے پاس ایک تو اپنے چینلز
انگلیوں پر شمار کرنے بھر بھی نہیں ہیں. اس پر جو ہیں بھی وہ بس "سبحان
اللہ" "ماشاء اللہ" کا ورد کر کے ناظرین اور سامعین کو چوبیس گھنٹے جھمانے
کا کام کرتے رہتے ہیں. ایسا ہی کچھ معاملہ ہمارے مذہبی جلسے جلوس کا ہے.
نعت خوانی کے نام پر چیخ چیخ کر گاؤں اور محلے کے لوگوں کو پریشان کیا جاتا
ہے.
عوامی سطح پر ہونے والے مذہبی جلسے جلوس اور جمعہ کی تقریروں میں شاید ہی
کبھی کوئی سنجیدہ اور سلجھی ہوئی گفتگو سننے کا اتفاق ہو. ہمارے مقررین
اپنی تقریر سے بس ایک رات میں ہی وہ انقلاب برپا کرتے ہیں کہ بیان نہیں کیا
جا سکتا.
عوامی مشاعرے اور مذہبی جلسوں کے نام پر لاکھوں روپے بڑی آسانی سے جمع بھی
ہو جاتے ہیں اور پانی کی طرح بہائے بھی جاتے ہیں لیکن مسجد کے امام کی
تنخواہ ایک ہزار روپیہ بڑھانے کے لیے کئی کئی مٹینگیں ہوتی ہیں اور اٹھا
پٹخ کے بعد امام صاحب کی تنخواہ بڑھانے کا اس طرح ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے
گویا امام کی سات پشتوں پر کوئی احسان عظیم کیا گیا ہو. اس پر ہمیں یہ بھی
چاہیے کہ پانچ سات ہزار کی تنخواہ میں مدینۃ المنورہ یا ام القریٰ کا پڑھا
ہوا امام بھی ہو.
قوم کے پڑھے لکھے اور ذی شعور افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سطح سے عوام
کے ذہن و شعور کو بالیدہ کرنے کی کوشش کریں. انہیں منطقی فکر و نظر سے
سوچنے سمجھنے کی ترغیب دیں. عوامی جذبات سے کھلواڑ کرنے والے افراد خواہ وہ
کسی شعبہ یا کسی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں، ان کا بائیکاٹ کیا جائے. مذہبی
اور مسلکی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے مناظرین اور شعرا سے اپنی محفلوں
کو پاک کیا جائے. تعلیم کے فروغ کے لیے تحریکی سطح پر اسکول اور کالجز کا
قیام عمل میں لایا جائے. غیر ضروری مذہبی جلسوں اور پنڈال چھاپ مشاعروں کی
جگہ تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے چندے جمع کیے جائیں. نوجوانوں میں قومی و
ملی جذبہ بیدار کیا جائے. نوجوانوں میں معروضی اور منطقی سوچ اور افہام و
تفہیم کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی جائے. ان کے اندر سستی اور جز وقتی
شہرت کی جگہ بڑے مقاصد کی طلب پیدا کی جائے. گانے بجانے والوں کی حوصلہ
افزائی کی بجائے تعلیمی اور تعمیری کام کرنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی
کی جائے.
ان شاء اللہ حالات ضرور تبدیل ہوں گے
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
|