مسلمانوں کو سبق سکھانے کی مہم

ریاستی دہشتگردی کے شکار بھارتی مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز اور جابرانہ حملوں کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ دہلی کے شاہین باغ میں دیوبند کی بھی سیکڑوں مسلم خواتین بھارتی شہریت قوانین کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں۔مسلم خواتین کے احتجاج کو روکنے کے لئے پولیس نے ان کے اہل خانہ میں مردوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔یہ تنہا پولیس ہی نہیں ہے بلکہ دیگر انتظامی محکمے بھی ''مسلمانوں کو سبق سکھانے'' کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔دیو بند مسلمانوں کا معروف مرکز ہے۔ جہاں دارالعلوم سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ فیضیاب ہوئے ہیں۔ اترپردیش کے سہارنپور ضلع میں دیوبندواقع ہے، جہاں پولیس شاہین باغ کی خواتین مظاہرین کے مرد رشتے داروں اور دوستوں کی نشاندہی کر رہی ہے اور انہیں نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ دہلی میں شاہین باغ کے مشہور مظاہرے کے آس پاس خواتین کو احتجاج جاری رکھنے سے روکنے کے لئے یوپی پولیس نے ان خواتین کے اہل خانہ کی بڑے پیمانے پرپکڑ دھکڑ شروع کردی ہے۔جس کا مقصد صرف خواتین پر دباؤ ڈالنے اور 48 دن کے احتجاج کو ختم کرنے پر مجبور کرناہے۔یہاں کی خواتین بھی، ملک کے کئی دوسرے حصوں کی طرح، شہریت (ترمیمی) ایکٹ اور شہریوں کے قومی رجسٹر اور قومی آبادی کے اندراج کے نفاذ کے خلاف شاہین باغ کے احتجاج میں جمع ہوگئی ہیں۔جن کے اہل خانہ کی گرفتاریوں کے لئے عائد کردہ الزامات عجیب و غریب ہیں۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ '' زندگی کے لئے خطرناک کسی بھی بیماری کے انفیکشن کو'' پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان پر تعزیرات ہند کی دفعہ 269، 270، 278 اور 290 کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ایک ایف آئی آر میں، ''چھوٹے بچوں کو متحرک کرنے'' اور انھیں احتجاج میں حصہ لینے کے لئے راضی کرنے کا الزام ہے۔ اور بچوں سے متعلق ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے۔ میڈیا کے مطابق ایک ایف آر میں غیر قانونی اجتماع کا ایک اور مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے، جس میں 40 کے قریب افراد کے نام درج ہیں۔شاہین باغ کا احتجاج شروع ہونے کے کچھ ہی دن بعدخواتین کے اہل خانہ کے خلاف جھوٹے اور گمراہ کن مقدمات درج کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ دیوبند میں مقیم سینئر صحافی مشرف عثمانی کے خلاف بھی اسی طرح کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔۔ عثمانی بھارتی اخبار’’ ہندوستان‘‘ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔انہیں مقدمات کے بارے کچھ نہیں بتایا گیا۔ تب پتہ چلتا ہے جب پولیس انہیں گرفتار کرنے کے لئے چھاپے مارتی ہے۔ عدالتیں مسلمانوں کی گرفتاریوں کے وارنٹ جاری کر رہی ہیں۔

شاہین باغ میں مسلم خواتین کے احتجاج کا آغاز اس وقت ہوا جب دیوبند سے چار خواتین اکٹھی ہوئیں اور گھر گھر جاکر مہم کے ذریعہ دوسری خواتین کو ریاستی دہشتگردی اور مسلمانوں پر مظالم کے خلاف متحرک کرنا شروع کردیا۔ ان میں سے آمنہ روشی نامی خاتون بھی ہیں، جنہیں ’خواتین کی اتحاد کمیٹی کا منتظم مقرر کیا گیا ہے۔ صحافی عثمانی ان کا بھائی ہے۔ عثمانی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ''پولیس نے احتجاجی خواتین کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے تمام نام دیکھے، ان کی شناخت کی،ان کے پیشے کو دیکھا اور ایک ایک کر کے ان کے پیچھے چل پڑے۔انہیں حراست میں لینا شروع کر دیا ہے۔ عثمانی کی طرح دیو بند میں کم از کم چار دیگر صحافی موجود ہیں جن پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔وہ اپنا اپنا کام کر رہے تھے۔ لیکن پولیس نے غیر قانونی اجتماع کا الزام لگا کر ان کا نام ایف آئی آر میں ڈال دیا۔شاہین باغ احتجاج کی قیادت اور اہتمام خواتین کرتی ہیں۔ مرد، اگرچہ مکمل یکجہتی کے باوجود، احتجاج کے مقام سے دور ہی رہے ہیں۔ لیکن پولیس پھر بھی ان افراد کو حراست میں لے رہی ہے۔ مسلم صحافی جن میڈیا اداروں کے ساتھ وابستہ ہیں، وہ ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور پریشان کیا جا رہا ہے کہ وہ احتجاج کی رپورٹنگ نہ کریں۔

پولیس سمیت دیگر انتظامی محکمے بھی ''انہیں سبق سکھانے'' کے لئے استعمال ہورہے ہیں۔ محکمہ تعلیم نے مظاہرین میں سے ایک خاتون کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں کے خلاف نام نہاد شکایات کی بنیاد پر دستاویزات کا معائنہ کرنا شروع کردیا۔جس خاندان کی خواتین احتجاج میں سب سے آگے رہی ہیں،انہیں محکمہ تعلیم نے نوٹس بھیجنا اور وضاحت طلب کرنا شروع کردی ہے۔ نجی اسکولوں سے رشوت بھی طلب کی جا رہی ہے۔ ریجنل ٹرانسپورٹ آفس (آر ٹی او) کو بھی فعال کر دیا گیا ہے، اور شہر بھر سے مظاہرین کوعید گاہ گراؤنڈ تک لے جانے پر 100 سو سے زائد رکشہ ڈرائیوروں کو جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ رکشہ مالکان کو گذشتہ ایک ماہ کے دوران کئی کئی چالان کئے گئے۔ان سے آر ٹی او حکام رشوت کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں۔گوشت کے کاروبار میں ملوث قریشی برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کے بھی اسی طرح کے تجربات ہیں۔ انہیں گوشت فروخت کرنے کی اجازت نہیں اور پولیس اور محکمہ خوراک دونوں ہی بار بار دکانوں پر چھاپے مار رہے ہیں۔ علاقے میں ایک گوشت کی دکان چلانے والے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد انہیں کمزور کرنا ہے۔ پولیس دھمکیاں دے رہی ہے کہ اگروہ خواتین کو احتجاج ختم کرنے پر راضی نہیں کرتے ہیں، تو ان پر گائے کا گوشت فروخت کرنے کا مقدمہ درج کردیا جائے گا۔شاہین باغ کے احتجاج میں متعدد خواتین کا تعلق زیادہ تر مسلم برادری سے ہے اور کئی دوسری بہوجن خواتین بھی شامل ہیں۔اب یہ احتجاج کئی گنا بڑھ گیا ہے اور ان خواتین کو عالمی شہرت یافتہ اسلامی مدرسہ دارالعلوم کی مخالفت کے باوجود حتجاج جاری رکھنا پڑا۔خواتین کا احتجاج پر امن ہے مگر مودی حکومت انہیں روزانہ پریشان کرنے کے لئے نئے طریقے ڈھونڈ رہی ہے۔پولیس ان کے ساتھ مجرمانہ سلوک کرنے پر تلے ہوئی ہے۔ پولیس کی اس طرح کی کارروائی نے خواتین کو زیادہ پر امن بنادیا ہے، اور دیوبندو دیگرشہروں کی زیادہ سے زیادہ خواتین احتجاج میں شامل ہورہی ہیں۔یو پی کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی کی زیرقیادت ریاستی حکومت نے مظاہروں کو روکنے کے لئے پرتشدد طریقوں کا سہارا لیا، دسمبر 2019 میں پولیس فائرنگ سے 23 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔پرتشدد حملوں کے ساتھ ساتھ، حکومت نے لکھنؤ میں دسمبر 2019 میں ہونے والے احتجاج میں سی اے اے کے خلاف شرکت کرنے والوں کے پوستڑز چسپاں کئے گئے۔ یہ اقدام شرپسندوں کے ہاتھوں ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے لئے اٹھایا گیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے پوسٹرز ختم کرنے کی ہدایت کی مگر عدالتی حکم پر عمل کرنے کے بجائے ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی گئی۔یہ سب بھارتی مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ مگر بھارت کے مسلمان متحد ہو چکے ہیں اور وہ ہندو دہشتگردی کے سامنے ڈاٹ جانے کا عزم کر چکے ہیں۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485569 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More