|
موجودہ حالات میں جب کہ دنیا بھر کو کرونا وائرس نے اپنیی لپیٹ میں لے رکھا
ہے اور جو ملک اس وائرس میں مبتلا نہیں بھی ہیں وہ بھی اس کے حوالے سے شدید
ترین خطرات محسوس کر رہے ہیں- اور اگر محسوس کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے
کہ دنیا اس وقت کرونا وائرس کے خلاف حالت جنگ میں ہے اور ایک اندیکھے دشمن
سے مقابلہ کرنے کے لیے تیاریاں کر رہی ہے ۔ اس جنگ کو حیاتیاتی جنگ کا بھی
نام دیا جا سکتا ہے اس حوالے سے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ حیاتیاتی
جنگ کیا ہے
حیاتیاتی جنگ
حیاتیاتی جنگ کی تاریخ نئی نہیں ہے اس کی ابتدائی شکل یہ ہوتی تھی کہ دشمن
کے پینے کے پانی میں زہر ملا دیا جاتا تھا جس سے دشمن ہلاک ہو جاتے تھے- اس
کا باقاعدہ استعمال روس نے 1710 عیسوی میں روس نے سوئیڈن کے خلاف جنگ میں
کیا- اس کے علاوہ امریکہ کی یورپی ممالک سے جنگ کے دوران بھی ان ممالک نے
امریکہ کے قدیمی باشندوں میں ایسی بیماریاں پھیلائیں جن سے وہ بڑی تعداد
میں ہلاکت کا شکار ہوئے- اسی طرح کوریا کی جنگ کے دوران بھی امریکہ نے ایسے
ہی حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال کیا جبکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ
ایڈز کا جراثیم بھی ایسا ہی ایک ہتھیار تھا اور اس کا وائرس بھی درحقیقت
انسانی ہاتھوں کی ہی کرم فرمائی ہے-
|
|
کیا کرونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے
کرونا وائرس کے حوالے سے بھی بہت سارے نظریات پیش کیے جا رہے ہیں- چین کے
شہر سے پھوٹنے والے اس وائرس کے بارے میں ابتدا میں یہ نظریہ پیش کیا گیا
کہ یہ وائرس چین کی ایک جنگلی جانورں کی منڈی سے پھوٹا جہاں اس کے ایک ساتھ
پچاس کیس سامنے آئے- اس کے ثبوت کے طور پر لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ
وائرس نوے فی صد چمگادڑ میں پائے جانے والے وائرس کا ہم شکل تھا -
اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کا یہ بھی نظریہ تھا کہ یہ وائرس چینی شہر ووہان
میں موجود ایک وائرس کے حوالے سے تحقیق کرنے والی لیبارٹری سے حادثاتی طور
پر پھوٹا- جہاں پر چمگادڑ اور پیلی کین نامی جانور پر اس وائرس کا تجربہ
کیا جا رہا تھا اور جو اس جانوروں کی منڈی سے دس میل کے فاصلے پر تھی- اس
حوالے سے یہ ثبوت پیش کیے جا رہے ہیں کہ اس سے قبل سارس نامی وائرس بھی چین
کی لیبارٹری سے حادثاتی طور پر ہی پھوٹا تھا-
|
|
حکومت چین کا کرونا وائرس کے حوالے سے
نظریہ
حکومت چین بین الاقوامی نظریے کو رد کرتی ہے ان کا اس حوالے سے یہ کہنا ہے
کہ یہ وائرس امریکی حکومت نے اکتوبر میں بین الاقوامی کھیلوں کے ایک مقابلے
کے دوران اپنے فوجی دستے کے ہمراہ چین میں داخل کیا تھا- اور اس حوالے سے
انہوں نے اقوام متحدہ سے بھی رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے-
بظاہر دیکھا جائے تو اس وائرس سے سب سے زیادہ نقصان بھی چین کی معیشت کو
پہنچا ہے مگر اس بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے دیکھنا یہ ہے کہ
اس وائرس کے ذریعے دنیا کہیں تیسری جنگ عظیم کی جاکنب تو نہیں بڑھ رہی ہے-
|