دہلی فساد : ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں

دہلی فساد کے دوران اپنی مدافعت کے لیے مصطفیٰ آباد کے ایک محلے سے تیس چالیس لوگ باہر تو نکلے مگر دس بارا لوٹ آئے تو خواتین نے انہیں چوڑیاں دے کر آر دلائی۔ وہ اس رسوائی کو برداشت نہیں کرسکے ا ور پھر مورچوں کی جانب لوٹ گئے۔ نوجوانوں نے مختلف راستوں پر گھر اور اسکول کے گیٹ توڑ رکاوٹ بنائی تاکہ فسادیوں کو آگے بڑھنے سے روکا جاسکے۔ بلوائیوں نے انہیں پھاند کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو پہلے پتھروں سے اور پھر دوبدو مقابلہ کیا ۔ برہم پوری پل کے قریب مدرسے پر حملہ ہوا تو بچوں کو وہاں سے بحفاظت نکال لیا گیا۔

شاہین باغ کی طرز فاروقیہ مسجد کے سامنے مظاہرہ کرنے والی تقریباً چالیس مقامی خواتین کو ایک نوجوان اپنی جان پر کھیل کر محفوظ مقام پر لے گیا مگر واپسی میں اس کے پانچ گولیاں لگیں اوروہ شہید ہوگیا۔ حالات جب معمول پر آئے تو وہ خواتین اپنے گھروں کو لوٹیں۔ ان لوگوں نے سب سے پہلے اس شیر کا حال دریافت کیا جس نے ان کی جان بچائی تھی اور جب پتہ چلا کہ و ہ چل بسا تو سب نے اس کےگھر پر جاکر والدین سے تعزیت کی ۔ اپنی عقیدت اور احسانمندی کا اظہار کیا۔ اس طرح کی مزاحمت نہیں ہوتی تو کون جانے حملہ آور درندے کتنا جانی و مالی نقصان کرتے ؟

سوشیل میڈیا پر منیشا پانڈے کے نام سے بھی ایک پوسٹ گردش کررہی جس کی تصدیق نہیں کی جاسکی۔ اس نے رخسانہ نامی ایک بیوہ کی داستانِ عزیمت لکھی ہے جو ۳ بیٹیوں کے ساتھ وہاں رہتی ہے اور اس کے ۳ بیٹے کیرالا میں زیرِ ملازمت ہیں۔ فساد کی آہٹ سن کر ریحانہ نے بجلی کے تار پر لگے پلاسٹک کو چِھل کر اس کے ذریعہ دروازے پرکرنٹ دوڑا دیا۔ بلوائیوں نے دروازے پر لوہے کی سلاخ ماری تو خود ہی بجلی کے جھٹکے سے ڈھیر ہوگئے اور دیر تک کراہتے رہے لیکن دوبارہ دروازے سے قریب آنے جرأت نہیں کی ۔ اس کو کہتے ہیں’ اپنا تحفظ آپ‘ ۔ اس طرح کی حالت پر حفیظ میرٹھی نے کہا تھا ؎
وار کو ان کے کبھی خاطر میں میں لایا نہیں کتنے دشمن میں نے اس تدبیر سے پسپا کیے
کھجوری خاص کے علاقہ میں مسلمانوں کی بہت قلیل تعداد فسادیوں میں گھر گئی تو انہوں نے فاطمہ مسجد کے اندر پناہ لے لی ۔ دیگر مقامات پر جہاں ہندووں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کو بچایا اس کے برعکس اس علاقہ کے اوباش لوگ بھی فسادیوں سے جاملے ۔ پولس کو مدد کے لیے فون کیا تو سامنے سے کوئی جواب نہیں ملا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنی موت کو آنکھوں سے دیکھنے لگے ۔ ایسا وقت بھی آیا کہ مسجد کی نچلی منزل میں آگ لگائی جارہی تھی اور وہ اوپری منزل پر اپنی موت کا انتظار کررہے تھے کہ اچانک پولس کا ایک دستہ آیا اوران سب کو بحفاظت چندو پور لے گیا ۔

یہ چمتکار اس طرح رونما ہوا کہ کھجوری خاص سے قریب چندو پور نام کی ایک بستی ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ان لوگوں کو کھجوری خاص کے مصیبت زدگان کا پتہ چلا تو انہوں نے بھی انتظامیہ سے فون پرمدد طلب کی لیکن کامیاب نہیں ہوے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے محلے کے غیر مسلمین کو جمع کرکے ا ن کے ذریعہ انتظامیہ سے رابطہ کیاتو پولس کو ہوش آگیا اور وہ حرکت میں آگئی ۔ اس نے فوراًفاطمہ مسجد اور اس کے اطراف میں پھنسے ہوئے لوگوں کو وہاں سے نکال کر چندو پور پہنچانے کا یقین دلایا ۔ اس طرح وہ لوگ موت کے منہ سے باہر آگئے۔ بقول ساحر لدھیانیوی ؎
ہزار برق گریں لاکھ آندھیاں اُٹھیں
وہ پھول کِھل کے رہیں گے جو کِھلنے والے ہیں

شیوپوری میں بھی مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے ۔ وہاں ایک مسلم ہیڈ کانسٹبل بھی پولس کو بلانے میں کامیاب نہیں ہوا لیکن خوش قسمتی سے وہ خفیہ ایجنسی میں زیر ملازمت تھا ۔ اس کے افسر نے فورس روانہ کی اور وہ اپنے اہل خانہ وہ دیگر پاس پڑوس کے لوگوں کے ساتھ وہاں سےنکل گئے ۔ اس کے نتیجے میں جانی نقصان تو نہیں ہوا مگر دوکانوں اور مکانات کو پھونک دیا گیا ۔ اس دوران مدینہ مسجد کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ فساد کے بعد کچھ ڈرے سہمے لوگ محلے میں لوٹے تو ان کا حوصلہ بڑھانے کے مسجد کے امام مولانا محبوب قاسمی بھی واپس آگئے۔ جمعرات کوانہوں نے مغرب کی اذان دی تو مشکل سے ایک صف بنی ۔قاسمی صاحب نے سوچا یہاں ڈیرہ ڈالے بغیر کام نہیں چلے گا ۔یہ حوصلہ مندی رنگ لائی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے دن جمعہ کے وقت مسجد نمازیوں سے پُر گئی۔

ہمارا وفد جب شام میں مغرب کے وقت بھی مدینہ مسجد کا دورہ کیا تودوسری منزل پر آخری صف تک نمازی تھے اور باقائدہ لاوڈ اسپیکر پر نماز پڑھائی جارہی تھی۔ اہل ایمان کی اس پامردی نے بلوائیوں کے حوصلے پست کردیئے ۔ اس طرح دنگا بھڑکا کر مسلمانوں کو نیست و نابود کردینے کے منصوبہ نا کام ہوگیا۔ اس کامیابی کا سہرا بنیادی طور پران نوجوانوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے سڑک پر اتر کر مقابلہ کیا اور ان ماوں کے بھی کہ جنہوں نے ان کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں مدافعت کے لیے بھیجا ۔ امت کے اندر جب تک ایسا ایمانی جذبہ موجود ہے باطل تھوڑا بہت نقصان تو پہنچا سکتا ہے لیکن ان پر غلبہ نہیں حاصل کرسکتا۔اس لیے اللہ کی مددو نصرت ان کے شاملِ حال رہتی ہے۔ ایسےلوگوں کی زبان پر حفیظ میرٹھی یہ شعر ہوتا ہے ؎
دب کے رہنا ہمیں نہیں منظور
ظالمو جاو اپنا کام کرو

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1230907 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.