پانچ سال گزر گئے۔ ایک مرتبہ پھر
آزاد کشمیر کی فضاﺅں میں الیکشن کا شور سنا جارہا ہے۔ ہر امیدوار نے اپنے
حلقہ انتخاب کا رخ کرلیا ہے سیاسی قائدین اپنے اپنے امیدواروں کی الیکشن
مہم پورے زور شور سے چلا رہے ہیں۔ سیاسی امیدواروں کا اپنے حلقے کا دوبارہ
رخ کرنے پر موسمی پرندے یاد آجاتے ہیں۔ سرد موسم میں گرم علاقوں اور گرم
موسم میں سرد علاقوں کو پسند کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر حکومت کے پانچ سال تین
وزراءاعظم پرکھ چکے ہیں۔ یہ پانچ سال کا عرصہ کسی بھی لحاظ سے آزاد کشمیر
کی تاریخ میں ناقابل فراموش بن چکا ہے۔
آزاد کشمیر کے تمام انتخابی حلقوں کی طرح حلقہ ایل۔ اے ۔۳۱ غربی بھی سیاسی
گہما گہمی کی زد میں ہے۔ اس حلقہ میں آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں
اپنی اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہی ہیں گویا کہ اس انتخابی حلقے سے ان کو
سیاسی پراگرس رپورٹ ملنا ہیں۔ وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان کا
تعلق بھی اسی حلقے سے ہے۔ اور وہ آئندہ الیکشن میں مسلم کانفرنس کے واضح
اور متوقع امیدوار بھی ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی سے راجہ مبشر
اعجاز اور راجہ آصف علی بھی مقابلے کے لئے پوری تیاری کر رہے ہیں۔ اسی طرح
نوزائیدہ اور نواز شریف میں آزاد کشمیر میں بنائی گئی ن لیگ کے راجہ سجاد
ایڈووکیٹ اور حال ہی میں ن لیگ میں شمولیت اختیار کرنے اور سردار عتیق احمد
خان کے دور حکومت میں تین سال ممبر کشمیر کونسل راجہ افتخار ایوب بھی
الیکشن کی بھرپور تیاری میں نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں جماعت اسلامی کی طرف
سے میجر لطیف خلیق، متحدہ مجلس عمل کے سلیم اعجاز مولانا امتیاز عباسی اور
جموں وکشمیر پی پی پی کے ایک امیدوار بھی میدان انتخاب میں کود سکتے ہیں
اگر پارٹی ٹکٹ کے حوالہ سے بات کی جائے تو مسلم کانفرنس کے علاوہ کوئی بھی
ایسی جماعت نہیں جس کو پارٹی ٹکٹ کی تقسیم پر اختلاف کا سامنا نہیں۔ تا ہم
ابھی ”ابتدائے عشق ہے آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا“۔
آزاد کشمیر کی سیاست میں اس مرتبہ پہلی دفعہ برداری ازم کی سیاست کو بھی
متعارف کروایا گیا ہے۔ سردار عتیق احمد خان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ سردار
عتیق احمد خان نے اپنے دور حکومت میں اس حلقے کی تعمیر و ترقی پر کوئی توجہ
نہیں دی اور نہ ہی عوام علاقہ کے مسائل کو حل نہیں کیا۔ لیکن یہ بات بڑی
حیرت کی ہے کہ یہ الزام سردار عتیق پر وہ لوگ بھی لگا رہے ہیں جو ان کو
اپنا سیاسی استاد اور مرشد تک تسلیم کرچکے ہیں جب وہ لوگ ایسی بات کرتے ہیں
تو حیرت ہوتی ہے کہ انسان کتنا جلدی بدل جاتا ہے اگر ان کے الفاظ پر غور
کیا جائے تو سر چکرا جاتا ہے کہ یہ سیاست ہے یا پھر کوئی چیئر گیم اگر سچ
بات کی جائے تو اگر یہ باتیں اور تجویزیں سردار عتیق کو اس وقت دی جاتی جب
ان کے اقتدار کی شروعات تھیں تو شاید آج اس حلقے کی یہ حالت ہر گز نہ ہوتی۔
سردار عتیق سے اختلاف رکھنا ہم سب کا جہموری حق ہے لیکن اس حقیقت پر بھی
توجہ دینا چاہئے کہ اگر سردار عتیق کو اس وقت اقتدار سے الگ نہ کیا جاتا
اور ان پر اپوزیشن کا پریشر بڑھایا جاتا اور ان سے تعمیری پروجیکٹ پر بات
کی جاتی ان سے آزاد کشمیر کے اندر تعمیر و ترقی پر بات کی جاتی ان کو کہا
جاتا کہ یہ تعمیری پروگرام ہیں اور یہ ان کا ثمر ہے تو شاید آج اس طرح کے
حالات ہر گز نہ ہوتے اور پھر آزاد کشمیر کے عوام کے ساتھ سنگین مذاق ہے کہ
ان کی کاسٹ کی گئی ووٹوں پڑ اتنی گندی سیاست کی گئی کہ اس کی بو دور دور تک
محسوس کی گئی ہے اور پھر یہاں پر ہی ختم نہیں کیا گیا اس سے بڑ ھ کر آزاد
کشمیر کے عوام کے اوپر ایک اور غیر ریاستی جماعت کو مسلط کر دیا گیا ہے ہم
آزاد کشمیر میں کسی بھی سیاسی جماعت کے قائم کے مخالف نہیں لیکن عوام کی
رائے کے خلاف طاقت کا استعمال کسی بھی طور پر قابل تعریف نہیں ہے۔آڑاد
کشمیر کے اندر جس سیاسی جماعت کا قائم عمل میں لایا گیا ہے اگر اس کا قیام
آج سے دس سال قبل عمل میں لایا جاتا تو اس کی پذیرائی میں اضافہ ہوتا لیکن
حصول اقتدار کے لئے اس کا قیام کسی بھی طور پر کشمیر کے عوام کو قبول نہیں
اس کے ساتھ ساتھ اس کے قیام سے تحریک آزادی کشمیر بری طرح متاثر ہوئی ہے
عالمی منظر میں مسئلہ کشمیر پر منفی اثر پڑا ہے لیکن ہم کو تحریک آزادی سے
کیا لینا اقتدار ہے منزل اپنی ۔
بہر حال شاید ایسے لوگوں کو مجبوری آڑے آجاتی ہیں اور وہ اپنے سیاسی
ماضی،حال اور مستقبل تک کو بھول جاتے ہیں۔ بہر حال اگر ایل اے ۳۱ کا تجزیہ
کیا جائے تو اس وقت کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا آزاد کشمیر کے تمام
انتخابی حلقوں میں سردار عتیق کے اوپر شدید تنقید کی جارہی ہے کہ وہ آزاد
کشمیر میں تعمیر و ترقی کے قاتل ہیں۔ شاید ان کے بیانات حب الوطنی پر مبنی
ہوں لیکن میرا ان سے دو التماسات ہیں پہلی یہ کہ آزاد کشمیر میں سردار عتیق
کے حکومتی دورانیہ کو پانچ سال نہ کہیں اگر سیاسی طور پر سوچا جائے تو
حکومت قائم ہونے کے بعد ایک ڈیڑھ سال تک پالیسی واضح کی جاتی ہے اور تین
ساڑھے تین سالوں میں پالیسی کو عملی طور پر لاگو کیا جاتا ہے لیکن سردار
عتیق کو تو ۲سال سے زیادہ حکومت کرنے ہی نہیں دیا گیا۔ سردار عتیق کے خلاف
تحریک عدم اعتماد ایوان کا جمہوری حق تھا اگر انہوں نے ایسا کیا تو ٹھیک
کیا لیکن دوبارہ سردار عتیق کو وزیراعظم نامزد کرنا اپنے تحریک عدم اعتماد
پر دوبارہ عدم اعتماد اور اپنے سیاسی گناہ پر توبہ کرنا نہیں تو اور کیا
ہے۔
سردار عتیق احمد خان کو آزاد کشمیر کی سیاست سے کسی بھی طور پر الگ نہیں
کیا جاسکتا اور دھیر کوٹ کی سیاست میں سردار عتیق کا ایک نام ہے اپنے
تعمیرو ترقی اور متحرک سیاسی طرز عمل کی وجہ سے وہ بہت مقبول ہیں سردار
عتیق کے خلاف سیاسی بغاوت بھی کی گئی لیکن تاحال وہ بھرپور مستقل مزاجی سے
سیاسی نشیب و فراز کا مقابلہ کر رہے ہیں سردار عتیق کو یہ اعزاز بھی حاصل
ہے کہ وہ سیاسی طور پر محنت کرنے والے آدمی ہیں ان کی اس محنت کا نتیجہ ہی
تھا کہ ان کی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس دوبارہ۱۰۰۲ءاور۶۰۰۲ءمیں برسر اقتدار
آئی۔
سردار عتیق کو در پیش مسائل اپنی جگہ مگر اس بات کو از قیاس قرار نہیں دیا
جاسکتا کہ آنے والے انتخابات سردار عتیق کی سیاسی حکمت عملی کا اصل امتحان
ہیں دیکھتے ہیں کہ وہ یہ امتحان کس تیاری سے دیتے ہیں تاہم ایک بات واضح ہے
کہ سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کا آئندہ الیکشن میں کوئی خاص بریک تھرو
ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ |