سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کا ب بڑھتا رحجان۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کے وہ جو بات سنے اسے (بنا تصدیق کے) اگے بیان کر دے(صحیح مسلم جلد ١ ). اس حدیث سے یہ بات واضح ہے کے اسلام اس مسلے میں بلکل کسی قسم گنجائش نہیں رکھتا کے اپنے سے بات بنا کر یا کوئی بات بغیر تصدیق کے اگے پہنچائی جائے.میرے خیال میں ہم سوشل میڈیا پے شائد اس کو گناہ نہیں سمجھتے کیوں کے محض مشہور ہونے یا ویوز حاصل کرنے کے لیے ایسا کرنا ھمارے لیے معمول بنتا جا رہا ہے.

ایسا کرنے سے جہاں ہم گناہ تو کر رہے ہی ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہم کچھ ایسی جھوٹی خبروں کی وجہ سے لوگوں میں خوف پھیلانے کا سبب بھی بنتے ہیں اور نقصان بھی پہچا دیتے ہیں.ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کے ہر انسان دماغی طور پے مضبوط نہیں ہوتا ہے.کچھ دنوں پہلے ایک پتھر کے زمین سے ٹکرانے کی جھوٹی خبر پھیلی جس کو ناسا سے منسوب تک کر دیا گیا اور کہا گیا یہ زمین کو تباہ کر دے گا جب کے یہ خبر حقیقت کے بکل مخالف تھی اصل میں اس نے زمین سے چاند سے بھی زیادہ دوری سے جانا تھا بغیر کسی نقصان کے لیکن ہمارے لوگوں نے اس کو بغیر تصدیق کے سوشل میڈیا پے وائرل کر دیا. مجھے یہ بتایے اس میں ان لوگوں کا کیا قصور جو اس بات کو سچ سمجھ کر خوف میں مبتلا ہو گئے ہوں یا شائد کچھ لوگوں اور بچوں کی طبیعت بھی بگڑ گئی ہو؟ آخر دنیا کے خاتمے کی خبر کوئی چھوٹی بات تو نہیں.

اسی طرح کورونا وائرس سے متعلق بھی ہم اسلام سے متعلق کچھ باتوں پر بھی جھوٹ منسوب کر رہے ہیں جو کے بہت بڑا المیہ ہے.اس کے علاوہ وہ ٹوٹکے جن کا کوئی سر پاؤں نہیں ان کو بھی اس وائرس کا علاج بتایا جا رہا ہے اور لوگ مان بھی لیتے ہیں تو اس طرح اپ کا جھوٹ کسی کی جان سے بھی کھیل رہا ہوتا ہے اور اس میں جتنے اس جھوٹ کو بولنے والے گناہ گار ہوتے ہیں اتنے ہی پھیلانے والے بھی تو اس مسلے پر سنجیدگی سے سوچیے اور کوئی خبر یا پوسٹ بغیر تصدیق کے نہ خود سچ مانیں نا ہی اسے اگے پہنچائیں.

Talha Wajid
About the Author: Talha Wajid Read More Articles by Talha Wajid: 29 Articles with 61795 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.