شایدابھی دورجدید کے نمرودکروناوائرس کو عذابِ الٰہی
تسلیم نہ کریں ۔کیوں کہ اِن کا دین دھرم تو اِن کی دولت اور پُرآسائش زندگی
اورجدید ترقی یافتہ وہ سہولیات ہیں ۔جن کی بنیاد پر یہ اور دنیا بھر میں
چارسو پھیلے ہوئے اِن جیسے اربوں اِنسان زندہ ہیں۔جن کے نزدیک کائنات اور
اِنسان کی تخلیق محض اتفاق ہے ،جبکہ ہمارابحیثیت مسلمان یہ ایمان ہے کہ
حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ جو صدیوں سے قدیم نمرود کے دورِجدید کے نمرودی
شاگرگردان کرتے ہیں۔راسخ العقیادہ مسلمانوںکا توایمان ہی یہ ہے کہ اَزل سے
ہی کائنات یا کائناتوں اور اِنسان اور اِنسانوں کا تخلیق کرنے والا میرا
اللہ رب العزت رہاہے اور رہے گا۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس زمانے میں بھی
دولت اور طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا ہوکر کسی نمرود نے اپنی خدائیت کا دعوی
کیا ؛اُسے رب حقیقی اللہ رب العزت نے کبھی ایک لنگڑے مچھر سے یا کسی بھی
شکل میں عذاب نازل کرکے نیست نابود کرڈالا ہے۔ اِس موجودہ دور میں د نیا
میں طاقت ور دولت کی گھمنڈ میں کئی نمرود اِن کے پیروکار اور چیلے چانٹے
پیدا ہوگئے ہیں۔ جو برملا خود کو سُپر طاقت منوانے کے لئے ہر اِس حد کوکراس
کرچکے ہیں۔ اَب جہاں اِنہیں نکیل ڈالنے کے لئے اللہ کا عذاب کرونا وائرس کی
شکل میں نازل ہوگیاہے۔ اگرچہ ، آج ساری دنیا میں جس رفتار سے یہ وائرس پھیل
رہاہے۔ اِس سے بہت سے ترقی یافتہ ممالک ،آزاد خیال ا ور روش خیال طبقہ اِس
نقطے پر متفق ہے کہ یہ کسی ترقی یافتہ ملک کی کسی دوسرے ملک کو زیر کرنے کے
لئے غلطی سے شرارت یا سازش تو ضرور ہوسکتی ہے مگر کسی بھی حال میں یہ تاریخِ
عالم کی طرح کا کوئی آسمانی عذاب نہیں ہوسکتاہے۔چلیں، تھوڑی دیر کو مان
لیتے ہیںکہ یہ کسی سُپر طاقت ملک کی طرف سے پیداکردہ شرارت یا سازش ہے؛ تو
پھر اِس کا ابھی تک توڑ کیوں نہیں پیدا کیا گیا؟جس ملک نے اپنے مذموم مقاصد
کے لئے اِسے پیداکیا ہے؟کیا اِسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اِس کے پھیلاوے کے
بعد اِس سمیت دنیا کا اِتنا ستیاناس ہوکر بیڑاہی غرق ہوجائے گا؟ جس کی چند
صدیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ میرے بھائیو! یہ رب تعالیٰ اور اللہ رب
العزت کی ربوبیت کے مخالفین اور اپنی جدید ترقی اور خوشحالی اور طاقت اور
دولت کے گھمنڈ میں بھٹکے ہووں کا خود کو جھوٹی تسلی دینے کے سِوا کچھ نہیں
ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آج دنیا میں دولت اور طاقت کے گھمنڈ میں اللہ رب
العزت کی حاکمیت اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے سے انکاری دورِجدید
کے نمرودوں کی لمبی قطاریں موجود ہیں۔بیشک، اِنہیں لگام دینے کے لئے کرونا
وائرس عذاب بن کر نازل ہوگیاہے اور چیخ چیخ کر نمرودوں سے کہہ رہاہے اَب
ہمت ہے تومجھ سے مقابلہ کرو،اَب کرونا ، کرونا مجھے ختم کرواورمجھ سے
مقابلہ کرنے اور مجھے زیر کرنے کے لئے اپنی دولت اور طاقت کا وہ استعمال جس
سے تم کمزوروں کو خرید لیا کرتے تھے۔ لوگوں کی مجبوریوں کو اپنے مفادات کے
لئے استعمال کیاکرتے تھے ۔پھر ٹیشو پیپرز کی طرح اِنسانوں مارکر اور اِن کی
معیشت کا بیڑاغرق کرکے پھینک دیاکرتے تھے ۔افسوس کی بات ہے کہ آج اغیار سے
دوستی کرنے والے بہت سے مسلم ممالک کے حکمران بھی اُسی ڈگر پر چل نکلے
ہیں۔جن پر رب تعالی کی ربوبیت سے خائف جدیددور کے نمرد چل رہے ہیںبس مسلم
ممالک کے حکمران اور عوام اپنے اندر خوفِ خداپیداکرلیںاور حرام کھانے سمیت
کرونا وائرس سے بچاو ¿ کے لئے ہر ممکن احتیاط برتیں،اللہ رب العزت سے
اجتماعی توبہ کا اہتمام کریں اور اِس عذابِ الٰہی سے پناہ مانگیں۔ تو
مسلمانوں پر اللہ کی رحمت نازل ہوگی اور اگر کہیں مسلمان کرونا وائر س سے
ہلکا پھلکا متاثرہوبھی جائیں۔تو اِس سے گھبرانے یا خوفزدہ ہونے کی ضرورت
نہیں ہے۔ اللہ پر یقین رکھیں کہ موت زندگی کا مالک اللہ رب العزت ہے۔ اگر
اِس صورت میں ہی موت آجائے؛ تو یہ بھی اللہ کی رحمت سے خالی نہیں ہوگی ۔
پچھلے سال نومبر کے مہینے سے پہلے کیا کبھی اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ
اِنسان کے اربوں کے ہجوم نے سوچا تھا کہ یوں عنقریب ایک کرونا وائرس اِس کی
ناک میں دم کرکے رکھ دے گا ؛ جس کے سامنے اِنسانوں کی ترقی اور خوشحالی کے
تمام دعوے ریت کے ڈھیرسے بھی کم تر حیثیت کے ہو جائیں گے۔ بیشک، ایسا تو
کبھی کسی اِنسان کے گمان میں بھی نہیں آیاہوگا کہ زمینِ خدا پر سُپرطاقت
بننے کے دعوے داراِنسان کرونا وائرس کے سامنے اِتنے بے بس اور نادم
ہوجائیںگے اور اپنا پھیلا یا ہوا سب کچھ اپنے ہی ہاتھوں Dovid-19سے ڈرکر
سمیٹ لیں گے اورآئسولیشن کے لبادھے میں لپٹ کر بند کمروں میں قید ہونے میں
ہی اپنی عافیت جانیں گے۔گویا کہ آج کے اِنسان کو کرونا وائر س نے اِس کی
فانی اوقات بتادی ہے اوراس گھمنڈی مٹی کے پتلے کا سارا غروراور تکبرایک
کرونا وائر س نے خاک میں ملا کر تمام ظاہر و باطن ترقی اور خوشحالی کے
دعووں کے علمبرداروں کو دھول چٹادی ہے ، دنیا کے طول ارض میں ایک لمبے عرصے
سے جتنے بھی معیشت کے بڑے بڑے برج قائم تھے۔ آج ایک کرونا وائرس کی وجہ سے
گمان سے بھی زیادہ تیزی سے پستی کی جانب سرک رہے ہیں۔امریکا سمیت تمام ترقی
یافتہ اور ترقی پذیر و تیسری دنیا کے کئی ممالک کی معاشی اور اقتصادی صُورتِ
حال قابل رحم درجے تک پہنچ چکی ہے ۔ایسے میں جہاں اِنسان ڈراسہما ہے،
تووہیں اِنسانیت کی بقاءکو بھی شدیدخطرات لاحق ہیں۔ دنیا کے 140کے قریب
ممالک میں لاگ ڈان کا عمل شدت اختیارکرتا جارہاہے جس سے تمام معاملات زندگی
مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں ۔ ایسے میں واضح طور پر نظر آرہاہے کہ سب کو اپنی
سلامتی اور بقاءکی لگی پڑی ہے گویا کہ قیامت سے قبل قیامت والی نفسانفسی کی
رہرسلRehearsalجاری ہے۔جابجادنیا بھر میں شاپنگ مالز پر خریداروں کا ہجوم
لگاہواہے سب اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے ہر فرد اپنی دولت سے زیادہ سے زیادہ
مادی اور اشیائے ضروریہ خرید کر اسٹاک کررہاہے کسی کو اپنے سِوا اُن غریبوں
اور مسکینوں کی فکر نہیں ہے جو غریب ہیں. یا خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار
رہے ہیں۔ کیا کسی نے بڑے بڑے شاپنگ مالز اور بازاروں اور دکانوں میں اِن
غریبوں کے لئے بھی کچھ چھوڑا ہے؟ جن کے پاس دولت نہیںہے؟ جومٹھی بھر روز
کماتے ہیں اور روز کھالیتے ہیں۔ کسی نے معاملات زندگی کو لاک ڈاون کرتے
ہوئے یہ بھی خیال کیا ہے کہ اِن غریبوں اور مسکینوں لاچاروں کا کیا بنے گا
جو ہوٹلوں اور ریسٹوانٹ کے سامنے سے صدقہ وخیرا ت لے کر اپنا اور اپنے کنبے
کا پیٹ بھرتے ہیں ۔اور اُن مزدروں کا کیا بنے گا؟ جو روز مزدوری کرتے
ہیں؟میرا اور آپ کا ادارہ توپوری تنخواہ اوردیگر مراعات کے ساتھ چھٹیاں دے
رہاہے مگر؟کیا یہ قیامت سے پہلے قیامت والی نفسانفسی کا عالم نہیں ہے؟ اوہ
بھائی! ڈرو اُس وقت سے جب قیامت آن کی آن آکر دپوچ لے گی سوچوتب؟کچھ بھی
کام نہیںآئے گا۔سِوائے تمہارے اچھے اعمال اور رب تعالی اللہ رب العزت پر
ربوبیت کے یقین اور ایمان کل اثاثہ ہوگا)ختم شُد( |