مجھے پڑھنا چاہیے لیکن میں نے بڑا وقت لکھنے میں ضائع کیا۔
تھوڑا سا اچھا لکھنے کے لیے بہت سارا اچھا پڑھنا پڑتا ہے بلکہ بے تحاشا
پڑھنا پڑتا ہے.
یہ میرے حق میں ہے کہ کئی سال خاموشی سے مطالعہ و تحقیق میں گزاروں، تاکہ
جب بولوں، لکھوں اور کہوں تو مستند مانا جاوں۔
جانتا ہوں کہ مجھے انتطامی الجھنوں سے خود کو آزاد کرانا چاہیے لیکن سردست
یہ ناممکن سا لگتا ہے۔
یہ بھی جانتا ہوں کہ غیرضروری نمبردار یوں سے خود کو الگ کرنا ہے مگر نہ
چاہتے ہوئے بھی بہت ساری نمبردار یاں کرنی پڑتی ہیں.
جب بہتوں کی ذمہ داری سر پر آن پڑے تو پھر پڑھنے لکھنے کے لیے وقت نکالنا
بھی مشکل ہوجاتا. لیکن وقت نکالنے کی تگ و دو میں رہتا.
یہ سچ ہے کہ مجھے علاقائی، مسلکی اور لسانی حدود سے نکل کر اپنا وجود تسلیم
کرانا ہوگا، جس کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے بالخصوص مطالعہ اور
غیر جانبدارانہ تحقیق۔ان دونوں کے لیے ایک خاص قسم کا ماحول اور کچھ ذہنی و
جسمانی آرام وسکون چاہیے جو سردست میسر نہیں. ذہن بھی مختلف امور میں بَٹا
ہوا ہے اور جسم بھی.
جانتا ہوں کہ خود کو تحقیق و مطالعہ کے لیے فارغ کربھی سکتا ہوں لیکن طبیعت
ابھی اس کو قبول کرنے سے گریزاں ہے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں مگر مطالعہ و تفکر
کے لیے علیحدہ گوشہ میں جاچھپنا کافی مشکل ہے سر دست.
سچ یہ ہے کہ مخلص اور کہنہ مشق بزرگوں اور احباب نے ان چیزوں کی طرف توجہ
بھی دلائی ہے مگر عمل کرنے میں کوتاہی برت رہا ہوں۔
تاہم خوش آئند بات ہے کہ
بطور غذا ہی سہی روز کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا ہوں.ناغہ نہیں کرتا.
موبائل نے بھی پڑھنے اور ریسرچ کرنے میں بڑی معاونت کی ہے.. روز کچھ نہ کچھ
ڈھونڈ کر ہی دَم لیتا.
ایک پلس پوائنٹ یہ بھی ہے کہ گھر میں چھوٹے بہن بھائی اور بھانجے بھانجیاں
ہیں. ان کو بھی کچھ نہ کچھ پڑھانے کے لیے کتابیں دیکھتا رہتا.
بہت سارے پراجیکٹ پائپ لائن میں ہیں. تاہم سب سے اہم کام مطالعہ و تحقیق ہی
ہیں.
آج اچانک اپنے متعلق یہ خیالات اُمڈ آئیے تو آپ سے شیئر کیا. تو
احباب کیا کہتے ہیں؟
21 مارچ 2017، نشررمکرر
|