نقل کی سزا

بچوں میں جو آج آپ کو جو واقعہ سُنا رہا ہوں وہ ہے نقل کی سزا۔ یہ واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔ یہ دو ہزار آٹھ کی بات ہے جب میں ایم اے ماس کام فائنل ائیر کے امتحنات دے رہا تھا۔ میرے پیپر بہت اچھے ہو رہے تھے۔ میرا ایک دوست مجھے پیپر سے پہلے اہم سوالات بتا دیتا تھا۔ جن میں سے اکثر سوال آ جاتے۔ایک دن اُس کا کوئی میسج نہ آیا خیر میں تیار ہو کر امتحان دینے جانے لگا تو اچانک میرے دوست کا میسج آ گیا ۔جس میں ایک سوال ایسا بھی تھا جو مجھے نہیں آتا تھا ۔ٹائم کم ہونے کی وجہ سے میں نے اُس سوال کے اہم پوائنٹ رول نمبر سلپ کے پیچھے لکھ لئیےاور امتحان گاہ چلا گیا۔ پیپر شروع ہوا اور میں مزے سے سوال حل کرنے لگا۔جو میں سوال کے پوائنٹ لکھ کر گیا وہ سوال ہی نہ آہا۔کچھ دیر بعد ایک شخص نے میری رول نمبر سلپ لی اور چلا گیا۔ اندر سے میں ڈر بھی رہا تھا کہ کچھ ہو نہ جائے۔ جس کا ڈر تھا وہ ہی بات ہو گئی کچھ دیر بعد کنٹرولر امتحنات نے مجھے ایک صحفہ دیا اور اُس نے میرا بیان لے لیا کہ میں نقل کر رہا تھا۔ خیر مجھے ایک سال کی سزا ملی اور میرا قیمتی سال ضائع ہو گیا۔ لیکن میں نے اگلے سال دو ہزار نو میں ایم اے مس کام کے دوبارہ سارے پرچے دیئے اور اللہ کے کرم سے پاس ہوگیا۔ اور میں نے اپنی زندگی میں آئندہ نقل کرنے سے توبہ کر لی۔

نتیجہ:
بچوں اِس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں ہر کام محنت سے کرنا چاہیے۔ اور امتحان میں نقل نہیں کرنی چاہیے۔۔ نقل کر کے آپ پاس تو ہو جاؤ گے لیکن آپ کو مزہ نہیں آگئے گا۔ ویسے بھی محنت میں برکت ہوتی ہے۔
Ghulam Mujtaba Kiyani
About the Author: Ghulam Mujtaba Kiyani Read More Articles by Ghulam Mujtaba Kiyani: 34 Articles with 84458 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.