پروفیسر حفیظ الرحمن احسن

( ادب میں اسلامی تصورات کے فروغ میں مصروف عمل ممتاز ادبی اور علمی شخصیت)

پروفیسر حفیظ الرحمن احسن 9 اکتوبر 1934 ء کو ضلع سیالکوٹ کے نواحی شہر پسرور میں ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد مستری عبدالعزیز صاحب (مرحوم) کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا اس خاندان میں مذہبی اور اسلامی اقدار کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔ ابتدائی برسوں میں معاشی تنگ دستی کے باوجود آپ کی شخصیت پر کبھی اس کا احساس غالب نہیں رہا بلکہ آپ نے بچپن کے ابتدائی سال نہایت خود اعتمادی اور خود داری کے ماحول میں بسر کئے ۔ آپ کے گھرانے کو ایک روشن خیال دینی اور علمی گھرانہ بھی قرار دیا جاسکتاہے کیونکہ آپ کو اوائل عمر میں ہی اپنے گھر میں مولانا ابوالکلام آزاد ٗ مولانا شبلی نعمانی ٗ مولانا عطا اﷲ شاہ بخاری ٗ چوھدری افضل حق ٗ مولانا ظفر علی خاں ٗ مولانا اشرف علی تھانوی ٗ مولانا شبیر احمد عثمانی ٗ مولانا احمد علی ( لاہوری) مولانا سیدابوالاعلی مودودی کی تصانیف میسر رہیں جن کا مطالعہ آپ کے ذوق و شوق میں ہمیشہ ان کی دلچسپیوں میں شامل رہا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کردار سازی کے اعتبار سے بچپن اور لڑکپن کی عمر کو ہی نہایت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اگر اس عمر میں انسانی سرگرمیاں مثبت اور اسلامی اقدار کے مطابق ہوں تو مزاج میں شامل ہونے والی یہ خوبیاں پوری زندگی انسان کو صحیح راستے پر گامزن رکھتی ہیں ۔اسے بھی خوش قسمتی قرار دیا جاسکتاہے کہ دینی ماحول کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنے گھر میں علمی اور ادبی فضا بھی میسر رہی ۔ یہ بات اس طرح پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ آپ کے ماموں" حمید نجمی "اپنے وقت میں لاہور کے ادبی حلقوں میں افسانہ نگار کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ نجمی صاحب1942 تا 1946ء لاہور میں قیام کے دوران حضرت احسان دانش سمیت ممتاز ادیبوں اور شاعروں سے بھی ان کے مراسم قائم رہے۔ لاہور سے شائع ہونے والے رسائل میں( جن میں ایوننگ سٹار ٗ ہفت روزہ اداکار ٗ ویکلی تیج شامل تھے ) ان کے افسانے اور تحریریں شائع ہوتی رہیں ۔ ماہنامہ بیسویں صدی( جو دھلی سے شائع ہوتا تھا) اس کے صفحات پر بھی کئی تحریریں شامل اشاعت ہوئیں ۔ " حمید نجمی " بعض رسالوں کے معاون مدیر بھی رہے ۔ ان کے دوافسانوی مجموعے مرتب ہوچکے تھے لیکن اشاعت کی نوبت نہ آسکی- ایک مجموعے کا نام " گریہ و تبسم " تھا ۔

ماموں کی ان ادبی سرگرمیوں اور مشاغل نے پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے ٗکیونکہ آپ کو ان کی ذاتی لائبریری میں اس دور کے تمام ادبی رسالوں کے ساتھ ساتھ ہفت روزہ " پھول " باقاعدگی سے نہ صرف آتا تھا بلکہ اس کے شماروں پر مشتمل کچھ جلدیں بھی محفوظ تھیں جن میں شائع ہونے والی مضامین اور نظمیں اوائل عمر میں ہی آپ کی دلچسپی کا مرکز رہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بچپن میں ہی گھر سے ملنے والے ادبی اور علمی ماحول نے آپ کی شخصیت پر گہرے نقوش مرتب کئے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کا ذوق مطالعہ بھی پروان چڑھتا رہا۔ حضرت علامہ محمداقبالؒ ٗ کے افکار اور شاعری کو بھی پڑھنے کا موقع میسر آیا ٗ آپ کے مطالعے میں انگریزی ادب کے بعض تراجم بھی آئے ۔اسی طرح میٹرک کی عمر کو پہنچنے تک آپ ملک کی بہت سی دینی ٗ ادبی اور سیاسی شخصیات کے بارے میں خاصی آگا ہی حاصل کرچکے تھے ۔

آپ کے ادبی ذوق کی تربیت میں گورنمنٹ ہائی سکول پسرور کے استاد گرامی جناب طاہر شادانی ٗ رائے احمد دین ٗ محمد منیر اور مرے کالج سیالکوٹ کے پروفیسر آسی ضیائی کا بہت عمل دخل رہا۔ زندگی کے اسی دورمیں مولانا سیدابوالاعلی مودودی کی شخصیت ٗ تحریک اور افکار سے بھی آپ کو تعارف حاصل ہوا بعد ازاں یہی تعارف آپ کی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی عنصر کی حیثیت اختیار کرگیا ۔1949 میں شورش کاشمیری کا ہفت روزہ رسالہ" چٹان " ٗ " تعلیم تربیت "ٗ "بچوں کی دنیا" اور" ستارہ" ٗ اور" ہمارا پنجاب " بھی آپ کے مطالعے میں شامل ہوگئے ۔ یہی وہ دور تھا جب آپ نے حفیظ الرحمن غازی پسروری کے نام سے لکھنے کا آغاز کیا اور آپ کی مزاحیہ شعری نگارشات سب سے پہلے" ستارہ " میں شائع ہوئیں یہی تجربہ بعد میں شعر گوئی کی بنیاد بنا ۔ اس بنیاد کو مضبوط بنانے میں پروفیسر محمد خاں کلیم کی سرپرستی اور رہنمائی کا بہت دخل ہے ۔

میٹرک میں آپ اپنے سکول میں تیسرے نمبر پر آئے 1951ء میں مرے کالج سیالکوٹ میں داخلہ لے لیا لیکن سائنسی مضامین سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے ایف ایس سی میں کامیاب نہ ہوسکے ۔بعد میں شعبہ آر ٹس کی طرف متوجہ ہوئے اور انٹرمیڈیٹ کاامتحان اچھے نمبروں میں پاس کرلیا ۔ 1952 میں آپ نے اسلامی جمعیت طلبہ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی ۔ 1956 میں گریجویشن کا امتحان پاس کیا- پنجاب یونیورسٹی میں عربی کے مضمون میں آپ کی پہلی پوزیشن کی وجہ سے آپ کو وظیفے کا حق دار ٹھہرایا گیا اس طرح ایم اے عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ نے اسلامیہ کالج سول لائنز کے وسطے سے پنجاب یونیورسٹی اورئنٹیل کالج میں داخلہ لے لیا 1959 میں ایم اے عربی میں پنجاب یونیورسٹی کی سطح پر آپکی پوزیشن تیسری تھی ۔ 18 دسمبر 1959 کو آپ نے زندگی کی پہلی تدریسی ملازمت کا آغازگورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج ( لائل پور ) فیصل آباد میں بطور عربی لیکچرار کیا ۔ ستمبر1962 ء میں آپ کا تبادلہ گورنمنٹ کالج سرگودھا ہوگیا یہیں پر اس عارضی ملازمت کااختتام ہوا ۔ پھر ستمبر 1963 میں مرے کالج سیالکوٹ میں بطور عربی استاد دوبارہ ملازمت کا آغاز کیا ۔ تدریسی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ آپ نے حصول تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔ چنانچہ 1965 میں آپ نے ایم اے اردو کا امتحان بھی درجہ دوم میں پاس کرلیا ۔ 1966 میں مرے کالج کی ملازمت چھوڑ کر مستقل طور پر آپ لاہور میں قیام پذیر ہوگئے ۔ یہاں ایک سال تک اشاعت تعلیم کالج میں تدریسی فرائض انجام دیے ۔ 1965 ء ہی میں آپ نے اپنے ممتاز اور معروف اشاعتی ادارے " ایوان ادب " کی بنیاد رکھی ۔ اسی ادارے کے زیر اہتمام پروفیسر آسی ضیائی ٗ پروفیسر طاہر شادانی ٗ پروفیسر محمد حنیف ٗ پروفیسر عبدالحمید ڈار ٗ پروفیسر امین جاوید جیسے رفقائے کار کے اشتراک عمل سے آپ نے کئی دھائیوں تک شعبہ اردو ٗ سیاسیات اور معاشیات میں حکمرانی کرنے والی کتب کی اشاعت اور ترویج کا سلسلہ جاری رکھا یہ تمام کتابیں اپنے دور کی بہترین تدریسی کتب سمجھی جاتی تھیں۔ لاکھوں کی تعداد میں طلبہ و طالبات نے ان کتابوں سے استفادہ کیا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آپ کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے " ایوان ادب ' کی شائع کردہ یہ کتابیں چالیس سال تک تدریسی اور تعلیمی حلقوں میں اہم دستاویز کی حیثیت سے تسلیم کی جاتی رہیں ۔1980ء میں ابتدائی اردو کی تدریس کے لیے " اردو کا خوبصورت قاعدہ " اور " اردو کی خوبصورت کتاب اول و دوم " بھی آپ کی تحقیقی اور تخلیقی کاوشوں میں شامل ہے ۔ اس میں پروفیسر محمدارشد خان بھٹی اور ان کی اہلیہ بھی شریک رہیں۔

دور طالب علمی میں آپ مرے کالج میگزین کے طالب علم مدیر بھی رہے جبکہ 1955 تا 1956 ء محمد سرور قریشی کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے " الفقر " سے بطور مدیر معاون ایک سال تک منسلک رہے ۔1967 میں مظفر بیگ کی ادارت میں شائع ہونے والے ہفت روزہ " آئین" لاہور سے وابستہ ہوئے۔ اس رسالے سے آپ کی وابستگی کئی سال تک چلتی رہی ۔ رسالہ آئین کے لیے آپ نے مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی بے شمار تقاریر ٗ خطابات اور دروس قرآن و حدیث ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے مرتب کرکے شائع کئے ان مرتب کردہ دورس حدیث کے تین مجموعے " کتاب الصوم " ٗ " فضائل قرآن " اور " کتاب الدعوات " کے نام سے شائع ہوچکے ہیں ۔ سید مودودی ؒ کی عصری مجالس کی گفتگوؤں کو" 5-A ذیلدار پارک جلد سوم "کے نام سے مرتب اور شائع کیا۔

1970 ء کی آخری سہ ماہی میں آپ ماہنامہ " سیارہ " ڈائجسٹ سے بھی وابستہ ہوگئے ۔ مختصر ترین عرصے میں اہم موضوعات پر آپ نے متعدد یاد گار تحریریں رقم کیں۔

1976 میں جناب نعیم صدیقی کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی اور اسلامی رسالے " سیارہ " سے وابستگی کا آغاز ہوا ۔ اسلامی روایات کا امین یہ رسالہ ضخیم اشاعتوں کی صورت میں شائع ہوتا ہے ۔ اپنی نوعیت کا پاکستان بھر میں یہ واحد ضخیم رسالہ ہے جو گزشتہ 37 سالوں سے ادب اسلامی کے فروغ کے لیے مسلسل کام کررہا ہے اس رسالے کا یہ امتیاز اور اختصاص اہل نظر سے پوشیدہ نہیں کیونکہ برصغیر پاک و ہند کے علمی اور ادبی حلقوں میں سیارہ کی اس ادبی خدمات کو نہ صرف تسلیم کیا جا تا ہے بلکہ اس کے معیار کو نہایت قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ اس رسالے میں نہ صرف پاکستان کے ممتاز ادیبوں اور شاعروں کی پر تاثیر تحریریں شائع ہوتی ہیں بلکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں اردو زبان میں اسلامی ادب کے فروغ میں مصروف اہل قلم حضرات کے تحقیقی مضامین اور تخلیقات بھی نہایت اہتمام سے شائع کی جاتی ہیں ۔ مہنگائی اور خود غرضی کے اس دور میں ضخیم اشاعتوں پر مشتمل رسالے کی اشاعتوں کو جاری رکھنا بھی کسی جہاد سے کم نہیں ہے کیونکہ جو بات تلوار سے نہیں کہی جاسکتی وہ الفاظ کی صورت میں انسانی ذہن و دل کو ضرور متاثر کرتی ہے ۔ پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کی رائے میں اسلامی ادب سے مراد وہ ادب ہے جو اسلام کے تہذیبی تصورات اور اخلاقی اقدار کو تقویت پہنچاتا ہو ۔

آپ کے بقول جہاں آپ کی شخصیت پر والدین کی تربیت اور اساتذہ کی رہنمائی کا بہت دخل ہے وہاں مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی شخصیت ٗ تحریک ٗ اور علمی کاموں سے آگاہی نے بھی آپ کے شخصیت میں حد درجہ نکھار پیدا کیا ۔ مولانا کے افکار ٗ ان کی رفاقت اور قربت کے اثرات آپ کی شخصیت پر نمایاں طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں ۔ آپ کے نزدیک مولانا مودودی اردو کے سب سے بڑے نثر نگار تھے ۔
زمانہ طالب علمی میں ایک اور شخصیت (پروفیسر) محمد شریف کھوکھر کی رفاقت اور رہنمائی ان کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ تھی ۔ وہ آغاز شباب ہی میں دین و ادب پر وسیع نظر رکھتے تھے محمد شریف کھوکھر انٹرمیڈیٹ میں ان کے ہم سبق تھے پھر ایک دور وہ بھی آیا جب رفیق کار کی حیثیت سے مرے کالج کے شعبہ تدریس سے وابستہ رہے ۔ محمد صلاح الدین شہید ( مدیر ہفت روزہ تکبیر کراچی ) کی شخصیت اور شہادت نے بھی آپ کو بے حد متاثر کیا۔ آپ کے رفقا ئے کار میں سکول کے زمانے کے دوست جناب خالد حسین گل ٗ جناب محمد یونس گوہر کے علاوہ جناب محمد انور میر ( مرحوم )جناب پروفیسر محمدشریف کھوکھر ٗ جناب زکی زاکانی ( مرحوم) ٗ پروفیسر جعفربلوچ (مرحوم) ٗ ڈاکٹر تحسین فراقی ٗ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی وغیرہم ان کے احباب میں شامل ہیں ۔

آپ کی تخلیقات اور تصنیفات میں آپ کا شعر ی مجموعہ فصل زیاں ٗ ننھی منی خوبصورت نظمیں ( بچوں کے لیے شاعری ) ٗ موج سلسبیل ( حمد و نعت ) ٗ ستارہ شام ہجراں کا ٗ اورنوائے راز ( غزلیں ) شامل ہیں ۔ بو قلم کے عنوان کے تحت علمی اور ادبی مضامین بھی منتظر اشاعت ہیں ۔ 1965 کی رزمیہ نظموں کے اولین مجموعہ" گلبانگ جہاد " کی اشاعت کا کریڈٹ بھی آپ کو جاتا ہے ۔متحدہ پاکستان کے آخری دور میں ایک کتاب " جماعت اسلامی اور مشرقی پاکستان " کے نام سے بھی مرتب کرکے شائع کی۔

آپ کے نزدیک حضرت علامہ محمد اقبال دور حاضر کے ممتاز ترین مفکر اور شاعر ہیں کیونکہ انہوں نے جس طرح اسلامی اقدار و تصورات اور تعلیمات کو شعر کی زبان عطا کی ہے وہ انہیں اس دور کے سب سے بڑے اسلامی ادیب کے منصب پر فائز کرتی ہے بلکہ برصغیر پاک و ہند میں ادب اسلامی کی تحریک کا بنیادی تصور اقبال ؒ ہی کا آفریدہ ہے ۔اسی طرح مولانا سید ابو الا علی مودودی ؒ کی ذات بیسویں صدی کی سب سے بڑی دینی شخصیت تھی جواردو کے بھی باکمال نثر نگار ہیں انکی فکر سے متاثر ہوکر پورے عالم اسلام میں اسلامی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور اسلام کے روشن مستقبل کی علامت بن رہی ہیں ۔

اگست 1960 کو آپ کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہوا ۔ اﷲ تعالی نے آپ کو چار بیٹیوں اور تین بیٹوں سے سرفراز کیا پہلا بیٹا اپنی پیدائش کے ایک ہفتے بعد ہی داغ مفارقت دے گیا جبکہ دوسرا بیٹا بلال فاروق میٹرک کی تعلیم کے دوران فوت ہوگیا یہ آپ کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا لیکن اسلامی ماحول میں تربیت اور رب کائنات پر کامل ایمان کی وجہ سے آپ نے یہ صدمہ نہایت صبر اور استقامت سے برداشت کیا ۔ اناﷲ و انا الیہ راجعون ۔

بہرکیف تیسرا بیٹا سلمان فاروق ایم بی اے کرنے کے بعد نہ صرف اچھی ملازمت کررہاہے بلکہ 20 دسمبر 2008 کو رشتہ ازدواج میں بھی بند ھ چکا ہے ۔اب تو ماشاء اﷲ سلمان کے گھر بچوں کی رونق بھی لگ چکی ہے ۔پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کے بقول سب بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان کی والدہ کا زیادہ حصہ شامل ہے۔ گھر میں ملنے والا پاکیزہ اور دینی ماحول بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کی زندگی میں چند واقعات ایسے بھی رونما ہوئے جن سے آپ شدت سے متاثر ہوئے ۔ ان واقعات میں پہلا واقعہ جب گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ کر پاکستان کو اندھیرے غار میں دھکیل دیادوسرا واقعہ ایوب خاں کی جانب سے مارشل لا کے نفاذ کا تھا جبکہ تیسرا المیہ سقوط مشرقی پاکستان کا تھا چوتھا صدمہ انگیز لمحہ وہ تھا جب 1979ء میں مولانا مودودی اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ اﷲ تعالی نے آپ کو مارچ 1990 میں عمرہ کی سعادت بخشی ۔ حرم بیت اﷲ اور مسجد نبوی میں جو وقت گزرا وہ آپ کی زندگی کا سب سے اہم اور قیمتی ترین سرمایہ ہے ۔

آپ نے اپنی پوری زندگی کو دین کی ترویج ٗ اسلامی ادب کے فروغ اور معاشرتی فلاح کے لیے وقف کئے رکھا ۔حالانکہ یہ شہرت کا دور ہے ہر لکھنے والا اپنی اوقات اور بساط سے بڑھ کرشہرت کا تقاضا کرتا ہے لیکن پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کی شکل میں یہ عظیم شخص نہ صرف بہت اچھا شاعر ٗ معیاری ادب کا نقیب اور سرچشمہ فیض تھا لیکن زمانے کی بدلتی ہوئی قدروں کے ساتھ دوڑنے کی بجائے اپنی ہی ذات تک محدود زندگی گزار رہا تھا ۔ اسلامی ادب اور روایات کے امین اس شخص کی زندگی علم و ادب کے ہر طالب علم کے لیے روشنی کا مینارتھی جس کی روشنی انسانی دلوں کو نہ صرف ایمان کی قوت فراہم کرتی ہے بلکہ پاکیزہ علمی و ادبی روایات کو پروان چڑھانے کا عزم اور حوصلہ بھی عطا کرتی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی قوم کا یہ بڑا اعزاز ہے کہ پروفیسر حفیظ الرحمن احسن عظیم لوگ ہمارے درمیان موجودرہے وہ سرچشمہ علم ہی نہیں سرچشمہ فیض بھی تھے ۔( مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے دس برس ان کی سرپرستی میں گزارے۔ پڑھنے ، لکھنے اور سوچنے کی میری صلاحیت بڑی حد تک انہی کی مرہون منت ہے ۔(میں آج جو کچھ بھی ہوں ان کی دعاؤں ، تربیت ٗ رہنمائی اور عنایتوں کا ثمر ہے)۔وقت گزرتا رہا اور وہ کمزور سے کمزور ہوتے چلے گئے ‘ کہایہ جاتا ہے کہ معدے کی موذی بیماری نے ان سے کھانا کھانے کی صلاحیت بھی چھین لی تھی ‘کسی بھی انسان کی صحت میں خوراک کا بہت عمل دخل ہوتا ہے ‘ جبکہ معدے میں خوراک ہی نہ جائے تو انسانی ڈھانچہ بلاشبہ زمین بوس ہونے میں دیر نہیں کرتا ‘ شدید علالت کے دوران بھی میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں ۔وہ مٹھاس کو زیادہ پسند کرتے تھے ‘ پھلوں میں کیلے ان کی مرغوب غذا تھے ‘ میں ان سے ملاقات کے لیے جب جاتا تو اپنے کیلے ‘ پیسٹریاں اور کیک وغیرہ لے جاتا ‘ جنہیں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتے اور فرماتے میرے لیے اتنا تکلیف کیوں کرتے ہو۔ میں عاجزانہ انداز میں کہتا سر یہ تو کچھ بھی نہیں ہے مجھ پر آپ کے بے شمار احسانات ہیں ‘ آپ ہی کی تربیت نے مجھے پاکستان سے سب قدیمی اور مستنداردو ڈائجسٹ میں بطور سب ایڈیٹر /پبلک ریلینشز منیجر کی حیثیت ملازمت کے مواقع میسر آئے جو بعد میں میری زندگی اثاثہ بن گئے ۔جب ارد و ڈائجسٹ کی جانب سے پہلی تنخواہ ملی تو میں تین سو روپے کی مٹھائی لے کر جب ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو پوچھا یہ مٹھائی کس خوشی میں لائے ہو ۔ میں نہایت ادب سے کہا جب ایوان ادب میں ‘ میں نے آپ کے پاس جزو قتی ملازمت شروع کی تھی تو اس وقت میری پہلی تنخواہ 300تھی چنانچہ میں تین سو روپے کی مٹھائی ان خوبصورت لمحات کی یاد منانے کے لیے لایا ہوں ۔ میری اس بات پر وہ مسکرائے اور فرمایا تم جیسا شاگرد بھی کسی قسمت والے کو ہی ملتا ہے ۔میں نے کہا میں آپ کا سیکرٹری بھی تھا ‘ شاگرد بھی تھا اور بیٹا بھی ہوں ۔اس بات پر ان کے چہرے پر تبسم ابھرا اور وہ خاموش ہوگئے ۔

بالاخر 22فروری 2020ء کو وہ منحوس گھڑی بھی آپہنچی جب وہ طویل علالت کے بعد قضائے الہی سے انتقال فرماگئے ۔ بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اﷲ کی ہی جانب لوٹ جانے والے ہیں ۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 658979 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.