تحریک انصاف کی موجودہ حکومت اپنے اوائل سے ہی مشکلات کا
شکار رہی ہے۔پورا عرصہ ڈیڑھ سال کرپٹ لوگوں کی نشان دہی اور انجام دہی میں
ہی کھوئی رہی ،کسی اور طرف دھیان رہاہی نہیں۔کرپٹ افراد کے گرد شکنجہ کسنے
اور اُنہیں اُن کے منطقی انجام تک پہنچانے کے بعد تھوڑاسا فارغ ہوئی ہی تھی
کہ آٹاچینی بحران کا شکار ہوئے اُس میں کھو سی گئی۔آٹا چینی بحران پر خاطر
خواہ حد تک قابو پایاہی تھا،کچھ سکون ملا ہی چاہتاتھاکہ دیارغیرسے آئے
وائرس ’’کرونا ‘‘نے آدھرلیا۔اب اِس سے نمٹنے کی تیاریوں میں مصروف دکھائی
دیتی ہے۔۔تحریک انصاف کی حکومت ہے کہ چین اِک پل آتا نہیں والی صورتحال سے
دوچار ہے۔اُوپرسے ستم ظریفی دیکھیئے کہ اِس ارض وطن کو مسلسل 40 سال سے
لوٹنے والا کرپٹ مافیا اِس کی جان کھائے ہوئے ہے جواِس کو چلنے نہیں دے
رہے۔اِس کی ہر اچھی راہ ہر بہتر کام میں رُوڑے اٹکا رہے ہیں۔اِس ملک کے
کرپٹ سیاستدان اور بے ایمان بیوروکریسی ’’اپنوں‘‘سے کیے گئے وعدوں اور
قسموں کے باعث اِسے مسلسل کھجل اور پریشان کیے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔آئے روز
افسران کی فوج ظفر موج کو بدلنے کی وجہ یہی ہے۔تحریک انصاف حکومت کی پوری
کوشش ہے کہ عوام کے لیے کچھ اچھا کیاجائے مگر اِس میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی
کرپٹ سیاستدان اور بیوروکریسی ہے جس کو عوام کی خدمت سے کوئی سروکار
نہیں،اِسے تو بس عوام کو کیش کروانا اور لوٹنا آتاہے۔کسی بھی طرح موجودہ
حکومت کے حق میں نہیں ہیں۔حکومت کا ساتھ دے کرملنے والے ’’مال مفت دل بے
رحم ‘‘سے محروم نہیں ہونا چاہتی۔عمران خان ارکان اسمبلی کو نوازے نہ
اوربیوروکریسی کا ’’حقاپانی‘‘بندکرنے کی باتیں کرے تو ایسے میں کیسے گوارا
ہے کہ کرپٹ سیاستدان اور بیوروکریسی عمران خان کا ساتھ دے۔عمران خان اِن سب
مشکلوں کے باوجود بھی چل رہاہے تو یہ بڑی بات ہے ۔کرپٹ ٹولے اور اُن کے
ہمنواؤں کی ہار ہے کہ اُن کے سارے حربے ،جتن ہوا ہوتے جارہے ہیں اورعمران
خان تمام تر مسائل کے باوجود کامیاب ٹھہر رہاہے اور کامیابی کی طرف ،خوشحال
اور بہتر پاکستان کی طرف قدم بڑھا چکاہے جو لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان
ناکام ہوچکا ہے اُن کی اپنی ہی نظریں خراب ہے۔حقائق کو جان بوجھ کر چھپارہے
ہیں یاصحیح صورتحال جانچنے کی صلاحیت سے یکسر عاری ہیں۔عمران خان جس برق
رفتاری کے ساتھ مسلسل محوسفر ہے اگر خدائی مددیونہی اُن کے ساتھ شامل حال
رہی تو کامیابی اُن کے قدم چومے گی۔دشمن ناکام ٹھہرے گا ۔عمران آج نہیں تو
کل ضرور اِس مملکت خداد داد پاکستان کا ہیرو ٹھہرے گا۔نام نہاد وظیفہ خور
دانشور کیا جانیں کہ جناب وزیر اعظم عمران خان صاحب کامیابی کے کس زینے پر
اور کیا پارہے ہیں۔جس طرح کی اب کے بار سول وعسکری پارٹنرشپ چل رہی ہے اگر
اِس کے تھوڑے سے بھی اوور کامیابی سے چل گیے تو ہر طرف فتح وکامرانی جیسا
ماحول میسر آئے گا۔ہرطرف شادمیانی ہی ہوگی۔سکون و اطمینان کا پہرہ
ہوگا۔خوشحالی کا ایک بار پھر سے دور دورہ ہوگاجس کے انتظار میں اکھیاں ترس
گئی ہیں۔سی پیک چل لینے دو،آم کے آم گھٹلیوں کے بھی دام ملیں گے۔ملک عزیز
کے تمام تر وسائل کا درست اور بروقت استعمال ہوگا۔تیل بھی وافر ہوگا۔گیس
بھی چھٹے مارتی ہوئی ملے گی۔عنقریب پاکستان کا معاشی نقشہ یکسر بدلنے والا
ہے بس ذراسا بہتر اورموافق ماحول مل لینے دو۔ذرااِن ننگ ملک وملت
سیاستدانوں اور غداروں سے نجات حاصل ہولینے دو،جو کھاتے بھی پاکستان کا اور
نقصان بھی اِسے پہنچاتے ۔تحریک انصاف کی حکومت تکالیف و مصائب سے کافی حدتک
باہر نکل آئی ہے اور اب بہتری کی طرف بڑھے عوام کے لیے کچھ بہتر اور اچھا
سوچنے کی جانب گامزن ہے۔بہت جلد عوام ملکی معیشت میں کافی حد تک بہتری
،روزگار میں اضافہ ،مہنگائی پر ہوتاہوا کنٹرول اپنی آنکھوں سے ملاحظہ
فرمائے گی۔UNBLEAVEABLE نا قابل یقین حد تک۔سب کچھ ٹھیک ہوگا۔ہر شخص کا
معیار زندگی بلندہوگااور ملک پاکستان کی شان بھی بڑھے گی۔تب موجودہ
حکمرانوں کے بیانات میں بھی بہتری اور تسلسل آئے گا۔مصلحتوں کے مارے یوٹرن
بھی اپنے ’’پیاگھر‘‘سدھار جائیں گے۔ ملک عزیزکو اسلامی فلاحی ریاست
اورریاست مدینہ بنانے کا جوکام سابق حکمران تمام تر بھاری مینڈیٹ ہونے کے
باوجود باامر مجبوری بتاکر نہ کرسکے ،وہ کام بھی ہوگا۔ہرکام ہوگامگر اپنے
اپنے صحیح اور درست وقت پر ۔بے وقت کی بانسری اور فضول ٹائم کے بجھتے ڈھول
کسی کام کے نہیں ہوتے۔ہرکام کے لیے ایک سازگار ماحول اور بہترین وقت درکار
ہوتاہے۔بہترین وقت اور سازگار ماحول میں ہی سب کچھ ممکن ہوگا۔پاکستان کو
حقیقی فلاحی ریاست بنانے میں دیر ضرور ہوسکتی ہے مگر بنے گی ضرور۔پاکستان
کی ہرسرکار اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے پرعزم رہی ہے مگرکچھ ایسے
عوامل اور مسائل آڑے آتے رہے کہ معاملہ کچھ یوں ہوتارہاکہ مرض بڑھتی گئی
جوں جوں دواکی۔پاکستان کے سابق وموجود حکمران پوری طرح اسلامی فلاحی ریاست
کے قیام کے لیے مخلص رہے مگر ایسا نہ کرپائے ،اِس کے پیچھے بہت سے محرکات
چھپے ہیں۔اِس کی بہت سی وجہ ہیں ،جسے میں احاطہ تحریر میں نہیں لانا
چاہتا۔اﷲ نے جن کومسند ِاقتدار کے لیے چنا تھا اور چناہے وہ اِس پر اِن کی
خواہشیں بھی جانتاہے اور اِن کی مجبوریوں سے بھی پوری طرح آگاہ ہے۔اسلامی
فلاحی ریاست کھوکھلے اور جذباتی نعرے لگانے سے نہیں بننے والی،نہ ہی اِس پر
لمبے چوڑے لیکچرز جھاڑنے سے یہ بننی،یہ جب بھی بننی ہے حکمت ودانائی سے
بننی ہے اور اِس پر قیام پاکستان سے لے کر اب تک مسلسل کام ہورہا،اﷲ نے
چاہاتو ان شااﷲ یہ قوم اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کو بھی دیکھے گی اور اِس
کے ثمرات لاالہ الااﷲ سے بھی بہرہ مند ہوگی۔ یہ شعور کا دور ہے ۔اب عوام
خالی خولی نعروں سے بے وقوف بننے والی نہیں ہے ۔لوٹ کھسوٹ اور پارٹیاں بدل
کر عوام کو بے وقوف بنانے والوں سے خوب واقف ہوچکی ہے۔قومی خزانے کو لوٹنے
،نقصان پہنچانے کا انجام کیاہوا،قوم دیکھ چکی اور دیکھ رہی ہے۔لوٹ کھسوٹ کی
کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ،پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ابھی دیکھو ہوتاہے
کیا کیا۔ملک بھرمیں موجود دانشورقوم کو صحیح تصویر دکھا نہیں رہے اور
مفادانہ تحریروں اور خود تیار کردہ اسکرپٹوں کا ایک ڈھیر لگا ہواہے۔جس میں
ہرکوئی اپنی ہی ہانکیں جارہا ہے۔ملک کا مفاد کس میں ،قوم کی بہتری کہاں سے
کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ہر ایک اِسی ضد میں ہے کہ جومیں کہہ یا بول رہاہوں
،وہی ٹھیک باقی غلط ہے۔اپنے کہے بولے پر اصرار بنتا ہے جب آپ حقیقت سے آشنا
ہوں مگر تب نہیں جب آپ کچھ جانتے بھی نہ ہو اور خوامخواہ مبلغ اور مفسر بنے
بیٹھے ہو۔حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ کا سنہری قول ہے کہ لاعلمی کا اظہار
آدھا علم ہوتاہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم لاعلمی کا اظہار نہیں کرتے مگر
اپنے علم پر اڑ ساجاتے ہیں ڈھٹائی اور بے شرمی کی حد تک،چاہے جانتے کچھ بھی
نہ ہوں۔نہ جانتے ہوئے بھی سب جانتاکی روش پرقائم رہنا فتنہ کو جنم دیتاہے
اور ہر فتنہ فساد کی طرف لے جاتاہے اور فساد فی الارض ہوتاہے اور فساد فی
الاارض کا نتیجہ اچھانہیں ہوتا۔اِس لیے ہمیں چاہیئے کہ ہمارے تجزیے،تبصرے
ایسے ہوں کہ جس سے ملک وملت کی تعمیر ہو۔ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں
ہو۔کسی کے بغض اور حسد میں نہ لکھے گئے ہو۔تبھی بات بنے گی اور تبھی بات
ہے۔ مہنگائی کا مسئلہ آج کانہیں ہے برسوں سے چلا آرہاہے۔یہ سب کرپٹ مافیا
کا کیادھراہے۔کچھ دیار غیر میں پہنچ کر حقیقی سزاپاچکے اور کچھ اپنے دیس
میں ذلیل و رسوا ہورہے۔ قوم مہنگائی میں کمی کی نوید بھی جلد سنے گی۔اِس
حوالے سے عوامی ریلیف بہت جلد ملنے والاہے۔قرضوں کی بات نہ کی جائے ،یہ
پرانے 40 سال کے مہربانوں کاہی کیا دھراہے جو موجودہ ڈیڑھ سال کے
’’نکموں‘‘کے سر لاد اگیاہے۔قرضوں کے اختتام کے حوالے سے بھی جامہ پالیسی پر
عملدرآمد بارے سوچاجارہاہے۔ جہاں تک بات حکومتی اتحادیوں کی ناراضگی اور
اُن کے تحفظات و خدشات دور نہ کرنے کی ہے توبات یہ ہے کہ اتحادی حکومت سے
ناراض نہیں تھے اور نہ ہی ہیں بس عاشق اور معشوق کے کھیل میں اداؤں ،بے
وفائیوں ،غیروں پر کرم اپنوں پر ستم کے سلسلے کا پارٹ ون تھا جس کا پارٹ ٹو
چلنے کا اب دور دور تک کوئی امکان نہیں۔نظریں کہیں،نشانہ کہیں اتحادیوں کو
سمجھ آگئی ہوگی کہ اُن کو ساتھ رکھنے والے بھی اُن پر غضب کی نظر رکھتے
ہیں۔اُن سے بے بہرہ اور لاپرواہ نہیں۔بس اُن کی محبت میں مجبور ہوئے کچھ
کہہ نہیں پاتے۔40 سالہ گھٹن زدہ ’’پاک ‘‘ماحول میں یہ اب کے موجود تبدیلی
ہی ہرگھر میں خوشیاں لائے گی۔آج نہیں تو کل یہ دور ضرور آئے گا۔قوم کی
زندگیوں کو اجیرن بنانے والی شخصیات قصہ پارینہ کہلائے گی۔قوم کے مستقبل کو
داؤپر لگانے والے اپنی موت آپ مرجائیں گے۔اُن کے لیے گولی کی ضرورت ہوگی نہ
کسی خوراک کی۔نئے انتخابات سوچنا وی نہ،ابھی ابھی انتخابات ہوئے ہیں۔یہ ملک
اب فوری انتخابات کی کسی کی خواہش کاہرگز متحمل نہیں ہوسکتا۔چاہتے نا چاہتے
ہوئے بھی اب تو اِسی حکومت پرہی گزارا کرنا ہوگا۔یہ بات وقت کا تقاضابھی ہے
اور حقیقت بھی ۔جہاں تھوڑاسا صبرکیاہے وہاں کچھ اور سہی۔کیا مذائقہ ہے۔صبر
میں ازل ہے ۔ذراسی بات ہے مگر سمجھتے ہی نہیں۔پتا نہیں چاہتے کیا ہیں۔
|