22مارچ: عالمی یومِ آب !

 22مارچ کو ”عالمی یوم آب“ منایا جاتاہے جس کا مقصد تازہ اور صاف پانی کی اہمیت پر زور دینا اور دُنیا کو تازہ پانی کے ذرائع کے پائیدار انتظام کی طرف راغب کرنا ہے۔ 1992ء میں ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس میں کی جانے والی سفارش کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 22 مارچ 1993ء سے ہر سال ”عالمی یوم آب“ منانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دسمبر 2016ء میں جنرل اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے 2018ء سے 2028ء تک کے عرصے کو ایک بین الاقوامی عشرے کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا موضوع ”پائیدار ترقی کیلئے پانی کے حصول کیلئے عمل“ ہے۔عالمی سطح پر تیزی سے پانی کی قلّت کے باعث انسانی دشواریاں اور پریشانیاں بڑھ رہی ہیں۔ پانی کی اہمیت آئے روز بڑھ رہی ہے، تیسری جنگ بھی اب پانی پر ہونے جا رہی ہے۔ پاکستان میں پانی کے بحران کے حوالہ سے 2025ء ایک علامتی سنگ میل ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو اینڈ ی پی)، آئی ایم ایف، پاکستان کی کونسل فار ریسرچ ان واٹر اور ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) سب ہی متفق ہیں کہ 2025ء تک پاکستان میں ’پانی ختم ہو جائے گا‘۔ پاکستانی تحقیقی ادارے نے 1990ء میں تنبیہ کی تھی کہ ’پاکستان پانی کی کمی کے سنگین خطرے سے دوچار ہے‘۔ 2005ء میں اس ادارے نے بتایا تھا کہ پاکستان ’پانی کی قلت‘ کے شکار ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔یہ صورت حال وقت، مواقع اور وسائل کے مسلسل ضیاع کا نتیجہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں فی کس سالانہ 5200 کیوبک میٹر پانی دست یاب تھا جبکہ2018ء میں یہ شرح 1000 کیوبک میٹر سے کم ہوچکی۔2025ء تک یہ مزید کم ہو کر 500 کیوبک میٹر تک رہ جائے گی۔ پاکستان کے تمام بڑے شہر پانی کی شدید قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد کو 176 ملین گیلن سالانہ درکار ہے مگر اسے 84 ملین گیلن میسر ہے، کراچی کو 1100 ملین گیلن درکار ہے اور اسے سالانہ صرف 600 ملین میسر ہے، پشاور کی سالانہ ضرورت 250 ملین گیلن ہے جبکہ اسے صرف 162 ملین گیلن حاصل ہوتا ہے، لاہور کی سالانہ ضرورت 692 ملین گیلن ہے جبکہ اس کے پاس 484 ملین گیلن ہوتا ہے، کوئٹہ کی ضرورت 45 ملین گیلن ہے جبکہ اسے 28 ملین گیلن حاصل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں پندرہ میٹر (49 فٹ) سے بلند ڈیموں یا آبی ذخائر کی کل تعداد 153 ہے۔ پاکستان اپنی سرزمین سے گزرنے والے سالانہ 145 ملین ایکڑ فٹ پانی کا صرف10 فیصد ذخیرہ کر سکتا ہے۔ اسکے برعکس بھارت میں ڈیموں کی تعداد 3200 اور چین میں 8400 ہے۔ پاکستان کے پاس دو بڑے ڈیم ہیں جن کی استعداد 50 فیصد کم ہو چکی ہے۔ پاکستان ایک ماہ کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد کا حامل ہے جبکہ بھارت 220 دن، مصر 1000 دن، امریکہ 900 دن، آسٹریلیا 600 دن اور جنوبی افریقہ 500 دن کے لیے پانی کا ذخیرہ کر سکتے ہیں۔دریائے جہلم پر منگلہ ڈیم (1965) اور دریائے سندھ پر تربیلہ ڈیم (1968-1976) ورلڈ بینک کی مالی معاونت سے تعمیر کیے گئے، جس نے بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ میں مصالحت کنندہ کا کردار ادا کیا تھا۔ تربیلہ ڈیم اپنے رقبہ اور ڈھانچے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے جبکہ پاکستان کا میرانی ڈیم سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کی استعداد کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے اور اسی اعتبار سے سبزئی ڈیم دنیا کا ساتواں بڑا ڈیم ہے۔ ان سات دہائیوں کے درمیان چھوٹے اور درمیانے درجے کے کئی ڈیم تعمیر کیے گئے۔ آزاد کشمیر میں نیلم جہلم ڈیم (2018)، سندھ میں دراوت ڈیم (2014)، چوٹیاری ڈیم (2002)، بلوچستان میں ولی تنگی ڈیم (1961)، اکرہ کار ڈیم (1995)، حب ڈیم (1986)، منگی ڈیم (1982)، میرانی ڈیم (2006)، نولونگ ڈیم (2015)، سبکزئی ڈیم (2007) تعمیر کئے گئے۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ میں ورسک ڈیم (1960) منگ ڈیم (1970)، خان پور ڈیم (1985)، ڈنڈی دم ڈیم (2011)، درگئی پل ڈیم (2010)، گومل زم ڈیم (2012)، الائی خوار ڈیم (2016)، دوبر خوار ڈیم (2013)، چنغوذ ڈیم (2007) اور نریاب ڈیم (2006) تعمیر ہوئے۔ پنجاب میں راول ڈیم (1962)، سملی ڈیم (1983)، جاوا ڈیم (1994) اور غازی بروتھا ڈیم (2003) میں تعمیر کیے گئے۔ ان میں سے بیشتر چھوٹے اور درمیانے درجے کے ذخائر ہیں۔پاکستان کی واٹر پالیسی اور دیامیر باشا ڈیم۔پاکستان کی پہلی واٹر پالیسی کا اعلان اپریل 2018ء میں ہوا۔ 2005ء میں ورلڈ بینک کی تحقیقی رپورٹ کے بعد اس کا پہلا مسودہ تیار ہوا، 2010ء تک اس کی نوک پلک درست ہوتی رہی، 2012ء میں اس پالیسی کا حتمی مسودہ تیار ہوا جو 2015ء تک بحث و مباحثہ اور نظرثانی کے مراحل سے گزرتا رہا۔رپورٹ کے مطابق، ’انڈس سسٹم کا 50 فیصد پانی کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ضائع ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں سالانی 22 ملین ڈالر کا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ جب کہ کینیڈا میں 80 ہزار کیوبک میٹر پانی ہر شہری کے لئے دستیاب ہے جبکہ امریکہ میں ہر شہری کے لئے 8 ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔ ایران، افریقہ اور عرب ممالک میں صاف پانی کی شدید قلت نے معاشی اور سماجی طور پر پریشان کن ہلچل پیدا کر رکھی ہے۔ افریقہ کے بیشتر ممالک میں خشک سالی کی وجہ سے ہزاروں افراد کی ہلاکتیں ہوئی ٗ اس کے علاوہ ایتھوپیا اور کینیا کے بیچ پانی کا تنازع بھی دُنیا کے سامنے ہے۔اقوامِ متحدہ کے ماحولیات کا ادارہ اپنی ہر تحقیقی رپورٹ میں پانی کے بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتا چلا آرہا ہے۔ عالمی ادارہ ماحولیات کی ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ تقریباً 4 ہزار کیوبک کلومیٹر صاف پانی کُرہ ارض سے کم ہوتا جا رہا ہے اور پانی کے بحران کی وجہ سے دُنیا کی آبادی کا 18 فیصد حصہ صاف پانی سے محروم ہوچکا ہے۔ اکثریت گدلا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے خاص کر بچوں میں پیٹ کی بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں اور ہر بیس سیکنڈ میں ایک بچہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آلودہ پانی پینے سے ہونے والی بیماریوں سے سالانہ 35لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔2002ء سے لے کر اب تک بھارت پاکستان آنے والے دریاؤں پر 52 سے زائد ڈیم تعمیر کر چکا ہے۔ پاکستان میں دو ہی بڑے ڈیم ہیں تربیلا اور منگلا ان میں بھی سطح آب انتہائی نچلی سطح پر ہے۔آزاد کشمیر کے دریاؤں کا پانی بھی تشویش ناک صورتحال سے دو چار ہے۔موجودہ صورتحال پرقابو نہ پایا گیا تو پاکستان میں اگلے انیس سال بعد یعنی 2038ء میں چالیس فیصد عوام کو پانی دستیاب نہیں ہوگا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 80 فیصد بیماریاں آلودہ پانی پینے کے باعث ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے اور 85 فیصد عوام آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ درجہ حرارت کے بڑھنے سے پاکستان کے لیے پہلا خطرہ ہمالیائی گلیشیئرز ثابت ہوں گے۔ ان گلیشیئرز سے دُنیا کے کئی بڑے دریا مثلاً دریائے سندھ، گنگا، برہم پترا، سلوین، میکا ونگ، یانگ ژی اور زرد دریا نکلتے ہیں، جن کا پانی پاکستان، بھارت، چین اور نیپال میں زندگی کو رواں دواں رکھنے کا باعث ہے۔گرمی کے بڑھنے سے یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھلیں گے اور ان دریاوں میں طغیانی کی کیفیت پیدا ہو گی جس سے کناروں پر آباد لاکھوں افراد کو سیلاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا۔انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ ”جنوبی ایشیا موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ 2050ء تک وہ اپنی 50 فی صد گندم کی پیداوار کھو سکتا ہے۔“وادی سندھ کی پوری زراعت خطرے سے دوچار ہے، جس کا نتیجہ زراعت پر براہ راست اور بالواسطہ اثرات کی صورت میں نکلے گا جو اربوں ڈالرز کے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ خطرہ 10کروڑ سے زاید افراد پر براہ راست اور 20 کروڑ افراد کی انتہائی تیزی سے بڑھنے والی آبادی پر بالواسطہ اثرات مرتب کرے گا، جو 2035ء تک بڑھ کر24 کروڑ ہوجائے گی۔ بڑھتی ہوئی آبادی، شہروں کی طرف نقل مکانی، موسمیاتی تبدیلیوں اور حکومتوں کی کوتاہیوں نے پاکستان کو پانی کی شدید قلت کے شکار 33 ممالک کی طرف دھکیل دیا ہے۔ عالمی معیار کے مطابق کم از کم 120 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے جبکہ ترقی یافتہ ممالک ایک سے دو سال کیلئے پانی ذخیرہ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں دریاؤں کا صرف 10 فیصد پانی ہی ذخیرہ ہو پاتا ہے۔بھارتی آبی دہشت گردی سے بچ کر ملکی دریاؤں میں آنے والے پانی میں سے بھی 28 ملین ہیکٹر فٹ پانی ضائع ہو کر سمندر میں چلا جاتا ہے۔ہمارے دریاؤں میں 144 ملین ہیکٹر فٹ پانی آتا ہے جس میں سے صرف 13.8 ملین ہیکٹر فٹ پانی ذخیرہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سالوں میں آنے والے سیلابوں کی وجہ سے 38 ارب ڈالر کے نقصانات ہوئے ہیں۔ ہمارے پانی کے ذخائر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتے جارہے ہیں جن کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اچانک سیلاب یا خوشک سالی بھی ہو سکتی ہے جس سے نمٹنے کیلئے ڈیمز کا ہونا ناگزیر ہے۔پاکستانی دریاؤں چناب اور جہلم پر بھارت نے بگلیہاراورکشن گنگا جیسے ڈیم بنا لیے بہاؤ کی نچلی سطح پر گزشتہ 10برس کے کم ترین بہاؤ 14400کیوسک پر بہہ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کا 65فی صد رقبہ متاثر ہو رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کو دریائی پانیوں سے 2020ء تک مکمل محروم کر دینا چاہتا ہے۔ ہمیں وطن کو بنجر ہونے سے بچانے کیلئے فوری ٹھوس اور سنجیدہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
 

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 192 Articles with 170265 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.