عصرِ حاضر میں اکثر انسانیت کو سکون قلب میسر نہیں، سکون
قلب ایک ایسی نعمت ہے جس کے حصول کی ہر کوئی کوشش کرتا ہے اور یہ کوشش تب
انقلاب لاتی ہے جب انسان دنیا سے تھک ہار کر حصارِ روحانیت میں آجاتا ہے،
تب وہ انسان انتہائی پرسکون اور پر اطمینان ہوجاتا ہے اور تب ہی وہ شخص
"أنعمت عليهم" یعنی انعام یافتہ لوگوں کے زمرے میں آجاتا ہے... انہیں انعام
یافتہ لوگوں میں سے ایک بہت بڑے بزرگ حضرت علامہ مولانا الحاج الحافظ محمد
فیض الرحمن کوثر انتالوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ہیں، جنہوں نے مایوسی و
محرومی کا شکار لوگوں کو نہ صرف اس بیزاری سے نکال کر صراطِ مستقیم پر
چلایا بلکہ انہیں سکونِ قلب سے بھی مالامال فرمایا آپ بَیَک وقت شریعت،
طریقت اور معرفت میں اپنی مثال آپ تھے…
8 ربیع الاول ١٣٥٤ھ/ 10جون 1935ء کا واقعہ ہے کہ اللہ تعالی نے "حضور سیدی
قطب عالم حضرت خواجہ جان محمد کریمی تونسوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ" کے
خاندان کو مزید وسعت بخشی اور چراغ سے چراغ روشن ہوا کہ آپ کے فرزند "خزینہ
کرم، حضرت خواجہ کرم الدین حامدی اُنتالوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ" کے ہاں
ایک باسعادت بچے کی ولادت ہوئی، اس مولودِ مسعود کا اسمِ گرامی" فیض
المصطفی محمد فیض الرحمن" تجویز ہوا آپ کی کنیت "ابو محمد" اور لقب "کوثر"
ہے…
حضرت خزینہ کرم رحمۃ اللہ تعالی علیہ بہت بڑے ولی اللہ تھے یہ ان ہی کا فیض
تھا کہ حضرت خواجہ حافظ محمد فیض الرحمن رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی بلندیوں
کو چھوا… آپ کا بچپن والد گرامی کے سایہ عاطفت میں ہی گزرا، ان کی فراست
باطنی نے معلوم کرلیا کہ اس نونہال کی جبینِ سعادت میں نورِ ولایت گرمِ
تابش ہے اس لیے فیضانِ باطنی سے ننھے محمد فیض الرحمن کو خوب خوب سیراب
کیا، گویا آپ کے استاذ اور مرشد اول حضرت خواجہ کرم الدین رحمۃ اللہ تعالی
علیہ جیسے جلیل القدر عارف زمانہ تھے…
جب آپ کی عمر چار سال چار ماہ اور چار دن کی ہوئی تو آپ کو انتالی شریف کے
مقامی مکتب میں ابتدائی تعلیم کے لیے بٹھا دیا گیا آپ مارچ1947ء تک اسی
مکتب میں زیر تعلیم رہے…
آپ حضرت حافظ صالح محمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے 1949ء میں حفظ القرآن
الكريم فرما کر پھر والد گرامی کے پاس ہی تحصیل علم میں مشغول ہوگئے، بعد
ازاں 1951ء کو بصیر پور شریف میں صاحب فتاوی نوریہ نائب ابوحنیفہ حضرت
علامہ مولانا ابوالخیر مفتی محمد نور اللہ نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے
پاس متلاشی علم بن کرحاضر ہوئے جہاں آپ نے علم قرات، علم تفسیر، علم حدیث،
علم شریعت، علم طریقت غرض کوئی مروجہ علم ایسا نہ تھا جو آپ نے اس دور کے
باکمال اساتذہ سے حاصل نہ کیا ہو، بالخصوص علم تفسیر کیلئے آپ شیخ القرآن
حضرت علامہ عبدالغفور ہزاروی رحمۃاللہ تعالی علیہ کے پاس حاضر رہے اور
1998ء میں تفسیر قرآن کی تکمیل پر سند بھی حاصل کی، آپ نے 1959ء میں
دارالعوام حنفیہ فریدیہ بصیرپور شریف سے سند فراغت حاصل کی، علم کی تشنگی
کا یہ عالَم تھا کہ زندگی کے آخری ایام تک حضور فقہ اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی
علیہ سے مکتوبات کے ذریعے تعلیم کا سلسلہ جاری رہا، آپ کی علمی شان یہ تھی
کہ آپ کے علمى جواہر پر ابوالخیر مفتی نور اللہ نعیمی صاحب کو بھی بڑا ناز
تھا، آپ کا شمار دارالعلوم حنفیہ فریدیہ کے ان نامور فضلاء میں کیا جاتا ہے
جن پر خود علم کو ناز تھا…
آپ انفرادی اور امتیازی شان کے مالک تھے، آپ خاموش طبع تھے مگر جب گفتگو
فرماتے تو عمدہ اور شیریں بیان فرماتے، حیاءداری کا یہ عالَم تھا کہ جب گھر
سے نکلتے تو چہرہ مبارک کو کپڑے سے ڈھانپ لیتے، چلتے ہوئے نظریں نیچی رکھتے
اور رفتار میں پروقار تیزی ہوتی تھی…
آپ کے انوار باطن آپ کے چہرہ انور پر نمایاں تھے آپ کے خصائل و شمائل سے آپ
کی ولایت نمایاں تھی، حضرت خواجہ حافظ فیض الرحمن رحمہ اللہ تعالی علیہ نے
اپنے والد مکرم حضرت خواجہ کرم الدین رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے بیعت کی،
حضرت خزینہ کرم کو بھی اپنے اس فرزند پر بےحد ناز تھا آپ نے حافظ صاحب رحمۃ
اللہ تعالی علیہ کو مجاز بیعت کرکے اپنا ولی عہد سجادہ نشین مقرر فرما دیا،
اس طرح آپ اپنے آباؤ اجداد کی علمی و روحانی وراثت کے امین بنے…
محمد منشاء تابش قصوری اشرفی صاحب فرماتے ہیں کہ "میرا وجدان کہتا ہے کہ
انتالی شریف اپنے نام کی نسبت سے ایک دن انتالیس اولیاء کرام کا مرکز ثابت
ہوگا ان شاءاللّٰه عزوجل"...
برگزیدہ لوگ وراثت میں مال و منال نہیں چھوڑتے، یہ فانی شی ہے، حضرت حافظ
صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے ہر عمل کو اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے سانچے میں ڈھالا اور خاندانی ورثہ کے حقدار ٹھہرے، گویا کہ روحانیت
کی ابدی دولت آپ کو جدامجد حضور سیدی قطب عالم رحمۃ اللہ علیہ سے بلاواسطہ
مقدر ہوئی…
جد اطہر کو عطا سرکار تونسہ نے جو کی
اس عطائے خاص کے حقدار فیض العارفین
(صاحبزادہ محمد فیض الحبیب اشرفی)
ان دنوں گنج کرم، حضرت پیر سید محمد اسماعیل شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ
آسمان ولایت پر آفتاب بن کر چمک رہے تھے، حضرت خواجہ کرم الدین رحمۃ اللہ
تعالی علیہ نے اپنے اس ولی عہد کو ان کے دست حق پر بیعت کروادیا، مولانا
محمد یار قادری بیان کرتے ہیں کہ حضرت پیر سید اسماعیل شاہ بخاری رحمۃ اللہ
تعالی علیہ نے فرمایا کہ...
"حافظ محمد فیض الرحمن خالص دودھ ہیں ان کو صرف جاگ لگانے کی ضرورت ہے"
مرشدِ حق کی نگاہِ کیمیا اثر نے آپ کے دل میں انقلابِ عظیم برپا کردیا…
آپ کی گفتگو میں تقوی کا جمال، علم کی مہک، اور عمل کی چاشنی تھی آپ نے
جہاد بللسان بھی کیا اور جہاد بلید بھی، جہاں کہیں خلاف شَرع کام دیکھتے،
روک دیتے، انتالی شریف کے کسی گھر میں رمضان المبارک میں دن کے وقت کھانے
کے لیے اگر تنور یا چولہا جلایا جاتا تو آپ روکتے پھر بھی اگر کوئی باز نہ
آتا تو تنور یا چولہا توڑ دیتے، اسی طرح جوا کی محافل نہ ہونے دیتے…
ایک رات دارالعلوم انتالی شریف کے ایک کمرہ (خام) کو چوروں نے نقب لگائی،
طلباء کا کچھ سامان اٹھا کر بھاگنے لگے تو اندھے ہوگئے، وہ دارالعلوم کی
طرف لوٹتے تو انہیں سب کچھ دکھائی دیتا مگر جونہی بھاگنے کا ارادہ کرتے تو
اندھے ہوجاتے، ساری رات اسی کشمکش میں مبتلا رہے، بالآخر سامان چھوڑ کر چلے
گئے، دن ہوا تو حضرت صاحب کو بتایا گیا کہ رات چوروں نے نقب لگائی تو آپ نے
فرمایا…
"ساری رات بے چارے گرفتارِ بَلا رہے، آخر انہوں نے دل سے توبہ کی تو تمہارے
صاحب نے انہیں چھوڑ دیا"
اکتوبر 1959ء کو آپ کا پہلا نکاح ہوا، 7جنوری 1965ء کو آپ کی اس بیوی کا
انتقال ہوگیا… اگست 1965ء کو فقیہ اعظم ابوالخیر مفتی محمد نور اللہ نعیمی
صاحب رحمۃ اللہ علیہ، کی صاحبزادی سے آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا عقد ہوا…
آپ کی اولاد میں سے ایک صالحہ صاحبزادی اور چھ سلیم الطبع، عالم، فاضل
صاحبزادے آپ کی یادگار اور رونقِ خاندانِ عالیہ ہیں…
نومبر 1972ء کو آپ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے حرمین شریفین روانہ ہوئے…
مدینہ منورہ میں قیام کے دوران حضور سیدی قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین احمد
مدنی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور حضرت خواجہ خان محمد رحمۃ اللہ علیہ کی
زیارت سے بھی شرف یاب ہوئے، دونوں حضرات نے ہی آپ کو دلائل الخیرات شریف
اور دیگر اوراد و وظائف کی اجازت دی، حضرت قطب مدینہ علیہ الرحمۃ نے تو بڑے
انداز سے ہاتھوں میں ہاتھ لے کر درود شریف پڑھتے ہوئے دلائل الخیرات شریف
کی اجازت مرحمت فرمائی…
آپ کے معمولات میں یہ بھی تھا کہ آپ روزانہ بعد نمازِ فجر درود شریف کی
محفل منعقد کرواتے، وہ اس طرح کہ نماز کے بعد لمبی چادر بچھا دی جاتی اور
اس پر کھجور کی گٹھلیوں کے شمارے بکھیر دئیے جاتے، پھر اس چادر کے دونوں
اطراف بیٹھ کر حاضرین درود شریف پڑھتے، الحمدللہ آج تک یہ مجلسِ خیر آستانہ
عالیہ انتالی شریف پر باقاعدگی سے جاری ہے…
قبلہ حافظ صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
کے عشق و محبت میں روتے رہتے، بالآخر آپ کا کوئی آنسو بارگاہِ ناز میں شرف
قبولیت پا گیا، حاضرین کی موجودگی میں ہی آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی زیارت سے شرف یاب ہوئے اللّٰه بہتر جانتا ہے کہ سرکار نے اسرار و
معارف کے کتنے ہی خزینے آپ کو بخش دیئے، حاضرین کو اس عزت سے شرف یاب ہونے
کی خوشخبری سنائی اور مترنم آواز میں یہ شعر بار بار پڑھا…
مینوں دیو مبارک باد نی، اج میرا ماہی آیا
میرا گھر ہویا آباد نی، اج میرا ماہی آیا
ماہی میرے دی چال انوکھی، سوہنا چہرا شان نرالی
اج کرن مرا دل شاد نی، اج میرا ماہی آیا
آپ وقتاً فوقتاً اپنے وصال کی طرف اشارات فرماتے رہتے جن میں سے ایک یہ بھی
تھا کہ ٨ صفر المظفر١٤٠٠ھ کی صبح کو اپنے أستاذ مکرم حافظ صالح محمد علیہ
رحمہ کو نبض دکھا کر استفسار کیا کہ نبض کیا بتاتی ہے، انہوں نے فرمایا کہ
کچھ نہیں، پھر حافظ صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ "کل آپ کو خبر
مل جائے گی"، چنانچہ سپہر حضرت فقیہ اعظم مفتی محمد نور اللہ نعیمی صاحب
تشریف لائے اور علاج کے لئے اپنے ساتھ بصیر پور شریف لے گئے، چنانچہ
٩صفرالمظفر ١٤٠٠ھ/ 28 دسمبر 1979ء، ہفتہ کی شب نمازِ عشاء ادا کرنے کے بعد
کلمہ طیبہ پڑھتے پڑھتے سرِ نیاز اپنے رب کے حضور سجدہ میں رکھ دیا اور دس
بجکر چالیس منٹ پر دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور شریف میں جان، جان
آفرین کے سپرد کردی…
آپ کے وصال کی خبر سنتے ہی مشتاقانِ دید کا ایک سمندر جوق دَر جوق انتالی
شریف اُمڈ آیا، ٢٩ دسمبر بروز ہفتہ بعد نماز ظہر گورنمنٹ ہائی سکول انتالی
شریف میں حضرت فقیہ اعظم نائب ابو حنیفہ ابو الخیر مفتی محمد نور اللہ
نعیمی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی… آپ کو آستانہ عالیہ
انتالی شریف میں اسی مقام پر دفن کیا گیا جہاں آپ کے والدِ محترم نے فرمایا
تھا…
حضرت خواجہ الحاج الحافظ محمد فیض الرحمن کوثر رحمۃ اللہ علیہ کے مبارک
احوال پر اگر نظر دوڑائی جائے تو حضرتِ ممدوح کا نقش جسمانی و روحانی، دل و
نگاہ کا قرار بن جاتا ہے اور رحمٰن کا فیض، حسنِ کوثر میں ڈھلتا دکھائی
دیتا ہے کہ رحمٰن نے اپنے بندہ کو کس طرح پیکر فیض بناکر نعمتِ روحانیہ کی
کثرت سے نوازا، اور آج بھی آستانہ عالیہ انتالی شریف پر اس فیض کا باڑا بٹ
رہا ہے…
|