رونا کرنسی نوٹوں کی بے توقیری کا اور کورونا

‎نئی حکومت آئی تو اصلاحات کے نام پر جو اقدامات کئے گئے ان میں سے ایک قدم یہ بھی اٹھایا گیا کہ تجاوزات کے خاتمے کے نام پر نہایت ہی نالائقی اور نااہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متاثرین کو کوئی متبادل جگہیں اور روزگار فراہم کئے بغیر ان کے چلتے ہوئے کام کاروبار تباہ کر دیئے گئے ۔ جب غریب بیوقوف عوام کو تبدیلی کے نام پر سبز نیلے پیلے خواب دکھائے جا رہے تھے تو ان پر یہ واضح کیوں نہیں کیا تھا کہ جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو سب سے پہلے تمہاری روزی روٹی کے لگے بندھے ٹھکانوں پر ایسی لات رسید کریں گے کہ تم منہ کے بل اوندھے گرو گے اور اگلے الیکشن تک اٹھنے کے قابل نہیں رہو گے ۔ حالانکہ سب سے پہلے تو ان کالی بھیڑوں کی کھال میں بھوسہ بھرا جانا چاہیئے تھا ان حرامخور مگر مچھوں کی گردن ناپی جانی چاہیئے تھی جن کی آشیر واد سے یہ تجاوزات قائم ہوئے تھے اور پھلے پھولے تھے اور انہیں راتب فراہم ہوتا تھا ۔ یہ بھی تو ستر سال کا گند تھا اسے صاف کرنے میں تو بڑی سرعت دکھائی گئی کوئی مہلت نہیں مانگی گئی پچھلی نالائق کرپٹ حکومتوں کے کیے دھرے کو سدھارنے کے لیے ۔ غریبوں سفید پوشوں کے ٹھکانوں کی طرح فحاشی کے اڈوں کو بھی فی الفور کیوں نہیں تہس نہس کیا گیا؟ ریاست مدینہ کے قیام کے ایجنڈے میں کہیں بھی اس عزم کا ذکر ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں فیشن شوز کے نام پر برپا کی جانے والی فحاشی و عریانی کی محفلوں کا بھی اسی طرح قلع قمع کیا جائے گا؟ یا سارا زور محنت مزدوری کر کے حلال کی روزی کمانے والے غریبوں پھٹیچروں پر ہی چلتا ہے؟

‎پورا سوشل میڈیا بمع یو ٹیوب ایسی وڈیوز سے بھرا پڑا ہے کہ کسی شخص کی شادی مہندی یا کسی اور خوشی وغیرہ کا موقع ہے اور گھر سے باہر مردانے میں محفل رقص و موسیقی برپا ہے ۔ چاہے کسی گانے والے کو بلا رکھا ہے خواہ مرد یا عورت یا ریکارڈڈ گانوں پر کوئی رقاصہ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی ہے ہر دو صورتوں میں اسٹیج سے نیچے پنڈال میں شرکاء کا مجرا چل رہا ہوتا ہے اور گانے ناچنے اور ان کا ساتھ دینے والوں پر نوٹوں کی برسات ہو رہی ہوتی ہے جس سے ان کے قدموں میں کرنسی نوٹوں کا فرش بچھ جاتا ہے ۔ پھر گانے یا ناچنے والوں کے اسی کام کے لیے مقرر کیے گئے ملازم شاپنگ بیگز یا تکیے کے غلافوں میں ان نوٹوں کو بھر رہے ہوتے ہیں ۔ جو کاغذ کے ٹکڑے پیروں اور جوتوں تلے روندے جا چکے ہوں ان کی صحیح جگہ تو کچرے کا ڈرم ہی ہوتا ہے مگر پھر انہی غلیظ کاغذوں کو انگلی پہ زبان سے تھوک لگا لگا کر ان کی گنتی کی جاتی ہے یہ واپس جیبوں میں جاتے ہیں اور مسلسل گردش میں رہتے ہیں ۔ یہ کاغذ جن پر بانیء پاکستان کی تصویر کے ساتھ ساتھ قرآنی تعلیمات اور احادیث نبوی ﷺ سے اخذ کردہ ایک فقرہ تحریر ہوتا ہے " حصولِ رزقِ حلال عین عبادت ہے " ہے کوئی ان بےغیرتوں کو پوچھنے والا جو اس مقدس تحریر کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود ناچنے گانے والوں پر نچھاور کرتے ہیں ۔ ایک خالص دینی قول اور قائد اعظم کی تصویر سے مزین ملکی کرنسی کی اس قدر بیحرمتی کے سد باب کے لیے کوئی قانون کیوں نہیں وضع کیا جاتا؟ کرنسی نوٹوں کو کنجروں کے پیروں میں پھینکنا ایک قابل تعزیر جرم کیوں نہیں قرار دیا جاتا؟ نیب کے چیئرمین نے کبھی اس بیہودگی کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ یہ بھی تو ایک لعنت ہے جسے کچھ جاہلوں نے ثقافت کا حصہ بنا دیا ہے ، ہے کوئی مرد مجاہد جو اس لعنتی رسم کو ختم کرے اور تاریخ میں اپنا نام لکھوائے ۔ کیونکہ اب معاملہ پیشہ ور نعت خوانوں تک بھی جا پہنچا ہے ابھی تو نوٹ ان کے سروں پر وارے جاتے ہیں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا مگر وہ دن دور نہیں ہے جب نوٹ ان کے بھی پیروں میں ڈالے جائیں گے اور یہ اسے اپنا حق سمجھیں گے ۔
 
‎یہ قوم جو توہین رسالت کے نام پر بغیر کسی تصدیق اور ثبوت کے ریاست اور اقلیتوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تل جاتی ہے مگر ہر سال جشن عید میلاد النبی ﷺ منا لینے کے بعد کلمہ درود اور اسم محمد ﷺ سے مزین جھنڈیوں اور بینروں کو نوچ کھسوٹ کر کچرا کنڈیوں میں پھینک دینے میں اسے کوئی توہین کوئی بیحرمتی نظر نہیں آتی ، جشن آزادی کی آرائشی جھنڈیوں اور قومی پرچم کی تو پھر اوقات ہی کیا؟ آج تک اس جہالت اور بے حسی سے سختی کے ساتھ نمٹنے کے لئے نہیں سوچا گیا ۔ کیا ریاست مدینہ کے قیام کے عزم میں ملک میں رائج اور بھی بہت سی لعنتوں اور قباحتوں کے ساتھ اس قسم کی جہالتوں کا خاتمہ کرنا بھی اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہونا چاہیئے؟

‎اوپر آپ نے جو کچھ بھی پڑھا یہ ایک مکمل مضمون تھا ہم نے اسے 29 فروری کی شام میں بیٹھ کر قلمبند کیا تھا تھوڑی سی پروف ریڈنگ باقی تھی اسے پورا کر کے کاغذ سے اسکرین پر منتقل کرنے کا موقع ہی نہیں لگ رہا تھا بعد میں ہم نے اپنی کچھ اور تحریریں مکمل کر کے " ھماری ویب " پر بھیج دیں وہ شائع بھی ہو گئیں آج جب اس تعطل میں پڑی تحریر کی باری آئی تو حالات و معاملات پہلے سے بھی بد تر ہیں ۔ مہنگائی بیروزگاری اور لا قانونیت سے ادھ موئے ہوئے ہمارے ہم وطنوں کو کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا بھی سامنا ہے ۔ اس موذی و مہلک وباء کے ملک کے طول و عرض میں پھیلاؤ میں ایک بڑا حصہ اسی ازلی جہالت اور لاقانونیت کا بھی ہے جس سے اگر اب بھی باہر نہ نکلے تو صفحہء ہستی سے باہر نکلنا پڑ جائے گا ۔ سوچنے والی بات ہے کہ دنیا کے اتنے خوشحال تعلیم و ترقی اور جدید ٹیکنالوجی سے مالا مال ممالک اس وقت اپنے سارے بیچ بار کیسینو اور چرچ تک بند کر کے لاشوں کی گنتی کرنے پر مجبور ہیں تو پھر ہم کس گنتی میں ہیں بھلا؟ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کی جو بھی تدابیر ہیں ان پر سختی سے عمل کرنا ہو گا اور جو سرپھرے اپنی جانوں کو داؤ پر لگا کر اس جرثومے کے خلاف جہاد کر رہے ہیں ان کےساتھ تعاون کیا جائے ان کے کام میں روڑے نہ اٹکائے جائیں ۔ مذہبی عقائد کی غلط اور جاہلانہ تشریحات اور ایک انتہائی سنگین صورتحال کو ہلکا لینے کے شوق پر بھی قابو پانے کی ضرورت ہے ۔ پاک فوج کے خلاف بکواس کرنے والے باندر اپنی لمبی زبانوں کو لگام ڈالیں اور اپنی جانوں کی خیر منائیں ۔ کوئی سا بحران ہو یا ہنگامی صورتحال ہو یہی فوج اس سے نمٹنے کے لیے بارڈر چھوڑ کر عوام کے بیچ اور ان جیسے ناشکروں کو بھی بچانے آتی ہے ۔ اور باقی لوگ بھی لاتوں کے بھوت نہ بنیں اور باتوں سے ہی مان جائیں کہ احتیاط میں ہی بچت ہے اور ہر طرح کی خرافات و لغویات سے توبہ کا وقت ہے باقی اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ غریب طبقہ روز کھود کر روز پینے والا اگر بیماری سے نہیں مرے گا تو بھوک سے مر جائے گا تو ملک و قوم کی بقا کے لیے جو اعتدال کا راستہ ہو اپنایا جائے (رعنا تبسم پاشا)
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854073 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.