موذی

مشتاق احمد یوسفی
( ماخوذ از: چراغ تلے)

مرزاکرتے وہی ہیں جو ان کادل چاہے۔لیکن اس کی تاویل عجیب وغریب کرتے ہیں۔صحیح بات کوغلط دلائل سے ثابت کرنے کایہ ناقابل رشک ملکہ شاذونادرہی مردوں کے حصے میں آتاہے۔اب سگرٹ ہی کولیجئے۔ہمیں کسی کسی کے سگرٹ نہ پینے پرکوئی اعتراض نہیں،لیکن مرزاسگرٹ چھوڑنے کاجوفلسفیانہ جوازہربارپیش کرتے ہیں وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا۔
مہینوں وہ یہ ذہین نشین کراتے رہے کہ سگرٹ پینے سے گھریلومسائل پرسوچ بچارکرنے میں مددملتی ہے اورجب ہم نے اپنے حالات اوران کی حجت سے قائل ہوکرسگرٹ شروع کردی اوراس کے عادی ہوگئے توانھوں نے چھوڑدی۔ کہنے لگے،بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پرمیں سگرٹ پی پی کرغورکیاکرتاتھا،وہ دراصل پیداہی کثرت سگرٹ نوشی سے ہوئے تھے۔
ہمیں غوروفکرکی لت لگانے کے بعدانھوں نے آناجاناموقوف کردیاجواس بات کی علامت تھی کہ وہ واقعی تائب ہوگئے ہیں اورکسی سے ملناجلناپسند نہیں کرتے بالخصوص سگرٹ پینے والوں سے ۔(انہی کاقول ہے کہ بڑھیاسگرٹ پیتے ہی ہرشخص کومعاف کردینے کوجی چاہتاہے -خواہ وہ رشتے دارہی کیوں نہ ہو)میںگیابھی توکھنچے کھنچے رہے اورچنددن بعدایک مشترک دوست کے ذریعہ کہلوایاکہ”اگرمیںنے بربنائے مجبوری سگرٹ پینے کی قسم کھالی تھی تو آپ سے اتنابھی نہ ہواکہ زبردستی پلادیتے ۔میں ہوں مجبورمگر آپ تومجبورنہیں“
سات مہنیے تک سگرٹ اورسوسائٹی سے اجتناب کیا۔لیکن خدابڑامسبب الاسباب ہے ۔ آخرایک دن جب وہ وعظ سن کرخوش خوش گھرلوٹ رہے تھے توانھیں بس میں ایک سگرٹ لائٹرپڑامل گیا۔چنانچہ پہلے ہی بس اسٹاپ پراترپڑے اورلپک کرگولڈفلیک سگرٹ کاڈبہ خریدا(ہمیں واقعہ پرقطعاً تعجب نہیں ہوا۔اس لیے کہ گزشتہ کرسمس پرانھیں کہیں سے نائلون کے موزے چار آنے رعایت سے مل گئے تھے،جن کو”میچ “ کرنے کے لیے انھیں ایک دوست سے قرض لے کرپوراسوٹ سلواناپڑا)سگرٹ اپنے جلتے ہوئے ہونٹوں میں دباکرلائٹرجلاناچاہاتومعلوم ہواکہ اندرکے تمام پرزے غائب ہیں۔اب ماچس خریدنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیںرہا۔
ہم نے اکثریہی دیکھاکہ مرزاپیمبری لینے کوگئے اور آگ لے کرلوٹے!
اوردوسرے دن اچانک غریب خانے پرگاڑھے گاڑھے دھوئیں کے بادل چھاگئے،جن میں سے مرزاکامسکراتاہواچہرہ رفتہ رفتہ طلوع ہوا۔گلے شکوے تمام ہوئے تونتھوں سے دھوا ں خارج کرتے ہوئے بشارت دی کہ سگرٹ میرے لیے موجب نشاط نہیں،ذریعہ نجات ہے۔
اتناکہہ کرانھوں نے چٹکی بجاکراپنے نجات دہندہ کی راکھ جھاڑی اورقدرے تفصیل سے بتانے لگے کہ سگرٹ نہ پینے سے حافظے کایہ حال ہوگیاکہ ایک رات پولیس نے بغیربتی کے سائیکل چلاتے ہوئے پکڑلیاتواپناصحیح نام اورولدیت تک نہ بتاسکا،اوربفضلہ اب یہ عالم ہے کہ ایک ہی دن میں آدھی ٹیلفون ڈائرکٹری حفظ ہوگئی۔
مجھے لاجواب ہوتادیکھ کرانھوں نے فاتحانہ اندازسے دوسری سگرٹ سلگائی۔ماچس احتیاط سے بجھاکرہونٹوں میں دبالی اورسگرٹ ایس ٹرے میں پھینک دی۔
کبھی وہ اس خوشی میں سگرٹ پیتے ملیں گے آج رمی میں جیت کراٹھے ہیں۔اورکبھی(بلکہ اکثروبیشتر)اس تقریب میں آج توبالکل کھک ہوگئے۔ان کادوسرادعویٰ تسلیم کرلیاجائے کہ سگرٹ سے غم غلط ہوتاہے تو ان کے غموں کے مجموعی تعدادبہ شرح پچاس غم یومیہ،اٹھارہ ہزارسالانہ کے لگ بھگ ہوگی اوربعض غم تواتنے ضدی ہوتے جارہے ہیں کہ جب تک تین چارسگرٹوں کی دھونی نہ دی جائے توٹلنے کانام نہیں لیتے۔انھیںعبرت دلانے کے ارادے سے میں نے بادشاہ مطریدلطیس ششم کاقصہ سنایا۔جویوں ہے کہ جب اس کو ہمہ وقت یہ اندیشہ لاحق رہنے لگاکہ موقع پاکرکوئی بدخواہ اسے زہر کھلادے گاتواس نے خودہی روزانہ تھوڑاتھوڑازہرکھاناشروع کردیاتاکہ خون اورقویٰ عادی ہوجائیں ۔اوروہ اس حفظ ماتقدم میں اس حدتک کامیاب ہواکہ جب حالات سے مجبورہوکراس نے واقعی خودکشی کرنے کی کوشش کی توزہربالکل بے اثرثابت ہوااوراس نے بمشکل تمام اپنے ایک غلام کوخنجرگھونپنے پررضامندکیا۔
بولے”ناحق بچارے غلام کوگنہ گارکیا۔اگرخودکشی ہی کرناتھی توزہرکھانابندکردیتا۔چندہی گھنٹوں میں تڑپ تڑپ کرمرجاتا۔“
لیکن جو احباب ان کی طبیعت کے اتارچڑھاو سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے یہ غم ابدی اورافاقی ہوتے ہیںجن کاسگرٹ تودرکنارحقے سے بھی علاج نہیںہوسکتا۔میں نے اکثرانھیں اس غم میں سگرٹ کے کش پرکش لگاتے دیکھاہے کہ سوئی گیس کاذخیرہ سوسال میں ختم ہوگیاتوان کی اپنی ملازمت کاکیاہوگا؟یاایک لاکھ سال بعدانسان کے سر پربال نہ ہوں گے توحجاموں اورسکھوں کاکیاحشرہوگا؟اورجب سورج پچاس ارب سال بعدبالکل ٹھنڈاپڑجائے گاتوہم گھپ اندھیرے میں صبح کااخبارکیسے پڑھیں گے؟
ایک دفعہ توسب کویقین ہوگیاکہ مرزا نے واقعی سگرٹ چھوڑدی۔اس لیے کے مفت کی بھی نہیں پیتے تھے اورایک ایک سے کہتے پھرتے تھے کہ اب بھولے سے بھی سگرٹ کاخیال نہیں آتا۔بلکہ روزانہ خواب میں بھی سگرٹ بجھی ہوئی ہی نظر آتی ہے۔میں نے دریافت کیاکہ اب کی دفعہ کیوں چھوڑی؟
ہوامیں پھونک سے فرضی دھوئیں کے مرغولے بناتے ہوئے بولے”یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیاکہ جوروپیہ سگرٹ میں پھونک رہاہوں،اس سے اپنی زندگی کابیمہ کرایاجاسکتاہے۔کسی بیوہ کی مددہوسکتی ہے۔“
”مرزا!بیمے میں چنداں مضائقہ نہیں۔لیکن جب تک نام پتہ معلوم نہ ہو،یہ بیوہ والی بات میری سمجھ نہیں آئے گی۔“
”پھریوں سمجھ لوکہ بیمے سے اپنی ہی بیوہ کی امدادہوسکتی ہے۔لیکن مذاق برطرف،سگرٹ چھوڑنے میں ہے بڑی بچت!جوصرف اس طرح ممکن ہے کہ جب بھی پینے کی خواہش ہو،یہ فرض کرلوکہ پی لی۔اس طرح ہربارتمھاراڈیڑھ آنہ بچ جائے گا۔“
میں نے دیکھاکہ اس فارمولے مرزانے بارہاایک دن میں دس دس پندرہ پندرہ روپے بچائے۔ایک روزدس روپے کی بچت دکھاکہ انھوں نے مجھ سے پانچ روپے ادھارمانگے تومیں نے کہا”غضب ہے!دن میں دس روپے بچانے کے باوجودمجھ سے پانچ روپے قرض مانگ رہے ہو؟“
کہنے لگے”اگریہ نہ بچاتاتواس وقت تمھیںپندرہ دینے پڑتے۔“
مجھے اس صورت حال مین سراسراپناہی فائدہ نظر آیا۔لہٰذاجب بھی پانچ روپے قرض دئیے ،یہ سمجھ کردیئے کہ الٹامجھے دس روپے کانقدمنافع ہورہاہے۔مرزاکے متواترتعاون کی بدولت میں نے اس طرح دوسال کی قلیل مدت میں ان سے چھ سوروپے کمالیے۔
پھرایک سہانی صبح کودیکھاکہ مرزادائیں بائیں دھوئیں کی کلیاں کرتے چلے آرہے ہیں ۔میں نے کہا”ہائیں مرزا!یہ کیابدپرہیزی ہے؟“جواب دیا”جن دنوں سگرٹ پیتاتھاکسی اللہ کے بندے نے الٹ کرنہ پوچھاکہ میاں کیوں پیتے ہو؟لیکن جس دن سے چھوڑی، جسے دیکھویہی پوچھتاہے کہ خیرتوہے کیوں چھوڑدی؟بال آخرزچ ہوکرمیں نے پھرشروع کردی!بھلایہ بھی کوئی منطق ہے کہ قتل عمدکے محرکات سمجھنے کے لیے آپ مجرموں سے ذرانہیں پوچھتے کہ تم لوگ قتل کیوں کرتے ہو؟اورہرراہ گیرکوروک روک کرپوچھتے ہیں کہ سچ بتاو تم قتل کیوں نہیں کرتے؟“
میں نے سمجھایا”مرزا!اب پیمانے بد ل گئے ۔مثال کے طور پر ڈاڑھی کوہی لو۔“
الجھ پڑے ”ڈاڑھی کاقتل سے کیاتعلق؟“
”بندہ خدا!پوری بات توسنی ہوتی۔میں کہہ رہاتھاکہ اگلے زمانے میں کوئی شخص ڈاڑھی نہیں رکھتاتھاتولوگ پوچھتے تھے کیوں نہیں رکھتے؟لیکن اب کوئی ڈاڑھی رکھتاہے توسب پوچھتے ہیں کیوں رکھتے ہو؟“
ان کادعویٰ کہ نکوٹین ان کے خون میں اس حد تک حل ہوگئی ہے کہ ہرصبح پلنگ کی چادرجھاڑتے ہیں توسینکڑوں کھٹمل گرتے ہیں۔یقیناًیہ نکوٹین ہی کے اثرسے کیفرکردارکوپہنچتے ہوں گے۔ورنہ اول تویہ ناسمجھ جنس اتنی کثیرتعدادمیں متحد ہوکرخودکشی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔دوم، آج تک سوائے انسان کے کسی ذی روح نے اپنے مستقبل سے مایوس ہوکرخودکشی نہیں کی۔البتہ یہ ممکن ہے کہ مرزااپنے خون کوخراب ثابت کرنے میں کچھ مبالغہ کرتے ہوں۔لیکن اتناتوہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ وہ سگرٹ کے دھوئیں کے اس قدرعادی ہوچکے ہیں کہ صاف ہواسے کھانسی اٹھنے لگتی ہے
اوراگردو تین دن تک سگرٹ نہ ملے توگلے میں خراش ہوجاتی ہے۔
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا(اورہم نے مرزاسے بہت پہلے ہوش سنبھالا)مرزاکے منہ میں سگرٹ ہی دیکھی۔ایک مرتبہ ہم نے سوال کیاکہ تمھیں یہ شوق کس نے لگایاتوانھوں نے لطیفے داغنے شروع کردیے۔
”اللہ بخشے والدمرحوم کہاکرتے تھے کہ بچوں کوسگرٹ نہیں پیناچاہیے- اس سے آگ لگنے کااندیشہ رہتاہے۔اس کے باوجودہم پیتے
رہے۔عرصے تک گھروالوں کویہی غلط فہمی رہی کہ ہم محض بزرگوں کوچڑانے کے لیے سگرٹ پیتے ہیں۔“
”مگرمیںنے پوچھاتھاکہ یہ چسکاکس نے لگایا؟“
”میں نے سگرٹ پینااپنے بڑے بھائی سے سیکھاجب کہ ان کی عمرچارسال تھی۔“
”اس رفتارسے انھیں اب تک قبرمیں ہوناچاہیے۔“
”وہ وہیں ہیں!“
اس کے باوجودمرزاکسی طرح یہ ماننے کوتیارنہیں کہ وہ عادتاًسگرٹ پیتے ہیں۔یہ مسئلہ جب بھی زیربحث آیا،انھوں نے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ سگرٹ کسی گمبھیرفلسفے کے احترام میں یامحض خلق خداکے فائدے کے لیے پی رہے ہیں-
طوعاًوکرہاً!کوئی تین برس ادھرکی بات ہے کہ شدہ شدہ مجھ تک یہ خبرپہنچی کہ مرزاپھرتائب ہوگئے اورکامل چھتیس گھنٹے سے ایک سگرٹ نہیں پی۔بھاگم بھاگ مبارک باددینے پہنچاتونقشہ ہی اورپایا۔دیکھاکہ تہنیت گزاروں کاایک غول رات سے ان کے ہاں فروکش ہے۔خاطرمدارات ہورہی ہے۔مرزاانھیں سگرٹ پلارہے ہیںاوروہ مرزاکو۔مرزاماچس کی ڈبیاپرہرایک فقرے کے بعددوانگلیوں سے تال دیتے ہوئے کہہ رہے تھے:
”بحمداللہ!(تال)میں جوانہیں کھیلتا(تال)شراب نہیں پیتا(تال)تماش بینی نہیں کرتا(تال)اب سگرٹ بھی نہ پیوں توبڑاکفران نعمت ہوگا“(تین تال)
میں نے کہا”لاحول ولاقوة!پھریہ علت لگالی؟“
مجمع کی طرف دونوں ہاتھ پھیلاکرفرمایا”یارو!تم گواہ رہناکہ اب کی بارفقط اپنی اصلاح کی خاطرتوبہ توڑی ہے۔بات یہ ہے کہ آدمی کوئی چھوٹی موٹی علت پال لے تو بہت سی بڑی علتوں سے بچارہتاہے ۔یہ کمزوریاں(MINOR VICES)انسان کوگناہ کبیرہ سے بازرکھتی ہیں۔اوریادرکھوکہ داناوہی ہے جوذرامحنت کرکے اپنے ذات میں کوئی ایسانمایاں عیب پیداکرلے جواس کے اصل عیبوں کوڈھانپ لے۔“
”اپنے پلے کچھ نہیں پڑرہا۔“
اپنے ستارعیوب کاپیکٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے”یہ پیوگے توخودبخودسمجھ میں آجائے گا۔اس فلسفے میں قطعی کوئی ایچ پیچ نہیں۔تم نے دیکھاہوگا۔اگرکوئی شخص خوش قسمتی سے گنجا،لنگڑایاکاناہے تواس کایہ سطحی عیب لوگوں کواس قدرمتوجہ کرلیتاہے کہ اس عیبوں کی طرف کسی کی نظرنہیں جاتی۔مثال میں جولیس سیزر،تیمورلنگ اوررنجیت سنگھ کوپیش کیاجاسکتاہے۔ویسے کسی سوفیصدی پارسا آدمی سے مل کرکسی کاجی خوش نہیں ہوتاتم جانتے ہوکہ میں آوارہ دادباش نہیں،فاسق وفاجرنہیں،ہرجائی اورپرچگ نہیں۔لیکن آج بھی(یہاں مرزانے بہت سالذیذدھوا ں چھوڑا)-
لیکن آج بھی کسی خوب صورت عورت کے متعلق یہ سنتاہوں کہ کہ وہ پارسابھی ہے تونہ جانے کیوں دل بیٹھ ساجاتاہے۔“
”مرزا!سگرٹ سبھی پیتے ہیںمگرتم اس اندازسے پیتے ہوگویابدچلنی کررہے ہو!“
”کسی اچھے بھلے کام کوعیب سمجھ کرکیاجائے تواس میں لذت پیداہوجاتی ہے۔یورپ اس گرکوابھی نہیں سمجھ پایا۔وہاں شراب نوشی عیب نہیں۔اسی لیے اس میں وہ لطف نہیں آتا۔“
”مگرشراب توواقعی بری چیزہے!البتہ سگرٹ پینابری بات نہیں۔“
”صاحب !چارسگرٹ پہلے یہی بات میں نے ان لوگوں سے کہی تھی۔بہرکیف میں یہ ماننے کے لیے تیارہوں کہ سگرٹ پیناگناہ صغیرہ
ہے۔مگرغصہ مجھے ان سادہ لوح حضرات پر آتاہے جویہ سمجھتے ہیں کہ سگرٹ نہ پیناثواب کاکام ہے۔ماناکہ جھوٹ بولنااورچوری کرنابری بات ہے۔لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ حکومت ان کوہربارسچ بولنے اورچوری نہ کرنے پرطلائی تمغہ دے گی۔“
پھرایک زمانہ ایسا آیاکہ مرزاتمام دن لگاتارسگرٹ پیتے مگرماچس صرف صبح جلاتے تھے۔شماریادنہیں۔لیکن ان کااپنابیان ہے آج کل ایک دن میں بیس فٹ سگرٹ پی جاتاہوں اوروہ بھی اس شکل میں کہ سگرٹ عموماًاس وقت تک نہیں پھینکتے ،جب تک انسانی کھال جلنے کی چراندنہ آنے لگے ۔ آخرایک دن مجھے سے ضبط نہ ہوسکااورمیں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہامرزا! آخرکیاٹھانی ہے؟
میری آنکھوں میں دھوا ں چھوڑتے ہوئے بولے”کیاکروں۔یہ موذی نہیں مانتا۔“
مرزااپنے نفس مارہ کو(جس کامحل وقوع ان کے نزدیک گردن کے جنوب مغربی علاقے میں ہے)اکثراسی نام سے یادکرتے،چمکارتے اورللکارتے ہیں۔
میں نے کہا”فرائڈکے نظریہ کے مطابق سگرٹ پیناایک رجعتی اوربچکانہ حرکت ہے۔جنسی لحاظ سے نا آسودہ افرادسگرٹ کے سرے کوغیرشعوری طورپر NIPPLEکانعم البدل سمجھتے ہیں۔“
”مگرفرائڈتوانسانی دماغ کوناف کاہی کاضمیمہ سمجھتاہے!“
”گولی ماروفرائڈکو!بندہ خدا!اپنے آپ پررحم نہیں آتاتوکم ازکم اس چھوٹی سی بیمہ کمپنی پرترس کھاوجس کی پالیسی تو نے لے ہے۔نئی نئی کمپنی ہے۔تمھاری موت کی تاب نہیں لاسکتی۔فوراًدیوالے میں چلی جائے گی۔“
” آدمی اگرقبل ازوقت نہ مرسکے توبیمے کامقصدہی فوت ہوجاتاہے۔“
”مرزا!بات کومذاق میں نہ اڑاو۔اپنی صحت کادیکھو۔پڑھے لکھے آدمی ہو۔اخباراوررسالے کی برائی میں رنگے پڑے ہیں۔“
”میں خودسگرٹ اورسرطان کے بارے میں اتناکچھ پڑھ چکاہوں کہ اب مطالعہ سے نفرت ہوگئی!“انھوں نے چٹکلہ دہرایا۔
اس مد میں بچت کی جومختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرزاسارے دن مانگ تانگ کرسگرٹ پیتے ہیں۔(ماچس وہ اصولاًاپنی ہی استعمال کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ماچس مانگنابڑی بے عزتی کی بات ہے۔ آڑے وقت میں رسیدلکھ کرکسی سے سودوسوروپے لینے میں سبکی نہیں ہوتی۔لیکن رسیدکاٹکٹ بھی اسی سے مانگناشان قراض داری کے خلاف ہے)دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسے مارکہ کہ سگرٹوں پراتر آتے ہیں جن کووہ پیکٹ کی بجائے سگرٹ کیس میں رکھنااورالٹی طرف سے جلاناضروری خیال کرتے ہیں۔
لیکن نودس ماہ پیشترجب موذی اس طرح بھی بازنہ آیاتو مرزا نے تیسرااور آخری حربہ استعمال کیا۔یعنی سگارپیناشروع کردیاجو ان کے ہاتھ میں چھڑی اورمنہ میں نفیری معلوم ہوتاتھا۔پینے،بلکہ نہ پینے،کااندازیہ تھاکہ ڈرتے ڈرتے دوتین اوپری کش لے کراحتیاط سے بجھادیتے اورایک ڈیڑھ گھنٹے بعداوسان درست ہونے پرپھرجلالیتے تھے۔ان کاعقیدہ ہے کہ اس طریقہ استعمال سے طلب بھی مٹ جاتی ہے اورسگارکی عمربڑھ جاتی ہے سوالگ -(یہاں اتنااورعرض کردوں تونامناسب نہ ہوگاکہ انھوں نے اپنی جوانی کوبھی اسی طرح سینت سینت کررکھناچاہا،اس لیے قبل ازوقت بوڑھے ہوگئے)۔چنانچہ ایک ہی
سگارکودن بھر” آف “اور” آن“کرتے رہتے ۔پھرچراغ جلے اسی کوٹیکتے ہوئے کافی ہاوس پہنچ جاتے۔خلق خدان کوغائبانہ کیاکہتی ہے،اس پرانھوں نے کبھی غورنہیں کیا۔لیکن ایک دن دھوا ں منہ کامنہ میں رہ گیا،جب انھیں اچانک یہ پتہ چلاکہ ان کاجلتابجھتاسگاراب ایک طبقاتی علاقت (سمبل)بن چکاہے۔ہوایہ کہ کافی ہاوس کے ایک نیم تاریک گوشے میں آغاعبدالعلیم جام منہ لٹکابیٹھے تھے ۔مرزاکہیں پوچھ بیٹھے کہ آغا آج بجھے بجھے سے کیوںہو؟ آغانے اپنی خیریت اوردیگراحوال سے یوں آگاہی بخشی:
شام ہی سے بجھاسارہتاہے دل ہواہے سگارمفلس کا
ایک ایسی ہی اداس شام کی بات ہے ۔مرزاکافی ہاوس میں موذی سے بڑی بے جگری سے لڑرہے تھے اورسگارکے یوں کش لگارہے تھے گویاکسی راکھش کادم نکال رہے ہیں۔میں نے دل بڑھانے کوکہا”تم نے بہت اچھاکہ کہ سگرٹ کاخرچ کم دیا۔روپے کی قوت خرید دن بدن گھٹ رہی ہے۔دوراندیشی کاتقاضاہے کہ خرچ کم کرواوربچاوزیادہ۔“
سگارکوسپیرے کوپونگی کی ماننددھونکتے ہوئے بولے”میں بھی یہی سوچ رہاتھاکہ آج کل ایک آنے میں ایک سالم سگرٹ مل جاتے
ہے۔دس سال بعد آدھی ملے گی!“
میں نے بات آگے بڑھائی۔لیکن ہم یہی ایک آنہ آج پس انداز کرلیں تودس سال بعدمعہ سوددو آنے ہوجائے گے۔“
”اوراس دونی سے ہم ایک سالم سگرٹ خریدسکیں گے جو آج صرف ایک آنے میں مل جاتی ہے!“
جملہ مکمل کرتے ہی مرزانے اپناجلتاہواعصازمین پردے مارا۔چندلمحوں بعدجب دھوئیں کے بادل چھٹے تومرزاکے اشارے پرایک بیراپلیٹ میں سگرٹ لیے نمودارہوااورمرزاایک آنے میں دو آنے کامزہ لوٹنے لگے۔
پندارکاصنم کدہ ویراں کیے ابھی تین ہفتے بھی نہ گزرے ہوں گے کہ کسی نے مرزاکوپٹی پڑھادی کہ سگرٹ ترک کرناچاہتے ہوتوحقہ شروع کردو۔ان کے لیے یہ ہومیوپیتھک مشورہ کچھ ایسانیابھی نہ تھا۔کیوں کہ ہومیوپیتھی کابنیادی اصول یہ ہے کہ چھوٹامرض دورکرنے کے لیے کوئی بڑامرض کھڑاکردو۔چنانچہ مریض نزلے کی شکایت کرے تودوااسے نمونیہ کے اسباب پیداکردو۔پھرمریض نزلے کی شکایت نہیں کرے گا۔ہومیوپیتھی کی کرے گا!
بہرحال ،مرزانے حقہ شروع کردیا۔اوروہ بھی اس اہتمام سے کہ گھنٹوں پہلے پیتل سے منڈھی ہوئی چلم اورنقشین فرشی،لیمواورکپڑے سے اتنی رگڑی جاتی کہ جگرجگرکرنے لگتی۔نیچہ عرق گلاب سے ترکیاجاتا۔نے پرموتیاکے ہارلپیٹے جاتے۔مہنال کیوڑے میں بسائی جاتی۔ایک حقہ بھی قضاہوجاتاتوہفتوں اس کاافسوس کرتے رہتے ۔بندھاہوامعمول تھا کہ پینے سے پہلے چارپانچ منٹ تک قوام کی تعریف کرتے اورپینے کے بعدگھنٹوں ”ڈیٹول“سے کلیاں کرتے۔اکثردیکھاکہ حقہ پیتے جاتے اورکھانستے جاتے اورکھانسی کے مختصروقفے میں سگرٹ کی برائی کرتے جاتے۔فرماتے تھے کہ ”کسی دانانے سگرٹ کی کیاخوب تعریف کی ہے-ایک ایساسلگنے والابدبودارمادہ جس کے ایک سرے پر آگ اوردوسرے پراحمق ہوتاہے۔لیکن مشرقی پیچوان میں اس امرکاخاص لحاظ رکھاجاتاہے کہ کم سے کم جگہ گھیرکرتمباکوکوزیادہ سے زیادہ فاصلے پرکردیاجائے۔“
میں نے کہا”یہ سب درست!مگراس کاپینااوراورپلانادردسریہ بھی توہےاس سے بہتر توپائپ رہے گا۔تندبھی ہے اورسستاکاسستا۔“
چلم کے انگاروں کودہکاتے ہوئے بولے”بھائی!اس کوبھی آزماچکاہوں تمھیں شایدمعلوم نہیں کہ پائپ میں تمباکوسے زیادہ ماچس کاخرچ بیٹھتاہے ورنہ یہ بات ہرگزنہ کہتے۔دوماہ قبل ایک انگلش پائپ خریدلایاتھا۔پہلے ہی روزنہارمنہ ایک گھونٹ لیاتوپیٹ میں ایک غیبی گھونساسالگا۔ آنکھ میچ کے دوچارگھونٹ اورلیے توباقاعدہ باکسنگ ہونے لگی۔اب اس پائپ سے بچیاں اپنی گڑیوں کی شادی میں شہنائی بجاتی ہیں۔“
پسند،انتخاب و کمپوزکاری:
پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی
کیلی فورنیا،ویسٹ کووینا، امریکا

 

پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی
About the Author: پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.