مزدور کی بیٹی کی شادی

پچھلے دنوں ہما رے ایک سابق وزیر کے بیٹے کی شادی تھی جس میں ملک کی تما م اشرفیہ مد عو تھی اس شادی کے حوالے سے کہا گیا کہ شادی کم بڑا سیا سی جلسہ زیا دہ محسوس ہو ئی جنا ب صدر نے پا نچ لا کھ سلا می دی جو یقیناً ان کے شایا ن شان تھی لیکن آج میں جس شادی کا ذکر کر رہی ہوں وہ یوم مئی کے حوالے سے ایک مز دور کی بیٹی کی شادی کا احوال ہے اس شادی کا نقشہ احسان دانش نے پیش کیا ہے جن کا اصل نا م قا ضی احسان الحق تھا جو علمی ادبی اور شعری حلقوں میں احسان دانش کہلا ئے عملاً ایک مزدور تھے اس لیے انھیں شاعر مزدور بھی کہا جا تا ہے انھوں نے طویل عر صے تک مزدوری کے بوجھ اٹھائے ،گھروں پر سفیدی کی انہیں مزدوروں کے دکھوں اور تکا لیف کا عملی تجربہ تھا اس نظم میں انھوں نے ایک مزدور کی بیٹی کی شادی کی بھر پور تر جما نی کی ہے اس کے اشعار ہم سب کو سوچنے پر مجبور کر تے ہیں کہ آخر ایسی بے بسی وبے کسی کیوں ؟ کب تک ایسا ہوتا رہے گا۔

ہے دا غ دل اک شام سیا ہ پو ش کا منظر
تھا ظلمت خاموش میں شہزادہ خاور

عالم میں مچلنے ہی کو تھے رات کے گیسو
انوار کے شا نوں پہ تھے ظلما ت کے گیسو

یہ وقت اور اک د ختر مز دور کی ر خصت
اللہ قیا مت تھی ،قیا مت تھی قیامت

نو شا کا جو سر پہ تھا با ندھے ہو ئے سہرا
بھر پور جوانی میں تھا اترا ہوا چہرہ

اند وہ ٹپکتا تھا بشا شت کی نظر سے
مر جھا ئے سے ر خسار تھے فا قوں کے اثر سے

کر تا بھی پرانا سا تھا پگڑی بھی پر انی
مجبور تھی قسمت کے شکنجوں میں جو انی

ہم راہ نفیری تھی نہ با جا تھا نہ تا شا
آنکھوں میں تھا بے مہری عالم کا تما شا

مجمع تھا جس خستہ و افسردہ مکا ں پر
تھا بھیس میں شادی کے و ہا ں عالم محشر

دالا ن تھا گو نجا ہوا رونے کی صدا سے
اک درد ٹپکتا تھا عرق ناک ہو اسے

اما ں کی تھی بیٹی کی جدا ئی میں یہ حالت
چیخو ں میں ڈھلتے جا تے تھے جذ با ت محبت

تھا با پ کا یہ حال کہ اندوہ کا ما را
ا ٹھتا تھا تو دیوار کا لیتا تھا سہا را

لڑ کی کا یہ عالم تھا کہ آپے کو سمیٹے
گڑیا سی بنی بیٹھی تھی چادر کو لپیٹے

تھا نہ پا ﺅں میں پا زیب نہ ما تھے پہ ٹیکا
اس خاکہ افلا س کا رنگ تھا پھیکا

آخر نہ رہا با پ کے جذ با ت پہ قا بو
تھر انے لگے ہو نٹ ٹپکنے لگے آنسو

کہنے لگا نوشہ سے کہ اے جا ن پدر سن
اے و جہ سکوں لخت جگر نو ر نظر سن

اگرچہ میری نظروں میں ہے تا ریک خدائی
حا ضر ہے میری عمر کی معصوم کما ئی

اس سانو لے چہرے پہ تقدس کی ضیاء ہے
یہ پیکر عفت ہے یہ فا نوس جیسا ہے

اسکے لیے چکی بھی نئی چیز نہیں ہے
بیٹی ہے مری د ختر پر ویز نہیں ہے

غربت میں یہ پیدا ہو ئی غربت میں پلی ہے
خودداری و تہذیب کے سا نچے میں ڈھلی ہے

زنہا ر یہ زیور کی تمنا نہ کرے گی
ایسا نہ کر ے گی کبھی ایسا نہ کر ے گی

شکوہ اسے تقدیر سے کرنا نہیں آتا
ادراک کی سر حد سے گزرنا نہیں آتا

ہے صبر کی خو گر اسے فا قوں کی ہے عادت
ماں با پ سے پا ئی ہے وراثت میں قنا عت

اس کو خوشی ہو گی تمہا ری جو رضا ہو
تم اس کے لیے دوسرے درجہ پہ خدا ہو

پھر آکے یہ بیٹی سے کہا نرم ز با ں سے
بچی مری رخصت ہے تو اب با پ سے ماں سے

امید ہے ہر بات کا احساس رہے گا
ماں با پ کی عزت کا پا س رہے گا

اے جان پدر ! دیکھ وفا دار ہی رہنا
آئے جو قیا مت بھی تو ہنس کھیل کے سہنا

دل توڑ نہ دینا کہ خدا ساتھ ہے بیٹی
لا ج اس مری دا ڑھی کی ترے ہا تھ ہے بیٹی
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 161295 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.