صلہ شہید کیا ہے، تب وتابِ جاودانہ

30اپریل یومِ شہداءپر خصوصی تحریر

فوجی جوانوں کا ایک جتھہ سبز ہلالی پرچم میں لپٹے شہداء کے تابوت اپنے کاندھوں پر اٹھائے مخصوص فوجی انداز سے آگے بڑھ رہا تھا۔تیز ٹھنڈی ہوا کی سنسناہٹ نے ماحول کو کافی پراسرار بنا دیا تھا۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا شہیدانِ وطن کو سلامی دیتا گزرا تو لپٹے سبز ہلالی پرچم لہرا اٹھے اور ان کی تہوں سے نکلنے والی مسحور کن مہک نے وہاں موجود ہر کسی کو اپنے دام میں لے لیا ہر کوئی شہداء کی عظیم قربانی کو خراج ِ تحسین پیش کرنے لگا۔ ان کے کارناموں نے حاضرین کے لہو میں حرارت بھر دی تھی۔ شہداء نے اپنے لہو سے آزادی کے پیڑ کو سینچا تھا، دھرتی کے کونے کونے کو سرسبزو شاداب کردیا تھا۔
فوجی جوانوں کی ٹولی گراﺅنڈ کے وسط میں پہنچ کر رک گئی۔ انہوں نے اس احترام اور احتیاط سے تابوت زمین پر رکھے جیسے ماں اپنے ننھے بچے کو پالنے میں اتارتی ہے اور سرسراتے قومی پرچم کے بیچ شہداء کے یونیفارم اور میڈل سجا دیئے اور ایک طرف صف آراء ہوگئے۔

سورج کی کرنیں جنہیں بادلوں کی ٹکڑیوں نے بڑی دیر سے ڈھانپ رکھا تھا موقع پا کر شہداء کو بوسا دینے اتریں تو تابوت پر رکھے شہید میجر صاحب کے چاند ستارے اس انداز سے روشن ہوئے کہ انہوں نے حاضرین کی آنکھوں کو خیرہ کردیا شہید صوبیدار کی سرخ پٹی بھی حرارت سے شعلہ بن گئی تھی اور شہید حوالدار کی تین فیتیاں فتح کا نشان بناتے ہوئے یہ گواہی دے رہی تھیں کہ ان شہداء نے نہ صرف اپنی وردی اور ان پر سجے نشانات کی لاج رکھ لی بلکہ قوم نے انہیں دفاعِ وطن کا جو فرض سونپا تھا اس میں بھی وہ سرخرو ہوئے۔

نمازِ جنازہ پڑھائی گئی۔ پاک فوج کے ایک چاق چوبند دستے نے شہدا کو سلامی پیش کی اور جسدِ ہائے خاکی ان کے آبائی علاقوں کو روانہ کردیئے گئے۔
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا

شہید کے گھر سے بھی روشنیوں کی لہر اٹھ رہی تھی۔ پورا گاﺅں عجیب خوشبوﺅں سے معطر تھا۔ کیا کبھی کسی نے اس ماں کی کیفیت کا اندازہ لگایا ہے جسے اپنے جواں سال بیٹے کے جسدِ خاکی کا انتظار ہو؟

ماں جس کے لئے وہ اکثر شال لایا کرتا تھا، آج فخر اور وقار کے پھولوں سے کڑھائی کیا سبز ہلالی پرچم لایا رہا ہے جسے اوڑھ کر وہ پھولے نہیں سمائے گی۔ فرطِ جذبات سے اس کے آنسو چھلکنے ہی والے تھے مگر اس خیال سے کہ نجانے اس کا شہید جگر گوشہ کچھ اور ہی قیاس نہ کر لے آنسو ضبط کے بندھن میں بندھ گئے اور ٹھہر گئے کسی اور وقت چھلکنے کے لئے بہن بھی بے تاب ہے ۔ آج اس کا بھائی اپنی بہن کے لئے چوڑیاں نہیں ،جرات وبہادری کے کھن کھن کرتے میڈل لارہا ہے۔

کسی کی نظر شہید کی ننھی سی معصوم بیٹی پر پڑی جو اپنے جوتے تلاش کررہی تھی۔ وہ جلدی جلدی ان جوتوں کو پہن لینا چاہتی تھی۔ اسے یاد ہے کہ جب بھی پاپا آتے ، اسے پکار کر کہتے بیٹی ! جلد ی سے تیار ہوجاﺅ آج ہم گھومیں گے ،پھریں گے ۔ جب وہ تیار ہوجاتی تو اکثر اس کے جوتے کھو جاتے اور بابا کو انتظار کرنا پڑتا۔آج اس نے اپنے جوتے پہلے ہی ڈھونڈ لئے تھے۔ آج وہ اپنے پاپا کو انتظار نہیں کروانا چاہتی تھی۔

یہ تھی اس شہید کی ننھی سی دنیا اگر وہ چاہتا تو اسے اپنی ہی دنیا میں مگن رہنے سے کون روک سکتا تھا۔ مگر وہ قوم کا بیٹا تھا۔ اس نے اپنے فرض کی پکار پر اپنی اس دنیا کو خیر باد کہہ کر بہت سوں کی ننھی دنیائیں بچالیں۔

آج یوم شہداء ہے
زندہ قومیں اپنے شہداء کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ آج انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔ آج پوری قوم ان ماﺅں ، بہنوں اور بیٹیوں کو اسی طرح خوش آمدید کہہ رہی ہے جس طرح انہوں نے اپنے شہید بیٹے، بھائی اور باپ کا استقبال محاذ جنگ سے فتح یاب لوٹنے پر کیا تھا۔

قوم ان بہادر ماﺅں کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنے بیٹے اس دھرتی کی حفاظت کے لئے وقف کردیئے اور ان بیٹوں پر بھی عقیدت کے پھول نچھاور کرتی ہے جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کردیا۔

پاک فوج کو فخر ہے کہ اس کے دامن میں کھلنے والے پھول وطن کی آن بان اور شان پر نچھاور ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ایک سولجر جب یونیفارم زیب تن کرتا ہے تو انفرادی خول سے باہر نکل کر اجتماعی سوچ کا حامل ہوجاتا ہے۔ ایک گھر کی حفاظت کی بجائے وطن کی حفاظت اس کا مطمع نظر ہوتی ہے ۔قوم کے یہ بیٹے دشمن کی سازشوں سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے قوم کو کبھی مایوس نہیں کیا نہ کریں گے۔ وہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہونے والی اندرونی اور بیرونی سازشوں کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ شہداء وطن کا لہو رنگ لائے گا اور پاکستان سے دہشت گردی، انتہاء پسندی اور فرقہ واریت کے کانٹے ہمیشہ کے لئے صاف ہوجائیں گے۔ (ختم شد)
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 63100 views Columnist/Journalist.. View More