امریکہ دہشت گردی کے خلاف گزشتہ
دس سال سے ایک جنگ لڑ رہا ہے کیونکہ اس کے ملک میں ایک شہر میں ایک عمارت
پر کچھ جہازوں نے حملہ کیا جسے امریکیوں نے 9/11 کے نام سے یاد رکھا ہواہے
اور اس کے بعد گویا امریکہ کو افغانستان اور پھر پاکستان میں کھل کھیلنے کا
موقع مل گیا وہ جہاز امریکہ سے ہی اڑے تھے پاکستان یا افغانستان سے نہیں
یعنی نا کامی تھی بھی تو امریکی خفیہ اداروں کی تھی لیکن بدلہ افغانستان کی
اینٹ سے اینٹ بجا کر لیا گیا اور اب امریکہ مسلسل اپنے جہاز بھیج کر
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کچھ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ زیادہ تر معصوم
پاکستانیوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی خود مختاری کو
چیلنج کر رہا ہے 2004 میں پہلی دفعہ ڈرون حملہ ہوا تو پاکستانیوں کے لیے
ایک اچھنبے کی بات تھی کچھ شور بھی اٹھا خود مختاری کی خلاف ورزی کی با تیں
بھی ہوئیں غم و غصے کا اظہار بھی ہوا امریکہ سے احتجاج کی باتیں بھی ہوئیں
لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے ان علاقوں کو مال غنیمت سمجھ لیا ہے
اور قبائلیوں کو مال مویشی ۔ امریکہ جیسے ملک میں جہاں جانوروں کے حقوق کا
بھی شور اٹھتا ہے پاکستانیوں کا خون اُن کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا لیکن
دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم کیوں چپ ہیں ہماری حکومت کوئی بامعنی احتجاج
کیوں نہیں کرتی ہماری فوج سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے تو پھر فضائی
سرحدوں کی یہ مسلسل خلاف ورزی کیسے برداشت کی جا رہی ہے اگر اس کی کوئی خاص
وجہ ہے تو وجہ قوم کو بتا دی جائے تاکہ قوم کو کچھ تو معلوم ہو ۔ حملے
بڑھتے جا رہے ہیں اور احتجاج کم ہوتا جا رہا ہے 2004 میں پہلا اور اگلے دو
سالوں میں دو دو، 2007 میں چار اور بڑھتے بڑھتے یہ حملے 2010 میں 118 تک
پہنچ گئے اور 2010 میں 993 افراد اِن حملوں کی نذر ہو گئے رواں سال اب تک
22 ڈرون حملے ہو چکے ہیں جن میں 148 اموات ہوئیں یوں 2004 سے 2011 تک 234
حملے ہوئے اور تقریباً تین ہزار ہلاکتیں ہوئیں اور ان میں بہت سے بے گناہ
بھی مارے گئے اور وہ بھی جنہیں دہشت گرد قرار دیا گیا تو کیا یہ پیدا ئشی
دہشت گرد تھے یا یہ وہ لوگ تھے جو کبھی امریکہ کے کام آتے رہے تھے؟ جو بھی
تھا آخر اتنی آسانی اور سہولت سے پاکستانی سرحدوں کی خلا ف ورزی کیسے کر لی
جاتی ہے اور اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہ آنا ایک اور بڑا قومی جرم ہے جس
سے نہ صرف جانوں کا نقصان ہو رہا ہے بلکہ قومی وقار کو بھی نقصان پہنچ رہا
ہے اور قومی سا لمیت متا ثر ہونے کا بھی خدشہ موجود ہے یہ ایک انتہائی
سنجیدہ مسئلہ ہے جسے انتہائی غیر سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے سترہ مارچ کو
شمالی وزیرستان میں ایک جرگے پر ہونے والے حملے پر جب فوج نے شدید احتجاج
کیا تو حکومت کو بھی ناراضگی کا اظہار کرنا پڑا لیکن اس پر امریکہ پر کوئی
خاص اثر نہ ہوا سوائے اسکے کہ اُس وقت بے گناہوں پر جان بوجھ کر کئے گئے
حملے پر افسوس کا اظہار کر دیا گیا اور صرف ستائیس دن بعد جنوبی وزیرستان
میں ایک ڈرون سے سات میزائل داغے گئے اور اس حملے میں چھ افراد شہید کر
دئیے گئے جو کہ پھر عام قبائلی تھے اور کچھ نے انہیں حقانی گروپ کا قرار
دیا کسی افسوس دکھ یا ہلچل کا اظہار نہیں کیا گیا اور صرف آٹھ دن بعد یعنی
اکیس اپریل کو پھر شمالی وزیرستان میں میر علی کے مقام پر حملہ ہوا اور
پچیس افراد ہلاک ہوگئے جن میں چار عورتیں اور پانچ بچے بھی شامل تھے اس
حملے سے کچھ ہی دن پہلے امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف مائک ملن نے ایک دفعہ
پھر شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کا رونا رویا اور ایک دفعہ
پھر پاکستان فوج کو مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سنجیدہ
کوشش نہیں کر رہی جس کو پاک آرمی نے مسترد کیا۔
اب یہ سب کچھ چل رہا ہے اور برسوں سے چل رہا ہے اور لگتا ہے حکومت اس کی
عادی ہو کر Ammune ہو چکی ہے بس کبھی کبھار ازراہ تفننن کو ئی ہلکا سا بے
ضرر سا احتجاج کر لیا جاتا ہے ورنہ اکثر اس کی بھی زحمت نہیں کی جاتی میڈیا
پر ایک معمول کی خبر آتی ہے اور چلی جاتی ہے اور کار پردا زان حکومت حکومتی
جوڑ توڑ میں مصروف رہتے ہیں کبھی اتحاد بناتے ہیں اور کبھی اس کو قائم
رکھنے کے لیے جتن کرتے ہیں یوں مرتے ہوئے کسی معصوم قبائلی کی آخری چیخ ان
تک نہیں پہنچ پاتی شائد پہاڑ راہ میں حائل ہو جاتے ہوں لیکن واقعہ یہ ہے کہ
حکومتی کان پر نہ تو وہ ٹارگٹ کلنگ اثر انداز ہو رہی ہے جو آس پاس کے شہروں
میں ہو رہی اور نہ ہی وہ جو امریکی ڈرون قبائلیوں کو سافٹ ٹا ر گٹ سمجھ کر
رہے ہیں بس ایک فخر اور زعم ہے کہ ہم جمہوری حکومت ہیں جمہوریت تو عوام کی
حکومت عوام کے لیے ہوتی ہے لیکن اپنے ملک میں تو ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت
کا ہر ذمہ دار صرف اپنی ذات کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت میں ہے اسے عوام
اور عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پاکستان کی خود مختاری اور وقار سے
اسے کوئی سروکار نہیں فوج حکومت کا ماتحت ادارہ ہے جب وزیراعظم نے سوات میں
آپریشن کا حکم دیا تو فوج نے اسے بہر صورت ممکن کر دکھایا ، تو ڈرون حملوں
کو روکنے کے لیے ایسا کوئی حکم کیوں نہیں دیا جا رہا جبکہ پاک فضائیہ کے
سربراہ بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ انکے پاس ان جہازوں کو مار گرانے کی صلاحیت
موجود ہے ۔ظاہر ہے وہ کوئی غیر ذمہ دارانہ بیا ن نہیں دے سکتے اور اگر اس
صلاحیت میں کوئی کمی تھی بھی تو چھ سات سالوں میں وہ دورہو جانی چاہیے تھی
ڈرون حملوں میں یقیناً کچھ دہشت گرد بھی مارے گئے ہونگے کچھ غیر ملکی بھی
ہوں گے جو اُن ہی لوگوں کی اولاد ہے جو کبھی امریکہ نے ہی یہاں لاکر بسائے
تھے اپنے مفادات کے لئے، لیکن کیا وہ عورتیں، بچے، جرگوں اور حجروں میں
بیٹھ کر برادری کے فیصلے کرنے والے بوڑھے مشران بھی دہشت گرد تھے جو اِن
حملوں کی نذر ہو گئے عوام مسلسل اس سوال کا جواب مانگ رہے ہیں۔ حکومت کواس
معاملے کو سنجیدگی سے لے ہی لینا چا ہیے عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ
داری بھی حکومت پر عائد ہوتی ہے اور ملک کی خود مختاری کی بھی اور ابھی تک
ایک جگہ پر بھی کسی کامیابی کے آثار نظر نہیں آرہے۔ حکومتی جوڑ توڑ سے
زیادہ اہم یہ ملک ہے اگر یہ ہے تو حکومت ہے اگر نہیں تو کچھ بھی نہیں لہٰذا
اس طرف توجہ دینا زیادہ ضروری ہے اور عوامی مرضی کا کوئی جرات مندانہ فیصلہ
خود بخود آپ کو حکومت کا حقدار ثابت کر دیتا ہے صرف اسمبلی کی قراردادیں
معاملات حل نہیں کرتیں بلکہ اصل حل ان قراردادوں پر جرات مندانہ عمل ہے اگر
حکومت ان اختیارات کو استعمال کرنے کا فیصلہ کر لے تو ڈرونز کا راستہ روکا
جا سکتا ہے اور یوں عوام کے جان و مال کی حفاظت کے ساتھ ملکی خودمختاری اور
قومی وقار کی حفاظت قوم کا مورال بلند کر دے گی اور عالمی برادری میں ملک
کا وقار بھی۔ |