اسلام اپنی صاف ستھری اور پاکیزہ تعلیمات کے ذریعہ اپنے
ماننے والوں کو ہرچیز میں پاکیزگی کا اہتمام کرنے کا حکم دیتا ہے ، ایسی
کوئی چیز کھانے پینے سے منع کرتا ہے جس سے انسانی جسم اور صحت کو ضررونقصان
پہنچے بلکہ ایسا کوئی کام بھی کرنے سے روکتا ہے جو ہلاکت کے دہانے تک
پہنچاتا ہے ۔ آج جبکہ دوسو کے قریب ممالک کرونا وائرس کی زد میں ہیں اور
ہزاروں کی تعدادمیں اموات واقع بھی ہوچکی ہیں ، ہر ملک اس مہلک وبائی مرض
سے بچاؤ کی مختلف کی تدابیر اپنانیمیں لگا ہوا ہے ۔ایسے میں اسلام کس
قدرصحت انسانی کا خیال کرتا ہے ہم جاننے کی کوشش کرنا چاہئے ؟
یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ کسی کا قتل کرنا یا قتل وموت کا کوئی طریقہ
اختیار کرنا اسلام میں بہت بڑا جرم ہے اس وجہ سے اس عام بات کو زیر بحث نہ
لاکر ہم اس مضمون میں ان پہلوؤں پر روشنی ڈالناچاہیں گے جو براہ راست
انسانی قتل تو نہیں کہا جاسکتاتاہم بسا اوقات بڑے نقصان اور بسااوقات ہلاکت
کا سبب بنتے ہیں ۔ سطور ذیل میں حفظان صحت سے متعلق اسلام کے دس سنہرے اصول
ذکر کررہے ہیں جن سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات کس قدر پاکیزہ
ہیں اور وہ انسانی جان کی کس قدر پرواہ کرتا ہے ؟
(۱)کسے نہیں معلوم کہ نجاست سے بیماری پھیلتی ہے اور انسانوں کی ہلاکت ہوتی
ہے اس لئے اسلام کی سب سے سنہری تعلیم یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو
ہمیشہ صفائی ستھرائی کا حکم دیتا ہے بلکہ طہارت وپاکیزگی ایمان کا حصہ قرار
دیتا ہے تاکہ مسلمان ایمان کی حفاظت کے ساتھ طہارت کا بخوبی التزام کرے ۔الحمد
مسلمان پیدائش سے لیکر موت تک اپنا کپڑا، اپنا بدن اور رہن سہن کی جگہ پاک
رکھتا ہے۔پاک کپڑوں میں اور پاک جگہ باوضو ہوکر دن ورات پانچ بار نماز
پڑھنا اس کی بڑی دلیل ہے ۔
پانچ مرتبہ وضو کرنااور وضو میں ناک ومنہ میں پانی داخل کرکے جراثیم سے جسم
کی حفاظت کرنا ، نیز جمعہ کے علاوہ ناپاک ہونے پر غسل طہارت کا حکم دینا
اسلام کی پاکیزہ تعلیم ہے بلکہ پیشاب کے بعد استنجا کی تعلیم دینا بیماری
سے بچاؤ کی عمدہ تعلیم ہے۔ دیکھا جائے تو مسلمانوں کا ختنہ کرنا ، ناخن
وغیرضروری بال کاٹنابھی صفائی کے ساتھ مختلف قسم کی بیماریوں سے حفاظت ہوتی
ہے ۔اسلام میں صفائی سے متعلق اس کے علاوہ بہت ساری تعلیمات موجود ہیں ۔
(۲)اسلام کی ایک عمدہ تعلیم یہ بھی ہے کہ بیماری لاحق ہونے سے پہلے اﷲ نے
جو صحت وتندرستی دی ہے اسے غنیمت جانے ۔ اس تعلیم کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ
کرنے کے کام جلدی سے نبٹالے اور ایک مطلب یہ بھی ہے کہ صحت کو غنیمت جان کر
ایسا کوئی کام نہ کرے جو اسے بیمار کردے یا اس کی صحت کو نقصان پہنچادے اور
پھر وہ کوئی کام کاج کے لائق نہ بچے ۔
(۳)اسلام جس قدر پاکیزہ ہے اسی قدر پاکیزہ تعلیم بھی دیتا ہے ، وہ ایک
پاکیزہ تعلیم یہ بھی دیتا ہے کہ پاک جانوروں کو اﷲ کا نام لیکر کھاؤ اور جو
جانور ناپاک ہیں ،ان میں نجاست ہے یا زہر ہے اور انسانی صحت کو اس سے نقصان
پہنچنے کا اندیشہ ہے ایسے جانور نہ کھاؤ۔ اسلام کی یہ پاکیزہ تعلیم جانوروں
تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ کسی بھی قسم کی چیز میں زہر، نجاست یا ضرر ہو تو
انسان کے لئے اس چیز کا استعمال کرنا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حرام ہے
۔ بطور مثال شراب میں بیماری ہے اور جان کا نقصان ہے توشراب پینا حرام ہے
لہذا نشیلی چیزیں، زہریلی غذائیں، ہلاکت خیز مواد اور ضرر رساں سامان
وجراثیم سب منع ہیں ، ایک مسلمان ان میں سے کسی کا استعمال نہیں کرسکتا ہے
۔
(۴)آپ اندازہ لگائیں کہ اسلام نے برتن میں پھونک مارنے سے منع کیا ہے تاکہ
پھونک سے جو جراثیم نکلتے ہیں کہیں اس کے سبب کھانے پینے سے صحت کو کوئی
بیماری نہ لگ جائے ۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ پھونک مارکر پینے والا فورا
بیمار ہوجائے ، کتنے لوگ تو گرم چیز مثلا چائے اکثر پھونک کر پیتے ہیں اور
بظاہر انہیں کچھ نہیں ہوتا مگر اسلام نے احتیاطی تدبیر کے تئیں ایسا کرنے
سے منع کیا ہے تاکہ فورا یا بعد میں کبھی کوئی نقصان نہ لاحق ہو۔
(۵)نہ کھانا یا زیادہ کھانا یہ دونوں ہی صحت کے لئے نقصان دہ ہیں اس لئے
اسلام نے ہمیں پیٹ کے ایک حصے میں کھانے کا حکم دیا اور دوسرے حصے میں پانی
اور تیسرے حصے کو خالی رکھنے کا حکم دیا تاکہ بآسانی سانس لے سکیں ۔حفظان
صحت کے لئے یہ تعلیم نہایت ہی عمدہ ہے۔
(۶)ایسا کوئی بیمار جس کی بیماری اﷲ کے حکم سے دوسرے کو منتقل ہوسکتی ہے اس
بیمار کو تندرست آدمی سے الگ رکھنے کا حکم ہے تاکہ کوئی صحت مند بیمار نہ
بیمار ہوجائے ، یہ محض احتیاطی تدبیر ہے ۔
(۷)اسی طرح یہ بھی اسلامی تعلیم ہے کہ جہاں مہاماری والی کوئی وبا پھیلی ہو
تو اس جگہ کوئی جاکر سکونت نہ اختیار کرے اور نہ ہی مہاماری جگہ سے کوئی
بیمار یا صحت مند دوسری جگہ سفر کرے ۔ اس سے بیماری دوسروں میں اور دوسری
جگہ بھی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
(۸)موت کی تمنا اور آرزو سے بھی اسلام منع کرتا ہے کیونکہ موت اپنے وقت پر
ہی آئے گی البتہ موت کو یاد کرنے کا اس لئے حکم دیتا ہے تاکہ انسان آخرت کی
تیاری کرے، غلط کاموں سے بچے، خود کو یا دوسرے کو تکلیف نہ دے،اﷲ کا خوف
کھائے اور اعمال صالحہ کی انجام دہی کی فکر کرتا رہے ۔
(۹)اسلام نے صحت کا اس قدر خیال کیا ہے کہ نماز جیسی عظیم عبادت کے وقت کسی
کو پیشاب وپاخانہ لگا ہو تو وہ پہلے اپنی ضرورت پوری کرلے چاہے اس کی
نمازباجماعت ہی فوت کیوں نہ ہوجائے پھر وہ نماز ادا کرے ۔ ہم جانتے ہیں کہ
پیشاب وپاخانہ کوروکنا تکلیف دہ اور بیماری کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔جو
اسلام انسانی صحت کا اس قدر خیال کرتا ہے اس کی نظر میں انسانی قتل کتنا
بڑا جرم ہوگا؟
(۱۰)ایک آخری اہم نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ زندگی اور موت کا پیدا کرنے
والا، بیماری اور تندرستی دینے والا، مصیبت دینے اور ٹالنے والااکیلا اﷲ ہے
، اس کے حکم کے بغیر دنیا میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا ہے اس لئے ہمارے پیارے
رسول محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم دی ہے کہ اﷲ سے صحت وعافیت کی دعا
مانگتے رہو اور زمانے کے شروفساد اور بیماری وتکلیف سے اس کی پناہ طلب کرتے
رہو ۔ جو لوگ اپنے خالق پر بھروسہ کرتے ہیں ، اسی مانگتے ہیں ، اس کے ساتھ
کسی کو شریک نہیں کرتے ہیں وہ اﷲ اس مومن کی حفاظت فرماتا ہے ۔
میں نے حفظان صحت سے متعلق اسلام کی دس سنہری باتیں آپ کی خدمت میں پیش کی
اور ساتھ ہی شروع ہی یہ اشارہ بھی کردیا کہ اسلام قتل سے سختی کے ساتھ منع
کرتا ہے خواہ کوئی خود کا قتل کرے یا کسی معصوم کا۔اسلام کی نظر میں قتل تو
سنگین جرم ہی ہے وہ تمام کام بھی جرم میں شامل ہیں جو قتل تک پہنچانے
والیہیں اس لئے عمد ا کوئی مسلمان ایسا کام کرتا ہے جس سے خود کی یا کسی
دوسرے کی موت واقع ہوجاتی ہے تو وہ اسلام کی نظر میں مجرم وگنہگار ہے ۔
مجھے یقین ہے کہ اوپر ذکر کردہ باتوں پر مسلمان عمل کرے یا غیرمسلم ان سب
کی جسمانی حفاظت ہوگی اور وہ بیماری سے اور اچانک ہلاک ہونے سے بچ سکے
گا۔اسلام کی مذکورہ دس باتوں کی روشنی میں خلاصہ کے طور پر چند فائدے ذکر
کرنا چاہتا ہوں تاکہ آج کے خوفناک ماحول میں کام آسکے ۔
٭ چونکہ اسلام ہمیں پاکیزگی کا حکم دیتا ہے اور ہم اسلام کو ماننے والے ہیں
لہذا اپنے کردار سے عملی نمونہ پیش کریں کہ ہم واقعی اسلام کی پاکیزہ
تعلیمات پر عمل کرنے والے ہیں اس لئے ہمارا گردوپیش ، بدن اور کپڑا پاک صاف
ستھرا ہو۔
٭ خوف اور مصیبت کے وقت عبادت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے اس لئے ایسے وقت
میں فرائض پر سختی سے کاربند ہوں اور توبہ واستغفار کی کثرت کریں ۔
٭ چند دنوں پہلے سعودی عرب کے سپریم علماء کونسل نے بہت ہی غوروخوض کے بعد
فتوی صادر کیا کہ سعودی عرب والوں کو اس وقت اپنے گھروں میں نماز پڑھنی
چاہئے حتی کہ جمعہ کے دن بھی اپنے گھروں میں ہی ظہر کی نماز ادا کریں۔ اس
وقت کچھ عجمی علماء نے اس فتوی پر واویلا مچایا اور اس فتوی کو شریعت کے
خلاف قرار دیا اور آج جب حالات نازک ہوچکیہیں اورمختلف شہروں میں لاک ڈاؤں
کی نوبت آچکی تو سمجھ میں آگیا کہ گھروں میں نماز پڑھنا ہی حالات کا تقاضہ
ہے ۔سعودی عرب کا فتوی کل بھی اسلام کے خلاف نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے
کیونکہ اسلام ہمیں نہ صرف مرنے سے روکتا ہے بلکہ موت کی طرف جانے والے تمام
راستوں پر چلنے سے منع کرتا ہے۔عوام ،ائمہ اور علماء سے میری پرخلوص گزارش
ہے کہ چند دنوں کے لئے گھروں کو لازم پکڑیں اور گھر پر ہی پنچ وقتہ نماز
ادا کریں ، اسی میں سب کی عافیت ہے۔
٭ بعض نادان کرونا کو ہلکے انداز میں لے رہے ہیں وہ احتیاط کیا کریں گے اس
کا مذاق اڑارہے ہیں جبکہ یہ سنگین بیماری اور اﷲ کا عذاب ہے ۔ ایک مسلمان
اﷲ کے عذاب سے کیسے بے خوف ہوجائے گا اور اس کا مذاق اڑائے گا؟ خدا را!ہوش
کا ناخن لیں ،آپ اپنی اور پورے اہل خانہ کی حفاظت کریں ، احتیاطی تدابیر
اپنائیں اور ان لوگوں کو سیدھی راہ دکھائیں جو کرونا کا مذاق اڑارہے ہیں یا
بداحتیاطی کررہے ہیں ۔
٭ اﷲ سے دعا مانگنا مومن کی زندگی کا اہم وسیلہ ہے اس کو عملی جامہ پہنائیں
۔اﷲ سے دعاکریں کہ وہ ہم سے عذاب ٹال دے ، ہمارے اوپر سے خوف کا بادل ہٹادے
، وہ ہمیں امن وراحت دے اور امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے ۔
|