ایک نظر پیار کی - قسط نمبر: 4

آج آپ بہت خوبصورت لگ رہی تھیں آپی۔ سب آپکو ہی دیکھ رہے تھے۔ شہزین اسکی جیولری اتروانے میں مدد کررہی تھی۔ اور وہ اپنی چوڑیاں اتار رہی تھی۔
ایسی خوبصورتی کا کیا فائدہ جسے میں خود نہ دیکھ سکوں۔ مہرش نے حسرت سے کہا۔
ہاں احزم بھائ بھی تو یہی کہہ رہے تھے ۔ شہزین نے بے دھیانی میں بولا ۔اور نازک سی کلائی سے چوڑیاں اتارتے ہوئے اسکے ہاتھ ایک دم ہی رک گئے تھے۔
شہزین کو فورا ہی اپنی غلطی کا اندازہ ہوگیا تھا۔
میرا مطلب تھا۔۔۔۔۔۔
رہنے دو شہزین میں اسکی ہر بات کا مطلب اچھی طرح سمجھتی ہوں۔
غزوان کالنگ۔۔۔۔۔۔ اسکا موبائل بجا۔ اور شہزین نے سکون کا سانس لیا۔۔۔۔ آپی آپ بات کریں میں بعد میں آتی ہوں وہ اسکا موبائل اسے تھما کر بولی۔
سوری میں نے تمہیں ڈسٹرب تو نہیں کیا؟ وہی تکلف تھا غزوان کے لہجے میں۔
نہیں ۔ آپکو کچھ کام تھا کیا؟
ہاں کام تو تھا۔۔۔۔۔
جی کہیئے۔۔۔۔
بس تمہیں یہ بتانا تھا کے تم آج پہلے سے ذیادہ اچھی لگ رہی تھیں۔ ویسے تو تم مجھے سادگی میں بھی اچھی لگتی ہو لیکن کبھی کبھی تیار ہونے میں کوئی حرج تو نہیں۔۔۔۔
جی۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔
بس ٹھیک ہے؟ یار تعریف کی ہے تمہاری تھینکس ہی بول دو۔۔۔
اچھا جی۔ تھینکس۔۔۔۔ وہ ایسے ہی مسکراہٹ لے آتا تھا اسکے چہرے پر۔
تمہیں پتا ہے مہرش لڑکیاں تو لڑ لڑ کر اپنی تعریفیں کرواتی ہیں بار بار پوچھتی ہیں کیسی لگ رہی ہوں میں پھر لڑکے تنگ آکر بول دیتے ہیں خود ہی دیکھ لو۔۔۔۔ لیکن تم بہت لکی ہو بلکہ ۔۔۔۔۔ میں بہت لکی ہوں۔ میں تمہیں ایسا نہیں کہہ سکوں گا۔ میں تمہاری تعریف کرونگا تو تم میری آنکھوں سے خود کو دیکھوگی اور بلیو می میں بالکل بھی کنجوسی نہیں کرونگا تمہاری تعریف کرنے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔
مہرش خاموش تھی شہزین سے ہوئے الفاظ ایک بار پھر یاد آگئے تھے اسے۔
مہرش سن رہی ہو نا۔۔۔ تمہیں برا تو نہیں لگا؟؟؟۔۔۔۔۔
نہیں اس میں برا ماننے والی کیا بات ہے یہ تو سچ ہے کہ ۔۔۔۔ میں دیکھ نہیں سکتی۔۔
اتنی حسرت سے مت کہا کرو یار۔ یہ سچ ضرور ہے لیکن یہ آدھا سچ ہے۔ اور پورا سچ یہ ہے کے تم اسکے باوجود بھی کسی سے کم نہیں ہو اور تمہاری اسی خوبی نے متاثر کیا ہے مجھے۔ اگر تم دیکھ سکتیں تو شاید تم بھی میرے لئے امبرین اور شہزین جیسی ہوتیں۔
امبرین۔۔۔ جس سے فیضان کی منگنی ہوئی ہے؟ اس نے ذہن پر زور ڈالا۔
ہاں وہی۔ خیر چھوڑو اسے کافی رات ہوگئ ہے تم تھک بھی گئ ہوگی آرام کرو۔ غزوان کو احساس ہوگیا تھا کے اسے امبرین کا نام اس طرح نہیں لینا چاہئے تھا۔
جی بالکل خدا حافظ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین دن بعد ہی تابندہ نے کال کرکے احزم کے لئے شہزین کا رشتہ مانگ لیا تھا۔ رخشندہ کا بس چلتا تو فورا ہی منع کردیتیں لیکن چھوٹی بہن کا لحاظ آڑے آگیا۔ انہوں نے تابندہ کو سوچ کر جواب دینے کا کہہ کر ٹال دیا۔ لیکن اب وہ شدید غصے میں تھیں۔
غصہ ہونے کی کیا ضرورت ہے رخشی ٹھنڈے دماغ سے سوچو آخر کیا غلط کیا ہے تابندہ نے؟
کیا غلط کیا ہے میری بیٹی کا دل توڑا ہے۔ ایک بیٹی کا دل توڑ کر میں دوسری بیٹی کا رشتہ کیسے جوڑ دوں؟ وہ کچھ سننے کے لئے تیار نہیں تھیں۔
نہیں رخشی ہماری بیٹی کا دل ہماری غلط فہمی کہ وجہ سے ٹوٹا ہے۔ تابندہ اور اطیب نے تو کبھی بھی ایسا کچھ واضح نہیں کہا۔
کیوں جب مہرش کی پیدائش ہوئی تھی تب کہا تھا آپکو یاد نہیں؟
ہاں لیکن اسوقت تک یہ نہیں پتا تھا کے مہرش نابینا ہے۔
جنید آپ خود اپنی بیٹی کہ معذوری کو اسکی خامی کہہ رہے ہیں۔
میں تمہیں حقیقت بتا رہا ہوں جو تم کبھی سننے کے لئے تیار نہیں ہوتیں۔ معاملہ ہماری ایک بیٹی کا نہیں دونوں کا ہے۔ احزم اچھا لڑکا ہے۔ اور جب ایک رشتہ ایک بیٹی کے لئے مناسب تھا تو دوسری کے لئے نامناسب کیسے ہو سکتا ہے۔
تو آپ چاہتے ہیں میں اس رشتے کے لئے ہاں کردوں؟
میں صرف اتنا چاہتا ہوں کے تم بغیر سوچے سمجھے انکار مت کرو۔ آج نہیں تو کل ہمیں شہزین کا رشتہ بھی کہیں نہ کہیں طے کرنا ہے پھر دونوں بیٹیاں خاندان میں ہی رہیں گی اس سے اچھی کیا بات ہو سکتی۔
ہاں لیکن ابھی شہزین چھوٹی ہے اور تابندہ تو مہرش کے ساتھ ہی شہزین کی شادی کرنا چاہ رہی ہے اتنی جلدی کیسے ہوگا سب پھر ابھی اس نے انٹر کیا ہے آگے پڑھنا چاہتی ہے وہ۔ جنید کی باتوں نے رخشندہ کو کسی حد تک قائل کرلیا تھا لیکن ابھی بھی خدشات تھے انکے دل میں۔
پڑھائی تو شادی کے بعد بھی کی جاسکتی ہے اور ساتھ شادی کرنے میں کیا حرج ہے تمہاری اور تابندہ کی شادی بھی ساتھ ہی ہوئی تھی۔
افوہ آپ نے تو مجھے شش و پنج میں ڈال دیا۔ نہ اسے کوئی گھر داری آتی ہے نہ سلیقہ وہ تو ذمہ داریوں سے دور بھاگتی ہے۔
بھئی تابندہ کو بھی ان سب باتوں کا اندازہ ہوگا۔ پھر چھوٹی سی فیملی ہے جاتے ہی اتنی ذمہ داریاں نہیں پڑ جائیں گی آہستہ آہستہ سیکھ جائے گی سب۔
لیکن پھر بھی میں مہرش سے بات کئے بغیر اس رشتے کے لئے ہاں نہیں کرسکتی۔
ٹھیک ہے تم اچھی طرح سوچ لو پھر جواب دینا۔ جنید نے انہیں تو قائل کرلیا تھا لیکن وہ خود بھی کشمکش کا شکار تھے۔ اطیب اعوان نے مہرش کی منگنی سے قبل انہیں کال کی تھی اور مبارکباد دینے کے ساتھ ہی معذرت بھی کرلی تھی۔ انکی خواہش تھی کے مہرش انکی بہو بنے۔ لیکن تابندہ شہزین کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہیں اور احزم بھی اس میں انٹرسٹڈ ہے یہ بات انہوں نے جب ہی بتا دی تھی ساتھ ہی ریکوئسٹ بھی کی تھی کے وہ اس رشتے کے لئے رخشندہ کو قائل کریں۔ اور بہت سوچ بچار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کے احزم کا رشتہ ہی شہزین کے لئے مناسب ہے۔لیکن مہرش کے دل پر کیا گزرے گی اس بات کی فکر انہیں بھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی آئندہ
 

Sana Waheed
About the Author: Sana Waheed Read More Articles by Sana Waheed: 25 Articles with 35414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.