دنیا کی زندگی بنی نوع انسان کے لیے ایک ایسا امتحان ہے
جس میں کامیابی یا ناکامی پرحتمی سزا و جزاء تو ما بعد الموت کے معاملات کا
حصہ ہے البتہ بعض اوقات انفرادی و اجتماعی جرائم ومظالم خالق کائنات کی وضع
کردہ حدسے بڑھ جاتے ہیں جس پر قانونِ قدرت حرکت میں آتا ہے اورعذاب کی صورت
میں انسان کی سزا کا عمل قبل از مرگ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ دنیا کے اس عذاب
کا مقصد مجرم کو نہ صرف سزا دینا ہوتا ہے بلکہ اس کودنیا کے لیے نشانِ عبرت
بنا کر ان گناہ گاروں کو دکھانا بھی مقصود ہوتا ہے جو ابھی اس حد تک پہنچنے
کے قریب ہیں۔اﷲ کے خوش قسمت بندے اس انجام سے سبق سیکھتے ہیں اور رب کائنات
کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔جبکہ دوسری قسم کے بد
قسمت اور نادان لوگ اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے اپنی زبان سے ایسے
کلمات ادا کربیٹھتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی شان ربوبیت کے خلاف ہیں اور سخت بے
ادبی تصور کیے جاتے ہیں۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے اس مشکل وقت میں ہمارے ملک میں کچھ ایسی ہی صورت
حال دکھائی دے رہی ہے کہ ہمارے حکمران قوم کو توبہ استغفار کی تلقین کرنے
اور خود سجدہ ریز ہو کراﷲ سے مانگنے کی بجائے ایسی فضولیات اپنی زبان سے
ادا کر رہے جو ان کی روحانی بصارت سے محرومی اور ایمان و عمل کی کمزوری کی
آئینہ دار ہیں۔آزمائش کی اس گھڑی میں قوم کو جو ملحدانہ سبق سکھایا جا رہا
ہے وہ یہ ہے کہ ’’کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے‘‘ ۔اﷲ کے عذاب اور پکڑ سے
لڑنا اس معنی میں سمجھ آتا ہے کہ ہم آج تک سودی معیشت کی بنیاد پر چل رہے
ہیں جبکہ قرآن حکیم میں رب العالمین نے واضح فرما دیا کہ سود سے توبہ نہ
کرنا اﷲ و رسولؐ سے جنگ کے مترادف ہے۔اسی سود کی لعنت سے متعلق ماضی میں
ایک روسیاہ نے یہاں تک کہہ ڈالا تھا کہ علماء کرام سود کے معاملے میں
گنجائش پیدا کریں (معاذاﷲ)۔ جبکہ 2005کے زلزلے کے بعد ایک بے دین رہنمانے
کہا تھا ہمیں قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی۔
یاد رکھنا چاہیے کہ اﷲ کے عذاب سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کا تکبر ماضی کی
ایک قوم میں محض ایک مچھر کے ذریعے اپنے انجام کو جا پہنچا تھا ۔ ہم اسلامی
جمہوری روایات کے علمبردار ہیں ، ہمیں یہ متکبرانہ نعرے کسی طرح زیب نہیں
دیتے۔ کاش ہمارے حکمرانوں کی جانب سے یہ اعلان کیا جاتا کہ عذاب کے آثار
نظر آنے پر صدر ،وزیراعظم اور وزراء صلوٰۃ التوبہ پڑھ رہے ہیں اور پوری قوم
بھی نوافل ادا کرکے اﷲ سے معافی مانگے، لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ کرونا
کو عذاب تسلیم کرنا بھی ان پر گراں ہے۔ ایک ڈرم نما شخص نے تو یہ بھی کہہ
دیا کہ کرونا وائرس عذاب نہیں ہے بلکہ علماء کی جہالت کا نتیجہ ہے۔ قوم کے
خواص کی یہ ذہنی پسماندگی دیکھ کر محب وطن طبقہ کا بہت سے اندیشوں اور
وسوسوں میں مبتلا ہو نا حق بجانب ہے کہ جب ہمارے ملک کی باگ ڈور اس طرح کے
جہلاء کے ہاتھ میں ہو تو ہمارا مستقبل کیا ہو گا۔ دراصل جو دین دشمن
سیاستدان عوام کے غیظ و غضب کے خوف سے اسلام کے خلاف بولنے سے قاصر ہیں وہ
علماء اسلام پر تنقد کرکے اپنی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔چشم ِ فلک نے
ایسے حکمران بھی اس ملک میں دیکھے ہیں جن کا جنازہ ادا کرنے کے لیے شرق و
غرب کا کوئی عالم تیار نہیں تھا۔معاشرے سے علماء کو تفریق کرنے کی باتیں
کوئی دین دار شخص نہیں کر سکتا بلکہ وہی کرے گا جو لا مذہب ہو گا۔
بقول اقبال
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص خصوصی انفرادی نوافل ادا کرکے اپنے گناہوں کی
توبہ کرے اور جبکہ صدر اور وزیر اعظم پوری قوم کی طرف سے استغفار کرکے اﷲ
سے مانگیں۔ساتھ ہی ساتھ اپنے الفاظ کو درست کریں کہ کرونا سے لڑنا نہیں
بلکہ اﷲ سے ڈرنا ہے۔اﷲ کی ناراضگی ہی کا سبب ہے کہ عوام مساجد میں باجماعت
نماز پڑھنے سے بھی خوف زدہ ہو جائیں جبکہ ہر دور میں اﷲ کو منانے کا سب سے
بڑا ذریعہ مساجد کو آباد کرنا ہی تھا جو کہ ہم سے چھِن رہا ہے،یہاں تک کہ
اﷲ تعالیٰ نے امت کو اپنے گھر کے طواف سے بھی محروم فرما دیا۔سعودی وزارت
حج نے امسال حج پر خدشات ظاہر کر دیے ہیں اور پاکستان کو حج معاہدے کرنے سے
روک دیا گیا ہے۔ یہ دنیا کے خاتمے اور قیامت کی علامات نہیں تو اور کیا
ہے۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی
جب تک بیت اﷲ کا حج موقوف نہ ہو جائے‘‘ ۔
اﷲ تعالیٰ پوری امت مسلمہ پر اپنی رحمت اور فضل فرمائے، گناہوں کو معاف
فرما کر عذاب کے آثار کو ختم کردے اور ہم پر اپنے گھر کے دروازے کھول دے۔
اٰمین
|