اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ؛۔ ترجمہ ۔ پس چاہئیے
کہ وہ معاف کر دیں اور در گزر کر یں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اﷲ تمہیں
بخش دے اور اﷲ بہت بخشنے والا اور باربار رحم کرنے والا ہے ۔ ( النور :22)
اخلاق انسانی رویہ کا نام ہے۔ دنیا کاہر مذہب اپنے ماننے والوں کو اخلاقی
قدروں کی تعلیم دیتا ہے کیونکہ اخلاقی قدروں کے بغیر انسانی زندگی نا مکمل
سجھی جاتی ہے ۔
حوصلہ کا لفظ اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے ۔یہ لفظ صبر و استقلال ،عزم و
ہمت ، شجاعت،بہادری اور قوتِ برداشت جیسی صفات کا حامل ہے۔اسی طرح اپنے
اوپر غصے کی حالت میں قابو پانا اور درگزر کرنا بھی اِس کے مفہوم میں داخل
ہے۔
قوتِ برداشت انسان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ہے۔ایسے حالات میں جب دوسرے
لوگ ہماری مرضی کے مطابق رویہ اختیار نہیں کرتے
یاجب ہمیں اختلاف رائے کا سامنا ہوتا ہے توایسے موقع پر تحمل اور برد باری
سے کام لیتے ہوئے مسائل کا سامنا کر نا وسعت حوصلہ کہلاتا ہے۔ وسعتِ حوصلہ
وہ صفت ہے جوانسان کو معاشرے میں مقبول بناتی ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں کامل رہنمائی
کرتا ہے۔ اسلام نے وسعتِ حوصلہ کے خُلق کو اعلیٰ ترین مقام و مرتبہ عطا
فرمایا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کو دنیا کا سب سے بڑا معلمِ اخلاق بنا کر
بھیجا۔آپ ؐ نے اخلاق کی ہر قدرکونکھا را ۔
تیرے پیغام سا پیغام نہ لایا کوئی تجھ سا پہلے ‘ نہ تیرے بعدہی آیا کوئی
نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ وہ مسلمان جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان
کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کرتا ہے اس مسلمان سے بہتر ہے جو
لوگوں سے ملتا جلتا نہیں اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر نہیں
کرتا۔(ترمذی۔ کتاب صفۃ القیامۃ)
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوت وسعتِ حوصلہ انتہائی اعلیٰ درجہ کی تھی۔
ظلم و ستم کے جواب میں آپ دعا کرتے۔بارہا مواقع پرآپ ؐ نے وسعتِ حوصلہ سے
کام لیتے ہوئے ا پنے جانی دشمنوں کو معاف فرمادیا۔ رسول کریم ﷺ سے عفوکرنے
کے بے نظیر نمونے نہ صرف دوستوں بلکہ دشمنوں کے حق میں بھی ظاہر ہوئے اور
دنیاپر ثابت ہوا کہ آپؐ اﷲ تعالیٰ کی صفت ’’عَفُوّ‘‘ کے بہترین مظہرتھے۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنی
ذات کی خاطر اپنے اوپر ہونے والی کسی زیادتی کا انتقام نہیں لیا۔(مسلم کتاب
الفضائل باب مباعدتہ صلی اﷲ علیہ وسلم للانام ۲۰ صفحہ ۲۹)
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا برستی نہ رحمتیں کی رِم جھِم پھُو اریں
گُلوں میں یہ رنگِ جمالی نہ ہوتا
حضرت محمد ﷺ کی زندگی عفوودرگزرکابحرِبے کنارتھی۔دینِ اسلام جس سرعت کے
ساتھ اکنافِ عالم میں پھیلا اس کا رازخود اس کی صداقت وحقانیت کے علاوہ
حضوراکرم ﷺ کے عفو و کرم میں مضمر تھا۔
اس بوڑھی عورت کو ذرا نگاہِ تصور میں لائیے ، جس سے بوجھ کی وجہ سے چلنا
دشوار تھا آنحضرت ﷺ نے اُس کا بوجھ اُٹھا کر اُسے منزل تک پہنچایا وہ سارا
راستہ انجانے میں آپ ؐ کو بُرا بھلا کہتی رہی۔منزل پر پہنچ کر جب اُسے پتہ
چلتا ہے کہ وہ محمدؐ جس کو وہ بُرا بھلا کہتی رہی ہے وہ میرا یہی محسن ہے
تو فورًامسلمان ہو جاتی ہے۔
دل جیت لئے اس نے محبت کی نظر سے دی اپنے پرائے کو دوا اور دعا بھی
فتح مکہ کا نظارہ نگاہوں کے سامنے لائیے۔ جب آپؐ کو وطن سے نکالنے والے،
آپؐ کی بیٹی کو اونٹ سے گرانے والے، آپؐ کے چچا کا کلیجہ چبانے والے اور
آپؐ کے پیارے صحابہؓ کو دُکھ پہنچانے والے‘ سب آپؐ کے سامنے کھڑے تھے ۔ آپؐ
چاہتے تو دستورِ زمانہ کے مطابق ان کے خون کی ندیاں بہا دیتے مگر آپؐ نے
وسعتِ حوصلہ سے کام لیتے ہوئے ان سب کو معاف فرمادیا۔
عفو و درگزر کے پیکر ِاعظم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنے نمونہ سے یہ ثابت کیا
کہ آپ کا پیغام سچا بھی ہے ‘ قابل عمل بھی ہے اور موجبِ امن بھی ہے۔
حضور اکرم ﷺ کے وسعتِ حوصلہ کا غیر وں نے بھی اعتراف کیا ہے۔
بی ایس رندھاوا ہوشیار پوری لکھتے ہیں؛۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو
جتنا ستایا گیا اتنا کسی ہادی اور پیغمبرکو نہیں ستایا گیا اس حالت میں
کیوں نہ محمد کو رحم دلی اور شفقت و مروت علی المخلوقات کی داد دی جائے
جنہوں نے خود تو ظلم و ستم کے پہاڑ اپنے سر پر اٹھا لئے مگر اپنے ستانے
والے اور دکھ دینے والوں کو اُف تک نہ کہا۔ بلکہ ان کے حق میں دعائیں
مانگیں اور طاقت اور اقتدار حاصل ہونے پر بھی ان سے انتقام نہ لیا ۔
(مقام رسول اپنوں اور غیروں کی نظر میں صفحہ ۸۰)
آنر ایبل چھوٹورام لکھتے ہیں ؛۔پیغمبر اسلام اپنے دشمنوں تک سے فیاضی اور
عفو و احساسات کے حیرت انگیز سلوک فرما جاتے تھے۔ آپ اپنے دشمنوں کے
احساسات اور جذبات کو پورا پورا خیال کھتے تھے۔ پیغمبر اسلام کی رواداری
اور مروت تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتی۔
(پیغمبر اسلام مجموعہ تقریر آنر یبل چھوٹو رام)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ
کی راہ میں خرچ سے مال کم نہیں ہوتا اور اﷲ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو
معاف کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے۔جتنی زیادہ
کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ
عطاکرتا ہے۔ (مسلم کتاب البر والصلۃ باب استحباب العفو والتواضع)
حضرت عبداﷲ بن عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول
اﷲﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اﷲ! میرا ایک خادم ہے
جو غلط کام کرتا ہے اور ظلم کرتا ہے کیا میں اسے بدنی سزا دے سکتا ہوں؟ اس
پر رسول اﷲﷺ نے فرمایا تم اس سے ہر روز ستر مرتبہ درگزر کر لیا کرو۔(مسند
احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ۰ ۹ مطبوعہ بیروت)
سبق تم نے محبت کا ہر اک انساں کو سکھلایا مُقدس راستہ دے کر دین دنیا
میں پھیلایا
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں ایک آدمی نے حضرت ابو بکر ؓ کو آنحضرت صلی
اﷲ علیہ وسلم کی موجودگی میں برا بھلا کہنا شروع کیاحضور ؐ اس کی باتیں سن
کر تعجب کے ساتھ مسکرا رہے تھے، جب اس شخص نے بہت کچھ کہہ لیا تو حضرت ابو
بکر ؓ نے اس کی ایک آدھ بات کا جواب دیا۔ اس پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم
کو غصہ آیا اور آپ مجلس سے تشریف لے گئے۔ حضرت ابو بکر ؓ رسول اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم سے ملے، عرض کیا اے اﷲ کے رسول! وہ آپ کی موجودگی میں مجھے برا
بھلا کہہ رہا تھا اور آپ بیٹھے مسکرا رہے تھے لیکن جب میں نے جواب دیا تو
آپ غصے ہو گئے اس پرآپ نے فرمایا وہ گالی دے رہا تھا تم خاموش تھے تو خدا
کا ایک فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا لیکن جب تم نے اس کو الٹ کر
جواب دیا تو فرشتہ چلا گیا اور شیطان آ گیا۔
(مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۷۷)
اور جب شیطان آ گیا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وہاں بیٹھنے کا کوئی
مطلب نہیں تھا۔ یہ ہیں وہ معیار جو آپ ؐنے اپنے صحابہ ؓ میں پیدا کئے اور
پیدا کرنے کی کوشش کی اور یہی وہ معیار ہیں جن کو حاصل کرنے کی ہمیں کوشش
کرنی چاہئے۔
حضرت امام حسن رضی اﷲ عنہ کے پاس ایک نوکر چائے کی پیالی لایا ۔ جب قریب
آیا تو غفلت سے وہ پیالی آپ ؓ کے سر پر گر پڑی۔ آپ نے تکلیف محسوس کر کے
ذرا تیز نظر سے غلام کی طرف دیکھا ۔ غلام نے آہستہ سے پڑھا ’’
وَالْکَظِمِیْنَ الْغَیْظ ‘‘ اور وہ غصے کو پی جاتے ہیں۔ یہ سن کر امام حسن
ؓ نے فرمایا کَظَمْتُ ( میں نے غصہ کو دبادیا ) ۔غلام نے پھر کہا ’’
وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ‘‘ ( لوگوں کو معاف کرنے والے ) آپ ؓ نے کہا
کہ میں نے عفو کیا ۔ اس نے پھر پڑھا ’’ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
‘‘ محبوب الہی وہ ہوتے ہیں جو عفو کے بعد
بھی نیکی کرتے ہیں آپ نے فرمایا جا آزاد بھی کیا۔
معاشرے میں جب برائیوں کا احساس مٹ جائے توہرشخص متاثر ہوکر اپنے حقوق کے
بارے میں زیادہ حساس ہوتا ہے اور دوسرے کی غلطی کو ذرا بھی معاف نہیں کرنا
چاہتا، چنانچہ دیکھ لیں، آج کل کے معاشرے میں کسی سے ذرا سی غلطی سرزد ہو
جائے تو ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ خاوند بیوی کے جھگڑے، بہن بھائیوں کے
جھگڑے ، ہمسایوں کے جھگڑ ے ، حتیٰ کہ بعض دفعہ راہ چلتے نہ جان نہ پہچان
ذرا سی با ت پہ جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک راہ گیرکا کندھا رش میں
کسی سے ٹکرا جائے تو دوسرا فوراً غصہ میں آجاتا ہے۔ کیونکہ دوسرا بھی اسی
معاشرے کی پیداوار ہے، اس میں بھی برداشت نہیں ہے، وہ بھی اسی طرح کے الفاظ
الٹا کے اس کو جواب دیتا ہے۔ اور بعض دفعہ پھر بات بڑھتے بڑھتے خون خرابہ
شروع ہو جاتا ہے۔
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا
ماحول اور لوگوں کے رویے معاشرے پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس قسم کے حالات
میں ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو اوراپنی نسلوں کو اس
بگڑتے ہوئے معاشرے سے بچانے کے لئے قرآنی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے معاف کرنے
کی عادت ڈالیں تاکہ معاشرے میں فتنہ نہ پھیلے۔
آج کل کے معاشرے میں جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے یقینایہ خُلق اﷲ
تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ ٹھہرے گا ۔
اگر سب اس پاک تعلیم پر عمل پیرا ہوجائیں تو معاشرے میں کوئی فتنہ و فساد
کی صورت پیدا نہیں ہوگی۔ چھوٹی موٹی غلطیوں سے درگزر کر دینا ہی بہتر ہوتا
ہے تاکہ معاشرے میں صلح جوئی کی بنیاد پڑے۔ عموماً جو عادی مجرم نہیں ہوتے
وہ درگزر کے سلوک سے عام طور پر شرمندہ ہو جاتے ہیں اور اپنی اصلاح بھی
کرتے ہیں اور معافی بھی مانگ لیتے ہیں۔
وسعتِ حوصلہ آج معاشرے کی ضرور ت ہے۔ وسعتِ حوصلہ سے کام لینے والامعاشرے
پر کبھی بوجھ نہیں بنے گا بلکہ معاشرے کے لئے رحمت ہی رحمت ہو گا۔
قوت حوصلہ کو بڑھانا خاصا مشکل کام ہے اس کاحل یہی ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں
کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے اور ان پر زیادہ نہ سوچا جائے اگر ان معاملات
میں آپ کی مرضی کے خلاف کچھ ہو جائے تو اسے نظر انداز کر دیجیے۔
وسعتِ حوصلہ کے خُلق کو اپنا کر انسان دنیا و آخرت کی کامیابیاں ‘
کامرانیاں اور سر بلندیاں حاصل کر سکتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کی خاطر کسی کو معاف
کروگے تو اﷲ تعالیٰ دنیا میں تمہاری عزت پہلے سے زیادہ قائم کرے گا۔
آئیں ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم اِس خلق کو شعار بنائیں گے اور کسی بھی موقع
پر حوصلہ نہیں ہاریں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
٭٭٭٭٭
|