ڈاکٹر سلیم خان
للن مشرا اپنے مکان کے جھروکےسے ویران سڑک کو دیکھ کر اداس ہورہے تھے کہ
پیچھے سے ان کی دھرم پتنی ٹنُ ٹنُ مشرا کی بھاری بھرکم آواز آئی ۔
دیکھو جی !یہ کیا منہ لٹکائے بیٹھے ہو ۔ میری سنو ۔
للن نےجھنجھلا کر کہا ، دیکھوں یا سنوں ایک کام بولو ۔ بیک وقت دوکام نہیں
ہوسکتے ۔
کیوں نہیں ہوسکتے۔ جب ہمارے پردھان جی ایک وقت میں تنہا رہنے اور مل جل کر
تالی بجانے کے لیے کہہ سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں کہہ سکتی ؟
للن کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔اری بھاگوان وہ تو پردھان جی ہیں۔ کچھ بھی
کرسکتے ہیں، م م میرا مطلب ہے جو من میں آئے کہہ سکتے ہیں ۔
وہ پردھان منتری ہیں تو کیا ہوا۔ میں بھی توہوم منسٹر ہوں ۔
تب تو تم بھی جو من آئے کہہ سکتی ۔ یہ پرم سیوک تمہاری سیوا میں حاضر ہے۔
بولو کیا حکم ہے آقا۔
یہ ہوئی نا بات، ٹن ٹن خوش ہوکر بولی ۔ پہلے یہ بتاو کہ آج آپ اتنے اداس
کیوں ہیں ؟
دیکھو ٹن ٹن میں تو اس دن سے اداس ہوں جب سےمیں نے سات پھیرےلیے تھے لیکن
خیر آج تمہیں احساس ہوگیا ۔ زہے نصیب ۔
جی نہیں آج کوئی خاص بات ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہے ہیں ۔ سچ سچ بتائیے کہ
کس کو یاد کرکے آپ اداس ہورہے ہیں ۔ اصل وجہ کیا ہے؟
اری بھاگوان ساری دنیا کو کورونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سب
لوگ اسی کو یاد کرکرکے اداس ہورہےہیں ۔ کون ہے جو اداس نہیں ہے ؟
کون ہے ؟ کیا مطلب ۔ یہ سو کلو کی ٹن ٹن تمہیں نظر نہیں آتی ۔ لگتا ہے
تمہاری آنکھوں کا علاج کرنا پڑے گا ۔
اچھا تو کیا تم کرونا کی وباء سے خوش ہو؟
خوش تو نہیں مگر اداس بھی نہیں ہوں ، کیونکہ جو ہونا ہے ہوکر رہے گا اداس
ہونے سے کیا فائدہ ؟
جی ہاں ٹن ٹن میں جانتا ہوں ۔ یہی تمہاری صحت کاراز ہے ۔
چلو اچھا ہوا ۔ کرونا کے بہانے آپ پر یہ اہم انکشاف توہوگیا لیکن اب
دیکھنا یہ ہے کہ آپ اس سے کوئی سبق سیکھتے ہیں یا بس یونہی ۰۰۰۰۰
للن نے بات بدلتے ہوئے کہا دیکھو ٹن ٹن میں تمہیں آنکھ بھر کے دیکھ چکا اب
بتا بھی دو کہ کیا کہنے کے لیے آئی تھیں؟
اوہو آپ نے اچھا یاد دلا دیا ورنہ میں تو آپ کی روتی صورت دیکھ کر بھول
ہی گئی تھی۔
مشرا جی کو اپنی یاد دہانی پر افسوس ہوا۔ وہ منہ لٹکا کر بولے اچھا تو پھر
سے دیکھ لو۔
ٹن ٹن بولی دیکھو میں ایک ہفتہ سے گھر میں بیٹھے بیٹھے بور ہوگئی ہوں ۔
مزید دو ہفتہ اس طرح گھر میں بیٹھےرہنا میرے لیے مشکل ہے۔
تمہاری اس مشکل کا حل تو کورونا کے پاس بھی نہیں ہے۔
کیا مطلب میں نہیں سمجھی ؟ کیا وہ ہنومان جی کی طرح شنکٹ وموچک ہے۔
جی نہیں میرا مطلب ہے کہ اگر خدا نخواستہ وہ تم پر حملہ کردے تب بھی تم سے
جیت نہیں سکتا ۔
ٹن ٹن بولی آپ کے ہوتے کس کی مجال ہے کہ میری جانب نظر اٹھا کر دیکھے ۔
مجھے یقین ہے آپ اس کورونا کی آنکھ پھوڑ دیں گے ۔
دیکھو ٹن ٹن تم بور ہوگئی ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کو بور
کرو۔
اچھا تو کیا کروں ؟
آرام کرو ۔
کتنا آرام کروں ؟ تمہاری سوگندھ میں تو آرام کرکرکے تھک گئی ہوں ۔
اچھا تو اپنی تھکن دور کرنے کے لیے کام کرو ۔ میرا دماغ کیوں چاٹ رہی ہو۔
دماغ ! ٹن ٹن کا زوردار قہقہہ فضا میں بلند ہوا ، وہ بولی دماغ ہے کہاں جو
چاٹا جائے ۔
جی ہاں وہ تو سگائی کے دن ہی تم نے چٹ کرلیا ۔ اگر دماغ ہوتا تو تم سے بیاہ
کیوں رچاتا؟
پھر وہی جلی کٹی سنانے لگے ۔ آپ کے اوپر تو کورونا بھی فیل ہے خیر میں کہہ
رہی تھی کہ میں بور ہوگئی ہوں ۔
یہ بات تم پہلے بھی کہہ چکی ہو۔ تمہاری اس رٹ کو سن سن کر میں بھی بور
ہوگیا ہوں ۔ اب اگر تمہارے پاس اس بوریت کا کوئی حل ہے تو بتاو۔
یہ ہوئی نا بات ۔ میرے پاس حل تو ہے لیکن آپ پھر سے ناراض ہوجائیں گے ۔
اوہو میری ناراضگی کا کس قدر خیال ہے تمہیں خیر۔ اب اپنا ہل توچلا و ۔
ٹن ٹن مسکرا کر بولی اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ آپ مجھے دو ہفتوں کے لیے
میکے چھوڑ آئیں ۔
میکے! اس سخت کرفیو میں میکے !!! پاگل ہوگئی ہو کیا؟؟؟
اس میں کیا شک ہے۔ میں تو دیوانی ی ی ی۰۰۰۰۰۰کہہ کر ٹن ٹن نے نیا راگ الاپ
دیا ۔
للن گھبرا کر بولے اب خدا کے لیے یہ دیوانی اور فوجداری کا مقدمہ بند بھی
کرو ۔
اچھا ٹھیک ہے لیکن کیا آپ میری اتنی معمولی سی گزارش کو بھی ٹھکرا دیں گے۔
للن نے سمجھاتے ہوئے کہا دیکھو دن بھر تو تم فون پر اپنے میکے میں ہی رہتی
ہو ۔ کبھی آڈیو تو کبھی ویڈیو کال یہی سب چلتا رہتا ہے ۔ جانے کی کیا
ضرورت؟
فون پر دل نہیں بھرتا۔ ملنا تو آخر ملنا ہوتا ہے۔ دیکھا نہیں کورونا کے
آتے ہی کس طرح لوگ لوگ ریل گاڑیوں میں بھر بھر اپنے وطن روانہ ہوگئے۔
اری بھاگوان کورونا وائرس دراصل بڑےشہروں میں ہوائی اڈے سے آیا اور ان
بیوقوفوں کے ذریعہ گاوں دیہات میں پہنچ گیا ۔ اب تم کیا چاہتی ہو؟
دیکھیے میرا میکہ کس دیہات میں نہیں ہے۔ وہ تو اپنے گھر سے دس میل دور اسی
شہر میں ہے ۔ کورونا جیسے یہاں ویسے وہاں ۔ بات ختم !
اس دلیل کے آگے للن چت ہوگئے اور لیٹے لیٹے بولے لیکن بس ، ٹرین سب بند ہے
کیا سمجھیں؟
پبلک ٹرانسپورٹ میں جائیں ہمارے دشمن ۔ ہماری پیاری ماروتی سوزوکی کب کام
آئے گی ؟
لیکن اس کو چلائے گا کون سنسان سڑک پر گاڑی چلانے کے لیے بھی لائسنس کی
ضرورت پڑتی ہے، جو تمہارے پاس نہیں ہے۔
مجھے لائسنس کی کیا ضرورت ؟
کیا مطلب میں نہیں سمجھا؟
میرے بھولےپتی دیو: لائسنس کی ضرورت ان کو ہوتی ہے جن کے پاس ڈرائیور نہیں
ہوتا۔ میرے پاس تو آپ ہیں ۔
تو کیا میں تمہارا ڈرائیور ہوں ۔
دیکھیے آپ نے سب کے سامنے مجھے ور مالا پہنائی ہے۔ آپ میرے ’ور‘ اور میں
آپ کی ’ودھو ‘ ہوں۔ کیا سمجھے ۔
’ور‘ اور ڈرائیور میں کوئی فرق نہیں ہے کیا؟
ڈرائی کا مطلب ہے روکھا سوکھا ۔ آپ ایسے روکھے سوکھے ’ور‘ ہیں جو اپنی
پیاری سی بیگم کو اس کے میکے بھی نہیں پہنچا سکتے ۔
نہیں ایسی بات نہیں باہر کرفیو ہے اگر ہمیں راستے میں پولس نے پکڑ لیا تو
کیا ہوگا؟
کچھ نہیںْ۔ میں حوالدار کو دیکھ کر جھوٹ موٹ کھانسنے اور چھینکنے لگوں گی ۔
لیکن اس سے کیا ہوگا؟ وہ ڈر جائے گا کیا؟
آپ اس سے کہہ دینا کہ میری بیوی کو کورونا ہوگیا ہے۔ میں اس کو جانچ کے
لیے اسپتال لے جارہا ہوں ۔ وہ چھوڑ دے گا۔
اس گفتگو کے دوران للن مشرا کو ایک انوکھا خیال آیا اور انہوں نے کہا یہ
اچھی ترکیب ہے ۔ اچھا چلو تیار ہوجاو ۔
ٹن ٹن بولی آپ کتنے اچھے ہیں ۔ میرے لیے آپ ہر کام کرنےکے لیے تیار
ہوجاتے ہیں ۔
جی ہاں ٹن ٹن تمہاری خوشی کے لیے میںاپنی سسرال تو کیا چاند پر بھی ون وے
ٹکٹ لے کر جاسکتا ہوں ۔
بس بس زیادہ باتیں نہ بناو ۔ آپ بھی جلدی سے داڑھی واڑھی بناکر تیار ہوجاو
ورنہ میرے گھر والے کیا سوچیں گے۔
یہی تو غلطی ہوگئی تھی جو چہرہ وہرہ بناکر پہلی بار تمہارے گھر چلا گیا تھا
۔ یونہی چلا جاتا تو بہت بڑی مصیبت سے بچ جاتا ۔
ٹن ٹن ہنس کر بولی لیکن کورونا نے یہ ثابت کردیا ہے کہ آفت چہرہ دیکھ کر
نہیں آتی۔ وہ تو بس آدھمکتی ہے۔
تھوڑی دیر میں ٹن ٹن بن ٹھن کر آگئی تو للن نے پوچھا تمہیں یاد ہے نہ پولس
نے روک لیا تو کیا کرنا ہے۔
اورہاں آپ کو بھی یا ہے نا کہ کیا کہنا ہے؟
جی مجھے تو سب یاد ہے تم اس کی چنتا نہ کرو۔
ٹن ٹن کو اچانک ایک خیال آیا اوراس نے غمگین ہوکر پوچھا لیکن اگر واپسی
میں آپ کو پولس نے روک کر پوچھ لیا تو آپ کیا کہیں گے؟
للن مشرا نےاداس لہجے میں کہا میں بول دوں گا کہ مجھے کورونا نے پکڑ لیا اس
لیے میری بیوی مجھے چھوڑ کر چلی گئی ۔
ٹن ٹن بولی لیکن یہ تو جھوٹ ہے ؟
تم نےہی تو جھوٹ بول کر جان بچانے کی ترکیب سجھائی تھی۔ کورونا اگر تمہیں
ہوسکتا ہے تو مجھے کیوں نہیں ہوسکتا۔
ایسا اشبھ نہ بولیں ۔ ٹن ٹن نے بگڑ کر کہا میں مرجاوں گی مگر کورونا کو آپ
کے پاس پھٹکنے نہیں دوں گی ۔
اری بھاگوان وہ جرثومہ نظر کہاں آتا ہے؟ جو تم اس کو ڈرا دھما کربھگا دو
گی۔
لیکنمیں کورونا کی وجہ سے آپ کو چھوڑ کر تھوڑی نا جاوں گی۔ ہم نے سات
پھیرے لیے ہیں ۔ سات جنم کا ساتھ ہے ۔
اچھا تو آٹھویں میں مجھے کورونا کے حوالے کرکے چلی جاو گی ؟
ٹن ٹن نے روہانسے لہجے میں کہا جی نہیں ہر جنم میں سات پھیرے لے کر اپنے
عہد کی تجدید کرلیا کروں گی ۔
للن نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا لیکن بھاگوان تمہارے بغیر رہنے سے تو اچھا ہے
مجھے کورونا اپنے ساتھ لے جائے ۔
ٹن ٹن کا دل پسیج گیا ۔ وہ بولی اگر ایسی بات ہے تو میں نےا رادہ بدل دیا
ہے۔
کیا مطلب للن نے حیرت سے پوچھا ۔
ٹن ٹن ٹنک کربولی : جھوٹ بولے کوا کاٹے، کورونا سے ڈریو،میں میکے نہیں جاوں
گی تم دیکھتے رہیو ۔
a |