دھوبی پچھاڑ واٹس گروپ میں للن اور کلن

للن خان سے کلن شیخ نے شوخی سے کہا یار تم تو بڑے ڈرپوک نکلے ۔
للن نے جواب دیا بھائی ایسا ہے کہ کورونا نے اچھے اچھوں کو ڈرا دیا ۔ ہم کس کھیت کی مولی ہیں ۔ کیوں تمہیں ڈر نہیں لگتا ؟
ہاں بھیا کورونا کا ڈر تو لگتا ہے لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر لوگ ایک دوسرے سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں ؟
بھائی پہلے تو اس بات کا خوف کہ مبادہ کسی دوسرے کارونا مجھے نہ لگ جائے اور میرارونا کسی اور نہ لگے اس لیے رونا رلانا مطلب ملنا ملانا بند ہے۔
ٹھیک ہے سمجھ گیا میں کورونا کی نہیں بلکہ اپنے دھوبی پچھاڑ واٹس گروپ میں جمن کی پھٹکارپرتمہاری معذرت کی بات کررہا تھا ۔
للن بولا چھوڑو یار رات گئی بات گئی ۔ تم کہاں نارد منی کی مانند گڑے مردے اکھاڑنے بیٹھ گئے۔
تمہاری عمدہ نصیحت کا جواب جمن قریشی نے کس حقارت و رعونت سے دیا ۔ قسم سے میرا خون کھول گیا ۔
ارے بھائی کم از کم اس مشکل کی گھڑی میں تو دماغ ٹھنڈا رکھو ۔ لاکھوں لوگ وباء کا شکار ہورہے ہیں ہزاروں مررہے ہیں ۔
یہ بات جمن کو بھی تو سوچنا چاہیے ۔ وہ اگر مجھ سے الجھتا تو میں اس کا منہ توڑ جواب دیتا لیکن تمہاری بزدلی نے مجھے مایوس کیا۔
میں سمجھ گیا تمہیں ’ تو تو میں میں‘ کی ایک تفریح سے محرومیت کا قلق ہے۔ ویسے بھی لاک ڈاون نے دوران یہی تو ایک ٹائم پاس ہے۔
جی نہیں ! تم جیسے لوگ ہاتھ جوڑ کر جمن جیسے منہ زور لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور مجھ جیسے شریف لوگوں کو اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔
اچھا تو تم چاہتے ہو کہ تمہاری لڑائی کوئی اور لڑے ۔ ارے بھائی تمہیں کس نے روکا تھا گروپ میں سبھی کو جواب دینے کا یکساں حق حاصل ہے؟
میں کسی کے پھٹے میں ٹانگ ڈال کر خود کو زخمی کیوں کروں ؟
اچھا تو تم چاہتے تھے کہ میں خود کو ہلاک کرلوں ۔ بھائی سچ تو یہ ہے کہ جمن جیسے لوگ کورونا سے زیادہ خطرنا ک ہیں ۔
وہ کیسے ؟ بات سمجھ میں نہیں آئی ۔
دیکھوکوروناتو عارضی وباء ہے،اپنے پیچھے عبرت کے نشان چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔جمن جیسے لوگ مستقل دلآزاری کرتے رہتے ہیں۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن میرے دوست للن خان کو اس طرح دم دبا کر نہیں بھاگنا چاہیے تھا؟ اس سے تو پوری خان برادی کی بہادری پر بٹہ لگ گیا ؟
بھائی یہ دم ُ کا ذکر کرکے تم نے مجھے اپنے بچپن کا ایک سانحہ یاد دلا دیا۔
وہ کیا مجھے بھی بتاو۔ شاید کہ میرے لیے اس میں کو نصیحت ہو؟
اسکول کے زمانے پتنگ کو دیکھتے ہوے ایک مرتبہ غلطی سے میرا پیر ایک کتے کی دُم پر آگیا تھا ۔
لیکن اس کا جمن کی ترش روی سے کیا تعلق؟
وہ ایسا ہے نا کہ کتا میری غلطی کا احساس نہیں کرسکا اور مجھے کاٹ لیا ۔ بس پھر کیا تھا ْ لمحوں نے ’خطا کی تھی ہفتوں نے سزا پائی‘۔
یار یہ بیچ میں شاعری کیوں لے آئے ۔ تمہیں تو پتہ ہے کہ میں ان بکھیڑوں سے دور رہتا ہوں ۔گھما پھرا کر بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔
ارے بھائی یہ تو سیدھی سی بات ہے ۔ پہلے تو مرہم پٹی اور پھر پیٹ میں 14 انجکشن ۔ قسم سے اب بھی یاد آتے ہیں تو دل کانپ اٹھتا ہے۔
ہاں یار تمہارا انجکشن سے پہلے گڑگڑانا اور بعد میں رونا مجھے بیس سال بعد اب بھی یاد ہے لیکن اس کا بھی جمن سے کیا تعلق ؟
بھائی اس کا للن ، کلن اور جمن سب سے تعلق ہے اس لیے کہ ہم سب کے اندر ایک خونخوار کتا دبک کر بیٹھا ہوا ہے۔
اچھا اگر سب میں ہے تو ہم سب جمن کی مانند ایک دوسرے کو کاٹتے کیوں نہیں؟
عام لوگوں میں دبک کر بیٹھنے والا کبھی کبھار اچھل کر باہر آجاتا ہے لیکن خاص لوگوں کا ہمیشہ بھونکنے اور کاٹنے والا مشکل سے سنبھالاجاتا ہے۔
اچھا اگر وہ کاٹ لے تو کیا کیا جائے ؟
قرآن کی تعلیم تو یہ ہے کہ ’جاہل جب تمہارے منہ کو آئیں تو تم سلام کرکے آگے بڑھ جاو‘
یہ تو بڑی اچھی نصیحت ہے۔ تم کم ازکم جمن کو اسی سے نواز دیتے۔
اگر وہ میری بات کا جواب دیتا تو میں یہ کہہ سکتا تھا لیکن میں نے خود اس سے الجھنے کی خطا کی تھی اس لیے مجھ پر اس غلطی کا کفارہ لازم ہوگیا تھا۔
اچھا اگر خدانخواستہ میرے اندر کا کتا اچانک متحرک ہو جائے اور میں آب گزیدہ بھی بھونکنے لگوں تو اس کا کیا علاج ہے؟
اس کے لیے تو انسان کواپنے مخاطب سے معافی کا طلبگار اور اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
کلن نے سنجیدگی سے سوال کہ اس وائرس سے بچنے کے لیے کوئی احتیاطی تدبیر بھی ہے؟
کیوں نہیں۔ انسان خدائےر حمٰن کے غفور و رحیمہونے کی صفت کو اپناتے ہوئے عفو و درگذر سے کام لے ۔
انسان کے اندر رحمٰن کی صفت کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟
ارے بھائی جب شیطان کا رنگ انسان اختیار کرسکتا ہے تو رحمٰن کا کیوں نہیں۔
یہ منطق تو آسان ہے لیکن اس پر عمل ناممکن ہے۔
جی نہیں کلن ۔ ایسی بات نہیں ہے۔ اگر یہ ناممکن ہوتا تو قرآن حکیم میں اللہ کے بندوں کو اللہ کا رنگ اختیار کرنے کی ترغیب کیوں دی جاتی۔
کلن اچھا یہ بتاو کہ کیا غصہ اور انتقام فطری جذبات نہیں ہیں ؟
نہیں دوست یہ حیوانی جبلت تو ہے لیکن انسانی فطرت نہیں ہے۔
لیکن کیا انسان کو حیوانِ ناطق یعنی بولنے والا حیوان نہیں کہا جاتا ؟
ویسے کوئی سماجی جانور کہےیا حیوانِ ناطق لیکن اس اشرف المخلوقات کو قرآن کریم میں عزت و تکریم سے نوازے جانے کا ذکر ملتاہے۔
توکیا جمن جیسے لوگ عزت و تکریم کے لائق ہیں؟
انسان کی حیثیت سے جمن بھی قابل ِ احترام ہے۔قرآن میں مومنین کی یہ صفت آئی ہے کہ’’جب انہیں غصّہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں‘‘۔
کلن بولا تمہاری بات تو بجا ہے لیکن مجھے یہ کام بہت مشکل لگتا ہے ۔
یہ بات درست ہے لیکن کیا تم نے یہ حدیث نہیں سنی کہ نبی کریم ﷺ کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے جو کشتی کر رہے تھے۔ فرمایا:’’ کیا ہو رہا ہے؟ ‘‘ انہوں نے کہا: ’’ فلاں آدمی جس سے بھی کشتی کرتا ہے اسے پچھاڑ دیتا ہے۔ ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ میں تمہیں اس سے زیادہ طاقت والا آدمی نہ بتاؤں ؟ وہ شخص جس سے کسی نے (غصہ دلانے والی) بات کی تو وہ اپنے غصے کو پی گیا، پس اس پر غالب آ گیا ، اپنے شیطان پر غالب آ گیا اور اپنے ساتھی کے شیطان پر غالب آ گیا۔‘‘
خود اپنے اور مخاطب کے کتےکو خاموش کردینا تو یقیناًبڑے دل گردے کا کام ہے ۔ للن خان تم تو اپنی برادری کا نام روشن کرنے والوں میں سے نکلے
للن ہنس کر بولا زہے نصیب لیکن اس پذیرائی کے لیے مجھے جمن میاں کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔ کیا خیال ہے؟
بھائی میں تو چاہتا ہوں کہ جمن جیسے لوگوں کے لیے اپنے دھوبی پچھاڑ گروپ کی ٹیگ لائن یہ ہونا چاہیے کہ ’’ کورونا سے زیادہ خطرناک غصہ ہے‘‘۔
اسی کے ساتھ دونوں دوست ہنسنے لگے ۔


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1218512 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.