ماں

وہ جو اک خوشبو آتی تھی تجھ سے، ویسی نہیں ملتی اب ماں !
اب دو سال سے وہ احساس نہیں ملتا۔ وہ ممتا کی مٹھاس، تیری گود کی گرمی ، ماتھے پہ شفقت بھرا بھوسہ
کچھ بھی تو نہیں ہے اب ویسا ماں !
یوں تھک گئی ضبظ کرتے کرتے، روتے روتے ہنس پڑتی ہوں، ہنستے ہنستے دل ہی دل میں رو لیتی ہوں
یوں تو آنسو بھی میرے پابند نہ تھے ، اندھیری راتوں میں ڈر کر آنسوؤں سے تھا کر سو جاتی ہوں۔
اے اندھیری رات ! مجھے ماں کی طرح ڈھانپ لے ، میرے سارے غم مٹا کر اپنے سینے کی ٹھنڈک میں ،،
چھپا لے۔

محسوس ہوتی ہے ماں نظروں کے سامنے پھرتی ہوئی، میری شرارتوں پر مصنوعی غصہ دیکھا کر
ڈانٹتی ہوئی۔۔۔اک بار پھر سے لوٹ آؤ نا ۔۔۔جتنا د ل کرے ڈانٹ لینا ۔۔۔بس لوٹ آؤ ماں۔۔۔مجھے تمہاری بہت
ضرورت ہے ابھی۔۔۔ہاتھ کا چھا لہ بنا کر رکھا مجھے ہمیشہ آپ نے۔۔۔زمانے کی کڑی دھوپ میں تیرا وجود
میرے لیے ٹھنڈی چھاؤں جیسا تھا۔۔۔ یہ کیوں سوچا کہ تیری گڑیا کیسے رہے گی تیرے بنا۔۔۔۔!

وہ جو اک خوشبو میں نے محسوس کی تھی ،، وہی خوشبو ہمیشہ ساتھ رہتی ہے مجھے اس خوشبو میں
کھونا ہے ہمیشہ کے لیے۔۔

وہ جو اک خوشبو، پھولوں کی خوشبو
بہاروں کی بارش ماں تو ہی تو ہے

زندگی کے ہر خطرناک رستے میں تیری ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے تیری ضرورت ہے ماں ،،،میری
ماں میرے ہر غم ہر درد کی دوا ہے۔
سب مجھے بہلاتے ہیں ماں ۔۔۔کہ تو مجھے دیکھ رہی ہے مٰیں خوش رہی تو آپ بھی خوش رہوگی،،،
آپکی خوشی کے لیے مٰیں خوش رہوں گی ماں !

وہ اک خوشبو جو بس جاتی ہے مجھ میں
وہ اک خوشبو ہو تم ماں !!
 

Zarlish
About the Author: Zarlish Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.