یہ اتفاق تھاکہ ایک دن پہلے پنجاب یونیورسٹی میں شعبۂ
کشمیریات کے پروفیسر اور میرے ہمدمِ دیرینہ جناب ڈاکٹر سردار اصغر اقبال
صاحب مجھ سے ملنے جامعہ کوٹلی میں میرے دفتر تشریف لائے۔ ڈاکٹر صاحب سے دیر
تلک کشمیر بارے بات چیت ہوتی رہی۔ وہ کرشن چندر کے منتخب افسانوں پر مرتب
شد اپنی کتاب "کشمیر کو سلام "مجھے بطور تحفہ تھما گئے۔ کرشن چندر بیسویں
صدی کے معروف افسانہ نگاروں میں شامل ہیں۔ اصغر صاحب کی مرتب شدہ کتاب میں
کرشن چندر کے ان افسانوں کو شامل کیا گیا جو کشمیر سے متعلق ہیں۔ یا یوں
کہہ لیں کہ ان افسانوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں کہیں تو کشمیری زعفران کا
تڑکاہے تو کہیں پربتوں کی برفیلی ہواؤں کے جھکڑ ہیں۔ ان افسانوں میں کبھی
تو کرشن چندر پہاڑی ندیوں کی سی روانی کے ساتھ الفاظ کو بہاتے چلے جاتے ہیں
تو کبھی کہانی میں کشمیری سنبلو کے زرد پھولوں کی باس بھرتے جاتے ہیں۔ کرشن
چندر کی ان کہانیوں میں کشمیری آلوچے کے سپید پھولوں کی گل پاشی کے تذکرے
ہیں تو کہیں رس بری کے رس بھرے چسکے۔ یہ اور بات کہ کرشن چندر کی نگاہ تب
بھی کشمیر کے مرغزاروں میں دہکتے انگاروں کو دیکھ چکی تھی۔ میرے خیال سے
اہلِ زوق کو کرشن چندر کے منتخب افسانوں پر مشتمل ڈاکٹر اصغر اقبال کی کتاب
کشمیر کو سلام ضرور پڑھنی چاہیے۔ کتاب پر تفصیلی تبصرہ پھر سہی۔جموں کشمیر
کے جس خطے سے میرا تعلق ہے وہ پیر پنجال کے پہاڑوں کے دامن میں بنی وادیاں
اور چھوٹی پہاڑیوں میں آبادبستیاں ہیں۔ میرا تعلق بھی ایسی ہی ایک دلفریب
وادی سرساوہ پنجیڑہ سے ہے۔ یہاں دہیات ہیں، دریا ہیں، ندیاں ہیں، گھاٹیاں
ہیں۔ میں نے رینگنا، چلنا، کھیلنا، تیرنا، گھومنا اور شکار کرنا بھی اسی
وادی میں سیکھا۔ پھٹے پرانے ٹاٹ ہوں یا تختی پر ٹیڑے میڑھے الفاظ، کالی
سلیٹ پر سلیٹی سے حساب کے امتحان دینے ہوں یا مرغا بن کر سزا پانا ہو۔ میں
اور میرے ہم جماعت نڑی کی قلم سے لے کر تختی پر ملنے والی چٹی مٹی تک کی
ضروریات اپنے گاؤں سے پوری کر لیتے تھے۔ حتیٰ کہ اپنے اساتذہ کے لئے اپنی
گدی کی درگت بنوانے کے لئے کووو کی سونٹی بھی خود تیار کر لیتے تھے۔ ہم
سکول کی طرف جانے والی کچی پکڈنڈیوں میں سوراخ بنا کر بنٹے کھیلنے کا سامان
بھی خود کرتے تھے۔ ہم کشمیری بیکڑ کے پھل کو بطور لٹو بھی استعمال کر لیتے
تھے۔ سکول کے بعد ہمارا وقت ندی سے مچھلیاں پکڑنے اور تیرنے کھیلنے میں صرف
ہوتا تھا۔ پچپن سے لڑکپن تک کی یہ یاداشتیں کسی اور وقت کیلئے رکھ چھوڑتے
ہیں۔ بچپن سے تا حال اگر کوئی موسم مجھے مسحور کرتا ہے تو وہ ان وادیوں میں
اترا ہوا پھاگن کا مہینہ ہے۔ آج بھی میرے بچپن والا وہی پھاگن کشمیر دھرتی
پر راج کر رہا ہے۔ عصر کے وقت میں اور میرا ننھنا دوست محمد ابراہیم شاہ
سرساوہ کے اوپریں جنگلوں میں آوارہ گردی کرنے نکل پڑے۔ محمد ابراہیم کو
جنگلوں سے شائد اتنی دلچسپی نہ ہو کہ ابھی اس نے زندگی کے تین ہی پھاگن
دیکھے ہیں۔ پہلے کہ دو تو اسے پتہ بھی نہ چلا ہو گا کہ بیت گئے۔ اب کے برس
والا پھاگن شائد اسے یاد رہے گا۔ اس کی دلچسپی بس اتنی ہے کہ اسے موٹر کی
سیر اور پہاڑی جھاڑیوں کی بیریاں کھانے کا چسکہ ہے۔ یہ بارش نہیں تھی،
برکھا تھی۔ سرساوہ سے بلوچ جاتی سڑک ٹوٹی پھوٹی ہے اور ہماری نا اہلیوں پر
تھپڑوں کی برسات کرتی چلی جاتی ہے۔ یہ سڑل اس قدر خراب ہے کہ محمد ابراہیم
بھی پوچھنے لگا۔ گاڑی تیز کیوں نہیں چل رہی؟ خیر اگر سڑک خراب نہ ہوتی تو
ہم ارد گرد بکھرے فطرت کے نظاروں کو غور سے کیسے دیکھ پاتے۔ جونہی سرساوہ
چوک سے شمال کی طرف سفر شروع ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہم ہوائی جہاز میں
ہیں اور اس نے آہستہ آہستہ اڑان بھر لی ہے اور زمین کو چھوڑ کر فضا میں
بلند ہو رہا ہے۔ یہ مسلسل اونچائی کا سفر ہے اور ہر گزرتے لمحے دلچسپ نظارے
آنکھوں کو خیرا کرنے لگتے ہیں۔ رم جھم نے ماحول کو طلسماتی بنا دیا تھا۔
شیشم کے پیڑوں پر بور نہیں آیا تھا نہ ہی بے لباس ٹہنیوں پر پتیاں نمودار
ہوئیں تھیں۔ فطرت تا ہم اتنی بے زوق نہیں۔ اس نے بارش کے شفاف قطروں کو
شاخوں کے سروں پر بڑی مہارت سے ٹانک دیا تھا۔ سنتھے کے پیڑوں پر پھاگن کے
موسم نے پھولوں کی بہار لا رکھی تھی۔ پھولوں کے نر وں اور ماداؤں نے وصل کی
محفل جما رکھی تھی۔ ننھے پھول جب خوشبؤں کے عطر انڈھیلتے ہیں تو فضا انہیں
اٹھا کر جھوم جھوم جاتی ہے۔ سنتھے کی مہک اعصاب کے جکڑاؤ کو تحلیل کرتی اور
طبعیت میں لطافت بھر لاتی ہے۔ سمبل کے درخت اس وادی کا حسن ہیں۔ سیدھے سفید
تنوں پرچھوٹے موٹے کانٹے لیکن اوپریں ٹہنوں پر سرخ پھول۔ ابھی توسب شاخوں
پر پھول نہیں کھلے تھے۔ کچھ نو ریز کلیاں تھیں جو گلابی قبا میں گھونگٹ کی
صورت دلہن کا روپ چھپا رہیں تھیں۔ جبکہ کچھ آوارہ پھول قبائی حجاب سے نکل
کر سرخ پنکھڑیاں پھیلائے حسن پر اترا رہے تھے۔ جانے یہ پھول پیار اور وصل
کی یہ واردات زمیں سے اتنی اوپر جا کر کیوں کھیلتے ہیں۔ اس سڑک کے دونوں
اطراف میں پھاگن نے روپ جما رکھا تھا۔ جنگلی اناروں پرابھی نئے شگوفے ایسے
لگ رہے تھے جیسے کسی بانکی دلہن کے مرمریں ہاتھوں اور بازؤں پر اس کی
سکھیوں نے مہندی کے نقش و نگار بنائے ہوں۔ میں اور محمد ابراہیم گاڑی سے
اترے۔ گرنڈے کی بیریاں پک کر سیاہ ہو گئیں تھیں۔ محمد ابراہیم کی مرغوب یہ
بیریاں توڑیں اور خوب لطف اٹھایا۔ ان سیا ہ بیریوں کو بارش نے دھو رکھا تھا
بلکہ ان سے پانی ٹپک رہا تھا۔ اس رومان منظر میں ہماری نظر پہاڑی آلوچے پر
پڑی جو پورے جوبن سے کھلا ہوا تھا۔ سارے جنگل میں تن تنہا پھولوں کا لباس
پہنے مسکرا رہا تھا۔ لگا کہ پربتوں کی پریاں کئی دنوں سے جنگل کے اس دلہے
کو سجا تی رہیں ہیں۔ او رابھی جو ہم نے شیشم کی شاخوں پر ٹانکے شبنمی موتی
دیکھے، یا سنتھے کے پھولوں کی باس محسوس کی، سمبل کی نو ریز کلیوں کا
گھونگٹ دیکھا یا پھر جنگلی انار ی دلہن کے ہاتھوں کلایؤں پر مہندی کے نقش و
نگار دیکھے تھے، سب اسی سپید پھولوں والے دلہے کے لئے سجا تھا۔ کلیوں نے جو
خوشبؤں کی تھیلیاں انڈھیلیں تھے وہ اسی شہزادے کی بارات کا انتظام تھا۔ اب
مجھے کرشن چندر کے افسانوں میں اس پہاڑی آلوچے کے تزکروں کی وجہ بھی سمجھ
آنے لگی۔ یہ بارش نہ تھی یہ رم جھم تھی۔ میرے کشمیر کی پھاگنی برکھا۔ |