میرے لیے سب سے بڑی خوشی یہی ہے کہ میرا بیٹا زندہ رہے، ایک کم عمر ماں کی اپنے پیدا ہونے والے بچے کے لیے قربانی کی داستان

image
 
ماں کا لفظ ذہن میں آتے ہی ایک ٹھنڈک کا احساس جسم و جاں میں سرائیت کر جاتا ہے ۔ ماں کی ممتا غیر مشروط اور اس کی محبت غیر محدود ہوتی ہے ۔ یہ محبت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک عورت کے دل میں آتی ہے اس کے لیے نہ تو عمر کی قید ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے لیے سرحدوں کی قید ہوتی ہے ماں مشرق کی ہو یا مغرب کی اپنی اولاد کے لیے ایک ڈھال ایک چھاؤں ہوتی ہے ایسی ہی ایک ماں کی داستاں آسٹریلیا کی انیس سالہ برائینا رالنگ کی بھی ہے-

 

برائینا اپنی ہم عمر لڑکیوں کی طرح زندگی اور جوش سے بھرپور لڑکی تھی جس نے طالب علمی کے دوران ہی اپنے کلاس فیلو کے ساتھ شادی کا فیصلہ بہت کم عمری ہی میں کر لیا تھا ۔ ایک خوشگوار زندگی اور حسین مستقبل کے خوابوں کے اس سفر میں اس کی خوشیوں میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب اس کو پتہ چلا کہ وہ ماں بننے والی ہے-

 
image
 
برائینا نے بچے کی آمد کی خوشخبری ملتے ہی اس کی آمد کی تیاریوں کا آغاز کر دیا اس کی طبیعت حمل کے سبب گری گری رہنے لگی مگر وہ خوش تھی اور اپنے بچے کی اپنے جسم میں موجودگی کو محسوس کر کے اس کی محبت سے سرشار سی ہو جاتی تھی- مگر اس کی طبیعت روز بروز سنبھلنے کے بجائے گرتی سی جا رہی تھی-
 
اس کو ڈاکٹرز نے کچھ ٹیسٹ جانچ کے لیے دیے تھے جن کی رپورٹوں کے سامنے آنے پر اس پر یہ انکشاف ہوا کہ اس کی کمزوری کا سبب اس کا حاملہ ہونا نہیں بلکہ ایک خطرناک بیماری لیوکیمیا ہے جس کو خون کا کینسر بھی کہا جاتا ہے جس کا واحد علاج کیموتھراپی تھی ۔ اس وقت برائینا کے حمل کو چار ماہ گزر چکے تھے-
 
ڈاکٹرز جانتے تھے کہ کیموتھراپی کے ذریعے وہ برائینا کو تو بچا سکتے ہیں مگر اس کے بدلے میں ماں کی کوکھ میں موجود بچے کی یقینی موت واقع ہو جائے گی- اس لیے انہوں نے اس بات کا فیصلہ برائینا پر سونپ دیا اور اس وقت ممتا نے اپنی زندگی پر اپنے بچے کو ترجیح دی اور کیموتھراپی کروانے سے بچے کی پیدائش تک انکار کر دیا-
 
برائینا کی کمزوری میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا جس کے سبب اس کے جسم میں اتنی طاقت نہ رہی تھی کہ وہ اپنی کوکھ میں موجود بچے کی ضروریات پوری کر سکے- لہٰذا مجبورا سات ماء مکمل ہونے کے بعد آپریشن کے ذریعے ڈاکٹروں کو بچے کو وقت سے پہلے ڈلیور کروانا پڑا-
 
image
 
بچہ بہت کمزور تھا جب برائینا کی گود میں اس کا بچہ پہلی بار آیا تو برائینا نے اپنی فیس بک پوسٹ پر اپنے اور اپنے بچے کی تصویر شئیر کرتے ہوئے کیپشن لکھا کہ میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ میرا بیٹا زندہ رہے اور بڑا ہو- مگر ایک بے بس ماں کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور صرف بارہ دن تک برائینا کے پاس رہنے کے بعد یہ بچہ مر گیا-
 
بچے کی موت نے برائینا کے اندر سے جینے کی خواہش کا خاتمہ کر دیا اب اس نے ڈاکٹروں کو کیموتھراپی کی اجازت دے دی مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی- کینسر نے برائینا کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور بیٹے کے مرنے کے صرف دو ماہ بعد برائینا بھی اپنے بیٹے کے پاس پہنچ گئی ۔ یہ ماں بیٹا اگرچہ اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں مگر ان کی محبت کی یہ داستان ہر دل رکھنے والے انسان کی آنکھوں کو نم ضرور کر دیتی ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: