ٹی وی پر چلتی خبر کو دیکھ کر باقی پاکستانیوں کی طرح
میرا فشارِ خون بھی دماغ کی طرف چڑھنا شروع ہو گیا ارباب اقتدار کی خاموشی
‘سستی ‘ نااہلی یاعقل پر ماتم کر نے کو دل کر رہا تھا کہ ہم جائیں تو کہاں
جائیں ‘کیا کریں ہماری حکومت کب ہو ش کے ناخن لے گی ارباب اقتدار یہ بات
ذہن میں رکھیں کہ مسئلے کو ابتدا میں پکڑ لیا جائے تو آسانی سے حل نکل آتا
ہے وہی چھوٹا سا مسئلہ بعد میں بہت زیادہ سرمائے اور کوششوں سے بھی حل نہیں
ہو تاٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ تفتان بارڈر سے ایرا ن سے ایک سو سے زائد
زائرین پھر بارڈر کراس کر کے پاکستان آگئے ہیں جبکہ ظفر مرزا صاحب سر عام
اعلان بلکہ اقرار کر چکے ہیں کہ پاکستان میں 78فیصد کرونا آنے کی وجہ
زائرین ہیں اگر اُن کو اچھے طریقے سے کنٹرول کیا جاتا تو پاکستان ابھی تک
اِس ہولناک وبا ء سے پاک ہی ہو تا اور اگر چند مریض ہو تے بھی تو انہیں
آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتا تھا پاکستان کے عوام نے سکھ کا سانس لیاتھا کہ
شکر ہے گورنمنٹ آف پاکستان نے تمام بارڈر سیل کر دئیے ہیں تمام بین
الاقوامی پروازوں کو معطل کر دیا گیا ہے ‘ بارڈر سیل کر نے کے ساتھ ساتھ
تقریبا سارے ملک میں لاک ڈاؤن لگا کر اِس بے قابو عفریت کو قابو کر نے کی
کو شش کی جارہی ہے ‘ اِن حالات میں تفتان بارڈرسے مسلسل زائرین کا پاکستان
وفاقی گورنمنٹ کے لیے اور اُن کی کار کردگی کے سامنے سوالیہ نشان ہے پورے
ملک میں خوف و ہراس کے سیاہ بادل چھائے ہو ئے ہیں خوف و ہراس کی اِس فضا
میں تمام قوم گورنمنٹ سے اچھے دانش مندانہ فیصلوں کی امید کر تی ہے اِ ن
حالات میں اگر زائرین اِسی طرح پاکستان آتے رہیں گے تو آ پ کبھی بھی کرونا
کی خوفناک و با کو کنٹرول نہیں کرسکتے جبکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِس
پراسرار خوفناک وبا کے سامنے دنیا کی سپر پاورز بے بسی کی تصویر بن چکی ہیں
وہ ترقی یافتہ جن کے پاس سائنس و ٹیکنالوجی معاشی استحکام اور اچھا صحت کا
نظام ہے تو ہمارے جیسا ترقی پذیر ملک کس طرح اِس کا مقابلہ کر سکتا ہے
ہیلتھ سسٹم تو پہلی ہی مرض الموت کا شکار ہے بلکہ بے بس لاچار عوام تو
سالوں سے عطائی ڈاکٹروں کی تجربہ گاہوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں یا پھر
پرائیویٹ ہسپتالوں کے ذبح خانے ہیں جہاں لوگ اپنے زیور اشیاء جائیداد بیچ
کر اپنے جسم اور روح کے رشتے کو برقرار رکھتے ہیں یا پھر دم جھاڑوں کے
سہارے جسمانی ایمیون سسٹم کے تحت زندگی گزار رہے ہیں جب حکومت کو اپنی
اوقات کا اچھی طرح ادراک ہے تو پھر کیوں ہوش کے ناخن نہیں لے رہی ہمارا ملک
چار پانچ کروڑ آبادی والاملک نہیں جس کو آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے یہ
بائیس کروڑان پڑھ جہالت میں لپٹے بیچارے انسانوں کا ریوڑھ ہے جو تقدیر اور
خدا کے رحم و کرم پر زندگی کے دن پورے کر رہا ہے ایران ہمارا برادر اسلامی
ملک ہے اور وہاں پر مذہبی مقامات ہمارے لیے بہت مقدس ہیں اور یہ بھی سچ ہے
کہ پاکستان میں بہت سارے لوگ ایران سے مذہبی رہنمائی بھی لیتے ہیں اِس لیے
ایران کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کر نی چاہیے جب بلوچستان کی صوبائی
گورنمنٹ کے ترجمان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ لوگوں نے بارڈر سیل نہیں کیا تو
کہتے ہیں بلکل نہیں روزانہ کی بنیاد پر زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اِس
کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ایران نے پاکستان کے زائرین کوایگزٹ کی سٹیمپ
لگا کر بارڈر کی طرف دھکیل دیا اب پاکستان زائرین بیچارے بے یارو مددگار
کھلے آسمان کے نیچے بے یارو مددگار پاکستانی انٹری کے لیے جمع ہو جاتے ہیں
ایرانی حکام اِن کو مسلسل بارڈر کی طرف دھکیل رہی ہے اب پاکستان گورنمنٹ کے
پاس انہیں اندر آنے کی اجازت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ‘ وزیر اعلی بلوچستان
اِس مسئلے کے حل کے لیے ایران کے سفیر سے بھی مدد مانگ چکے ہیں لیکن ابھی
تک کو ئی حل نہیں نکلا اب اگر گورنمنٹ کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ ایرانی
حکام واپسی کی سٹیمپ لگا کر زائرین کو زبردستی پاکستان دھکیل رہے ہیں تو
یہاں پر وفاقی حکومت کو ایکشن لینا چاہیے جس طرح چین میں پھنسے پاکستانی
طلبا کو واپس نہ بلا کر حکومت نے دانشمند فیصلہ کیا اور اُس کے اچھے اثرات
بھی ہم نے دیکھے کہ الحمداﷲ تمام پاکستانی طلبا صحت مند ہو چکے ہیں اور وہ
پاکستان میں کرونا کو پھیلانے کا موجب بھی نہیں بنے اِسی دانش مندی سے
ایرانی زائرین کے مسئلے کو بھی ہینڈل کر نا چاہیے تھا ہم سے بہتر حکمت عملی
تو دشمن ملک بھارت نے دکھائی ہماری طرح ہندوستان سے بھی بہت سارے زائرین قم
میں گئے ہو ئے تھے انہوں نے اِس کو کیسے ہینڈل کیا اِن کے منسٹر جے شنکر نے
پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر حکومتی پالیسی اور مینجمنٹ کو بتایا کہ وہ بھار ت
نے اِس مسئلے کے پیدا ہونے کے فوری بعدد ایران قم میں ہندوستانی سفارت خانے
کو متحر ک کیا اور ساتھ ہی ڈاکٹروں اور معاون طبی عملے کی ایک ٹیم کو فوری
طور پروہاں بھیج دیا جنہوں نے جا کر خود اپنے زائرین کے ٹیسٹ لیے اب جو
کلیر ہو تا اُس کو بھارت بھیج دیتے جن کے کرونا ٹیسٹ مثبت آتے اُن کو علاج
یا قرنطینہ میں ٹہرنے کا انتظام کر تے اب جومشکوک کیس تھے وہ ایران میں اُس
وقت تک رہے جب تک اُن کے کرونا ٹیسٹ منفی نہیں آئے اِس طرح کرونا کی
فیکٹریاں بھارت نہ جاسکیں اِس طرح انہوں نے آنے والی آفت یا وبا کو کنٹرول
کرنے کی کو شش کی یہی سوال جب پاکستانی وزیر خارجہ سے کیا جا تا تو لفظوں
کی جادوگری میں الجھانے کی کو شش شروع کر دیتے ہیں یا پاکستان میں ایرانی
سفارت خانہ آئیں بائیں شائیں بہانے بازی کردیتا ہے اِن حالات میں وفاقی سطح
پر ایرانی گورنمنٹ سے بات کر نے چاہیے کہ جناب آپ ہمارے برادر اسلامی ملک
ہیں جو سہولت بھارت کو دے رہے ہیں وہ ہمیں بھی دے دیں اقتدار کے ایوانوں
میں وہ بااثر جو ایران کے قریبی سمجھے جاتے ہیں ان کا بھی یہ فرض بنتا ہے
کہ اپنے مثالی تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی حکام سے بات کریں تاکہ
وہ زائرین سے جان چھڑانے کے لیے واپسی کی مہر لگا کر بارڈر پر انسانوں کو
جانوروں کی طرح بے یارو مددگار نہ چھوڑ دے ‘ایسی صورتحال میں تو کرونا کی
پنیری پھر پاکستان آکر دوسروں کو بھی اِس وبا میں مبتلا کر ے گی چلو یہ مان
لیا کہ پاکستانی زائرین کو سنبھالنا ہمارا کام ہے ہم یہ تسلیم کر تے ہیں اب
جنوری کے مہینے میں یہ وبا چین میں پھوٹی تو ا ِس کی پیچیدگی اور پھیلاؤ کی
نفسیات سب کو سمجھ آگئی تھی کہ اِس نے ہر حال میں پاکستان کا رخ کر نا ہی
کر نا ہے اور پھر جب ایران میں وبا کرونا کے عفریت نے انسانوں کو گاجر مولی
کی طرح کاٹنا شروع کیا تو وہ بھی وقت تھا گورنمنٹ کو جو اب اربوں روپے
کرونا فنڈ کے لیے مختص کر رہی ہے فوری طور پر بلوچستان کی صوبائی گورنمنٹ
سے رابطہ کر تے چند کروڑ لگا کر WHOکے صحت کے اصولوں کے مطابق قرنطینہ سنٹر
قائم کر تی تاکہ آج پاکستان اِس وبا سے پاک ہو تا اُس وقت وفاقی گورنمنٹ
خواب غفلت میں ڈوبی ہو ئی تھی ہزاروں زائرین کو بھیڑ بکریوں کی طرح مختلف
کمروں اور خیموں میں ٹھونس دیا گیا جب کہ دنیا کا قانون ہر ایک کو الگ
رکھتا ہے اِس طرح جب سینکڑوں لوگ ایک ہی عمارت اور چند واش روموں میں اکٹھے
دن رات گزاریں گے تو اسطرح تو ہم نے اِس وبا کو موقع دیا کہ خوب پھیل جاؤ
شکار تمہارے پاس ہیں اور پھر رزلٹ ہمارے سامنے ہے اب کرونا کی وبا نے باقی
دنیا کی طرح پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ابھی بھی گورنمنٹ خطرے
کو نہیں بھانپ رہی ابھی تک بارہ ہزار ٹیسٹوں میں سے پندرہ سو مریض نکل آئے
ہیں اگر ایک لاکھ کا کرائیں تو کیا ہو گا اِس لیے خدا کے لیے فوری طور پر
زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کروائیں جائیں تاکہ بر وقت اِس وبا کا علا ج کیا جاسکے
ساوتھ کوریا نے دنیا میں سب سے اچھا مقابلہ کیا اُس کی وجہ ساری آبادی کا
کرونا ٹیسٹ تھا ابھی بھی ٹیسٹ نہ کرائے گئے تو مریضو ں کی گنتی نہیں ہو سکے
گی اور پھر وہی بات کہ وقت کی نماز اور بے وقت کی ٹکریں ۔
|