اردو افسانے نے ایک صدی سے زیادہ بہاریں دیکھ لی ہیں۔ جس رفتار سے اس صنف
نے ترقی کی ہے کسی دوسری صنف نے نہیں کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افسانے
میں فنی و موضوعاتی تبدیلیاں وجود میں آتی رہیں۔اپنے آغاز میں اردو افسانہ
ایک مخصوص موضوعاتی دائرے میں مقید تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ نہ صرف مخصوص
حلقے سے باہرنکلا بلکہ اس میں بلا کا تنوع، وسعت اور قوت آ تی گئی۔ اسی
موضوعاتی وسعت کی بنا ء پر افسانہ، ادب کی ایک مقبول صنف بن گیا۔ رفتہ رفتہ
زندگی کی تمام تر وسعتوں اور پیچیدگیوں کو اپنے اندر سمیٹنے لگا۔ یہی وجہ
ہے کہ تخلیق کاروں نے اپنے مشاہدے اور تجربے کی پرکھ کے مطابق اس صنف میں
ایک خاص میدان منتخب کیا اور زیادہ تر انھی مشاہدات کو اپنے افسانوں کا
موضوع بنایا۔
ڈاکٹرانوار احمد جدید اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہے۔ ان کے افسانوی سفر
میں ابھی تک تین مجموعے منظر عام پر آئے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ہمارے وسیب
کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی جہتیں بڑے تیکھے رنگوں کے ساتھ اپنا بھر پور
اظہار پاتی ہیں۔ ان کے ہاں موضوعات کی رنگا رنگی بھی ہے اور جدید ترین فنی
تکنیک کا تنوع بھی۔ ہمارے باطن میں اور ہمارے باہر معاشرے میں پنپنے والی
طرح طرح کی لطافتیں اور کثافتیں ، خوبصورتیاں اور بد صورتیاں ڈاکٹر انوار
احمد کی کہانیوں کا مواد بنتی ہیں۔ وہ ایک عالم فاضل شخص ہیں اد ب کی اور
خصوصاََ قدیم و جدید تحریکوں اورمختلف فنی تجربوں پر ان کی گہری نظر ہے۔ وہ
ایک اصل نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سخت کوشش محقق بھی ہیں۔ان کا پی ۔ ایچ
۔ ڈی کا ضخیم مقالہ ’’اردو افسانہ اپنے سیاسی و سماجی تناظر میں‘‘ ان کی
محققانہ اور نقادانہ صلاحیتوں کا ایسا آبدار آئینہ ہے کہ جس کے سامنے بڑے
بڑے ناموروں اور جتھے بازوں کی نظریں دھندلا جاتی ہیں۔ڈاکٹر انوار احمد کے
افسانے موضوعاتی حوالے سے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ اپنے افسانوں کی بنیاد
حقیقت پر رکھ رہے ہیں جن میں زندگی حرکت کرتی صاف دکھائی دیتی ہے۔
ڈاکٹرانوار احمد ایک منفرد اور باشعور فنکار بھی ہیں۔ اس لیے ان کی بلند تر
نقادانہ اور عالمانہ حیثیت نے ان کے فن کو نقصا ن نہیں پہنچایا بلکہ اس میں
بے پناہ گہرائی و گیرائی پیدا کی ہے۔ اُن کے افسانوں کی بنیادی خوبی یہ ہے
کہ وہ ایک کامل اور مکمل اکائی ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے اسلوب کا تیکھا پن
افسانے کے ہر جملے میں صورت و معانی کی ایک دنیا سمو دیتا ہے۔ چند لمحو ں
کیلئے یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے بعض جملے کہانی سے باہر بھی اپنے
حُسن اورمعنویت میں مکمل ہیں۔ لیکن اگر محض ایسا ہوتا تو یہ اُن کی کہانی
کی ایک کمزوری بن جاتی۔ انوار احمد کی کامیابی یہ ہے کہ اس کے خوبصورت ترین
جملے بھی اُن کے افسانے کا اٹوٹ حصہ ہوتے ہیں۔ وہ کہانی کی فضا میں مکمل
طور پر رچے ہوئے ہوتے ہیں اور یہی فضا ان میں اور زیادہ زور اور حُسن پیدا
کرتی ہے۔ ڈاکٹرانوار احمد نے طویل وقفوں کے ساتھ اتنا کم لکھا ہے کہ معروف
ترین ادبی حلقوں میں انھیں خاطر خواہ Response نہیں ملا۔ لیکن ملک کے کئی
بڑے اور اہم نقادوں اور ادیبوں نے مختلف اوقات میں ان کی اِس تخلیقی قوت کا
اعتراف کیا ہے۔
آج کے عہد میں کہانی کی کیا شکل ہونی چاہیے؟ آج کے کہانی کار کو یہ سوال
خود سے کر لینا چاہیے۔ تا کہ آج کا ادب معتبر ہو سکے۔ اس عہد میں اعتبار کی
کوئی نشانی تو رہ جائے جو ہم مستقبل کے انسان کو پیش کر سکیں۔ جہاں تاریخ
کے پَر جلنے لگتے ہیں ، وہاں کہانی آگے جاتی ہے اور کہانی ہی واحد ذریعہ ہے
زمانوں کے تحرک کو سمجھنے کا! ہمیشہ مختلف زبانوں میں کہانی چھُپے ہوئے سچ
کی طرح خبر رکھتی ہے۔ کہانی اپنے عہد کی جذباتی ، حسّیاتی اور خارجی
صداقتوں کو اجتماعی تجربے کے کینوس میں دیکھتی ہے۔ اور پھر ایسا گواہ بن
جاتی ہے کہ جس کے منحرف ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا۔
پوری دنیا کی کہانی آج اس بات کی گواہ ہے کہ معاشروں میں انقلاب آنے سے
پہلے انسانوں کے اعصاب کتنے شکنجوں میں کَسے جاتے تھے اور پھر روحانی عذاب
کے کتنے مختلف طریقے رائج کئے گئے۔ اس سلسلے میں انسانوں کی گواہی پر کم
اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہانی آج بھی پکی گواہی دے رہی ہے لیکن اس کہانی
کے لکھنے والے اپنی گواہی سے کب کے منحرف ہو چکے ہیں۔ آج کی کہانی چھوٹے سے
چھوٹے لمحے کو بھی اپنی سوئی کی حرکت میں سمو سکتی ہے اور وقت کے کناروں سے
چھلکنے والے اضطراب کو بھی اپنے اندر سمیٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
۷۰ء اور ۸۰ کی دہائی اردو افسانے کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔پاکستان
میں مارشل لاء اور بھٹو کی پھانسی کے واقعے نے مزاحمتی ادب کو فروغ دیا۔
جمہوریت کے بار بار تعطل کے نتیجے میں مجموعی لا تعلقی ، بے حسی اور مایوسی
کو فروغ ملا۔ مارشل لاء کے نتیجے میں آزادی فکر اور اظہار رائے پر عائد
پابندیوں نے افسانے کو اسالیب کی نئی نئی راہوں سے آشنا کیا۔ اسے ما بعد
جدیدیت کا دور کہا جاتا ہے۔ ما بعد جدیدیت نے افسانے کے کینوس کو بہت وسیع
کر دیا۔ اب افسانے میں حقیقت نگاری ،علامت، تجرید، اساطیری عناصر ، سریت
اور فنیٹسی غرض ہر چیز کو برتا گیااور یوں یہ افسانے جدید افسانوں سے
موضوع، تکنیک ، اسلوب اور ابلاغ کے حوالے سے بہت حد تک مختلف ہیں۔
ڈاکٹر رشید امجد کے بقول:
’’ ستر کی دہائی کے آغاز ہی میں معاشرتی اور سیاسی طور پر مارشل لاء کے
خلاف ایک
بڑے رد ِ عمل نے سمت اور نظریے کی بحثوں کو پھر تازہ کر دیا۔۔۔۔۔ فنی سطح
پر ستر کی
دہائی میں جو نمایاں تبدیلیاں ہوئیں ان میں اوّل تو نئی لسانی تشکیلات کے
اثرات ہیں
جن کے تحت فارسی مزاج کی بجائے اُردو کا پاکستانی مزاج وجو د میں آیا۔ ۔۔
۔۔۔
ا فسانوی زبان میں شعریت کے ٹچ نے بیانیہ کے مقابلے میں ایک نئی زبان کی
تخلیق
کی۔ علامت و استعارہ کے ساتھ ساتھ افسانوں میں امیجز اور تمثیل کاری نے
معنوی دبازت میں اضافہ کر دیا۔ داستانی انداز اور اسطوری علامتوں نے بھی
افسانے
کی زبان پر خاصا اثر ڈالا۔‘‘ (۱)
اس دور میں جو افسانہ نگار سامنے آئے ان میں مسعود اشعر ، اے خیام ، احمد
داؤد، آغا سہیل، علی حید ر ملک، اعجاز راہی، محمد منشایاد، منصور قیصر ،
سلیم اختر، مرزا حامد بیگ، مظہر الا سلام، اعجازراہی، احمد جاوید،سریندر
پرکاش، عرش صدیقی،رشید امجد، رحمٰن شریف، انتظار حسین، انور سجاد، اسد محمد
خان اور ڈاکٹر انوار احمد سر فہرست ہیں۔
ڈاکٹر انوار احمد اگرچہ افسانے کے دورِ جدید سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کے
سامنے اُردو افسانے کی عظیم روایت موجود تھی جس کا وہ گہرا شعور رکھتے ہیں۔
آپ افسانے کی روایت اور اردو افسانے میں آنے والی مختلف تحریکوں خاص طور پر
ترقی پسند تحریک سے متاثر بھی ہیں۔ آپ نے ترقی پسند تحریک سے کیا اثرات
قبول کیے ، جدید افسانے کی کس نہج سے متاثر ہوئے ، افسانے کی عظیم روایت کو
اپنی افسانہ نگاری میں کیسے اور کس حد تک اپنایا اور آپ کے افسانوں کی فکری
یا فنی خصوصیات کیا ہیں، ان سب مباحث کا جائزہ آئند ہ سطور میں لیا جائے
گا۔
ڈاکٹر انوار احمد کو کہانی سے لگاؤ فطر ی طور پر رہا ہے۔بچپن سے ہی کہانیاں
سننے اور پڑھنے کا شوق تھا۔ جب آپ کے والد حیات تھے تو ان کے ساتھ سوتے اور
سونے سے پہلے ان سے کہانی سنا کرتے۔ (۲)والد گرامی کی وفات کے بعد ، اپنی
والدہ کے ساتھ اپنے نانا حسین بخش کے گھر منتقل ہو گئے تو کہانی سنانے کی
ذمہ داری نانا کے سر آن پڑی۔ آپ کے نانا اپنے نواسے کے ذوق سے بخوبی واقف
تھے ، و ہ انھیں جنوں اور پریوں کی کے قصوں پر مشتمل کہانیاں سنایا کرتے
تھے۔ (۳)
ڈاکٹر انوار احمد جب سکول میں داخل ہوئے تو کہانیاں سننے کا شوق مطالعہ کتب
میں تبدیل ہو گیا۔ اسکول کے زمانے میں ہی وہ شہر کی تقریباََ تما م
لائبریریاں چھان چکے تھے اور ان میں بیشتر کتابوں کا مطالعہ کر چکے تھے۔ اس
زمانے میں انوار احمد کا زیادہ تر رجحان نسیم حجازی، ایم اسلم اور ابن صفی
کے ناولوں کی طرف مائل تھا۔(۴) پھر محبوب جیلا نی جیسے مخلص اور ہم ذوق
دوست میسر آئے تو ان کی وساطت سے ’’نقوش‘‘ ، ’’ادبی دنیا‘‘ ، ’’ساقی‘‘ اور
’’ادب لطیف‘‘ کے کئی شمارے آپ کے زیر مطالعہ رہے اور یوں آپ ادب کی طرف
متوجہ اور مائل ہوئے۔ (۵) یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں بلکہ مطالعہ کے اسی شوق
نے کالج کی پڑھائی میں ایف ۔ اے کے دوران پریم چند کے تمام ناول اور سارے
افسانے پڑھ چکے تھے۔ (۶)افسانے سے آپ کا لگاؤ شدت اختیار کر تا گیا اور یہا
ں تک کہ آپ نے پی ۔ ایچ ۔ ڈی کے مقالے کیلئے ’’اردو افسانہ اپنے سیاسی و
سماجی تناظر میں‘‘ جیسا مشکل اور وقیع موضوع منتخب کیا۔اس مقالہ میں آپ نے
پہلے افسانہ نگار راشد الخیری سے لے کر جدید دور کے افسانہ نگاروں کی
نگارشات کا مطالعہ کیا۔ افسانوں کے اسی گہرے مطالعہ نے آپ کو تخلیق نگاری
پر آمادہ کیا۔
جب آپ کالج میں پہلے سال کے طالب علم تھے تو ڈاکٹر انوار احمد نے اپنی پہلی
کہانی ’’کتب خانے میں لاش‘‘ تحریر کی جس کا عنوان اگاٹھا کرسٹی کے جاسوسی
ناول سے ماخو ذ تھا۔ جب انہوں نے یہ کہانی اپنے تین دوستوں محبوب جیلانی،
اے۔ آر ۔ضیاء، اور رؤوف شیخ کو سنائی تو ان تینوں سامعین نے اسے مسترد کر
دیا۔ ’’امر‘‘ کے عنوان سے آپ نے دوبارہ تخلیقی کاوش کی لیکن اسے بھی مذکورہ
سامعین نے نا پسندیدہ قرار دیا۔ کچھ ایسا ہی نتیجہ ان کی تیسری کہانی ’’
آتش گرداب اور فصیل‘‘ کا بھی نکلا لیکن انوار احمد ہمت ہارنے والوں میں سے
نہ تھے۔ کون جانتا تھا کہ آج کا یہ بانکا نوجوان جو خیالوں میں گم دکھائی
دیتا ہے ، کل کو ایک معتبر کہانی کار کے طور رپر شہرت دوام حاصل کرے گا۔
آپ کی پہلی مطبوعہ کہانی ’’ریت کا رزق‘‘ ہے جو اُن کے دوست خالد شیرازی کی
وساطت سے کراچی کے ایک رسالے میں شائع ہوئی۔ (۷)اُردو اکادمی ملتان کے
ذریعے آپ کا باقاعدہ تعارف ادبی حلقوں میں ہوا۔ بی۔اے کے زمانہ طالب علمی
میں اکادمی کی ایک نشست میں اپنا پہلا افسانہ ’’امر‘‘ کے زیر عنوان سنایا،
اس کے بعد بطور افسانہ نگار ان کی شہرت ادبی حلقوں میں ہونے لگی۔
اب تک ڈاکٹر انوار احمد کے تین افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں:
۱۔ ’’ایک ہی کہانی‘‘ ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۶ء۔
۲۔’’پہلے سے سنی ہوئی کہانی‘‘ ، بیکن بکس ، ملتان، لاہور، ۲۰۰۳ء۔
۳۔ آخری خط‘‘، مثال پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء۔
ڈاکٹرانوار احمد کے مندرجہ ذیل افسانے ان میں سے کسی افسانوی مجموعے میں
شامل نہیں ہیں۔
۱۔’ ’امر‘ ‘ مطبوعہ ماہنامہ ’’ نخلستان‘‘ ، ملتان ، ۱۹۶۸ء
۲۔ ’’ ریت کا رزق‘‘ ، مطبوعہ ماہنامہ ’’ حروف‘‘ ملتان، ۱۹۷۳ء
۳۔ ’’ آتش گرداب اور فصیل‘‘، مطبوعہ ماہنامہ، ’’ حروف‘‘ ، ملتان۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے کچھ افسانے اور بھی لکھے ہیں جو ابھی
شائع نہیں ہوئے۔
فکر اور موضوع کے اعتبار سے ڈاکٹر انوار احمد صاحب کے افسانوں کو تین اقسام
میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ ملکی سیاسی صورتحال کے پس منظر اور پیش منظر میں لکھے جانے والے افسانے۔
۲۔ سماجی حقیقت نگاری پر مبنی افسانے
۳۔ ترکی اور جاپان کی معاشرت کے پس منظر میں لکھے گئے افسانے۔
۶۰ کی دہائی میں اِدھر ترقی پسند تحریک دم توڑرہی تھی تو اُدھر ڈاکٹر انوار
احمد اپنے تخلیقی سفر کے آغازکے لئے پَر تول رہے تھے۔۶۵ء کی پاک بھارت جنگ
نے ارض وطن سے محبت کے جذبے کو اجاگر کیا اور دھرتی سے وابستگی کا احساس
پیدا کیا مگر جمہوریت پر مارشل لاء کا شب خون جاری رہا۔اس اعتبار سے ۸۰ کی
دہائی بہت اہم ہے ، اس میں تین واقعات ایسے رونما ہوئے جنہوں نے حساس ذہنوں
کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ یعنی سقوط مشرقی پاکستان، ضیا الحق کا بد ترین
مارشل لاء اور بھٹو کی پھانسی۔ ان تینوں واقعا ت نے جہاں ملکی سیاسی و
معاشرتی سطح پر دیر پا اثرات چھوڑے وہیں ادب کو بھی موضوع ، فکر اور تکنیک
کے حوالے سے نئے چیلنجز سے دو چار کر دیا۔ بے اعتمادی، خوف کی لہر، بے
سمتی، داخلی شکست و ریخت اور باطنی تنہائی ، معاشرتی و قومی سطح پر منافقت
ادب کا موضوع بنے رہے۔ یہی زمانہ ڈاکٹر انواراحمد کے تخلیقی سفر کے عروج کا
زمانہ ہے۔ذیل میں ان کے اب تک شائع ہونے والے تمام افسانوں کے موضوعات کا
تفصیلی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر انوار احمد کے ہاں موضوع کے انتخاب، موضوع کے افقی اور عمودی سمت میں
پھیلاؤ اور اسلوب کی رنگا رنگی اسی سیاسی آشوب کی دین ہے۔ان کے افسانوں کی
کہانیاں موجودہ عہد کی معاشرتی بد عنوانیوں کی عکاس ہیں۔ ان کے افسانوں کے
کردار ہمارے ارد گرد ہی موجود ہیں جو روزانہ راہ چلتے ہمارے سامنے آتے جاتے
رہتے ہیں۔ ان کے افسانوں خاص طور پر ’’آسٹر ٹروف‘‘، ’’چرم ہائے قربانی‘‘،
’’ دردا دی ماری دلڑ ی علیل اے‘‘، ’’ ایک ہی کہانی‘‘، ’’ بچھوؤں کے ساتھ
رات‘‘، ’’ بیچ والا آدمی‘‘، پہلا محب وطن بچہ‘‘،’’ کمال بستی‘‘، ’’ جبڑا
چوک‘‘، ’ ’ نا قابلِ اشاعت‘‘ ، ’’ یر غمالی‘‘ ، ’’ گرجھوں والی سرکار‘‘ ،
’’ جب راج کرے گی خلق خدا‘‘ ، ’’ حلفیہ بیان‘‘ ، اور ’’ آخرت ایکسپریس‘‘
میں یہی ملکی اور سماجی سیاسی صورتحال اپنی تما م تر پیچیدگیوں کے ساتھ
آشکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔شوکت قادری کہتے ہیں:
’’ ملکی سیاسی و سماجی صورتحال بھی ان کے افسانوں میں نمایاں ہے۔ دورِ
آمریت اور
اس کے اثرات یعنی پابندی، افکارو اظہار جو حب الوطنی کی دلیل ٹھہرتی ہے،
مذہبی
Exploitation، استحصالیوں کے خلاف کمزور ترین جذبہ ایمانی۔ ایسے میں ہمارے
ادبا، اصحاب ِ فکر و دانش اور سیاسی رہنماؤں کا کردار، یہ وہ تما م موضوعات
ہیں جو اُن
کے افسانوں کو اہم بناتے ہیں۔‘‘(۸)
چونکہ ڈاکٹر انوار احمد ترقی پسند تحریک سے متاثر ہیں ، اسی لیے اپنے
افسانوں میں ترقی پسندانہ رجحانات کو اپناتے ہیں۔ تاہم ان کا افسانہ جدید
افسانہ ہے جس میں اُردو افسانے کی عظیم روایت اپنی تمام تحریکوں اور
رجحانات کے اثرات کے ساتھ موجود ہے۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ تخلیقی موضوعات
کے انتخاب میں وہ ترقی پسند ضرور ہیں مگر ان موضوعات کو پیش کرنے کا انداز
جدید اور انوکھا ہے۔ ان کے افسانوں میں سماجی نا انصافی، طبقاتی نا ہمواری
، سیاسی و قومی منافقت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لا یعنیت اور
ابہام، آمریت کے اثرات، غربت اور جہالت سے پیدا شدہ عفریتیں اور جدید دور
کی عطا کر دہ معاشی، معاشرتی، نفسیاتی اور جنسی الجھنیں اپنے پورے پس منظر
کے ساتھ نظر آتی ہیں۔
ڈاکٹر انوار احمد نے جب شعور کی سیڑھی پر قدم رکھا تو ملک اور آئین کو ایوب
خان کی آمریت کے شکنجے میں جکڑا ہوا پایا۔ ۱۹۵۹ء میں بنیادی جمہوریتوں کے
انتخاب میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے جس طرح محترمہ فاطمہ جناح کو دھونس
اور دھاندلی سے شکست دی تو ڈاکٹر انوار احمد نے جمہوریت کی حمایت میں آواز
اٹھائی اور اپنے رومانی مزاج کو ہمیشہ آمرانہ ہتھکنڈوں کے خلاف بطور مزاحمت
استعمال کیا۔پھرذو ا لفقار علی بھٹو کا دور آیا تو عوامی امنگوں کی ترجمانی
شروع ہوئی اور جمہوریت کے پیروکاروں کو اپنی منزل سامنے دکھائی دینے لگی
لیکن جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء نے ایک بار پھرعوامی معصوم خواہشات اور
خوابوں کو نہ صرف چکنا چور کر دیا بلکہ جمہوری راستہ ہموار کرنے کے الزام
میں ذو الفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔بھٹو کی پھانسی ایک ایسا
سانحہ تھا جو ڈاکٹر انوار احمد کے دل و دماغ پر انمٹ اثرات چھوڑ گیا۔انھوں
نے افسانے کو اپنی مزاحمت، انقلاب، اصلاح اور تبدیلی کا وسیلہ بنایا اور
ایک با شعور، روشن دماغ ادیب کا کردار نبھایا۔اس بارے ڈاکٹر انوار احمد
لکھتے ہیں:
’’ بھٹو کی پھانسی اور ضیا الحق دور کی بندشوں نے کہانی کو میرا جذباتی
رفیق اور اپنے جیسے
رومانی سادہ لوحوں سے رابطے کا وسیلہ بنا دیا، جو یہ سمجھتے تھے کہ ان کی
کہانیوں اور شعروں
سے سجے پمفلٹ سے امریکی منشا سے منسلک ہمارے فوجی کی بندوق کا رُخ اور جج
کے
قلم کا تیور بدل سکتا ہے۔ـ‘‘ (۹)
ڈاکٹر انوار احمد کے افسانوں کے موضوعات معاشی سطح سے اٹھ کر سیاسی، مذہبی
، تہذیبی اور جغرافیائی سطح تک وسیع ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ اپنی کتاب
’’اردو افسانہ۔۔۔تحقیق و تنقید‘‘ میں یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں:
’‘ گزشتہ چند برسوں میں اردو افسانے میں ’’جلا وطنی‘‘ کا احساس ابھرا ہے۔
بلاشبہ
اس کا قومی محرک تو معاشی اسباب کی بنیاد پر نقل مکانی ہے۔ یورپ امریکہ اور
کینیڈا
کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ دیکھتے ہی دیکھتے پاکستانیوں کے لئے کوہِ ندا کا
درجہ
اختیار کر گئے۔ وہاں سے مسلسل بلاوا آ رہا تھا اور پاکستانی بے اختیار
کھنچے چلے جا
رہے تھے (بعض اوقات بلاوا نہیں آتا مگر کھنچے چلے جا نے والے اسی صدا کے
فریب میں مبتلا رہتے ہیں) اور پاکستان دنیا کا ایسا ملک بن گیا جس کی پوری
آبادی نقل مکانی کے لئے تیار تھی(ہے)۔ اس صورتحال کے نفسیاتی، سیاسی اور
سماجی اسباب ہیں۔ احساس شرکت سے محروم پاکستانی اپنے اجتماعی وجود کے
بارے میں سوچنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ اس طرح ہجرت سے بھی
زیادہ پیچیدہ اور المناک احساس نے جنم لیا۔ یہ بے گھری کا مسئلہ نہیں ۔ گھر
میں رہ کر
بے گھری اور وطن میں بستے ہوئے جلا وطنی کا معاملہ ہے۔‘‘ (۱۰)
ڈاکٹر انوار احمد کے ایسے افسانے ہماری قومی تاریخ کے ایک دور کی دستاویز
ہیں۔ جمہوریت کا خون،مارشل لاء کی آڑ میں تحریر و تقریر پر پابندی، مکر ،
فریب لالچ کے ذریعے جمہوری علمبرداروں کو متزلزل کرنے کی ’منافقانہ‘
کوششیں، دردِ دل رکھنے والے انسانوں کی تذلیل، مارشل لاء کو طول دینے کے
حربے، مذہبی اصطلاحات کی آڑ میں اوچھے ہتھکنڈے، سوچ کی تبدیلی، ترقی اور
روشن خیالی کا سدّ ِ باب، ڈاکٹر انوار احمد نے ن تمام عناصر کے ذریعے حقائق
کی تصویر کشی کر کے ادب کا رشتہ اس عہد کی تاریخ کے ساتھ جوڑنے کی کامیاب
کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی کہتے ہیں:
’’وہ ادب جس میں تاریخ کی صحیح عکاسی اور ترجمانی ہوتی ہے اور جو صحیح
معنوں میں ادبی
قدرو ں کا ترجمان ہوتا ہے، اس میں ضروری نہیں کہ تاریخ یا تاریخی واقعات کی
تفصیلا
موجود ہو۔ اس میں تو تاریخ کی روح ہوتی ہے، اس کا نچوڑ ہوتا ہے، اس کا عطر
ہوتا ہے
اور اس عطر سے اس کے دامن میں تاریخ کی مہک پیدا ہوتی ہے۔ ۔۔۔ ۔کسی قوم یا
ملک
کے ادب کو اس کی تاریخ سے الگ کر دیا جائے تو اس میں انفرادی شان پیدا ہونا
تو درکنار،
زندگی کے آثار تک نظر نہیں آ سکتے۔‘‘ [۱۱]
اصغر ندیم سید بھی کچھ ایسی ہی رائے رکھتے ہیں کہ افسانے کے ذریعے تاریخ کی
صحیح اور مستند عکاسی کی جا سکتی ہے۔آمریت کے دور میں بھی ڈاکٹر انوار احمد
نے خاموشی اور مصلحت پسندی کو اپنانے کی بجائے ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کیا
اور سچ کو منظر عام پر لانے کی کاوش کو جاری رکھا۔ ضیا الحق کی طرف سے
کرائے گئے ریفرنڈم کے ذ کر میں طنز اور تلخی کی شدت ناقابل برداشت حد تک
نمایاں ہے۔ یہ وہی دور تھا جب اہل علم اور اہل قلم کو دھمکی آمیز لہجے میں
کہا گیا کہ صرف اتنا ہی لکھیں ، بولیں اور سنائیں جتنا انھیں کہا جاتا ہے۔
حکومت کے خلاف رائے کا اظہار ریاست سے غداری قرار دیا گیا اور گونگا ہونا
حب الوطنی کی دلیل ٹھہرا۔اپنے معروف افسانہ ’’ بیچ والا آدمی‘‘ میں ظلم اور
جبر کے پہاڑ توڑنے والے آمروں کی نقاب کشائی ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ اور پھر اعلان ہوا کہ پورے ملک میں سرد خانے کھول دئیے گئے ہیں ۔ جہاں
ہر شخص
اپنے حصے کا جغرافیہ ، تاریخ ، ادب و شعر اور آنکھیں جمع کرادے جس کے صلے
میں ہر
شخص کو ایک خوش نصیب لا تعلقی دی جائے گی۔‘‘ (۱۲)
ٍ
ڈاکٹر انوار احمد کے زیادہ تر افسانے معاشرتی خرابیوں پر لکھے گئے ہیں جن
میں انھوں نے بڑی بے باکی کے ساتھ معاشرے میں خرابی پیدا کرنے والے افراد
کے چہروں کو بے نقاب کیا ہے۔ سیاسی و عصری انتشار ڈاکٹر انوار احمد کے
موضوعات کا اہم ترین اور مرکزی نکتہ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو معاشرتی زندگی
کا ڈھانچہ سیاست، معاشرت و معیشت، ادب اور مذاہب کے ستونوں پر کھڑا ہوتا
ہے۔ ان میں سیاسی حوالہ اس لیے زیادہ موثر اور توانا ہوتا ہے کہ سیاسی
راستے سے آنے والی تبدیلیاں ساری سماجی زندگی میں انقلاب بر پا کر دیتی
ہیں، مثبت یا منفی؟۔۔۔ یہ بحث الگ ہے۔ لیکن سیاست کے ردو بدل انسانی ذہنوں
میں بھی تبدیلیاں لاتے ہیں۔ ذہنوں کی تبدیلی ادب پر اپنے اثرات مرتب کرتی
ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر انوار احمد کے ہاں ہم سیاست، اس کے بدلتے کھیل اور
نتائج کو ایک مربوط سلسلے سے بندھا ہو اپاتے ہیں۔ اور بعض اوقات شدت احساس
سے سیاست کا کھیل ایک بھیانک چہرے کی صورت میں ابھرنے لگتا ہے۔ ایک ایسا
چہرہ جس کے سارے رنگ کالے ہیں، روشنی کہیں نہیں۔ اس حوالے سے یہ ان کی فکر
کا یک رخی پہلو بھی بن جاتا ہے۔ جس میں جذبات کی شدت اور تندی کوٹ کوٹ کر
بھری ہوئی ہے۔ عصری انتشار سے ہی سیاسی انتشار کے سوتے پھوٹتے ہیں اور عصری
انتشار کو ڈاکٹر انوار احمد نے کمال مہارت سے فوکس کیا ہے۔ وہ حقائق کے
اندر اور باہر ہر تحریر اور نقش کی زبان پڑھتے ہیں۔’ ’کمال بستی، جبڑا
چوک‘‘ بھی اسی نوعیت کا افسانہ ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’یک بیک ناصح کی کینہ توڑ آنکھوں میں چمک سی آئی اور اس کے ہونٹوں سے لفظ
چھن چھن اشرفیوں کی طرح گرنے لگے، صحرا میں اذان دینے سے تھکنے کے سوا کیا
ہو گا؟ قبرستان میں دعوتِ عمل دینے سے مایوسی کے علاوہ کیا ملے گا، جنگل
میں پکارو
گے بھی تو ضروری نہیں کہ تمہاری اپنی آواز بھی پلٹ کر آ سکے، یہ دیکھو بہت
سی منعفت
بخش کرسیاں خالی پڑی ہیں۔ زکوٰۃ ، عشر، ا وقاف ، ایکسپورٹ، امپورٹ اور
ارباب وطن
کی صدیوں کی تذلیل کا بدلہ لینے والی پُڑیوں کی فیکٹری، آج زندہ کو پُر
آسائش بنانے کے
لئے جتنے وسائل میسر ہیں ، اتنے کبھی انسان نے خواب بھی نہیں دیکھے تھے۔
چاروں کھونٹ
موجود کارنر پلاٹ ، پلازے ، کالے دھن کو پاکیزہ بنانے والے بئیرز بانڈ اور
پھر دنیا کے
ساتھ ساتھ اچھی عاقبت کی ضمانت میں جاری کیا ہوا مارشل لاء آرڈر۔‘‘ (۱۳)
ڈاکٹر انوار احمد با ضمیر اور نڈر انسان ہیں ۔ حقائق کو منظر عام پر لانے
میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں رکھتے ۔ معاشرے میں پائے جانے والے ظلم اور
نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانا ہمت والوں کا کام ہے اور یہ ہر کس و ناکس کے
بس کی بات نہیں۔ ظالم اور اس کے ظلم کی حقیقی تصویر کشی اپنے معروف افسانہ
’’ جب راج کرے گی خلق خدا‘‘ میں ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’پھر ٹکٹیوں سے باندھ کر با ضمیروں کو اس طرح کوڑے مارنے کی ہدایت آئی کہ
ان کے
منہ کے آگے مائیک رکھ کر چیخوں کو مہیب اور عبرت ناک بنا دیا جائے۔‘‘ (۱۴)
’ایک ہی کہانی، سے ایک اقتباس مزید ملاحظہ ہو:
’’ اس کے مد مقابل رات بھی تھی، سمند ربھی اور عاقبت نا اندیش ساتھی بھی،
رات سمندر
کی ہر لہر کو اس کی بستی کے ہر مکان سے بلند دکھا رہی تھی اور اپنے سناٹے
کو ایسے کڑاکے
میں بدل چکی تھی جو ڈوبتے ہوؤں کے نوحوں پر غالب تھا۔ ایسے میں اس نے اپنے
ارادے کو بے بس تنکے کی بجائے چپو بنانے کا فیصلہ کیا اور حوصلے کی کشتی کو
بپھرے سمندر
میں ڈال دیا۔‘‘ (۱۵)
درج بالا افسانوں کے اقتباسات کی موضوعاتی اور فکری تفہیم کیلئے بہت ضروری
ہے کہ ان افسانوں کے سنِ اشاعت کو مد نظر رکھا جائے۔ محولا بالا افسانہ’
’کمال بستی، جبڑا چوک‘‘ آپ نے۱۹۸۸ء میں لکھاجب ضیا الحق کے طیارہ حادثہ کا
واقعہ نیا نیا تھا۔ اسی طرح آپ کا افسانہ ’’ایک ہی کہانی‘‘ ۱۹۸۰ء میں لکھا
گیا جب بھٹو کی پھانسی کے واقعے کو تقریباََ ایک سال کا عرصہ گزرا تھا۔
سیاسی آشوب پر مبنی موضوعات پر افسانہ لکھتے ہوئے ڈاکٹر انوار احمد تلخ
حقیقت نگاری کی حیثیت سے طنز کے تیزنشتر چلاتے ہیں مگر طنز کی یہ شدت اور
تلخی، کہانی کے حسن اور افسانے کے فنی رموز کی بدولت قابل برداشت ہو جاتی
ہے۔ اور یہی ڈاکٹر انوار احمد کا کمال ہے کہ وہ اپنے ہدف کو نشانہ بناتے
ہوئے نفرت، غصے اور دُکھ کے عالم میں بھی فن کے تقاضوں کو قربان نہیں کرتے۔
ڈاکٹر انوار احمد کے ہاں خارجی حوالے پوری شدت کے ساتھ فرد کی ذات سے
متصادم ہیں۔ یہ تصادم فرد کی سوچوں اور داخلی توانائیوں کو مسلسل تحریک
دیتا اور فعال بھی رکھتا ہے۔ فرد اِسی حوالے سے اپنے آپ سے الجھتا ہے۔ حکم
زبان بندی ہے۔ اظہار کا راستہ نہیں۔ ملکی ، سیاسی، سماجی حالات سخت گیری کی
زد میں ہیں۔ خوف، دہشت اور عدم تحفظ کا احساس فرد کا صرف ذاتی اور انفرادی
حوالے سے ہی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اجتماعی سطح پر یہ اپنا حوالہ بن رہا ہے۔
اصغر ندیم سید کے مطابق:
’’ مزاحمت اور ردِ عمل کی فضا میں غصہ، نفرت ، غیر محفوظ ہونے کا احساس ،
طنزیہ
وار کرنے کا اسلوب اورسنجیدہ چہروں کے پیچھے چھپی ہوئی مضحکہ خیزی کو بے
نقاب
کرنے کا جذبہ کار فرما نظر آتا ہے۔ لیکن یہ سارے رویے ا فسانے کے کینوس ،
بُنت اور تکنیک کے زاویوں میں جذب ہو کر با معنی بنتے ہیں۔ موضوع کی شدت
میں بعض اوقات وہ اپنے کرداروں کی بجائے خود کو قابو میں رکھنے کی کوشش
کرتا ہو ا
نظر آتا ہے اور اکثر اس میں کامیاب ہوتا ہے۔ حا لانکہ اس کی خواہش ہوتی ہے
کہ احتجاج اتنا بھر پور ہو کہ دشمن کی کمر توڑ دے لیکن اس طرح وہ اپنے
کرافٹ
کی باریکیوں اور پہلوؤں کو ضائع کر کے مقصد حاصل کرنے کو ترجیح نہیں دیتا۔
‘‘ (۱۶)
ڈاکٹر انوار احمد کی کہانیوں میں نفسیاتی عنصر بڑا فعال ، توانا اور اہمیت
کا حامل ہے۔ وجود کے داخلی اور خارجی عوامل کی چھان پرکھ کے بعد وہ اس کے
ذہن کی کیفیت ، اسباب و تجزیہ ، جواز ، مقدار کی پیمائش کے ساتھ وابستہ نظر
آنے لگتے ہیں۔ وہ اس سائنسی اور کمپیوٹرائزڈ زمانے سے اپنے موضوعات کشید
کرتے ہیں۔ منطقی دلائل و براہین، تجزیاتی نگاہ جیسے عوامل اسی زمرے میں آتے
ہیں۔
شعور، لا شعور اور تحت الشعور کی دنیا بھی اس وقت فعال اور متحرک ہوتی ہے
جب ذہن انسانی مخصوص کیفیات و تجربات سے گزر ے۔ شعور ذہنی عاجزی کے ساتھ
منسلک ہے۔ لا شعور میں یہ با خبر ی پس پشت چلی جاتی ہے جبکہ تحت الشعور
ہمارے ذہن کا کچھ حصہ مخصوص وقت کے لئے اپنے پاس محفوظ کر لیتا ہے۔ ذہنِ
انسانی کے یہ تینوں حصے تین دنیائیں ہیں جن کے اثرات اس کی زندگی پر
بالواسطہ یا بلا واسطہ مرتب ہوتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر انوار احمد کے دور کا انسان انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جبر کی
ایک مخصوص کیفیت اور نشیب و فراز سے گزر رہا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو
آنکھ دیکھ رہی ہے، جو کچھ ہونے والا ہے وہ پردہ افکار پر ابھرتا نظر تو
نہیں آتا لیکن اس کے آثار پیدا ہوتے نظر آتے ہیں۔ تخیل کی قوت اسی دوران
تخلیقی میدان عمل میں اترتی ہے۔
تخیل کی طاقت ’’ ہونی‘‘ کی اصل حقیقت اور اس کے حوالے سے گمان، خدشے کی نئی
تخیلاتی تصاویر بھی قبل از وقت دکھانے پر قادر ہے۔ یہ اصل حقیقت کے منفی
زاویوں پر تنقید کا نقطہ نظر بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ ایک نئی دریافت کا عمل
بھی ہے۔ کیا ہو رہا ہے، سے بلند تر کیا ہونے والا ہے اور کیا ہو سکتا ہے؟
تمام عوامل تخیل کی پرواز کی زد میں ہیں۔ نفسیاتی تجزیہ میں تخیلاتی قوت
ایک بڑا محرک ثابت ہوتی ہے۔
افسانہ ’’ آسٹرو ٹرف‘‘ جدید معاشرے کی المیاتی کہانی ہے جس کا مرکزی کردار
’بوڑھا متکلم‘ ہے ۔ دور جدید کی مادی ترقی اور سامان تعیش کی ہوس و حرص نے
جدید انسان کو مشین بنا کر رکھ دیا ہے۔ترقی کی اس دوڑ میں ہم اشیائے نمود و
نمائش تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن عزیز اور قریبی رشتوں کو ہار جاتے ہیں۔ اس
کہانی کا منظر نامہ بھی کچھ ایسی ہی صورت حال بیان کرتا ہے۔ بوڑھے متکلم کے
دو بیٹے ہیں جن کی پرورش میں اس نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ بیوی کی وفات کے
بعد سوتیلی ماں کے سائے سے بھی محفوظ رکھا،باپ بن کر بھی پالا اور ماں بن
کر بھی۔لڑکے جوان ہوئے بیرون ملک مقیم ہو گئے۔بوڑھے والد کی مصروفیت کے لئے
ریڈیو اور رنگین ٹیلی ویژن بھیج کراپنے فرض سے سبکدوش ٹھہرے جبکہ بوڑھا
والد گھر میں خود کلامی کرتے کرتے اور ان کی راہ تکتے نفسیاتی مریض بن چکا
ہے۔
ڈاکٹر انوار احمد کے افسانوں میں جہاں ظلم وجبر کے رویے ان کے عنوانات بنتے
ہیں تو ساتھ اجتماعی بے حسی کی بات بھی ہوتی ہے۔ جو اس ظلم و جبر کو پنپنے
کا موقع فراہم کررہی ہے۔ یہ احساسِ زیاں کی اور بھی بد ترین شکل ہے۔ اس کی
وضاحت کرتے ہوئے وہ انسان ، اس کا چہرہ اور اس کی سوچ سب کچھ بدلی ہوئی
پاتے ہیں اور اس حوالے سے جو معاشرتی طرز عمل نظر آتا ہے وہ انسانوں کا
نہیں بلکہ کسی اور ہی مخلوق کا ہے یا ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر انوار احمد نے ہجرت
سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ پاکستانی ملکی و سیاسی صورت
حال ، اپنی تہذیبی جڑوں اور شناخت کی تلا ش کا مسئلہ ، معاشی جبر کے تحت
اختیار کی جانے والی جلا وطنی ، عدم تحفظ کے احساس کو سب کچھ پا کر بھی
محرومی کے احساس تلے دبے بوڑھے متکلم کی بیانیہ خود کلامی کو اپنے افسانہ
’’ آسٹرو ٹرف‘‘ میں انتہائی جامع اور خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے:
’’بلکہ یہ واقعہ ہے کہ مجھے قطعاََ یاد نہیں کہ اس زمین پر گھر بنانے سے
پہلے میرا کوئی گھر بھی تھا۔
ہاں بعض لمحو ں میں کچھ چیزیں مجھ گڑ بڑا دیتی ہیں، ایک لق و دق ویرانہ
میری نگاہوں میں
پھیل جاتا ہے اور میں خود کو ٹھوکریں کھاتا ہوا ایک مسافر دیکھتا ہوں ، یہ
سفر نجانے کہاں
سے کہاں تک کا سفر کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک کا
سفر یا
خود سے خود تک کا سفر! مگر یہ خود تک کا سفر ہوتا تو پھر میں خود کو ایک
اجنبی مسافر کیوں
محسوس کرتا۔‘‘ (۱۷)
ڈاکٹر انوار احمد کے افسانے محض سیاسی اور سماجی مسائل کی عکاسی نہیں کرتے
بلکہ ان مسائل کے پس پردہ عناصر کو بے نقاب کر کے روحِ عصر کے حقائق کو
منظر عام پر لاتے ہیں ۔ وہ محض ملکی اور عالمی سطح کے واقعات و سانحات کی
بالائی پیش کش سے افسانہ نہیں بُنتے بلکہ ان واقعا ت و سانحات کی تہہ میں
موجود کرداروں ،رویوں اور عوامل کو ظاہر کرتے ہیں ۔ معاشی و سماجی مسائل کی
پیش کش، ’عصریت‘ کو اجاگر کرتی ہے لیکن ان مسائل کے پس پشت خوف، لالچ، دہشت
، لا یعنیت، بے معنویت، بد اعتمادی، روحانی و ذہنی کرب، نفسیاتی الجھنیں ،
بے یقینی اور بے حس لا تعلقی ، اُس دور کی اصل تصویر کشی کرتے ہیں۔ جدید
افسانے میں عصریت اور روح عصر کی عکاسی کے حوالے سے ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش
کی رائے ہے:
’’ تا ہم یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ سیاسی اور سماجی مسائل عصر کے ظاہر
ی خدو خال ہیں،
جبکہ عصر کا اصلی چہرہ ان خطوط کے عقب میں موجود ہوتا ہے اور اس پر سے نقاب
اُٹھا کر
ہی ’روحِ عصر‘ سے متعارف ہو ا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں
کہ عصریت
فقط بالائی سطح کا شعور رکھنے کا نام نہیں بلکہ اس اجتماعی احساس کا نام ہے
جو کسی عصر میں
پنپتا ہے۔۔ عصریت کے حوالے سے جدید اُردو افسانے نے بیسویں صدی کے واقعات،
سانحات، نظریاتی اور جماعتی آویزش، گھروں کے ٹوٹنے کا منظر ، نقل مکانی کے
عالمی
واقعات اور معاشی سطح کی تبدیلیوں کے پس منظر میں اپنے کرداروں کو ابھارا
اور کہانیوں
کو مرتب کیا ہے، مگر ان بالائی سطح کی تبدیلیوں کے اندر اس روح عصر کی
کاروائی کا منظر
بھی پیش کر دیا ہے جو کرداروں اور کہانیوں کی پاتال میں موجود ہے۔ یہ روح
عصر بیسویں
صدی کی وہ تہذیبی موج ہے جو سطح کی ٹوٹتی پھوٹتی لہروں کے نیچے موجود ہے۔‘‘
(۱۸)
جدید زندگی آج گوناگوں مسائل کا شکار ہو رہی ہے جن میں سماجی، معاشی،
اخلاقی ، تہذیبی اور معاشرتی مسائل نمایاں ہیں ۔ ڈاکٹر انوار احمد دورِ
جدید کے ان تمام مسائل سے نہ صرف بخوبی آگا ہ دکھائی دیتے ہیں بلکہ واضح
الفاظ میں نشاندہی کرنے کے علاوہ ان مسائل کے حل کے لئے مناسب اقدامات کا
عندیہ بھی دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے افسانے ’’نوں جی‘‘، ’’ ایک بے ضرر
کہانی‘‘، ’’ گونگی غراہٹ‘‘، ’’ انتظا ر میں ڈوبا ہوا گھر‘‘، ’’ کفن سے
انکاری‘‘، ’’ اور ڈاکٹر دِل محمد اور دردِ دل‘‘ کا مطالعہ خاص کر اہمیت کا
حامل ہے۔
ان کے افسانہ ’’ نَوں جی‘‘ کا موضوع معاشرتی قدروں کی پامالی اور اخلاقی
زوال ہے جس کے پیچھے اقتصادی مجبوریاں اصل محرک ہیں۔یہ اقتصادی مجبوریا ں
ایک نوجوان لڑکی کو جسم فروشی کا کالا دھندا کرنے پر مجبور کر رہی ہیں اور
ساتھ ہی ساتھ رکشہ ڈرائیور کا اس کی مجبوریوں اور ذلت بھری زندگی کو نظر
انداز کر کے اس کے کپڑے لے کر فرار ہونے میں عافیت سمجھنا، (جس سے وہ دن
بھر کا کرایہ وصول کر سکے) معاشرے کے لئے سوالیہ نشان ہے۔حیرت کی بات یہ ہے
کہ دونوں کرداروں میں سے کسی کو بھی اپنے اخلاقی زوال کا احساس تک نہیں،
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دونوں نے حالات سے سمجھوتا کر لیا ہے اور اس اخلاقی
تنزلی کو ہی اپنا نصیب اور کسب سمجھ لیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ میں نے باہر سے کہا ’’ بی بی اﷲ دا واسطہ، ذرا جلدی کر لو۔‘‘ بس جی یہ
سن کر اس نے مجھے
اندر بلا لیا اور کہنے لگی ’’ میرے پاس پیسے بالکل نہیں مگر گھبراؤ نہیں
میں پورا کرایہ چکا دوں
گی۔‘‘ اس نے تو جی ایک ایک کر کے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دئیے۔۔۔۔ ۔۔۔
بس جی اس نے ایک جھلنگی چارپائی پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں اور لمے لمے
ہوکے بھرنے
لگ گئی، موتیاں والیا! میں نے تو وہ کپڑے اُٹھائے اور وہاں سے ’دڑک لگائی‘۔
بے ساختہ
میرے منہ سے نکلا ’’لعنت ہو تم پر خدا کی‘‘ بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی۔‘‘ وہ
کہنے لگا ’’ باؤ جی!
میرے گھر کھان والے نَوں جی ہیں۔‘‘ (۱۹)
ڈاکٹر انوار احمد صاحب کی خوبی ہے کہ وہ اپنی کہانیوں میں تجسس کا عنصر
آخری سطر تک قائم رکھنے میں ماہر ہیں، وہ کہانی کے ساتھ قاری کو جوڑے رکھنے
کا فن جا نتے ہیں۔ جونہی یہ تاثر ختم ہوتا ہے قاری کے ذہن کو شدید جھٹکا
لگتا ہے اور وہ سکتے کی حالت سے باہر آ جاتا ہے لیکن اس کے ذہن میں طرح طرح
کے سوالات پنپنے لگتے ہیں ۔صرف سات الفاظ میں ان سوالات کا جواب، کوئی ماہر
فنکار ہی دے سکتا ہے جیسے کہ اس افسانہ میں ڈاکٹر انوار احمد صاحب دیتے ہیں
کہ ’’ میرے گھر کھان والے نوں جی ہیں ۔‘‘ ڈاکٹر انوار احمد صاحب کا کمال ہے
کہ محض ساڑھے تین صفحات پر مشتمل اس مختصر افسانے میں، معاشرے میں پائے
جانے والی اخلاقی ، تہذیبی اور معاشرتی قدروں کو، اقتصادی اور معاشی
پہلوؤوں کے ہاتھوں پامال ہوتے دکھایا گیا ہے اور وسیع سماجی صورت حال کو
پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر اے۔ بی اشرف ، ڈاکٹر انوار احمد کے افسانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے
فرماتے ہیں کہ:
’’ انوار احمد اس وقت لکھتا ہے جب متاثر ہوتا ہے۔ جب اس کے منہ سے چیخ
نکلنا چاہتی
ہے۔ جب اس کی آنکھیں مزید دیکھنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ جب اس کا دل
اُمڈنے کو
ہوتا ہے تو وہ سارے درداور آشوب آگہی کو کہانی میں سمیٹ لیتا ہے۔ معروضی
حقیقتیں ہی
اس کی کہانی کا موضوع بنتی ہیں ۔ اس کی کہانیوں کا سارا پس منظر ہمارا سوشل
نظام ہے جو
فرسودہ بھی ہے اور استحصالی بھی۔ انوار احمد رومانوی حقیقت پسندی سے کام لے
کر ماحول
کو کیمو فلاج نہیں کرتا۔ چیزوں کو مبہم نہیں بنا دیتا بلکہ واقعات کی نئی
ترتیب بناتا ہے اور
حقیقت پسندانہ رویے سے کام لے کر کہانیاں تخلیق کرتا ہے۔‘‘(۲۰)
صنعتی انقلاب کے آنے سے معاشرہ اور زندگی فطری تسلسل سے محروم ہو کر رہ گئے
ہیں۔ سالوں کا سفر لمحوں میں طے ہونے لگا ، زندگی کی تیز رفتاری نے انسانی
تجربات کو تنوع سے دو چار کیا اور نت نئے اور گونا گوں قسم کے تجربات کے
نتیجے میں انسان اپنی پہچان سے دور ہو گیا ، اس کی ’فردیت‘ کہیں گم ہو گئی
او ر ’زندگی میں موت‘ کی سی کیفیت کا شکا ر دکھائی دینے لگا۔ جدید افسانے
میں ایسی صورتحال کی عکاسی واضح دکھائی دیتی ہے۔ مشینی ترقی پرانی اقدار کی
شکست و ریخت کا موجب بنی اور جدید انسان کو بھی نئے سماجی تقاضوں سے عہدہ
بر آ ہونے کے لئے ہر لحظہ ’نیا چہرہ‘ سجانا پڑا ۔ اس کی اپنی کوئی پہچان
نہیں رہی بلکہ وہ ایک ’’ناٹک‘‘ کا کردار بن کے ر ہ گیا ہے ۔ وہ اپنی مرضی
سے زندگی نہیں گزار رہا بلکہ محض Roll Play کرتا ہے۔ (۲۱)
’’ایک بے ضرر کہانی‘‘ صنعتی دور کے اس المیے کی عکاسی ہے جسے نسلی بُعد کہا
جاتا ہے۔ اس افسانے میں عام آدمی کے مسائل اور نامکمل ہونے والی خواہشات کے
بیان کے ساتھ مشینی زندگی کے اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو
معاشرتی قدوروں کو نہ صرف زوال سے ہمکنار کر رہا ہے بلکہ انسان کی انفرادیت
کے درپے ہے۔ترقی کی اس ریس میں پیچھے ر ہ جانے والوں کے پاس سوائے احساس
ندامت کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
افسانے کا منظر نامہ بتاتا ہے کہ اس کا مرکزی کردار’’واحد غائب‘‘ٹائپ رائٹر
جسے لوگ ’باؤ جی‘ کے نام سے پکارتے ہیں، ایک سپرنٹنڈنٹ کے دفتر کے آگے اپنی
میز کرسی رکھ کر اپنا روزگار چلاتااور سو روپے بطور ٹیکس اس جگہ کا کرایہ
سپرنٹنڈنٹ کو دیتاہے۔’واحد غائب‘ اپنے اکلوتے بیٹے کی وجہ سے اکثر پریشان
رہتا ہے جو میٹر ک میں تین بار
فیل ہونے اور بری صحبت کی وجہ سے نشے کا عادی ہوتا جا رہا ہے۔ البتہ اس نے
الیکٹریشن کا ڈپلومہ ضرور حاصل کر لیا ہے۔ باؤ جی کو اس کی نوکری کی فکر
لاحق ہے۔ جب بھی کوئی راستہ نظر آتا ہے کوئی نہ کوئی رکاوٹ آڑے آ جاتی ہے۔
باؤ جی کو مقابلے بازی سے ڈر لگتا تھا، اسے ہر دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا
یقین ہوتا تھا اس لیے وہ دوڑتا ہی نہیں تھا۔ یوں سمجھیں کہ اس کے اچھے دن
آنے والے نہیں ، گزرے ہوئے تھے۔ اب دفتر کے قریب ہی فوٹو سٹیٹ مشین لگ گئی
تھی جس سے اسے مزید پریشانی کا سامنا تھا۔ بیٹے کی نوکری کے لئے سپرنٹنڈنٹ
سے بات کی تو اس نے حامی بھر لی اور اِ س کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ بیٹے کو
وقت کا پابند کیا اور ضروری کاغذات ساتھ لانے کا کہہ کر خود اپنے کام پر جا
بیٹھا۔ جب بیٹے کو آنے میں کافی دیر ہوئی تو اس کی بائیں آنکھ نے پانی
چھوڑنا شروع کر دیا کیونکہ ابھی نوکری کے لئے درخواست ٹائپ کرنا تھی اور
دفتر کا وقت ختم ہونے میں پندرہ منٹ باقی تھے۔ جب بیٹا آیا تو اس نے
انتہائی غصے کے عالم میں بیٹے کو ڈانٹا جس پر بیٹے نے خوشی بھرے لہجے میں
جواب دیا:
’’میں نے اپنی تعلیمی اسناد کی نقلیں ٹائپ کرانے کی بجائے فوٹو کاپی کروا
لی ہیں
کہ اس میں ذرا صفائی رہتی ہے۔‘‘(۲۲)
’’گونگی غراہٹ‘‘ میں معاشی اور معاشرتی طبقاتی کشمکش ، حرام کی دولت پر
پلنے والے ناسور وں کی بد اعمالیوں اورچاہنے نہ چاہنے کے باوجود ان کا ساتھ
دینے کیلئے کارندوں کی مجبوریوں کو بیان کرتا ہے۔ ’حاجی خواجہ‘ ہمارے
معاشرے کا وہ ناسور ہے جو ہر قسم کی برائی کا شکار اور ہر فتنے، فساد اور
مسئلے کی جڑ ہے لیکن معاشرے خصوصاََ سیاسی حلقوں میں ’معزز‘ اور اعلیٰ
کردار کا حامل گردانا جاتا ہے۔’حاجی خواجہ‘ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کردار
ہے جس سے کسی بھی قبول صورت عورت کی مجبوری اور بے بسی نہیں دیکھی جاتی۔ اس
کا دل کڑھتا ہے۔ جب وہ عورت کو اندھیرے گھر میں بند دیکھتا ہے ، اس کو وہاں
سے نکالنے کی خاطروہ روپے پیسے کی قطعاََ پرواہ نہیں کرتا۔
’متکلم‘ حاجی خواجہ کی خوشنودی کے لئے اخلاقی ہی نہیں انسانی اعتبار سے بھی
ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکا ہے ۔ تمام حالات سے واقفیت کے باوجود، سب
کچھ دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود ، انجان بنا ہوا ہے۔ اس کی گونگی غراہٹ اس
کے مردہ ضمیر کی علامت ہے۔
’’ کوئٹہ میں جنوری کی ایک برفانی رات تھی۔ میں اپنے حاجی خواجہ کے پیچھے
سُو سُو کرتا جاتا تھا
اور ساتھ ہی ساتھ یہ اطلاع بھی فراہم کر رہا تھا کہ رب ذو الجلال کی عنایت
سے سارے ٹرک
بخیر و عافیت سرحد پار پہنچ چکے ہیں اور حاجی خواجہ بار بار اپنے اوور کوٹ
کے اندر ہاتھ ڈال کر
اپنے سوٹ کی ایک جیب میں موجود اس تقریر کو ٹٹول رہا تھا جو اُسے قومی
معیشت اور سمگلنگ
کا انسداد کے موضوع پر ہونے والے مذاکرے میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے کرنا
تھی۔‘‘ (۲۳)
جدیدمعاشرہ جوں جوں ترقی کرتا جا رہا ہے ، ویسے ہی اخلاقی گراوٹ، اعلیٰ
انسانی اقدار کی بے حرمتی اور پامالی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ ہوس ِ زر نے
انسان کو حرام حلال کی تمیز سے نا آشنا کر دیا ہے۔انسان ضروریات کی سرحد سے
جست لگا کر آسائشات کی وادی میں کھو گیا ہے۔ روپے پیسے کے حصول کی خاطر
جھوٹ، فریب، ہیرا پھیری، رشوت حتیٰ کہ بدکاری بھی معمول کا کام ہے۔ ان
برائیوں نے پورے سماج کو غلاظت کے ایک ڈھیر میں تبدیل کر رکھ دیا ہے۔ جب
برائی نے اچھائی کا پیرہن اوڑھا تو اس لباس میں ملبوس لوگ تو بڑی آسانی سے
اس بدبودار ، متعفن اور غلیظ ڈھیر کا حصہ بن گئے مگر جو اس کا حصہ نہ بن
سکے ان کا اس غلاظت میں سانس لینا محال ہو گیا۔(۲۴)
اس صنعتی دور اور جدید زندگی کا تحفہ زندگی کی لا یعنیت ، رشتوں کی بے
معنویت اور بیزاری ہے جو یکسانیت کی پیداوار ہے۔ جدید افسانہ نگاروں نے اس
بیزاریت اور یکسانیت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔(۲۵)
اپنے افسانہ ’’انتظار میں ڈوبا ہوا گھر‘‘ میں ڈاکٹر انوا ر احمد صاحب نے
اسی معاشرتی یکسانیت اور بیزاریت کو آشکار کیا ہے۔ اس افسانے میں گھرانے کے
تمام افرا د ایک بے نام بے زاری کا شکار اور بے شکل آرزؤوں کے تمنائی
دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی یہ ناتمام آرزوئیں، اب حسرتوں میں تبدیل ہو رہی
ہیں:
’’ دوپہر کے وقت ڈاکیے نے ہمسایوں کا دروازہ کھٹکھٹاکے خط ڈالا تو اس کے دل
سے ہوک
سی اٹھی ، آج بھی اس کے نام کا کوئی لفافہ نہیں آیا تھا۔ کون لکھے گا اسے
خط؟ یہ سو چ کر بہت
سی شکلیں اور آوازیں گڈ مڈ ہو گئیں ، کوئی ایک چہرہ اور کوئی ایک نام ان
میں سے نہ ابھرا۔ میں
ہی لکھ ڈالوں کسی نہ کسی مرن جوگے کو خط۔‘‘ (۲۶)
یاس، یکسانیت اور بیزاری کے اس عمل مسلسل کو ’’کفن سے انکاری‘‘ میں قاضی
شاہد نے چیلنج کر دیا۔معاشرے کے اند ر خود ساختہ اخلاقی و سماجی قدروں اور
دوسروں کی خاطر اپنی خواہشات کو قربان کر دینے کے اس جابرانہ نظریے کے خلا
ف نہ صرف احتجاج کیا بلکہ اپنی جوان بیٹیوں کی شادی اور اکلوتے بیٹے کو
انجنئیرنگ میں داخلہ دلوا کر خود مس فہیم سے شادی کر لی۔ جب اولاد نے باپ
کی اس حرکت پر اعتراض کیا تو قاضی صاحب نے زور دار انداز میں ٹھوس دلیل دے
کر سب لوگوں کا منہ بند کر دیا:
’’ہم لوگو ں نے ایک طویل عرصے سے ایسے مقروض لوگوں کی زندگی گزاری ہے جنھیں
یہ
بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اصل قرض خواہ کون ہے؟ البتہ والدین کی خدمت، بیوی
کی خوشنودی
بچوں کی دلنوازی، ہمسایوں کی خبر گیری اور پُر امن یا ڈرپوک شہری کے طور پر
ہر سرکار سے
سرا سیمگی وہ سود ہے جو ہم خاموشی سے ادا کرتے چلے آ رہے ہیں، سن لو، میں
نے تم لوگوں
کی مرضی کے مطابق بہت جی لیا، اب میں اولاد ، ہمسائے اور احباب کی منشا کے
مطابق
مرنا نہیں چاہتا۔‘‘ (۲۷)
’’محبت کی سیکنڈ ہینڈ کہانی‘‘ در اصل محبت کے زوال کا المیہ ہے۔ اس سے یہ
با ت بھی واضح ہوتی ہے کہ دور جدید نے صرف اخلاقی اور سماجی قدروں کو ہی
زوال سے ہمکنار نہیں کیا بلکہ جذبے بھی بے توقیر کیے اور انھیں پامال کیا۔
حسن اور عشق ازل سے چولی دامن کا ساتھ نبھاتے رہے لیکن اب ایک دوسرے سے
اعتبار اٹھ گیا ہے۔عشق کی روح کو گھائل کرنے والا حسن آج خود گھائل ہے اور
زخموں سے چُور چُور ہے۔اب وہ بے مہر بستی(دنیا) کا مکین ہے ، اسی بستی نے
اپنے تلخ حقائق اس پر آشکار کر دئیے ہیں:
’’جب میں نے اس سے کہا ، میں تمہیں اس نام سے پکارنا چاہتا ہوں جس سے تم
خود
واقف نہیں اور میں تمہارے کانوں میں اس لفظ کا رَس گھولنا چاہتا ہوں جو آج
سے پہلے
ادا نہیں ہوا۔تو میں نے اس کے ہونٹوں پر ایک مضمحل سی مسکراہٹ دیکھی’’سنو!
ہم تم
سادہ ورق نہیں، وقت نے ہم پر کچھ بے معنی تحریریں ثبت کر دی ہیں۔ زندگی نے
ہماری
مرضی سے یا اس کے بغیر ہمیں نام دے دئیے اور کچھ مانوس اجنبی لفظوں میں
میری،
تمہاری عمر بیت گئی، میرے دکھ سکھ میرے ہیں اور تمہارے غم اور خوشی تمہارے
اپنے،
یہی ہم دونوں کی سچائی ہے۔‘‘ ڈوبتے ڈوبتے میں نے اسے کہہ ہی دیا’’ہماری
بنیادی
سچائی محبت ہے‘‘ زہر بھر ے لہجے میں اس نے کہا’’ہم محبت کا فریب تو پیدا کر
سکتے ہیں
محبت نہیں۔‘‘ (۲۸)
ہوس، لالچ منافقت اور فریب سے آلودہ جذبوں نے محبت میں ملاوٹ کر کے اسے غیر
خالص بنا دیا ہے ۔ کچھی ایسی ہی صورت حال ’’ڈاکٹر دل محمد اور دردِ دل‘‘
افسانے میں پیش کی گئی ہے۔
’’دل محمد کسی کا بندھیل نہیں، کسی کا رکھیل نہیں ، اس طرح کے رشتوں میں
وفا اور بے وفائی
کا حساب کہاں سے آ گیا؟ وہ خود بھی تو کسی اور کے ساتھ اعلانیہ رہتی تھی،
جس کو شوہر مانتے
ہوئے وہ جھجکتی تھی۔‘‘ (۲۹)
لیکن افسانے کے آخر میں رجائیت کا عنصر پیش کر کے یہ واضح کیا گیا ہے کہ
محبت کسی نہ کسی شکل میں دنیا میں موجود ضرور ہے ، ابھی یہ جذبہ
نا پید نہیں ہوا۔
’’ اور پھر یہ ہوا کہ انسان کو جس درد کے لئے پیدا کیا گیا ہے ، وہ ماہر
امراض قلب کے
اپنے دل میں پیدا ہو گیا ، اور اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا، یہ درد دل محمد
کو بے بس کرنے
لگا۔‘‘ (۳۰)
ڈاکٹر انوار احمد کی خوبی ہے کہ جب وہ کسی خاص موضوع کو افسانوی آہنگ میں
تبدیل کرتے ہیں تو دیگر سماجی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں ہونے دیتے۔محض چند
الفا ظ میں معاشرے کی حقیقی تصویر کشی کرتے ہیں۔ ’’ڈاکٹر دل محمد اور درد ِ
دل‘‘ میں وڈیروں اور مخدوموں کے مظالم ، غریبوں اور مسکینوں کا استیصال ،
افسر شاہی اور سرمایہ دارانہ نظام پر گہری چوٹ اور غیر ملکی سازشوں کی نقاب
کشائی وغیرہ کے اشارے جا بجا ملتے ہیں۔
’’ یہاں پہلے تو کپڑے کا بہت بڑا بینر دکھائی دیا جس پر لکھا تھا، دردِ دل
کے واسطے پیدا
کیا انساں کو‘ اور یوں کچھ خوش خیالوں نے یہ قیاس کر لیا یہ ڈاکٹر دل محمد
کا تجارتی منشور
ہے، جب کہ فالتوبچوں سے پریشان بعض والدین نے خیال کیا کہ یہاں ایک دینی
مدرسہ بننے والا ہے کیونکہ ایک عرصے سے یتیم خانوں کی جگہ شہرمیں دینی
مدرسے بننے
لگے تھے جن کے لئے اعانت اُن ملکوں سے آتی تھی جو پاکستان میں شیعہ سنی کے
نام پر
ایک لڑائی میں مصروف تھے جسے پڑھے لکھے لوگ ، پراکسی وار‘کہنا پسند کرتے
تھے۔‘‘ (۳۲)
’’بچھوؤں کے ساتھ ایک رات‘‘ میں ڈاکٹر انوار احمد متضاد انسانی رویوں کی
مختلف جہات کا ذکر کرتے ہوئے اصل چہرہ اور سوچ منظر عام پر لاتے ہیں ۔
’’ کمرے میں داخل ہو کر میں نے دیا جلایا تو ایک لمحے کو میں خوف سے لرز
گیا۔
کمرہ بچھوؤں سے بھرا ہوا تھا ۔ بچھو زمین پر تھے ، چارپائیوں کے نیچے تھے
اور ا ن
کے اوپر چڑھ رہے تھے۔ ایک بچھو میرے دائیں پاؤں کے قریب تھا اور دو بائیں
پیر کے پاس، اور پھر میں نے دیکھاایک بچھو دئیے میں پڑ ا تھا ۔ روشنی نے ان
اندھوں
کو بوکھلا سا دیا تھا جس سے حوصلہ پا کر میں نے ایک دیمک زدہ لکڑی سے ا
نھیں مارنا
شروع کیا۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس کس کو ماروں ، پہلے لکڑی
ٹوٹی اور پھر
میرا حوصلہ، جب میرے باپ نے زہریلے لہجے میں پوچھا ’ ’ ان سب بچھوؤں کو تم
مار سکتے ہو؟‘‘ میں روتا ہوں کہ کیا بیٹے سے باپ کو یہی کہنا چاہیے ، وہ
مجھے یہی کہہ
دیتا کہ رات کے ختم ہونے کا انتظار کرو۔‘‘ (۳۳)
اسی طرز پر مبنی ایک اور اقتباس ملاـحظہ ہو:
’’ اکیلے گھر نے اس سے سر گوشی کی تو وہ ایک جھر جھری لے کر اٹھ بیٹھی، منہ
ہاتھ دھویا،
کافی دیر تک کھوئے سے انداز میں کنگھی کرتی رہی پھر اندر کوٹھڑی میں گئی ،
سب سے
نیچے والے ٹرنک میں اڑے ہوئے بسنتی رنگ کا دوپٹہ نکالا، عجیب طرح سے اس نے
اوڑھا، دوپٹے نے اس کے مریض جسم پر برقی شعاعوں کا سا تاثر دکھایا، بے جان
آنکھوں میں چمک سی آئی ، چہر ے کی زردی کم ہونے لگی پھر وہ آہستہ آہستہ
آئینے
کے سامنے آئی ، آنکھوں میں کاجل ڈال کر نا مانوس سے لہجے میں بولی’’ کمینے!
کہتے
تھے ، دو چار پیسے ہاتھ میں آنے دے ، پھر جہاں کہیں بھی ہو گی، ڈھونڈ لوں
گا۔بڑا
آیا ڈھونڈنے والا۔‘‘ (۳۴)
ڈاکٹر انوار احمد صاحب کو انقرہ یونیورسٹی میں چا ر سال اردو چیئر پر کام
کرنے کا موقع ملا اور دو سال تک اوساکا یونیورسٹی جاپان میں بحیثیت اردو
معلم تدریسی فرائض سر انجام دئیے۔ اس چھ سال کے عرصہ میں آپ کو کئی شہروں
کی سیاحت کا موقع ملا مگر اس کے باوجود آپ نے روایت سے انحراف کیا اور سفر
نامہ لکھنے کی بجائے ترکی کے پانچ شہروں پر پانچ افسانے اور جاپان کے دو
شہروں پر دو افسانے لکھے۔ ان افسانوں میں ترکی اور جاپان کی ثقافت ، رسوم و
رواج، تہذیب اور ترک معاشرت کے بعض پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اور انھیں اپنے
افسانوی مجموعہ ’’آخری خط‘‘ میں ’’گوشہ ترکی‘‘ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ چند
اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’ انقرہ میں بلدیہ نے جب سے میٹر و یا زمین دوز ریل گاڑیاں چلانی شروع کی
تھیں،
جو آشتی یا بس ٹرمینل پر چھ منٹ میں ہی پہنچا دیتی تھیں، وہ ایک ویک اینڈ
پر ، اپنے
خوبصورت قصبے بولو میں جانا میرے لیے آسان ہو گیا تھا۔‘‘ (۳۵)
’’ ظالموں کے خوف سے ڈوبا ہوا یہ زمین دوز شہر دنیا کا عجوبہ سمجھا جاتا ہے
، پر میں اس
کا راز جانتا ہوں۔ چٹانوں کے اندر ہی اندر گھر، عبادت گاہ اور راستے بنانے
والوں
نے سب سے آخر میں دشمنوں کو دھوکا دینے کے لئے جو بھول بھلیاں بنائیں ، وہی
ان کی قبریں بن گئیں کہ وہ باہر نکلنے کا راستہ بھو ل گئے تھے۔‘‘ (۳۶)
یہ افسانہ نہ صرف ترک معاشرت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ڈاکٹر انوار احمد صاحب
نے بڑی ہنر مندی سے ترک پاکستان تعلقات ، آپس میں باہمی روابط اور اخوت کی
جھلک بھی پیش کی ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار طالب، متکلم کو بتاتا ہے:
’’تب اس نے بتایا کہ قونیہ میں آپ کے قومی شاعر اقبال کے نام سے منسوب ایک
پارک ہے بلکہ اقبال کی ایک علامتی یا تمثیلی قبر بھی بیرونی احاطے میں ہے
اورمٹھائی
کی ایک بڑی دکان بھی اسی نام سے مشہور ہے، یہی نہیں ترکی کے تاریخی شہر ’
بُرسہ‘
کو ملتان کا جڑواں شہر قرار دیا گیا ہے اور ترکی کے اولین قومی بنک اش
بانکا‘ (لیبر
بنک) کے مرکزی دفتر کے باہر لگی تختی پر لکھ دیا گیا ہے کہ یہ ہندوستانی
مسلمانوں
کے عطیات سے قائم ہوا ہے اور پھر بیئر کے چوتھے ٹن پر عدنان نے طالب علم کو
آنکھ مارکر کہا ’’ہم نے انقرہ میں بھارت کے ساتھ جو کچھ کیا ہے ، وہ تم
پاکستانی خود
بھی نہیں کر سکتے، ہم نے بھارت کے سفارت خانے کو جس سڑک پر عمارت دی
ہے ، اس کا نام جناح جادیسی ہے ۔‘‘ (۳۷)
ڈاکٹر انوار احمد کہانی بنتے وقت منظر کشی ایسی کرتے ہیں کہ تمام مناظر
آنکھوں کے سامنے شفا ف دکھائی دیتے ہیں اور اپنے قاری کو بھٹکنے نہیں دیتے۔
حقائق پر گرفت رکھتے ہیں اور بدیسیوں کا ذکر بھی کریں تو ان کی عبادت گاہوں
اور مقدس مقامات کی تاریخ کا مطالعہ ضروری سمجھتے ہیں۔ ترک معاشرت کے بارے
بتاتے ہیں کہ مولانا روم کے مرشد شمس تبریز کا مزار بھی قونیہ میں ہے اور
جس سڑک پر یہ مزار واقع ہے ، وہ مولانا روم کے بیٹے علاؤالدین کے نام سے
موسوم ہے جو شمس تبریز کے ’’قاتلوں‘‘ میں سے تھا۔ وہ مولانا روم اور شمس
تبریز کے باہمی تعلقات اور محبت کی حقیقت کو نہ سمجھ سکا اور اپنے باپ کی
رسوائی کے خوف سے یہ قد م اٹھایا۔ مولانا روم کے مزار پر جو اشیا فروخت ہو
رہی تھیں ، ان کی تفصیل پڑھ کر پاکستان کے مزاروں اور درگاہوں کا نقشہ
آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے:
’’ کتابیں، تصویریں ، درویشوں کے سفید مجسمے، پیتل کی کنندہ اور پلاسٹک کی
آرائشی پلیٹیں
میولانا (مولانا) ہی کے نام پر تعویز یا نقش، جیبی قرآن، پنج سورے۔ سیاحوں
کی من بھاتی
معلومات بیچتے، دنیا بھر کے سیاحوں اور زائرین کی توجہ کا مرکز بنانے والی
درگاہ کی وراثت
کاایک مذہبی احساس لیے اور ساتھ ہی ساتھ اتا ترک کے نظریات کی محافظ سیکولر
فوج اور
انتظامیہ کے لئے اپنے حقیقی جذبات چھپائے ہوئے اہل قونیہ۔‘‘ (۳۸)
بطور افسانہ نگار ، ڈاکٹر انوار احمد نے زمینی حقائق سے کبھی نظریں نہیں
چرائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے ہیئت اور اسلوب میں جدید ہونے کے
باوجود موضوع کے اعتبار سے حقیقت پسند ہیں اور ابلاغ کا حق ادا کرتے ہیں
اور اسی خوبی نے اُن کے افسانوں کو سماجی حقیقت نگاری کا عکاس قرار دیا ہے۔
بقول اے۔ بی اشرف:
’’انوار احمد کے یہاں اجنبیت کے منطقے ، تنہائی کا کرب ، ٹوٹنے کا نوحہ اور
لاتعلقی کا زہر
نہیں۔ وہ جانی پہچانی دنیا کا مسافر ہے۔ اس کو ایک ایک شے کی پہچان ہے۔ اس
کے
پاس دیدہ ء بینا ہے وہ کور چشم نہیں کہ زمین پر اس کے قدم نہ ٹکیں۔ اس کی
آنکھیں تو چیزوں
کی تہہ تک پہنچتی ہیں۔ ان کی حقیقت کو پا لیتی ہیں۔ وہ اشیا اور واقعات کو
علت اور معلول
کے رشتے سے دیکھتا ہے۔ انوار احمد تنہائی میں نہیں اجتماعی نحوستوں اور
برکتوں کے ساتھ
رہتا ہے۔ وہ سنتا بھی ہے ، جانتا بھی اور بولتا بھی۔ اس لیے کہ نہ وہ بہرا
ہے نہ گونگا۔ یہاں
تک کہ اس کے امیجز اور علامتیں بھی بولتی ہیں۔ تنہائی اُسے پسند نہیں ، وہ
اجتماعی زندگی
گزارتا ہے ۔ ا س میں مقاومت کا حوصلہ ہے، بلکہ اس میں ایک حیرت انگیز
صلاحیت
بھی ہے کہ وہ چیزوں کو Magnifyکر سکتا ہے۔ وہ چیزوں کے ا پنے اصل روپ اور
جسامت سے بڑھا ہوا دیکھ اور دکھا سکتا ہے۔ Magnify اور Enlarge کرنے کا
رویہ اس کے فن کی اساس ہے۔ اس کی آنکھ میں محدب شیشہ ہے جس سے وہ چیزوں
کو بڑا دیکھ کر دوسروں کو بھی محسوس کراتا اور متاثر کرتا ہے۔ یوں یہ رویہ
ا س کی روزمرہ
زندگی میں بھی شامل ہے اور اس کے کم و بیش تمام افسانوں میں بھی جاری و
ساری ہے۔‘‘ (۳۹)
ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے ترکی کی تما م اہم جگہوں اور غیر معمولی اشیاء کا
تعارف ایک ماہر سفر نامہ نگار کی طرح کرایا ہے جس سے ترک معاشرت اور رسم و
رواج صاف جھلکتے دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے کہ ترکی میں فون کا محکمہ پرائیویٹ
سیکٹر میں ہونے کی وجہ سے کارڈ کی قیمت اکثر اور جلدی جلدی بڑھا دی جاتی
ہے۔وہاں کے نوجوان بھی توہم پرستی کا شکار ہیں اور آئے روز یہ رجحان بڑھتا
جا رہا ہے۔وہ ستاروں کا حال بتانے والی جنتریوں اور کافی کا خالی کپ اٹھاکر
مستقبل کے جیون ساتھی کی محبت و استقامت کا حال جاننے میں دل چسپی لیتے
ہیں۔ علاوہ ازیں گھروں اور بازاروں میں چاندی کی آنکھ کو نیلے شیشے یا پتھر
میں جڑوا کر آویزاں کیا جاتا ہے تا کہ نظر بد سے بچا جا سکے۔ ترُک لڑکیاں
شادی کے لئے مالی طور پر مستحکم مرد کو پسند کرتی ہیں اور یہ رواج بھی پایا
جاتا ہے کہ لڑکیاں شادی سے پہلے ہی اپنے گھر کی سجاوٹ پہ اٹھنے والے
اخراجات میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ (۴۰)
ترک نوجوانوں کا مرغوب پہناوا جینز ہے اور وہ میوزک اور ڈانس کے شیدائی
ہیں۔بھیک مانگنے کی وہاں قانونی طور پر اجازت نہیں مگر گلیوں، بازاروں اور
مسجدوں کے آس پاس مانگنے والے موجود ہوتے ہیں۔ خاص طور پر رومی کے مزارکے
ارد گرد نو عمر لڑکے بقول ڈاکٹر انوار احمد
اس سیکولر مملکت میں لڑکیاں سر پر طربان لپیٹ کر کلاس میں نہیں بیٹھ
سکتیں۔وہاں مخلوط نظام تعلیم پایا جاتا ہے، لڑکیوں کیلئے الگ اسکول نہیں
ہیں۔ ترک اپنے تجارتی معاملات میں صفائی پسند، نفیس، خوش پوش اور خوش حال
ہونے کے ساتھ ساتھ راست باز اور ایماندار بھی ہیں۔ (۴۱)
ڈاکٹر انوار احمد نے اپنے اِن افسانوں میں ہمیں صرف ترک رسم و رواج اوررہن
سہن کے طریقوں سے ہی روشناس نہیں کرایا بلکہ روز مرہ ترکی الفاظ اور محارات
سے بھی آگاہی دی ہے۔ مثلاََ ترکی میں استقبالی کلمات ’’حوش گیلدینیز‘‘ اور
الوداعی کلمات ’’حوش چکل گلے گلے‘‘ ہیں۔ (۴۲)
کسی علاقے کے مکینوں کی نفاست اور انداز و اطوار کا تعلق ان کی خوراک اور
مشروبات سے ضرور ہوتا ہے۔ ’امیت کوئے کی کہانی ‘ میں زبیدے ، نیلگوں اوراوز
ترک کے لئے جو پر تکلف کھانے کا اہتمام کرتی ہے ، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
’’شوربہ، کباب تندر اور سکندر، دولما اور پتلی جان یعنی بینگن کی چار پانچ
ڈشیں، سلاد
جو س اور کیک۔‘‘ (۴۳)
ڈاکٹر انوار احمد وزارت تعلیم پاکستان کی طرف سے ڈیپو ٹیشن پرچار سال کیلئے
انقرہ یونیورسٹی بھیجے گئے۔ریذیڈنس پرمٹ لینے کے لیے آپ کا واسطہ وہاں پر
پاکستانی سفارت خانے سے پڑا اور آپ کو بہت زیادہ تلخ تجربات کا سامنا کرنا
پڑا۔جس کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب ’’ یادگار زمانہ ہیں جو لوگ‘‘ میں آسمان
بیلن کے خاکے میں کیا ہے۔ (۴۴)
افسانہ’’نمروت کی چوٹی‘‘ میں ترکی میں پاکستانی سفارت خانے کے افسروں بلکہ
تمام عملے کی نفسیات، بد اعمالیوں ، بد عنوانیوں ، عیاشیوں اور اپنے فرائض
منصبی سے غفلت کو موضوع بنا کر انھی تلخ تجربات کا احاطہ کیا ہے۔
ڈاکٹر انوار احمد صاحب کے افسانوی مجموعے ’’ آخری خط‘‘ میں شامل ’’ ناں
گندے بچے ناں! رونا نہیں‘‘ اور ’’آخری خط‘‘ یہ دو افسانے ’’گوشہ جاپان‘‘ کے
حوالے سے ہیں جن میں جاپانی طرز معاشرت اور تہذیب و ثقافت کی جھلکیاں
دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاََ:
’’ اصل میں کوئی نہ کوئی پالتو جانور ، خاص طور پر کتا جا پانی کنبے کا حصہ
سمجھا جاتا ہے، صبح
شام اسے سیر پر لے جاتے ہیں، اس موقع پر وہ کہیں فراغت کرنا پسند کرے تو
مالک یا
مالکن فوراََ ربڑ کے دستانے سے غلاظت اٹھا کر ایک شاپر میں ڈال کر کوڑے کے
ڈرم
میں ڈالتے ہیں ، اپنے کتے پر خاص کولون چھڑکتے ہیں۔ ان کی کئی کہانیوں اور
ناولوں
میں کتوں کو ہی مرکزی کردار بنایا گیا ہے۔ جیسے ناول ’مایا‘‘ میں جنگ عظیم
کا پس منظر ہے،
مگر پوری کہانی ، وفادار کتے ’مایا‘ کے گرد گھومتی ہے، جسے راشن کی جکڑ
بندی میں آیا کنبہ
اپنے حصے کی خوراک کھلا دیتا ہے، پر سرکار تمام کتوں کو مار کر راشن بچانا
چاہتی ہے۔ اسی
طرح ہاچیکو نامی کتے کا مجسمہ تو ٹوکیو کے شبویا اسٹیشن کے سامنے ہے۔ اس پر
جاپانی
زبان میں ایک خوبصورت فلم بھی ہے۔‘‘ (۴۵)
جاپانی طرز معاشرت کو مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر انوار
احمد ’آرومی‘ کی زبانی بتاتے ہیں کہ جاپانی زبان میں کتوں پر بہت سے محاورے
بھی ہیں ۔ مثلاََ ’’کین اینوناکا‘‘ یعنی کتے اور بندر کی دوستی، جو ناممکن
ہے‘‘۔ یہ محاورہ بے جوڑ دوستی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح ’’
اینو موارو کیبابونی اتارو‘‘کا مطلب ہے کہ کتا غریب چلنے پھرنے سے مارا
جاتا ہے یعنی ادھر اُدھر پھرنے سے اُسے بری قسمت ملتی ہے۔(۴۶)
جاپان میں رسم ہے کہ مرنے کے بعد متوفی کے اہل خانہ بڑے پجاری کو پیسے دے
کر مرنے والے کے لئے ایک مقدس نام حاصل کرتے ہیں اور اس نام کی تختی مندر
کی چھت میں لگوائی جاتی ہے تا کہ مرنے والے کو دوسری دنیا میں تکلیف نہ ہو۔
جاپان میں ہر سال بینا ماتسوری(بچوں یا چوزوں کا میلہ) نامی میلہ لگتا ہے
جس میں والدین اپنی بیٹیوں کی اچھی شادی کے لئے گڑیائیں لاتے ہیں اور پھر
میلے کے دن سے پہلے ہی وہ گڑیائیں گھر سے رخصت کر دی جاتی ہیں تا کہ ان کی
بیٹیوں کی شادی میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ وہاں کی حکومت نے بوڑھے اور
بیمار لوگوں کو بہت سی سہولتوں سے نوازا ہوا ہے مگر ان سہولتوں کے حصول کا
طریقہ کار بہت پیچیدہ بنا دیا گیا ہے جو کہ عام آدمی کے لئے بہت مشکل ہے۔
جیسے کہ اگر کوئی عزیز اپنے مریض کے لئے نرس یا کئیر ٹیکر کی سہولت لینا
چاہے تو اس کے اخراجات اسے خود ادا کرنا ہوں گے۔ حکومت نے بوڑ ھے لوگوں کے
لئے ورجن روم بنائے ہیں ، بیماروں کے لئے سوشل سیکیورٹی فنڈ سے کچھ پیسے
ماہانہ دئیے جاتے ہیں مگر اس کے عوض انھیں کوئی ایسا کام کرنا ہو تا ہے جسے
وہ با ٓسانی سر انجام دے سکتے ہوں۔مثلاََ ناؤمی کی ماں کو اپنے گھر کے
سامنے فٹ پاتھ اور پارک سے خشک پتے سمیٹنا پڑتے تھے ۔ڈاکٹر انوار احمد صاحب
نے جاپان کے نہ صرف سماجی معاملات کو غور سے پرکھا بلکہ معاشی پہلو بھی
اجاگر کیے ہیں۔ جاپان میں سرمایہ دارانہ نظام کی خامیوں کی وجہ سے مالی
بحران پیدا ہو رہا ہے جس سے صرف مہنگائی ہی نہیں بڑھ رہی بلکہ حکومت کی طرف
سے دی جانے والی سہولیات پر ٹیکس بھی بڑھا دیا گیا ہے۔لوگوں کو ضروریا ت
زندگی پوری کرنے کے لئے فل ٹائم کے علاوہ پارٹ ٹائم کام بھی کرنا پڑتا ہے۔
اس سے گھریلو اور ذاتی زندگی متاثر ہی نہیں زندگی گزارنا مشکل ہو رہا ہے
بلکہ انھی وجوہات کی بنا پر جاپان میں خود کشی کا رجحان پروان چڑھ رہا
ہے۔(۴۷)
ڈاکٹر انور احمد ایک سچے محب وطن ہیں۔ان کے افسانوں میں بات چاہے جاپان کی
ہو یا ترک معاشرت کی ، آپ وطن عزیز کی معاشی بد حالی ، سیاسی بحران،
تعلیمی، سماجی اور اخلاقی پستی ، مذہبی شدت پسندی اور ان سب سے پیدا شدہ
مسائل کو بھی منظر عام پر لاتے ہیں، ان مسائل سے وہ ملول ہی نہیں کڑھتے بھی
ہیں۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’پھر جاوید نے اسے بتایا کہ وہ اس بد قسمت خطے سے آیا ہے جہاں حکمران امیر
اور عوام
غریب رہتے ہیں ، البتہ جہالت، غریبی اور بیماری کا علاج نیو کلیئر توانائی
سے کرتے ہیں۔
بھوکوں کے لئے پھانسی کے تختوں پر گھاس اگانے کی کوشش کرتے ہیں ، ملت وکیل
یعنی
ارکان پارلیمنٹ جعلی ویزوں کا کاروبار کرتے ہیں ، ماں باپ جوان ہوتی ہوئی
اولاد کوکبھی
دعا اور کبھی بد دعا دیتے ہیں ، نوجوان خوف زدہ ہو کر محبت کرتے ہیں تو اس
میں نفرت اور
منافقت خود بخود شامل ہو جاتی ہے اور جہاں کے نوجوانوں کو یقین آ گیا ہے کہ
ان کا رزق،
رشتہ اور رسمِ آخر اَن دیکھی زمینوں سے وابستہ ہے۔‘‘ (۴۸)
شمس تبریز کے مزار کے احاطے میں نوافل پڑھتے ہوئے طالب علم اپنے گاؤں کے
مسجد مکتب کے حافظ شبیر کو یاد کرتا ہے۔ آئندہ چند سطور پاکستان میں مذہبی
شدت پسندی اور فرقہ واریت پر ڈاکٹر انوار احمد کے مجروح جذبا ت کی عکاسی
کرتی ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’ اس وقت تک کوئی سپاہ محمد نہ تھی، نہ کوئی سپاہِ صحابہ ، نہ تبلیغ کے
رجسٹر تھے اور نہ بیرون ملک
اشاعت دین کے نام پر ڈالروں کی ریل پیل تھی، نعت گو تھے نعت خواں نہ تھے،
پیشہ ور
دعا گو نہ تھے اور نہ بستیوں کی بستیاں اجاڑنے والے جہادی۔‘‘ (۴۹)
مذہب کی آڑ میں عورت کا استیصال ، طلاق اور حلالے کے حوالے سے دلچسپ انداز
میں پاکستانی معاشرت کی عکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میرے شہر میں ایک محلہ ہے ، جہاں ایک مذہبی مدرسے کے درواز ے پر سوہن
حلوے
کی دکان بھی ہے ، ایک بورڈ پر لکھا ہوا ہے کہ یہاں مسلمانوں کے لئے حلالے
اور سوہن
حلوے کا بندو بست کیا جاتا ہے۔‘‘ (۵۰)
ڈاکٹر انوار احمد صاحب کبھی کبھار نپے تلے الفاظ میں پورے معاشرے کی عکاسی
چند الفاظ میں کرتے ہیں۔ ان کا یہ سرسری تبصرہ بہت وسیع اور بلیغ مفہوم
رکھتا ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد ذات و کائنات کے داخلی و خارجی ارتقاء پر ایک
فلسفی کی نگاہ بھی رکھتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’پھر میں نے ذرا اُداس ہو کر کہا، ’’ شیاما ، تم شاید جانتی ہو کہ ہمارے
دیش میں کافی غریبی
یعنی پاورٹی ہے ، بہت سے بچوں کو کھیلنے کو خواب میں بھی کھلونے نہیں ملتے،
وہ پھر بڑے
ہو کر اپنی یا دوسروں کی داڑھی سے کھیلتے ہیں۔‘‘ (۵۱)
ایک اور عبارت ملاحظہ ہو۔
’’ پاکستان ٹیلی ویژن کے سٹوڈیو میں دانشوروں کا جمگٹھا ہے کہ انہیں ایک
مذاکرے
کے ذریعے بیروز گاری کا مسئلہ حل کرنا ہے۔ لکڑی کی کتابوں کی کمی کے باعث
کیمرے
کی آنکھ ابھی نہیں جاگی، پروفیسر علیمی نے کومپئیر ڈاکٹر رازی سے کہا ’ ’
کوئی میری بات
مانے ، تو میرے نزدیک بے روز گاری کا ایک ہی حل ہے کہ ملک بھر کے اسکول ،
کالج،
یونیورسٹیاں سچ مچ غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دی جائیں۔‘‘
ڈاکٹر انصار ی نے ایک جمائی لے کر کہا۔۔۔۔۔
’’ اگر اس دوران ہم اساتذہ کو تنخواہیں ملتی رہیں تو تجویز بری نہیں‘‘۔۔۔۔
ڈاکٹر رازی
اپنے بش شرٹ سے صاف کرتے ہوئے بولے ’’ خواتین و حضرات میری نظر میں تو تمام
قومی مسائل کا صرف ایک ہی حل ہے کہ ملک کو کوئی بڑی طاقت ٹھیکے پر لے لے
‘‘۔۔۔
قہقہہ طویل ہوتا اگر اچانک پروگرام کی ریکارڈنگ شروع ہونے کا اشارہ نہ ہو
جاتا ۔۔۔
ڈاکٹر رازی سب سے پہلے بولے’’ ناظرین! آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے ایک
طویل جدو جہد کے بعد، آگ اور خون کا دریا عبور کرنے کے بعد یہ ملک حاصل کیا
تھا اور
یہ ملک۔۔۔۔۔‘‘ (۵۲)
ڈاکٹر انوار احمد صاحب کسی بھی تکنیک اور پس منظر میں افسانہ لکھ رہے ہوں ،
ان کے بنیادی موضوعات پاکستانی معاشرت اور سیاست سے متعلق ہی ہوتے ہیں۔ ان
کی فکر کا تانا بانا ملکی صورت حال کی رنگا رنگی سے ہی تیار ہوتاہے۔ وہ
بحیثیت افسانہ نگار کہانی کا مواد اپنے معاشرے سے ہی لیتے ہیں ، یوں ان کے
افسانے ان کے عہد کی سیاسی ، معاشی ، معاشرتی، مذہبی ، اخلاقی اور سماجی
صورتحال کی دستاویز بن جاتے ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ رشید امجد، ڈاکٹر، ’’پاکستانی ادب کے نمایاں رجحانات‘‘،
مشمولہ’’پاکستان میں اُردو ادب کے پچاس سال‘‘، مرتبہ ڈاکٹر نوازش علی،
گندھارا بکس، ر اولپنڈی ، ۲۰۰۵ء، ص۔ ۲۲
۲۔ انوا ر احمد، ڈاکٹر، ’’ ماؤں کے عالمی دن پر انوار احمد کی تحریر‘‘ ، ’’
ٹاپ سٹوری‘‘ آن لائن اخبار، ۲۳ مئی ۲۰۰۸ء
۳۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ’’ حضرت جی۔۔۔ بنام حسین بخش‘‘ ، (خاکہ) مشمولہ، ’’
یاد گار زمانہ ہیں جو لوگ‘‘،مثال پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۰۸ء، ص ۔ ۲۰
۴۔ ڈاکٹر انوار احمد سے گفتگو، قاضی عابد ، شعیب ابراہیم، مشمولہ ’’ سطور‘‘
شمارہ ۳، بیکن بکس، ملتان، ۲۰۰۱ء، ص۔ ۱۳۹
۵۔ انوار احمد ، ڈاکٹر، ’’ ظفر اقبال فاروقی۔۔۔ ایک رند پارسا‘‘ ، (خاکہ)
مشمولہ، ’’ یادگار زمانہ ہیں جو لوگ‘‘، مثال پبلشرز، فیصل ٓآباد ، ۲۰۰۸ء،
ص۔ ۲۰۷
۶۔ا نوار احمد ، ڈاکٹر، ’’ ڈاکٹر سلیم اختر۔۔۔ایک ملتانی شاگرد کی یاد داشت
میں‘‘ ، (خاکہ) مشمولہ، ’’ یادگار زمانہ ہیں جو لوگ‘‘، مثال پبلشرز، فیصل
ٓآباد ، ۲۰۰۸ء، ص۔ ۱۵۵
۷۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ’’ دو چار باتیں اپنوں سے‘‘ ، (دیباچہ)، ’’ آخری
خط‘‘، مثال پبلشرز، فیصل آباد ، ۲۰۱۰ء، ص۔۹، ۱۰
۸۔ شوکت نعیم قادری، ’’ انوار احمد ۔۔۔روشن آنکھوں والا کہانی کار‘‘،
مشمولہ ’’سطور‘‘ ، شمارہ ۳، بیکن بکس ، ملتان، ۲۰۰۱ء ، ص۔۶۲
۹۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ’’ دو چار باتیں اپنوں سے‘‘ ، (دیباچہ)، ’’ آخری
خط‘‘، مثال پبلشرز، فیصل آباد ، ۲۰۱۰ء، ص۔۱۰
۱۰۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ’’ اُردو افسانہ۔۔۔۔تحقیق و تنقید‘‘ ، بیکن بکس،
ملتان، ۱۹۸۸ء، ص۔ ۳۱
۱۱۔ عباد ت بریلوی، ڈاکٹر، ’’ ادب اور ادبی قدریں‘‘ ، ادارہ ادب و تنقید،
لاہور، ۱۹۸۳ء، ص۔ ۹۱، ۹۲
۱۲۔ انوار احمد، ڈاکٹر، بیچ والا آدمی، ’’آخری خط‘‘، مثال پبلشرز، فیصل
آباد، ۲۰۱۰ء، ص ۶۲
۱۳۔ انوار احمد ، ڈاکٹر، کمال بستی، جبڑا چوک، ’’آخری خط‘‘، مثال پبلشرز،
فیصل آباد، ۲۰۱۰ء، ص ۴۷، ۴۸
۱۴۔ انوار احمد ، ڈاکٹر، جب راج کرے گی خلق خدا، ’’ آخری خط‘‘ مثال پبلشرز،
فیصل آباد، ۲۰۱۰ء، ص ۱۱۵
۱۵:انوار احمد ، ڈاکٹر، ایک ہی کہانی، ’’آخری خط‘‘ مثال پبلشرز، فیصل آباد،
۲۰۱۰ء، ص۳۱
۱۶۔ اصغر ندیم سید، ’’ کہانی کار اور کہانی کی کہانی‘‘، مشمولہ، ’’ پہلے سے
سنی ہوئی کہانی‘‘، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۰۳ء، ص۔ ۲۰
۱۷: انوار احمد، ڈاکٹر، آسٹروٹرف، ’’آخری خط‘‘ مثال پبلشرز، فیصل آباد،
۲۰۱۰ء، ص۱۹
۱۸۔ سلیم آغا قزلباش، ڈاکٹر، ’’ اردو افسانے میں عصریت اور روح عصر‘‘ ، ’’
مشمولہ اوراق‘‘، سالنامہ جنوری، فروری، ۱۹۹۹ء، شمارہ ۱،۲، جلد۳۵، ص۔ ۳۴۰،
۳۴۳
۱۹: انوار احمد ، ڈاکٹر، نوں جی، ’’آخر ی خط‘‘ مثال پبلشرز، فیصل آباد،
۲۰۱۰ء، ص ۱۷، ۱۸
۲۰۔ اے ۔ بی اشرف، ڈاکٹر، ’’ کچھ نئے اور پرانے افسانہ نگار‘‘، سنگِ میل
پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۸۷ء، ص۔ ۱۴۵
۲۱۔ صبا اکرام، ڈاکٹر، ’’جدید افسانے کے چند گوشے‘‘، مشمولہ، ’’اوراق‘‘ ،
خاص نمبرجولائی، اگست، ۱۹۸۴ء، ص۔ ۲۱۷، ۲۱۸
۲۲۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ’’ایک بے ضرر کہانی‘‘، مشمولہ ’’ پہلے سے سنی ہوئی
کہانی‘‘، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۳ء، ص ۳۶
۲۳: انوار احمد، ڈاکٹر، گونگی غراہٹ، ’’ پہلے سے سنی ہوئی کہانی‘‘ ، بیکن
بکس ، ملتان، لاہور، ۲۰۰۳ء، ص ۴۵
۲۴۔ صبا اکرام، ڈاکٹر، ’’جدید افسانے کے چند گوشے‘‘، مشمولہ، ’’اوراق‘‘ ،
خاص نمبرنومبر، دسمبر، ۱۹۸۴ء، جلد نمبر ۱۹، شمارہ نمبر ۱۱،۱۲، ص۔ ۲۸
۲۵۔ صبا اکرام، ڈاکٹر، ’’جدید افسانے کے چند گوشے‘‘، مشمولہ، ’’اوراق‘‘ ،
خاص نمبرنومبر، دسمبر، ۱۹۸۴ء، جلد نمبر ۱۹، شمارہ نمبر ۱۱،۱۲، ص۔ ۲۵
۲۶۔ انوار احمد ، ڈاکٹر، انتظار میں ڈوبا ہوا گھر، ’’آخری خط‘‘ ،مثال
پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء،ص ۸۴،۸۵
۲۷ ۔ انوار احمد ، ڈاکٹر، کفن سے انکاری، ’’ آخری خط‘‘ مثال پبلشرز، فیصل
آباد، ۲۰۱۰ء، ص ۱۰۳
۲۸۔انوا راحمد ، ڈاکٹر، محبت کی سیکنڈ ہینڈ کہانی، ’’پہلے سے سنی ہوئی
کہانی‘‘، بیکن بکس ، ملتان، لاہور، ۲۰۰۳ء ص۶۱
۲۹۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ڈاکٹر دل محمد اور دردِ دل، ’’ آخری خط‘‘،مثال
پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء ، ص ۱۱۰
۳۰۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ڈاکٹر دل محمد اور دردِ دل، ’’ آخری خط‘‘،مثال
پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء ، ص ۱۱۰
۳۱۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ڈاکٹر دل محمد اور دردِ دل، ’’ آخری خط‘‘،مثال
پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء ، ص ۱۱۰
۳۲۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ڈاکٹر دل محمد اور دردِ دل، ’’ آخری خط‘‘ ، مثال
پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء ، ص۱۰۴
۳۳۔انوار احمد ، ڈاکٹر، بچھوؤں کے ساتھ ایک رات، ’’ ایک ہی کہانی‘‘ ،سنگ
میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۶ء ص۵۰
۳۴۔انوار احمد، ڈاکٹر، انتظا ر میں ڈوبا ہوا گھر، ’’ ایک ہی کہانی‘‘ ،سنگ
میل پبلی کیشنز، لاہور، ص۔۶۵
۳۵۔انوار احمد، ڈاکٹر، نمروت کی چوٹی، ’’ آخری خط‘‘ ،مثال پبلشرز، فیصل
آباد، ۲۰۱۰ء ، ص ۱۲۲
۳۶۔انوار احمد، ڈاکٹر، نمروت کی چوٹی، ’’ آخری خط‘‘ ، مثال پبلشرز، فیصل
آباد، ۲۰۱۰ء ،ص۱۲۵
۳۷۔انوار احمد، ڈاکٹر، نمروت کی چوٹی، ’’ آخری خط‘‘ ، مثال پبلشرز، فیصل
آباد، ۲۰۱۰ء ،ص۱۲۵
۳۸۔انوار احمد، ڈاکٹر، تبریزی لب اور حکایت نے، ’ ’ آخری خط‘‘ ،مثال
پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء ، ص ۱۳۹، ۱۴۰
۳۹۔ اے ۔ بی اشرف، ڈاکٹر، ’’ کچھ نئے اور پرانے افسانہ نگار‘‘، سنگِ میل
پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۸۷ء، ص۔ ۱۴۶
۴۰۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ’’ امیت کوئے کی کہانی‘‘، مشمولہ ، ’’ آخری خط‘‘،
مثال پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء،ص۔۱۲۷، ۱۳۰
۴۱۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ’’ تبریزی لب اور حکایت نے‘‘ مشمولہ، ’’ آخری خط‘‘،
مثال پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء، ص۔ ۴۲۱۴۲۔ ایضاََ، ص۔۱۴۴، ۱۴۵
۴۲۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ’’ آسمان بیلن کے لئے زمین زاد کے چند محبت بھر ے
لفظ‘‘ ، (خاکہ) مشمولہ، ’’ یاد گارزمانہ ہیں جو لوگ‘‘، مثال پبلشرز، فیصل
آباد، ۲۰۰۸ء، ص ۔۱۲۳، ۱۲۴، ۱۲۵۔
۴۳۔ انوار احمد، ڈاکٹر، امیت کوئے کی کہانی، ’’آخری خط‘‘ ،مثال پبلشرز،
فیصل آباد، ۲۰۱۰ء ، ص ۱۲۹
۴۴۔ انوار احمد، ڈاکٹر، امیت کوئے کی کہانی ، ’’آخری خط‘‘ ،مثال پبلشرز،
فیصل آباد، ۲۰۱۰ء ، ص ۱۲۹
۴۵۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ناں گندے بچے ناں! رونا نہیں، ’’ آخر ی خط‘‘ ، مثال
پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء ، ص ۱۵۸
۴۶۔انوار احمد، ڈاکٹر، ’’ نا ں گندے بچے ناں ! رونا نہیں‘‘ ، (خاکہ)
مشمولہ، ’’ یاد گار زمانہ ہیں جو لوگ‘‘،مثال پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء، ص
۔۱۵۹
۴۷۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ’’آخری خط‘‘ ، مشمولہ ، ’’ آخری خط‘‘ ، مثال
پبلشرز، فصل آباد ، ۲۰۱۰ء، ص۔۱۶۷، ۱۷۱
۴۸۔ انوار احمد، ڈاکٹر، امیت کوئے کی کہانی ، ’’ آخری خط‘‘ ، مثال پبلشرز،
فیصل آباد، ۲۰۱۰ء ، ص ۱۳۲
۴۹۔ انوار احمد، ڈاکٹر، تبریزی لب اور حکایتِ نے، ’’ آخری خط‘‘ ،مثال
پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء ، ص ۱۴۴
۵۰۔ انوار احمد، ڈاکٹر، محبوب خلائق اور مردانہ ہاتھ، ’’ آخری خط‘‘ ، مثال
پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء ،ص ۱۵۴
ٍ۵۱۔ انوار احمد، ڈاکٹر، ناں گندے بچے ناں! رونا نہیں، ’’ آخری خط‘‘ ، مثال
پبلشرز، فیصل آباد، ۲۰۱۰ء ،ص ۱۶۰
۵۲۔ انوار احمد، ڈاکٹر ، ’ درداں کی ماری دلڑی علیل اے، ’’ ایک ہی کہانی‘‘
، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۶ ء، ص۴۱
|