میں کوئی باضابطہ دفاعی تبصرہ نگار نہیں
ہوں اور نا ہی کوئی تجزیہ نگار، لیکن بحیثیت ایک عام پاکستانی جو سوالات
میرے ذہن میں ہیں۔ تو میں نے چاہا کہ اسکو آپکے ساتھ بھی شئیر کرلوں۔
اسامہ بن لادن کو تقریباً سب لوگ جانتے ہیں۔ اور اسکی موت کے خبر سے بھی اب
تک اکثر لوگ واقف ہونگے، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ حقیقت ہے یا رچا
رچایا ڈرامہ جیسے کہ فلم تیرے بن لادن میں کچھ عرصہ قبل دکھایا گیا تھا۔
کیونکہ اول تو ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اسامہ زندہ بھی تھا یا عرصہ قبل
ہی وفات پاچکا ہے۔نیز القاعدہ کے کئی کارکن ان پاکستانی شہروں سے پکڑے گئے
ہیں، تو کیا اسامہ پاگل ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں سے سبق نہ سیکھے۔ اس طرح تو
احمق انسان ہی کر سکتا ہے کہ اپنے دشمن کے درمیان رہ کر زندگی گزارے۔
پہلی بات تو یہ کہ خبر میں ہے کہ جس رہائش گاہ میں اسامہ رہتے تھے، تو وہ
۲۰۰۵ میں بنی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ اس رہائش گاہ میں ظاہر ہے اسامہ نے عرصہ گزارا ہوگا۔تو
جناب یہ ارد گرد کے علاقے میں رہنے والے لوگ اتنے بے خبر تھے کہ اسامہ انکے
درمیان رہ رہا تھا لیکن انکو پتہ ہی نہیں چلا۔
ہمارے محلے میں تو جب بھی کوئی نیا بندہ شفٹ ہوتا ہے چاہے غلط آدمی ہو یا
صحیح لیکن لوگ فوراً ہی معاملے کی نزاکت سمجھ جاتے ہیں۔
کہ جی فلاں بندہ جو نیا نیا شفٹ ہوا ہو ہے ، کس طرح کا آدمی ہے۔پھر ایسی
عمارت کہ جو کہ خاص طریقے سے بنائی گئی ہو، تو اسکی طرف تو لوگ اور بھی
تیزی سے متوجہ ہوتے ہیں۔ اور ہر بندہ اپنے بس کے مطابق حقیقت جاننے کی کوشش
کرتا ہے۔
تو یہ کیسے ممکن ہے کہ چھ سات سال میں لوگوں کو اس عمارت کے بارے میں کچھ
بھی معلوم نہیں ہوسکا، اور نا ہی ہمارے یہ ہیرو (دراصل زیرو) فورسز کو اس
کی بھنک پڑھ سکی۔
دوسری بات یہ کہ ۲۰۰۵ کے بعد سے کوئی بھی بندہ کسی بھی ضرورت سے اس گھر سے
باہر نہیں نکلا ، کہ لوگ اسکو دیکھ سکیں کہ جناب کس طرح کے لوگ ہیں اس گھر
میں۔یہ کیسے ممکن ہے۔ اس گھر میں رہنے والوں کی بھی زندگی کی ضروریا ت
ہونگی ، جس کے لئے انہیں اس عمارت سے ضرور نکلنا پڑتا ہوگا۔ اور لوگ اسکو
دیکھ بھی نہ سکے۔ نا ہی کسی کو اس گھر کی مکینوں کا پتہ ہی چل سکا۔
تیسری بات یہ کہ وزیرستان کے پہاڑوں میں تو مجاہدین ان آئی ایس آئی اور سی
آئی اے والوں سے نہیں بچ سکے لیکن اس آباد شھر میں انکو ۵ سال تک پتہ ہی
نہیں چلا۔یہ کیسے ممکن ہے۔ اسامہ کوئی جن تو نہ تھے کہ اس علاقے میں رہتے
اور نظر ہی نہیں آتے۔
چوتھی بات یہ کہ معمولی شک پڑنے پر بھی ایجنسی والے آپکے گھر پہنچ جاتے ہیں
، لیکن اسامہ کا گھر تھا کہ ۵ سال تک یہ لوگ اس سے لاعلم رہے۔اور انکو اسکی
موجودگی کی بھنک بھی نہ پڑسکی۔ میرے خیال میں تو یہ ناممکنات میں سے ہے۔
پانچویں بات یہ کہ ہیلی کاپٹر آئے اور انہوں نے فائرنگ کی اور بس اسامہ
مارا گیا۔ نا اسکا کوئی فوٹو ، نا ہی کو تصویر ، نا ہی اسکی کوئی رپورٹ ،
بس فائرنگ کے بعد کہا گیا کہ اسامہ مارا گیا۔
صرف فائرنگ سے مارنا تھا تو افغانستان میں ایک پہاڑی پر کر کے اعلان کر
دیتے کہ اسامہ پہاڑی میں مارا گیا۔ لیکن اسطرح تو پاکستان بچ جاتا۔
امریکہ کے اس اطلاع پر کون بھروسہ کرسکتا ہے؟ پہلے انہوں نے کم جھوٹ بولا
ہے جو اس خبر پر بھی آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا جائے۔
خبر یہ بھی ہے کہ اس گھر میں فون یا انٹرنیٹ کے تار نہیں تھے۔ لیکن جناب
بجلی تو کسی نے لگائی ہوگی۔
اور ہر ماہ بجلی کا بل آتا ہوگا۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جی انکا رابطہ باہر
کی دنیا سے کٹا ہوا تھا۔فون اور انٹرنیٹ کے علاوہ بھی تو ضروریات زندگی تو
ہیں۔
گھر کی عمارت کو عجیب انداز میں پیش کیا گیا جیسے یہ کو ئی بڑا کمپاونڈ ہو
، حالانکہ تصاویر میں صاف نظر آتا ہے کہ یہ عام گھروں جیسا ایک گھر ہے۔ رہی
دیوار کی بلندی تو وہ بھی اتنی زیادہ نہیں کہ خاص طور پر قابل ذکر ہو۔
اندر کا حال فورسز یہ بیان کرتے ہیں کہ اندر حفاظتی دیواریں تھی ۔ لیکن
جناب فورسز کے علاوہ کس نے یہ دیکھا ہے۔ اور کون فورسز پر اعتماد کرے، کئی
دھائیوں سے جھوٹ بول بول کر انہوں نے عوام کو گمراہ کیا ہے۔اندھا اعتماد کو
ئی نہیں کرسکتا ، اور فورسز کے علاوہ وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔
غرض مجھے تو دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ خیر کرے ، انہوں نے
پاکستان کو نقصان کی ٹھان لی ہے، لیکن ہمارے حکمران اور فورسز گدھے ہیں کہ
نا خود سمجھتے ہیں اور نا دوسرے کی مانتے ہیں۔
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔
بات صاف یہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھا ، اور
اس نکلنے کیلئے اسامہ کے مارنے کے ڈرامے سے بہتر کوئی بہانہ نہیں تھا۔
اور امریکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا ، کیونکہ نیویارک کے احمق اس امریکی
ڈرامے کو سچ جان کر سڑکوں پر ناچ رہے تھے۔
یہ چند باتیں ذہن میں تھی، سوچا اسکو آپکے ساتھ شئیر کرلوں ۔ ضروری نہیں کہ
میرے یہ اشکالات درست ہوں ۔ میری باتیں میری ناتجربہ کاری کا سبب بھی
ہوسکتی ہے ۔
آپ کیا کہتے ہیں۔۔۔؟
میرے دیگر کالم پڑھنے کیلئے
www.darveshkhurasani.wordpress.com |