اشفاق ایک خوشحال گھرانے کا
نوجوان تھا ۔ بری صحبت نے اس کو سرکش اور برے کاموں کا عادی بنا دیا تھا،
بڑوں کا کہنا نہ ماننا اور بے زبان جانوروں کو ستانا اس کی عادت بن گئی تھی
اور ان بے زبان جانوروں کو ستا کر اسے بڑا لطف آتا تھا۔والدین کے انتقال کے
بعد بھی اسی طرح اسکا وقت گزرتا رہا ۔
جب اس کی عمر بڑھاپے کی جانب ڈھلنے لگی تو اسے اللہ یاد آیا اور اس نے نیک
کام کرنا شروع کردیئے۔ لوگوں کے کام فی سبیل اللہ کر کے اسے بے حد خوشی
ہوتی۔ اب وہ کسی کا دل نہیں دکھاتا اور نہ ہی جانوروں کو ستاتا تھا۔سب اسکی
عزت کرنے لگے اور لوگوں میں اس کی نیکی اور عبادت کا بڑا چرچا ہونے لگا۔
ایک دن اس کے پڑوسی کی چھوٹی لڑکی شدید بیمار ہوگئی۔پڑوسی نے اشفاق سے کہا
کہ ڈاکٹر صاحب نے میری بیٹی کی بیماری کے لئے جو دوا تجویز کی ہے وہ دوا
یہاں نہیں مل رہی ہے۔ اگر تم شہر جا کر وہ دوا لادو تو تمہاری بڑی مہربانی
ہوگی۔اشفاق نے بخوشی حامی بھر لی اور دوا لینے کے لئے شہر کی طرف روانہ
ہوگیا۔
راستے میں ایک گھنا اور خطرناک جنگل پڑتا تھا، جنگل سے گزرتے ہوئے اشفاق نے
دیکھا کہ اچانک ایک جانب سے دو آدمی لڑتے ہوئے اس کے سامنے آئے۔ ان میں ایک
آدمی ، دوسرے آدمی کو گرا کر اس کے سینے پر سوار ہوگیا اور دیکھتے ہی
دیکھتے اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا خنجر اس کے سینے میں گھونپ دیا اور اس
کو تڑپتا ہو چھوڑ کر بھاگ گیا۔
اشفاق نے جب اس تڑپتے ہوئے شخص کو دیکھا تو فوراََ اس کی مدد کو لپکا۔ لیکن
وہ شخص خون میں لت پت اب ساکت ہوچکا تھا ، اشفاق نے دیکھا کہ خنجر دستے تک
اس کے سینے گھسا ہو ا ہے اس نے بے اختیار خنجر اس کے سینے سے نکال لیا۔ چند
راہ گیر جو وہاں سے گزر رہے تھے انھوں نے جب اشفاق کے ہاتھ میں خون سے بھرا
ہو خنجر دیکھا تووہ سمجھے کہ اشفاق نے اس آدمی کو قتل کیا ہے۔ چنانچہ انھوں
نے اس کو خنجر سمیت پکڑ لیا ۔
ادھر وہ شخص خون بہہ جانے کی وجہ سے اللہ کو پیارا ہو چکا تھا ۔اشفاق نے ان
راہ گیروں سے بہت کہا کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔ وہ بے گناہ ہے لیکن راہگیروں
نے اس کی ایک نہ سنی اور اسے پولیس کے حوالے کردیا۔ پولیس نے اسے گرفتار کر
کے آلہ قتل اپنے قبضہ میں لے لیا۔اشفاق چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ میں بے گناہ
ہوں میں تو اپنے پڑوسی کی بیمار بیٹی کی دوا لینے شہر جارہا تھا۔ لیکن چشم
دید گواہوں، آلہ قتل اور حالات کی وجہ سے قتل کا جرم اس پر ثابت ہوچکا تھا
لہٰذا اس کو جیل بھیج دیا گیا۔
اشفاق جیل میں رو رو کر دعائیں مانگتا اور کہتا اللہ میں بے گناہ ہوں میں
نے قتل نہیں کیا۔ اے اللہ تو انصاف کرنے والا ہے میرے ساتھ انصاف
کرنا۔انصاف انصاف کی رٹ لگاتے ہوئے اسے عدالت لیجایا گیا۔ عدالت نے تمام
حالات ، آلہ قتل کی موجودگی اور گواہوں کے بیان کے بعد اس کو قتل کے جرم
میں سزائے موت سنا دی۔
اشفاق بے اختیا ر چلّا اٹھا ۔ اللہ یہ تیرا کیسا انصاف ہے کہ مجھ بے گناہ
انسان کو پھانسی کی سزا دی جارہی ہے ۔ تو ایسے میں ایک ندا آئی۔ اے بندے تو
نے مجھ سے انصاف مانگا تھا سو ہم نے انصاف کردیا، یا د کر تو نے جوانی میں
محض اپنی تفریح کے خاطر ایک بے زبان جانور کو پھانسی دے کر ہلاک کیا تھا۔
وہ بھی ہماری مخلوق تھی۔ خون کا بدلہ خون ہے ۔ لہٰذا تمہارے ساتھ انصاف کیا
گیا ہے۔
بزرگوں نے یہ بات کہی ہے کہ اللہ سے انصاف نہیں رحم کی دعا مانگو، کیوں کہ
اللہ ارحم الراحمین ہے اور رحم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ |