دنیا بھر میں کرونا وائرس کا شور ہے ، جس سے زندگی مفلوج
ہو چکی ہے۔اگر ہم وائرس کے بارے میں بات کریں تو سائنس نے اسے ادھ مرا
جاندار کہا ہے۔ وائرس ایک ایسا جرثومہ ہے جس میں فطرت نے کسی بھی طرح کی
کوئی خیر نہیں رکھی ۔یعنی اسے خود زندہ رہنے کیلئے دوسرے جانداروں کو مارنا
ہوتا ہے۔ اس میں مثبت آر این اے جینیاتی مرکب ہے جو صرف ایک دھاگے پر مشتمل
ہے۔ یہ سارا جرثومہ مختلف قسم کی پروٹینز پر مشتمل ہوتا ہے، آر این اے
نیوکلیو پروٹین، جینم ای- پروٹین پینٹا مر، ہیما گلوٹینن پروٹین اور فاسفو
پروٹین جبکہ اس کا کیپسڈ سپائک گلائیکو پروٹین پر مشتمل ہے۔ اگر ہم اس کے
دوسرے جانداروں کے ساتھ تغیر کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے میزبان
کے اندر ( خاص طور پر انسان کے) خود کار مدافعاتی نظام کے ٹی- لمفوسائٹ سیل
کے ساتھ جڑ جاتا ہے ۔ یہ ٹی -لمفو سائٹ سیلز ہر ممکن اسے مارنے کی کوشش
کرتے ہیں، لیکن وائرس سائز کے اعتبار سے بہت چھوٹا ذرہ ہونے کی وجہ سے اسی
سیل کے اندر گھس جاتا ہے اور سیل کے سیال مادے سائٹو پلازم کے اندر اپنا
جینیاتی مرکب جینم سمیت داخل کر دیتا ہے۔ سیل کے سیال مادے سائٹو پلازم میں
موجود رائبوسومز(چھوٹے ذرات جنہیں پروٹین بنانے کی فیکٹری کہا جاتا ہے)
وائرس کے آر این اے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں اور اس کی جینیاتی معلومات کو ڈی
کوڈ کر کے اسی طرح کی زہریلی پروٹین بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان
پروٹین سے مزید زہریلے آر این اے بنتے ہیں جو کہ انسان کے جسم میں اوپری
نظام تنفس میں بیماری کا مؤجب بنتے ہیں۔کرونا وائرس بھی 1918 میں پھیلنے
والے سپینش فلو کی طرح انتہائی مہلک ثابت ہو رہا ہے۔ کیونکہ ابھی تک اس کا
کوئی علاج موجود نہیں ہے اور جس طرح انفلوئنزہ سے بچاؤ کی تدبیر نکال کر
انسانی جانوں کو بچایا گیا تھا اسی طرح اب بھی پالیسیاں مرتب کرکے عمل
درآمد کروایا جا رہا ہے۔خود عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کی اینٹی ڈوٹ
بنانے کیلئے اٹھارہ ماہ کی مہلت مانگی ہے۔کرونا وائرس کی لپیٹ میں آنے والے
مریضوں کو صحت مند لوگوں کے معاشروں سے الگ کیا جا رہا ہے۔ صحت مند لوگوں
کو بچاؤ کیلئے بہت سی تدابیر کی آگاہی دی جا رہی ہے۔ چین نے تو قابو کر لیا
لیکن اٹلی ابھی تک قابو نہیں پا سکا ہے۔ بالٹی مور کی جانب سے وائرسز کی کی
گئیں سات درجہ بندیوں میں پانچ ہزار سپیشیز کے کروڑوں قسم کے وائرسز ہیں جن
میں سے صرف چند گنے چنے وائرسز انفیکشن سامنے آئے ہیں۔ اور ہر بار یہ
بیماریاں موت کا فرمان بن کر انسانیت پر ٹوٹی ہیں۔یہاں ایک بات سوچنے کی
ضرور ہے کہ جب یہ ادھ مرے جراثیم ہیں تو انسانوں کے اندر کیسے پہنچ جاتے
ہیں؟ کیونکہ عام ماحول میں ان کیلئے پرورش پانا ناممکن ہے تو ظاہر ہے کسی
متاثرہ جاندار کے ذریعے ہی کسی دوسرے جاندار میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس سے
یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب تک اس زہریلے جرثومے کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہ
کی جائے تب تک اس کا پھیلنا ناممکن ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر اسے بائیو
کیمیکل جنگ کا حصہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔کرونا وائرس کی لپیٹ میں اب
تک 195 سے زیادہ ممالک آ چکے ہیں۔چودہ ہزار سے زائد لوگ لقمہ اجل بن چکے
ہیں ۔چین کے بعد سب سے بڑا نقصان یورپ کو ہوا ہے۔ دنیا میں انسانی تاریخ
ایسے مسائل سے بھری پڑی ہے جو مختلف صورتوں میں اس پر قہر بن کر ٹوٹتے رہے
ہیں۔اور ہر بار انسان ان سے نبرد آزما ہوتا ہوا زندگی کی جنگ میں کامیاب
رہا ہے۔ لیکن یہ کامیابی اس سے ابدی پیچھا چھڑانے کی بجائے اس کے ساتھ لڑنے
کی ہے۔ دنیا میں جب بھی کسی بیماری نے حملہ کیا ہے وہ ہمیشہ کیلئے انسان کے
ساتھ لگ گئی ہے جسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ اور سائنس خود اس بات
کی گواہی دیتی ہے کہ جہاں بہت سے جاندار وقت کے ساتھ ساتھ روئے زمین سے
انسانوں نے اپنے فائدے کیلئے ختم کئے وہیں بہت سے نئے پیدا ہونے والے
جانداروں نے اپنی نسلوں میں انقلابی ترقی کی ہے ۔ خاص طور پر یہ جرثومے جو
کسی وبا کی صورت میں پھیلتے ہیں اور پھر دنیا کا ہی حصہ بن کر رہ جاتے ہیں۔
جس کے بعد خود انسان کی زندگی ایک کاروبار بن جاتی ہے۔ اس طرح یہ تماشہ چل
پڑتا ہے۔ طاعون ، ہیضہ سے لے کر کرونا تک تمام امراض پھیلانے والی وباؤں کو
کاروبار بنا لیا گیا ہے۔ کوئی نہ کوئی آپک اپناپیارا ان میں سے کسی بھی ایک
وبائی مرض کا شکار ہو جاتا ہے اور پھر اپنی زندگی کی جمع پونجی جینے کیلئے
خرچ کرتا ہے۔عام طور پر وہ طبقہ جن کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ، آپ
ایشیائی ممالک میں رہنے والوں اور افریقہ میں پنپتے ہوئے لوگوں کے معاملات
زندگی کا جائزہ لیں ، سب سے زیادہ وبائی امراض کا شکار یہی لوگ ہیں اور ان
امراض سے لڑتے ہوئے مرنے والوں کی تعداد بھی انہی ممالک میں زیادہ ہے۔ اس
کی اہم وجہ وسائل کی کمی اور مہنگائی ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انسانی
ہمدردی رکھنے والے ممالک اس معاملے میں خود انسانوں کی زندگیوں سے کھیلتے
ہیں ، کسی نہ کسی صورت ایسی وباؤں کو پھیلانے کا مؤجب بنتے ہیں اور پھر
ہمدردہونے کا جھوٹا دعویٰ کر کے غریب ممالک پر اپنا دھونس قائم رکھتے ہیں۔
اگر تمام ممالک کی حکومتیں خود مختار ہوجائیں اور اپنے تمام مسائل کو خود
اپنے وسائل کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں تو بہت حد تک ایسی غیبی جنگوں سے
بچ سکتے ہیں۔پاکستانی حکومت سمیت خاص طور مسلم ممالک کو اس بار خود کو ثابت
کرنا ہوگا ۔ اب تک وائرس کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کے علاج کیلئے تین
طرح کے طریقے اپنائے گئے ہیں۔ لیکن کرونا وائرس جیسے وائرس کیلئے صرف اس کی
تقسیم در تقسیم کو روکنا ہی حل ہے۔کلوروکین کا استعمال بھی جائز ہے کیونکہ
گلائکو پروٹین مالیکیول کو توڑنے میں کلوروکین اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پینا
ڈول درد اور سوزش میں آرام دیتی ہے اور دیگر ہسٹامین بلاکر بھی ابتدائی طبی
امداد میں کارگر ثابت ہو رہے ہیں لیکن واہ اسی کی ہو گی جو اس کی اینٹی ڈوٹ
تیار کر لے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں چند ممالک اپنی سلطنت قائم
رکھنے کی خاطر اقوام عالم کو مختلف انواع کی جنگوں کے گھیرے میں رکھتے
ہیں۔ہم اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح ہم دور
جدید میں بھی اغیارپر اپنی زندگی کے حوالے سے انحصار کر رہے ہیں۔ کرونا
وائرس ، ہیپاٹائٹس بی و سی اور ایڈز جیسی مہلک بیماریوں کا جینیاتی مرکب
ایک جیسا ہے صرف ان کے آر این اے کوڈز مختلف ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ
کالے، پیلے یرقان اور ایڈز کے علاج کیلئے انٹرفیرون نامی ویکسین نکالی گئی
ہے جو کہ اسی طرح کی پروٹینز پر مشتمل ہے جو انسان کے مدافعاتی نظام کے
سیلز رکھتے ہیں۔ اب جدید دور میں ایسی پروٹینز پر مشتمل گولیاں اور کیپسول
بھی دستیاب ہیں۔ مجھے یاد ہے زرداری دور میں ایک پاکستانی سائنسدان نے
انٹرفیرو ن بنایا تھا، اس کے مطابق انٹر فیرون کا ایک ٹیکہ عام پاکستانی کو
صرف 23 روپے میں میسر آتا ، لیکن اس حکومت نے اپنے کمیشن کیلئے کینسل کر
دیا تھا۔ اور آج تک جہاں یرقان کا علاج عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے وہیں
حکومت پر بوجھ بھی بنا ہوا ہے۔ پاکستانی حکومت سے گزارش ہے کہ جلد از جلد
کرونا وائرس کا جینیٹک کوڈ حاصل کر کے انٹر فیرون کی طرز پر اس کی ویکسین
تیار کرکے دنیا میں اپنا مقام بنائے اور کم از کم اس معاملے میں ہی اغیار
کا محتاج ہونے سے بچ جائے۔ مجھے نہیں لگتا کہ جس قدر شور اور جتنا وقت
مانگا جا رہا ہے آج کے اس جدید دور میں اتنا لمبا عرصہ انتظار کرنے کی
ضرورت ہے۔پاکستان میں اتنے قابل سائنسدان موجود ہیں جو اس اہم ترین فریضہ
کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا:
اپنی ملت کا قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺ
|