ابتدائیہ:۔
الله تعا لىٰ نے دين اسلام کو تمام انسانيت کے لئے قيامت تک کے لئے هدايت
بنا يا هے اس وجه سے الله تعالىٰ نے قر آ ن مجيد ميں ارشاد فر مايا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي
وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا
) المائده5: 3(
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر
دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے)
پسند کر لیا۔
آج کا دور ايجادات کا دور هے اور هر ايجاد کے ساتھ ايسے مسائل بھي سامنے
آرهے هيں جس کو ديکھ کر انسان حيران هو جا تا هے جس طر ح علاج معالجے کےلئے
آج کے دور ميں کا في نئي ايجا دات هو ئى ه يں اور علاج و جو د ميں آئے هيں
جن سے انسان فا ئده اٹھا سکتا هے۔ ليکن ايک مسلمان کيلئے يه سوچنا چا هيے
که آيا اسلام يا همارا مذهب بھي ان نئي ايجادات کي اجازت ديتا هے يا نهيں
اگر ديتا هے تو کس حد تک ؟
اگر دور جديد ميں ديکھے تو بعض مسائل ايسے هيں جو قرآ ن و حديث کي نصوص سے
واضح ثا بت هيں اور بعض ايسے هيں جو قرآ ن حديث کي نصوص سے ثا بت نهيں جن
ميں سے ايک دور جديد کا اهم مسئله کا سميٹک سر جري هے جس کي مانگ آ ج کے
دور ميں بڑھتي جا ر هي هے خواتين و مرد فطري خوبصورتي کو چھوڑکر مصنو عي
خوبصورتي کے لئے کا سميٹک سرجري کرواتے هيں اور اسطرح بهت سے مسائل ايسے
هيں آج کے دور ميں سامنے آ رهے هيں ان کے لئے قر آن مجيد کے بتا ئے هو ئے
طر يقوں اور اصولوں کے مطابق احکام شر عيه معلوم کيے جا سکتے هيں ايسي جديد
ايجادات جن کا شرعي حکم صراحة قر آ ن مجيد ميں نهيں ملتا ايسے مسائل کے لئے
فقها ء کرام نے ايسے ا صول و ضوابط مقرر کيے هيں جن کي رو شني ميں دور جديد
ميں هر آنےوالے مسا ئل کا باآ ساني حل تلا ش کيا جا سکتا هے ۔انهي مسائل
ميں کا سميٹک سر جر ي هے جن کے بارے ميں واضح طور پر نصوص تو مو جو د نهيں
هيں ليکن فقها ء کرام کے اصولوں کے مطابق اسکا حل تلاش کيا جا سکتا ہے ۔
کاسمیٹک سرجری کا معنیٰ ومفہوم :۔
مجموعة العمليات التي تتعلق بالشكل ، والتي يكون الغرض منها علاج عيوب
طبيعية أو مكتسبة في ظاهر الجسم البشري
(الفهداوي،ساجد محمود ،العمليات التجميلية بين الحل والحرمة،2009،صفحہ:5)
ایسی سرجری جس کا مقصد قدرتی نقائص کا علاج کرنا ہے یا انسانی جسم کی ظاہری
شکل کو مزیدبہتر بنانا ہے
وعرّفت الجراحة التجميلية بانها : جراحة تجرى لتحسين منظر جزء من أجزاء
الجسم الظاهرة ، أو وظيفته إذا طرأ عليه نقص أو تلف أو تشوه. (۔ایضاًٍ)
"کاسمیٹک سرجری کے زریعے جسم کے کسی نظر آنے والے حصے کی ظاہری شکل کو بہتر
بنانے کے لئے سرجری ، یا اس کی افعال میں پایا جانے والے عیب کو دور کر نا
"
ڈاکٹر الہام بنت عبد اللہ باجنید کے نزدیک:۔
’’جراحۃ تجری لتحسین منظر جزء من اجزاء الجسم الظاھرۃ وو ظیفۃ اذا ما طراً
علیہ نقص او تلف او تشوہ‘‘(الموسوعۃ الطبیہ الحدیث ،جلد۳، ص۴۵۴)
’’ وہ آپریشن جو جسم کے ظاہری اجزاء میں سے کسی جز یا اس کے فعل کو خوشنما
بنا نے کے لئے اس وقت ہو تا ہے ، جب اس میں کو ئی عیب ، تلف یا بگاڑ پیدا
ہو جائے
فطری طور پر ہر شخص کی یہ خواہش ہو تی ہے کہ خوبصورت نظر آئے دیکھنے میں
اور اچھا لگے اس کا چہرہ خوبصورت معلوم ہو اس کے اعضا ء چست دیکھائی دیں
اور ان پر درازی عمر کے اثرات بھی عیا ں نہ ہو ں ، اس کے لیے طب کی ایک شاخ
جس میں جسم انسانی کے کسی عضو کی ہیئت یا فعل کو درست کر نےکیلئے ایک خا ص
طر ح کی کا سمیٹک سرجری کروائی جا تی ہے کاسمیٹک سرجری عصر حا ضر کے اس
مسئلے پر مکمل تفصیل نہیں ملتی لیکن اس مسئلے سے متعلق اصول کی نشاندہی
ضرور کی گئی ہے کاسميٹک سر جر ي کي کئي صورتيں هيں اب هم ان کا شر عي حکم
ديکھتے هيں که کس صورت ميں شر يعت اسلاميه ميں سرجري کروانا جا ئزهے اور کس
صورت ميں جا ئز نهيں هے ۔
پيدا ئشي عيوب کى وجه سے سر جري :۔
بسا اوقات انسان ميں پيدا ئشي طور پر ايسا عيب پا يا جاتا هے جس سے انسان
کی بدصورتی نما يا ں هو تي هے مثلا ٍ دانت يا تا لو کا کٹا هوا هو نا يا ها
تھو ں يا پا ؤ ں ميں زائد انگليوں کا هو نا يا منه ميں دانت زيا ده هو يا
کو ئى دانت لمبا هو يا اس طر ح کو ئى عيب تو اي سى بد هيئتى کو درست کر نے
کے بارے ميں اسلام کا مؤقف کيا هے ۔شريعت اسلاميه کے اسرار و علل احکام ميں
غور کر نے سے معلوم هو تے هيں که اللله تعالى نے کسى انسان کو جس طر ح بھي
پيدا کيا هو اس کے لئے اپنے اعضا ء ميں کو ئى کمى يا تبديلى کر نا جا ئز
نهىں هے ۔ جس شخص کے بدن ميں کو ئى انگلى يا کو ئى دوسرا عضو زائد هو اس کے
لئے اسے کا ٹنا يا عليحده کر نا بظا هر درست معلوم نهيں هو تا کيو نکه ايسا
کر نا الله تعا لىٰ کى تخليق ميں تغير هے ۔ (قر طبى ،محمد بن احمد ، ابو
عبداللہ ، الجا مع الاحکام القرآن، ۱۹۸۷ء جلد،5،ص:345)
ابو جعفر طبري کا مؤ قف:۔
لا يجو ز للمراة تغيير شىء من خلقتھا التي خلقھا الله عليھا بزيادة او
نقص،التماس الحسن لا للزوج ولا لغيره کمن تکون مقرونة الحاجبين فتزيل ما
بينھما تو ھم البلج او عکمه و من تکون لھا سن زائدة فتقلعھا او طو يلة
فتقطع منھا ۔۔۔ فکل ذلک داخل في النھي و ھو من تغيير خلق الله
(عسقلاني، ابن حجر ، فتح الباري بشرح صحيح البخاري، ، جلد ۱۰ ،صفحه ۳۷۷)
عورت کے لئے جا ئز نهيں هے که الله تعا ليٰ نے اسے جس خلقت پر پيدا کيا هے
اس ميں کو ئي کمي بيشي کر ے ، مثلا اس کا کو ئي دانت زائد هو تو اسے اکھا
ڑدے يا لمبا هو تو اسے کا ٹ دے يه کام ممنوع هيں ، ان کا شمار الله تعا ليٰ
کي تخليق ميں تبديلي ميں هو تا هے "
اسکے عدم جواز کا حکم اس وقت هے اگر انسان کا اراده صرف ظاهرى حسن کا هو
اور ان عيوب کا ختم کر نا صرف دکھلا وے کے لئے هو تا که انسان اچھا لگے تو
اس س صورت ميں بظا هر يه کا م درست نهيں ۔ ها ن اگر روز مره کے کام کا ج
ميں رکا وٹ کا با عث هو جس کي وجه سے پر يشانى کا سامنا هو جيسے زائد لمبے
دانت کي وجه سے کھانے ميں دشوارى هو تى هو يا زائد انگلى سے کو ئى جسمانى
اذيت لا حق هو تى هو تو ان کے نزديک انگلى کو کٹوانا اور دانت کو نکلوانا
جا ئز هو گا ۔عيوب کو دور کر نے کى اجازت احاديث مبارکه ميں بھي دى گئى هے
فرمان نبوىﷺ هے که :
" قال عرفجه بن اسعد قال:" اصيب انفى يوم الکلاب فى الجاھيلة فاتخذت انفا
من ورق فانتن على فامونى رسولﷺ ان اتخذ انفا من ذھب
(نسائی ،احمد بن شعیب ، ابو عبدالرحمن ، سنن نسائى ، رقم الحدیث:5165)
ٖحضرت عرفجہ بن اسعد فر ماتے هيں: جا هلى دور ميں جنگ کلاب ميں ميرى ناک ضا
ئع هو گئى تھي ميں نے چاندى کي ناک لگا لى تھي تو اس ميں بد بو پيدا هو گئء
تھي تو حضور ﷺ نے مجھے سونے کي ناک لگوانے کا حکم ديا تھا"
اس حديث مبا رکه سے واضح هو تا هے که حضور ﷺ نے سونے کى ناک لگوانے کا حکم
يا اجازت اس لئے دى تھى تاکه بدنمائى کو دور کيا جائے کيو نکه بد بو تو زخم
پر دوائى لگانے سے بھى دور کى جا سکتى تھى اور يه حکم بھى صر ف ناک کے ساتھ
خا ص نهيں هے بلکه اس مقصد کے تحت کئی اور بھي اس طر ح کى سر جري کروائى جا
سکتى هے ۔
"حضرت قتادہ بیان کر تے ہیں کہ: احد کے موقع پر میں اپنے چہرے کو رسول ﷺ کے
چہرے کے سامنے کر کے تیروں کو روک رہا تھا کہ ایک تیر مجھے ایسے لگا کی جس
سے میری آنکھ حلقے سے باہر نکل گئی میں نے اسے ہو تھ میں لیا اور رسول ﷺ سے
عرض کیا کہ میں ایک عورت سے محبت کر تا ہو ں مجھے ڈر لگتا ہے کہ اب وہ مجھے
نہ پسند کر ئے گی ۔ رسول ﷺ نے فر مایا اگر تم صبر کر لو تو تمہیں جنت ملے
گی اور ا گر چاہو تو میں اللہ سے دعا کر تا ہو ں ، تمھاری آنکھ لو ٹ آئے گی
۔ حضرت قتادہ نے عرض کیا کہ جنت بہترین بدلہ ہے لیکن اگر وہ خا تون دیکھے
گی تو مجھے بھینگا کہے گی۔ آپ ﷺ نے میرے آنکھ کو اس جگہ پر لو ٹا دیا اور
میرے لئے جنت کی دعا بھی کی۔"
ان تمام روايات فقهيه سے عيب کو دور کر نے کے لئے سر جرى کي اجازت معلوم هو
رهى هے اور يه بھي واضح هو رها هے که اگر ايسى صورت پيدا هو جا ئے که بندے
کى جان جا سکتى هو تو اس صورت ايسى چيزيں بھى استعمال کى جا سکتى هيں جو
عام حالات ميں جا ئز نهيں هو تى ۔
غير خلقى عيوب کو دور کر نے کے لئے کي جا نے والي سرجري کا حکم:
بعض اوقا ت ايسا بھي هو تا هے که بد صورتى پيدا ئشی نهيں هو تى بلکه کسى حا
دثه کى وجه سے ظا هر هو ئى هو ،جيسے کسى ايکسدنٹ کى وجه ست کسى کى ناک يا
کان کٹ گئى هو يا تيزاب پھينکنے کى وجه سے کسى کى جلد جھلس گئى هو ، کسى
لڑائى ميں جسم کا کو ئى اعضا ء کٹ گيا يا کو ئى ايسى صورت پيش آ ئى هو که
آدمى کے جسم پر ظا هر هو نے والا عيب پيدا ئشى نه تھا بلکه حا دثا تى وجه
سے ظا هر هوا هو ۔ اس طر ح کے تمام عيوب بيمارى ميں شمار هو تے هيں اسميں
کسى بھي قسم کا کو ئي شک و شبه نهيں اس کے لئے علاج کى اجازت هو گى۔
اسکا ثبوت هميں احا ديث نبو ىﷺ ميں بھى ملتا هے بخا رى کى حديث مبا رکة هے
ايک دفعه غزوه خندک کے مو قع پر حضرت سعد بن معا ذ رضى الله عنه کو ايک تير
لگا تھا جس سے حضرت سعد بن معاذ کى با زو زخمى هو گئى تھى تو ر سولﷺ نے ان
کے لئے مسجد بنو ى ميں خيمه لگوايا اور ان کے علاج و معالجه ميں کسى بھى
قسم کى کسر نهيں اٹھا ر کھى تھى ۔(بخا رى، محمد بن اسماعيل ، صحيح بخا رى ،
،رقم الحديث:۴۱۲۲)
اسطرح حضرت را فع بن مالک کو غزوه بدر ميں تير لگا تھا جس سے ان کى آنکھ
زخمى هو گئى تھى تو رسول ﷺ نے حضرت رافع کى آنکھ ميں اپنا لعاب دهن لگا يا
تھا اور ان کے لئے دعا کى حضرت رافع خود فر ماتے هيں لعاب دهن کى بر کت مير
ى آنکھ ميں ذرا بھى تکليف محسوس نهيں هو ئى ۔(ابن کثير، محمد، ابو فدا ،
البداية و النھا يه، ۱۹۸۸، جلد،۳،ص۲۹۲)
ان تمام د لائل سے يه بات واضح هو رهى هے که اگر انسانى جسم ميں ايسى
تبديلى ظاهر هو جا ئے جس کي وجه سے انسان ظاهر ى طور پر بد نما نظر آئے
يعنى انسان کى شکل و صورت ميں کو ئى عيب آ جا ئے اور نيت اچھى هو کو ئى
ايسا فعل بھي سر زد نه هو جو که خلا ف شر يعت هو تو پھر اس عيب کو انسانى
جسم سے دور کيا جا سکتا هے ۔کيو نکه شر يعت اسلاميه ايک عام اصول حرج کو
دور کر نے اور انسانى ضرورت کي رعايت کر نے کا بھى هے جسطرح الله تعا لى نے
قرآن مجيد ميں ارشاد فر مايا هے
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ(الحج22: 78)
اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔
شريعت اسلاميه کا بھى يه هى مزاج هے که اگر کو ئى حرج هے تو اسکو دور کيا
جا ئے ۔ قرآن مجيد اور حديث کے احکام اور شريعت اسلاميه کے مزاج کو سامنے
رکھتے هو ئے فقها ء کرام نے ايک فقهى قاعده مقرر کيا هے "الضرورات تبيح
المحظورات" که ضرورت کے وقت نا جا ئز چيز يں بھى مبا ح هو جا تى هيں ۔بعض
اوقات ايسا بھي هو تا هے که انسان بهت مو ٹا هو جا تا هے اور مو ٹا پے کي
وجه بهت سى بيما ريا ں لا حق هو تى هيں کيو نکه جب مو ٹا پا حد اعتدال سے
بڑھ جا تا وه انسان کے لئے بهت نقصان کا با عث بنتا هے جيسے پيٹ اور کو لهو
ں پر بهت ذيا ده چر بى کي تهيں آ جا ئے تو اب اسطرح کا آ پريشن کروانے والو
ں کي نيت کے اعتبا ر سے هو گا اگر اس کى نيت علاج کى هو گى تو جا ئز هو گا
اور اگر اس نے اپنے آ پ کو محض خو بصورت بنا نے کے لئے ايسا آ پريشن کر
وايا تویہ جا ئز نهيں هو گا ۔جيسے حضو ر نبي اکرم ﷺ نے ارشاد فر مايا :
انما الاعمال بالنيات کے اعمال کا دارو مدار نيتو ں پر هو گا ۔
بڑھاپے کے آثار کو ختم کروانے کے لئے سرجر ى کا حکم :
انسان اپنى زندگى کے مختلف مرا حل سے گزرتا هے اور بچه جب پيدا هو تا هے تو
اپنا بهت کمزور جسم لے کر پيدا هو تا هے پھر اس بچے کي پرورش کے نتيجے اس
کے اعضا ء کا حجم بڑھتا هے اور پھر اس ميں طا قت اور چستى پيدا هو تى هے
يها ں تک کے وه جب جوان هو تا هے تو هر پهلو سے مکمل هو جا تے هيں ۔ اور
جوان هو کر کر خوب طاقت ور اور با رعب پر کشش روپ دھار ليتا هے ۔ پھر قانون
فطر ت کے مطا بق اس ميں انحطاط شروع هو جا تا هے آ هسته آهسته اس کى طاقت
کم هو نا شروع هو جا تى هے اور يها ں تک کے بڑھا پے ميں وه کمزورى اور بے
بسى کى اس حالت کو پهنچ جا تا هے جس سے اپنے بچپن ميں دوچار تھا يه تو ايک
فطر ى فعل هے جا هر انسان نے دوچا ر هو نا هو تا هے ۔ قرآن مجيد ميں ان مرا
حل حيات کا تذکره آ يا هے ارشاد با رى تعا لىٰ هے :
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ
عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ
لِتَكُونُوا شُيُوخًا وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّى مِن قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا
أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (المومن67: 40)
"وہی ہے جس نے تمہاری (کیمیائی حیات کی ابتدائی) پیدائش مٹی سے کی پھر
(حیاتیاتی ابتداء) ایک نطفہ (یعنی ایک خلیہ) سے، پھر رحم مادر میں معلّق
وجود سے، پھر (بالآخر) وہی تمہیں بچہ بنا کر نکالتا ہے پھر (تمہیں نشو و
نما دیتا ہے) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ۔ پھر (تمہیں عمر کی مہلت دیتا
ہے) تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ اور تم میں سے کوئی (بڑھاپے سے) پہلے ہی وفات پا
جاتا ہے اور (یہ سب کچھ اس لئے کیاجاتا ہے) تاکہ تم (اپنی اپنی) مقررّہ
میعاد تک پہنچ جاؤ اور اِس لئے (بھی) کہ تم سمجھ سکو"
عمر ڈھلنے کے ساتھ انسانى جسم ميں پيدا هو نے والى جو تبديلياں ظا هر هو تى
هيں وه فطر ى هو تى هيں اب اگر انسان ان فطر ى تبديليو ں کو روکنے کے لئے
اقدامات کر ئے گا تو وه پھر فطرت سے بغا وت کر نا مراد هو گا ۔ اور يه الله
کى تخليق ميں تبديلى هے جس کو شيطا نى تحريک کا نتيجه قرار ديا گيا هے۔ اس
کى بنا پر اکثر خواتين کا بڑھا پے کى وجه سے چهرے اور ها تھو ں پر ظا هر هو
نے والى جھر يو ں کو دور کر نے کے لئے اور پستا نو ں ميں پيدا هو نے وا لے
فطر ى ڈھيلے پن سر جريز کروانا اس اسلام اس کى قسم کى سر جريز کي قطعا اجا
زت نهيں ديتا ۔اگر کو ئى مرد يا عورت کے بوڑھے هو نے کى و جه سے فطرى طور
پر سر کے بال سفيد هو جا ئيں تو ان کا ان سفيد با لو ں کا خا لص سفيد رنگ
کر نا درست نهيں هو گا کيو نکه اسلام اس کى اجا زت نهيں ديتا۔(بر جس، ڈا
کٹر بظا هر خا ن ، شماره،۱ جلد،۱ "پلا سٹک سر جرى کى مختلف صورتو ں کا شر
عى جا ئزه "ص،۱، ۲۰۱۴ء)
اس کے با رے ميں حضور اکرم ﷺ کا فر مان هے :
يکون قوم فى آخر الزمان يخضون با لسواد کحوامل الحمام لا يريحون رائحة
الجنة
(ابو داؤد، سلیمان بن اشعث ، سجستانی ،سنن داؤد، رقم الحديث:4212)
"آخرى زمانے ميں ايک ايسى قوم آ ئے گى جو کبو تر کے گھو نسلوں کى طر ح سيا
ه خضاب لگا ئے گى، وه جنت کى خو شبو بھى نهيں سونگھ سکے گے "
کيو نکه اس سے تدليس واقع هو تى هے اور اسلام ميں دھو که دهى کى اجا زت
نهيں هے ۔اگر کسى لڑکى يا لڑ کے بال بيما رى کى وجه سے سفيد هو گئے هو حا
لا نکه عمر طبعى کے لحا ظ سے ان بالوں کو ابھى پکنا نهيں چا هيے تھا تو ان
کے لئے خضا ب کے استعمال کى اجازت کے هو گى کيو نکه شريعت اسلاميه کا مقصد
تو تلبيس سے رو کنا هے اور يها ں اگر وه خضا ب استعما ل کر يں گے تو ان کا
مقصد کم عمرى ظا هر کر نا نهيں هو گا بلکه ان کو ديکھ کر جو کبر سنى کى غلط
فهمى پيدا هو تى هے وه تو اسے دور کر تا۔( قاسمى ، مجا هدالاسلام ،مولا نا
، جديد فقهى مبا حث ،2012ءص۲۰۳)
فطرى جسمانى اعضا ء کو تبديل کرنے کيلئے سرجرى کا حکم:
الله تعا لى ٰ نے هر انسان کو ايک هيئت پر پيدا نهيں کيا هے بلکه هر فر د
کى سا خت، رنگ اعضا ء ايک دو سر ئے سے مختلف هيں کسى کو کا لا بنا يا هے تو
کسى کو مو ٹا بنا يا هے تو کسى کو کمزور بنا يا هے کسى کى ناک او نچى هے تو
کسى کى پچکى هو ئى هے کسى کا سينه کشا ده هے تو کسى کا تنگ هے عمو ما يه
معمو لى فر ق اعضا ء کے ديے گئے امو ر سے با لکل خا ر ج نهيں هو تے اور ان
کو عام قانون فطرت کے خلا ف بھى تصور نهيں کيا جا تا ليکن ان ميں سے بعض
هيئتو ں کو پسنديده خيال کيا جا تا هے اور انهيں خو بصورتى کي علامت سمجھا
جا تا هے اور بعض هيئتو ں کو نا پسند کيا جا تا هے جس کى وجه سے آ ج کے دور
ميں سرجريز کا دور آ گيا هے اور ان تکنيک سے فا ئده اٹھا نے والوں کي تعداد
ميں بهت اضا فه هوا هے جس نے آ ج ايک بهت زيا ده منا فع بخش کا رو بار کى
حيثيت اختيا ر کر لى هے اور جو فرد جس طر ح کى شکل و صورت کو پسند کر تا هے
اس طرح کى سرجريز کے ذريعے با آسانى کروا ليتا هے ۔ اب ديکھنا يه هے کيا
اسلام اجا زت ديتا هے يا اس طرح کى سرجريز کى کو ئى گنجا ئش هے ۔انسا نى
جسم الله تعا لىٰ کى طر ف سے عطا کر ده ايک امانت هے اور اس امانت کى حفا
ظت کر نا ضرورى هے۔ اور اس کے بارے ميں بازپرس بھى اسى طر ح هو گى جسطر ح
با قى قوانين شر يعت کى هو گى ۔ الله تعا لى ٰ نے انسانى جسم کے اعضا ء کو
بيش بها امو ر سر انجام کر نے کا حکم ديا هے جسطرح الله تعا لىٰ نے آ نکھ ،
ناک ، کان ، دل و دما غ و غيره کا تذکره کيا کے يه الله تعا لى ٰ کى طر ف
سے عطا کر ده نعمتيں هيں جس پر اب انسان کو الله تعا لى ٰ کا شکر ادا کر ے
اور شکرا نے ميں الله تعا لى ٰ کى عبا دت کو بجا لا ئے اور الله کى نا شکر
ى نه کر کے شر ک ميں مبتلا نه هو کيو نکه قيا مت کے دن ان سب سے الگ الگ با
ز پرس هو گى ۔ارشاد با رى تعا لى ٰ هے :
وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ
وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً
(بني اسرائيل17 : 36)
اور (اے انسان!) تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے (صحیح) علم نہیں،
بیشک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی
اس آيت مبا رکه سے يه بات وا ضح هو تى هے انسان اپنے جسم کا مالک نهيں که
جسطر ح چا ہے اس ميں تغيير کر ئے بلکه که ان کو صرف ان کے نهيں مفئوضه کا
مو ں ميں استعما کر نے اختيا ر ديا گيا هے اس جسم کو اللہ تعالی کے اوامر
میں لگانا ضروری ہے اور اس کے مناہی سے بچاتے ان امور کی انجام دہی ضروری
ہے جس کے لئے یہ جسم انسان کو ملا ہے اس سے یہ بات بھی عیان ہو تی ہے کہ
انسانی جسم میں خالق کی مر ضی کے مطابق لباس و پو شاک پہنانا جس طر ح درست
نہیں ایسے ہی اس بدن کے اعضا ء و اطراف میں اپنی من مانی کر کے ہبہ کر نا ،
ترمیم وتبدل کر نا یا پھر دوسرے امور سر زد ہو نا وغیرہ تغییرلخلق اللہ میں
شامل ہیں اس لئے شر عی نقطہ نظر سے اسے جا ئز قرار نہیں دیا جا
سکتا۔(ازدہار ،احکام تجمیل النساء، (س،ن)،ص:379)
کم سن اور خوبصورت و حسين نظر آ نے کے لئے سر جرى کا حکم :
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا یا ہے اور اس کو حسن وجمال کے
بہترین سانچے میں ڈھالا ہے او ر صورتوں میں سے اچھی صورتیں عطاکی جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے
وصورکم فأحسن صورکم (المومن64: 40)
زیبائش وآرائش انسان کی فطرت میں داخل ہے اور فطری طورپربھی چاہتا ہے کہ وہ
صحت مندرہے اسے کوئی بیماری لاحق نہ ہو اس کے اعضاے بدن ٹھیک طریقہ سے کام
کرتے رہیں ان کے افعال میں کوئی نقص وخلل واقع نہ ہو ظاہری طو رپر بھی ان
میں کوئی عیب دکھائی نہ دے او راس کی شخصیت پرکشش اور جاذب نظر معلوم ہو
یہی وجہ ہے کہ اگر کسی سبب سے اس کے کسی عضو میں بد ہيئتی پیدا ہوجاے تو اس
کے ازالے کی کوشش کرتا ہے اور اگر وہ عضو اپنا مفئوضہ کام کرنا بند کردے یا
اس میں کمی آجاے تو شریعت نے بھی انسان کی اس فطرت کی رعایت کرتے ہوے اپنے
حدود میں رہتے ہوے زیب وزینیت کی اجازت ہی نہیں بلکہ اس کی ترغیب دی ہے
جیسا کے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یا بنی آدم خذو زینتکم عند کل مسجد (سورۃ الأعراف 7 : 31)
اے اولا دآدم ہر نماز کے وقت لباس وغیرہ سے اپنے کو آراستہ کرلیا کرو
حضو ر اکرم ﷺ کى احا ديث پاک سے بھى هميں زيب و زينت کا ثبوت ملتا هے که کو
ن سى زينت اختيا ر کي جا ئے اور کس طرح کي زينت سے بچا جا ئے ۔
اسی طرح یہ حدیث ہے
إن اللّٰہ جمیل ویحب الجمال
(مسلم بن حجاج ، القشیری ، امام ،صحيح مسلم ، رقم الحديث :۹۱)
بیشک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے
شريعت اسلاميه نے جس خو بصورتى کو اختيا ر کر نے کى اجا زت دى هے تو اس کے
کچھ حدودو قيود کا بھي خيا ل رکھا هے که خوبصورتي ميں اضا فه کے لئے خا ر
جي تدابير کو تو اختيار کر نے کي گنجا ئش تو هے ليکن اس سے يه مرا د با لکل
نهيں هو گا جسم کے اعضا ء ميں کسي بھي قسم کي تبديلي کرا نا جا ئز هو گا
بلکه ممنو ع هو گا ۔اسطر ح حضور ﷺ جب کو ئی ایسا شخص دیکھتے کہ جس کے بال
بکھر ئے ہو ئے ہو تے تو آپ ﷺ فر ماتے
" کیا یہ شخص کو ئی ایسی چیز نہیں پا تا جس سے اپنے بالوں کو درست کر لے
اسی طر ح آپ ﷺ نے ایک بار میلے کپڑوں میں ایک شخص کو دیکھا تو فر مای"کیا
اسے کو ئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ اپنے کپڑے دھو لے"
(نسائی ، احمد بن شعیب ، ابوعبدالرحمن ،سنن نسائی، رقم الحدیث :4062))
مگر یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایسی خوب صورتی اختیار کر نے کی تدابیر کو
شریعت نے اپنے مقرر حدود کا پا بند بنایا ہے کہ حسن و جمال میں اضافہ کے
لئے خا رجی تدابیر کو اختیار کر نے کی گنجائش تو ہو سکتی ہے لیکن اس سے یہ
ہر گز نہیں کہ بدن کےاعضاء میں کو ئی ایسی تبدیلی کروانا جا ئز ہو گا ۔اگر
سرجری کامقصد حسن وجمال میں اضافہ ہو جیسے عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے
چہرے پر پیدا ہوے جھریوں کو دورکرنا ، ناک بڑا کرنا یا چھوٹاکرنا ، یا ہونٹ
کو پتلا یا موٹا کرنا ، معمولی جسمانی کمی یابیشی کرنا خوبصورت نظر آنے کے
لیے جس کے کسی حصہ کو بڑا یا چھوٹا کرنا تاکہ کم عمر کا دکھائی دے ،سامنے
کے دانتو ں کے درمیان فصل کرنا ، گودنا اور گودوانا وغیرہ تاکہ وہ عام
میعاری حسن وجمال کے مطابق ہوجاے جس میں تغیر لخلق اللہ لازم آتی ہو تو یہ
جائز نہیں ہوگا رسول اللہ ﷺ نے ایسے کئی چیزوں سے صراحتا منع فرمایا ہے جو
اس زمانے میں عربوں کے درمیان حسن وجمال میں اضافہ کے لیے مروج تھی۔
چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
لعن اللہ الواشمات والمتوشومات والمتنمصات والمتفنجات للحسن المغیرات خلق
اللہ (بخاری ، محمد بن اسماعیل ، امام ،صحیح بخاری ، رقم الحدیث:5931)
اللہ تعالیٰ نے گودنے والی ،گودوانے والی بھوؤں کابال نکالنے والی اور
دانتوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی پرلعنت بھیجی ہے اگر یہ چیزیں حسن
میں اضافہ کی خاطر ہوں۔
حديث پا ک ميں" المتفنجات " کا لفظ آ يا هے اس سے مرا د وه عورتيں هيں جو
اپنے دانتو ں کو تراش کر ان کے درميا ن فا صله پيدا کر تى هيں ۔ يه کا م
زيا ده عمر والى خو اتين کرواتى تھى تا که وه کم عمر ديکھا ئى ديں اور ان
کے دانت خو بصورت لگيں دانتو ں کے درميا ن فا صله جو معمولى سا هو تا هے وه
فطرى طور پر چھو ٹى بچيو ں ميں هو تا هے جب عورت بو ڑھى هو جا تى هے وه اس
کے دانتو ں کے درميان وه فا صله با قى نهيں رهتا اور اگر وه يه کو شش کر تى
هے که ان کے دانتو ں کے درميان فا صله کم هو جا ئے اور وه کم عمر نظر آئے ۔
حدیث سے واضح ہے کہ وہ خواتین جو اپنے سامنے کے دانت خوبصورتی کے لئے
علیحدہ کرواتی ہیں وہ گنہگار ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام حرام ہے،
اور لفظ "خوبصورتی کے لئے" علت کے طور پر ہے کیونکہ یہ وصف مفہم (reasoned
description) ہے۔ ایک خاتون جو خوبصورتی کی خاطر اپنے دانتوں کے بیچ جگہ
بنوائے وہ گنہگار ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر یہ خوبصورتی کے لئے نہیں بلکہ
علاج کے غرض سے ہے تو یہ جائز ہے۔ لسان العرب میں بیان کیا گیا ہے:
"'الفلج' کا مطلب، پیدئشی طور پر سامنے اور اطراف کے دانتوں کا الگ الگ
ہوناہے، لیکن اگر یہ مصنوعی طور پر یعنی خود سے کیا جائے تو اسے 'التفلیج'
کہتے ہیں۔ اور 'رجل الفلج' کے معنی ایک ایسے مرد کے ہیں کہ جس کے دانت الگ
الگ ہوں، اور 'امرأة فلجاء' کے معنی ایک ایسی عورت کے ہیں کہ جس کے دانت
الگ الگ ہوں"۔
لہٰذا،"المتفلجۃ"کے معنی ایک ایسی عورت کے ہیں کہ جو اپنے دانتوں کو
رگڑواتی ہے تاکہ دانت چھوٹے ہوجائیں اور ان کے درمیان فاصلہ کم ہوجائے،
دانت خوبصورت لگیں اور وہ ایک نوجوان لڑکی کی طرح نظر آنے لگے، یعنی دانتوں
میں کوئی خرابی نہ ہو کہ جس کے لئے علاج کی ضرورت ہے بلکہ ظاہری شکل اور
خوبصورتی کے لئے دانتوں کو بنوانا، تو اس کی اجازت نہیں ہے۔ اس حدیث کے
مطابق جس میں نبی ﷺ نے لعنت بھیجی ہے ایسی عورتوں پر جس نے اپنے دانتوں کو
خوبصورتی کے لئے جدا کروایا ہو، یعنی وہ مصنوعی خوبصورتی کی خاطر یہ کرتی
ہوں۔ تو یہ "خوبصورتی" شرعی وجہ (علت) ہے اس ممانعت میں، لہٰذ اگر یہ موجود
نہیں ہو، یعنی اگر یہ خوبصورتی کے لئے نہیں ہو، تو جائز ہے، یعنی علاج کے
غرض سے۔
النووی کے تزدیک المتفنجات کی شرح:
" المتفنجات 'فا' اور 'جیم' کے ساتھ ،جس سے مرادمفنجات الاسنان ہے یعنی
سامنے اور اطراف کے دانت کو کاٹنا، لفظ 'الفلج' جس کے معنی سامنے اور اطراف
کے دانتوں کے درمیان فاصلہ ہے، بزرگ خواتین نوجوان لگنے اور اپنے دانتوں کی
خوبصورتی کو ظاہر کرنے کے لئے یہ فاصلہ عملِ جراحت کے ذریعےکرواتی ہیں،
کیونکہ دانتوں کے درمیان یہ خوشگوار فاصلہ نوجوانی میں لڑکیوں میں ہوتا
ہے۔۔۔ پس ان کے بیان کے مطابق المتفنجات سے مراد خوبصورتی ہے کہ وہ
خوبصورتی کی خاطر یہ کرواتی ہیں اور اس سے پتا چلتا ہے کہ اگر یہ خوبصورتی
کے لئے کیا جائے تو یہ حرام ہے۔لیکن اگر علاج کے غرض سے ضرورت ہو یا دانتوں
میں خرابی کی وجہ سے یا اسی طرح کچھ، تو یہ جائز ہے، اور اللہ سب سے بہتر
جانتا ہے"۔(نووی ، یحییٰ بن شرف، ابو زکریا ،شرح صحیح مسلم۔
1978ء،جلد2،ص:107)
اب اسى طر ح حديث شريف ميں" المتفنجات للحسن " اب حسن کو مشروط کر ديا هے
اگر اس کا مقصد محض حسن کو دو بالا کر نا هو گا يه جا ئز نهيں هو گا اور
اگر اس کا مقصد علاج و معالجه هو گا تو اس کى شريعت اسلاميه ميں گنجا ئش هے
۔
اسطرح آج کل ايک نيا فيشن آ گيا هے آ نکھو ں کى خوبصورتى کے لئے مصنو عى
پلکيں جن کو اصلى پلکو ں کے ساتھ لگا يا جاتاهے اس سے بال زيا ده گھنے اور
سيا ه محسوس هو تے هيں ۔ کيو نکه اس ميں تدليس پا ئى جا تى هے جس کى اسلام
ميں قطعاً اجا زت نهيں ۔اسطرح انسانى بدن ميں عمر کے بڑھنے کى وجه ست جو
عيو ب ظا هر هو اس کو چھپانا دھوکه کے ضمن ميں آتا هے اور يه الله تعا لى ٰ
کى بنا ئى هو ئى تخليق ميں تغيير هو گى۔
جسم کے ايک جز کى دوسرى جگه منتقلى کى سر جرى کا حکم:۔
آج فيشن کى دنيا ميں ايک نئى تکنيک سرجرى کى را ئج هو ئى هے که انسانى جسم
کے ايک جز کو ايک جگه سے دوسريى جگه ٹرانسفر کيا جا تا هے يا تو وه جز ايک
فر د کا ايک جگه سے لے کر دوسر ى جگه منتقل کيا جا تا هے يا تو وه دوسر ى
کا انسان کا هو تا هے جو که کسى اور شخص کے جسم ميں لگا يا جا تا هے يا تو
وه کسى جا نور کا کو ئى جز لے کر انسان کے جسم ميں لگا ديا جا تا هے تا که
جسم کى خو بصورتى کو دوبا لا کيا جا سکے اور بعض اوقات انسان اپنى بيما رى
کے لئے ايسا کر تا هے اب ديکھنا يه هے که کيا انسان جسم کو خو بصورت بنا نے
کے لئے يا علاج و معالجه کے لئے ايسا کر وا سکتا هے کس حد تک اسکى شر يعت
ميں گنجا ئش هے الله تعا لىٰ جن چيزوں کو انسانيت کے لئے حرام يا ممنو ع
قرار ديا يقينا ً وه انسان کے لئے تقصان ده هو نگے اگر چه وه انسانو ں کى
سمجھ ميں آ ئے يا نه آ ئے اور وه نقصان بعض اوقا ت انسانى جسم سے متعلق هو
تا هے کبھى وه انسانى روح سے متعلق هو تا هے اور کبھى دونوں کے متعلق هو تا
هے ۔ شريعت اسلاميه نے انسان کے علاج و معالجه کے لئے بهت سى سهو ليا ت دى
هيں اور مريض کے لئے عبا دات ميں تخفيف فر ما دى هے ۔اب يه انسان په هو گا
که وه ان سهو ليا ت کو کس حيثيت سے ليتا هے ۔اس کے بارے ميں دو را ئىں هيں
ايک يه کے جواز اور ايک عدم جواز کى هے
عدم جواز کے دلا ئل :
عدم جواز کی پہلی دلیل یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور بدنِ انسانی
انتہائی محترم ہے، کیوں کہ اس بدن کی تخلیق رب تعالیٰ نے خود فرمائی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔‘‘
اسی طرح بدنِ انسانی کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ
( ۔بنى اسرائيل17: 70)
اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی
ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانی جسم رب تعالیٰ کے ہاں انتہائی
قابلِ عظمت اور مقدس ہے۔ چنانچہ انسانی جسم کے بالوں کا شرعی حکم بھی یہی
ہے کہ ان بالوں کو دفن کردیا جائے تاکہ جسم انسانی سے جڑے ان بالوں کو
تحقیر سے بچایا جاسکے۔اسی طرح جسمِ انسانی کی تقدیس اور حفاظت کے لیے جسم
کی بے جا خراش تراش سے بھی منع کردیا گیا، بلکہ اسے حرام قرار دے دیا گیا۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ انسان اپنے اعضاء کا مالک نہیں ہے، یہ اعضاء انسان کی
ملکیت نہیں ہیں تو انہیں نہ تو فروخت کرنے کا اختیار ہے اور نہ ہی کسی کو
ہدیہ دینے کی اجازت ہے۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی انسان کو اجازت نہیں کہ وہ
بغیر عذر کے اپنے اعضاء کاٹ دے، یا خود تصرف کرتے ہوئے خودکشی کرلے، اسی
لیے خودکشی کو حرام موت کہا گیا ہے۔
فرمان رسو لﷺ هے :۔
من قتل نفسه بشىء فى الدنيا عذاب به يوم القيا مة
(مسلم بن حجاج ،القشیری، امام ،صحيح مسلم، رقم الحديث:۱۱۰ ،جلد،۱،ص۱۰۵)
"جس شخص نے دنيا ميں اپنے آ پ کو جس چيز سے قتل کيا اسى چيز سے اسے قيامت
کے دن عذاب هو گا "
اس حدیث سے يه واضح هو تا هے کہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہے تو اس نے
کیوں کر اپنے جسم پر تصرف کیا۔
جواز کے دلا ئل:۔
جس طرح انسانی جسم اہمیت کا حامل ہے اسی طرح انسانی جسم و جان کی حفاظت کے
لیے ہر ممکن راستہ اختیار کرنا نہ صرف مباح ہے بلکہ بسا اوقات واجب اور
ضروری ہوجاتا ہے۔جب انسانی جان و جسم کو خطرہ لاحق ہو تو اس کی حفاظت کے
لیے ہر ممکن کوشش کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔اور فقه کا قا عده يه هے که"
الضروات تبيح المحظورات " ضرورت کے تحت ممنو ع بھى مبا ح هو جا تا هے اور"
المشقة تجلب التيسير مشقت (نجیم ،زین الدین بن ابراہیم ،علامہ،قواعد
فقہیہ،)آ سانيا ں لا تى هے اور جها ں پر مشقت هو گى وها ں پر شر يعت
اسلاميه آ سانيا ں پيدا کر ديتى هے۔
اگر کسى بھى جز کى منتقلى کا مقصد زينت مطلوب هو گى تو شريعت اسلاميه کى رو
سے جا ئز نهيں هو گا اگر اس کا مطلوب علاج و معالجه هو اور گمان بھى غا لب
هو که اس کے بغير صحت يا بى ممکن نهيں هے تو اور ڈا کٹر ز نے بھى آ خر ى يه
هى فيصله کيا هو تو پھر اس کى شر يعت اسلاميه ميں گنجا ئش هو گى۔ وه بھى
بقدر علاج هو گى جيسے الله تعا لى نے اضطرارى حا لت ميں مردار کھا نے کا
حکم ديا هے تو وه بھى جان بچانے کى حد تک هے که اتنا کھا نا جا ئز هو گا که
جان بچ جا ئے پيٹ بھر کر کھا نا کا حکم نهيں هے سب سے آخری اور اہم بات یہ
ہے کہ اگر اس طر ح کى سر جر يز کی اجازت بھی دے دی جائے تو جسمِ انسانی کی
حقارت اور اہانت کا جو دروازہ کھلے گا اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوں
گے۔مالدار اپنے عزیز واقارب کی جان بچانے کی خاطر غریبوں کے اعضاء کی
بولیاں لگائیں گے اور وہ غریب جو پہلے ہی کسمپرسی کا شکار ہے اور بڑی مشکل
سے اپنے کنبے کی کفالت کرتا ہے، وہ مجبوری کے وقت اپنے اعضاء کی بولی لگائے
گا۔اس پر مستزاد انسانیت کے وہ سوداگر جو کسی بھی روپ میں ہوں، انسانی
زندگی کے ساتھ کھلواڑ شروع کردیں گے۔ اور کبھی نہ بند ہونے والا انسانی
تباہی کا یہ دروازہ کھل جائے گا۔
شناخت/پہچان چھپانے کے لئے سرجرى کا حکم:۔
انسان جو افعال سر انجام ديتا هے وه دو طر ح کے هو تے هيں ايک يه جن ميں
نيت سے کو ئى فر ق نهيں پڑ تا وه اچھى هو يا بر ى هو اس پر مواخذه هو گا
جيسے نماز ، روزه ، زکوة، زنا ، جھوٹ وغيره اور اسطرح دوسرا فعل يه هے که
اگر اسکے کر نے ميں نيت اچھى هو گى کسى منفعت کا حصول هو تو جا ئز هو گا
اور اگر بلا ضرورت هو تو وه جا ئز نهيں هو گا ۔
اسطرح حضور اکرم ﷺ نے کسى بھى جا نو ر کو آ گ سے تکليف دينے سے منع فر مايا
هے اور اگر اسکا مقصد نشان يا علامت لگا نا هو تو پھر آ پ و نے اس کى اجا
زت دي اور ظ پ ﷺ نے وسم کے ذريعے خو د بھى نشان لگا يا حلانکه يه بھى ايک
طر ح کا اذيت پهچانا هى هے ليکن صرف نيت کے فر ق سے حکم ميں فر ق واقع هو
گيا ۔دراصل اسکى وجه يه هو تى هے نيت کے بدلنے سے نهى کى علت معدوم هو جا
تى هے ۔
اسطرح اگر کو ئى مجرم اپنى پهچان چھپانے کے لئے سرجرى کروا تا يا بعض اوقات
کو ئى انسان کسى مظالم سے تنگ هو کر سر جرى وه چا هتا يه هو که وه کسى بھى
طر ح وه ان کى گرفت ميں نه آئے تو اس ميں بلا کسى جا ئز وجه که اس ميں
تغيير خلق الله هو تى هے اور دھوکه تدليس اور تزوير جيسى ممانعت کى تمام
علتيں پا ئي جا تى هے اور يه علت بھى پا ئى جا رى هو تى هے که وه قا نو نى
تقا ضو ں کو پورا کر نے فرار هو رها هو تا هے اور اگر اس کے اس عمل کا مقصد
اور نيت هى يه هو که وه ان حکام کے سامنے هے کر ان سے چھپا رهے تو ظا هر ى
بات هے يه تدليس (دھوکه ) هو گا اور اگر وه کسى دوسر ے فر د کى شکل کو
سرجريز کے ذريعے پيش کر رها هے تو تزوير هو گى ۔شريعت اسلاميه کى تعليمات
سے يه هى واضح هو تا هے که اس ميں دھوکه جھوٹ اور مکروفريب کو نا پسند کيا
جا تا هے اور ان سے بچنے کى تا کيد کى گئى هے اور اسلام کا مزاج بھى يه هے
که کو ئى فر داسى طرح دکھا ئى دے جس طر ح وه حقيقت ميں هے ۔ايک عورت حضور
اکرم ﷺ کے پاس آئى اور عرض گزار هو ئى يا رسول الله ميرى ايک سوکن هے کيا
مير ےاوپر گنا ه هو گا اگر ميں اس سامنے يه اظهار کروں کے مير ے شوهر نے
مجھے فلا ں فلا ں چيزيں دى هيں حلانکه حقيقت ميں اس نے وه چيزيں نه دى هو
تو آ پ ﷺ نے فر مايا :
المتشبع بمالم يعط کلابس ثوبى زور
(بخاری ،محمد بن اسماعیل ، امام ،صحيح بخا رى ، رقم الحديث:5219)
جسے کوئي چيز حا صل نه هو اور وه اس کے حا صل هو نے کا اظهار کر وه اس شخص
کى طر ح هے جو جھو ٹ و فريب کے کپڑے پهنے هو ئے هو ۔
شريعت اسلاميه اس بات کى تلقين کر تى هے که مصا ئب آلام آئيں تو وه انھيں
خنده پيشانى سے بر داشت کر ئے۔ اس پر وه ثواب کا مستحق هو گا ليکن جو انسان
کے لئے قابل بر داشت نهيں هو تے شر يعت اسلاميه نے ان ميں رخصت دى هے ۔
شريعت اسلاميه اس بات کى بھى اجازت ديتى هے ظلم سے بچنے کےلئے وه شخص راه
فرار اختيار کر سکتا هے اور کهيں جا کر چھپ بھى سکتا هے جيسے صلح حديبيه کے
بعد پر حضرت ابو بصير اور ديگر متعدد مکه کے مسلمانوں نے اهل مکه کى گرفت
سے بچنے کے لئے ايک مقام پر پنا ه لى تھى۔(ابن هشام عبدالملک ، ابو محمد
،سيرت النبىﷺ ، ۱۹۳۷ء، جلد۳ ،ص۳۷۳)
ليکن اس کام کےلئے شريعت اسلاميه سر جريز کى اجا زت قطعاً نهيں ديتى کيو
نکه اس ميں دھو که اور فريب هے اور اس کے ساتھ الله تعا لىٰ کى بنا ئي هو
ئى تخليق ميں تبديلى هے جو که جا ئز نهيں هے ۔ (قاسمى ، مجا هدالاسلام
،مولا نا ،جديد فقهى مبا حث، 2012ء،ص۳۱۲)
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات کے
لئے خواہ وہ انفرادی نوعیت کے ہوں یا ان کا تعلق معاشرے ، جماعت اور امور
مملکت سے ہو ں سب کے لئے بھر پو ر رہنمائی کا سامان مو جو د ہے خود سنت
رسولﷺ نے بھی ایسے اصول و کلیات کی واضح نشاندہی کر دی ہے جن کی روشنی میں
اہل علم و فضل نئے پیش آنے والے مسائل کا حل تلا ش کر تے رہیں گے۔ بعض جزوی
مسائل کی نوعیت بھی ایسی ہو تی ہے کہ ان کو نظیر اور مثال بنا کر ان سے
ملتے جلتے مسائل اور جزئیات کا حکم معلوم کیا جا تا ۔دین اسلام کا ایک یہ
امتیاز یہ ہے کہ اس میں قیامت تک آنے والے مسائل کا حل اور رہنمائی مو جو د
ہے ۔ لہذا ن جدید سائنسی ایجادات و انکشافات سے اسلام کے دائرے میں رہتے ہو
ئے فا ئدہ حا صل کر نے کی اجازت دی گئی ہے ۔ اسلامی قوانین ایسے بے لچک
نہیں کہ اگر کو ئی امر ممنوع کر دیا ہے تو کو ئی صورت اس کے جا ئز ہو نے
نہیں رہ جا تی اگر چہ اس سے انفرادی و اجتماعی نقصان ہی کیو ں نہ ہو ۔ بلکہ
اسلا می قوانین اضطراری حالت میں حرام سے انتفاع کی بھی اجازت دیتے ہیں اور
یہ اصول وقواعد متعین کیے جاتے ہیں کہ کو ن سے حالات اضطرار کے ہیں ۔ اور
کتنی مقدار میں اور کو نسی صورتوں میں ہم ان سے فائدہ حا صل کر سکتے ہیں ۔
کاسمیٹک سرجری خواہ خوبصورتی کے لئے ہو یا دیگر مقاصد کے لئے، جاسوسی کے
لئے ہو یا جرم کے لئے، یا جسم انسانی میں موجود کسی نقص اور عیب یا کمی کو
دور کرنے کے لئے ہویا فطری عیب کو ختم کرنے اور زائل کرنے کے لئے کاسمیٹک
سرجری جائز ہے، اسی طرح اچانک پیدا ہونے اور رونما ہونے والے کسی بھی عیب
کے ازالہ کے لئے پلاسٹک سرجری درست ہوگی، اس سلسلہ میں متعدد احادیث سے بھی
روشنی ملتی ہے ، جن میں سونے کی ناک بنوانے، یا سونے کے دانت بنوانے کا ذکر
موجود ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالی نے انسان کو چونکہ احسن تقویم یعنی
بہترین حالت پر پیدا کیا ہے اس لئے اس جسم پر کسی بھی طرح کے پیدا ہونے
والے عیب کا ازالہ کرنا درست ہوگا۔ ہندوستان میں ایسے حادثات اکثر ہوتے ہیں
کہ نوجوان لڑکیوں پر ایسڈ پھینک دیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا چہرہ ،
ان کی آنکھیں سب خراب ہوجاتی ہیں اور وہ بہت ہی بدشکل بن جاتی ہیں، ظاہر
ہے ایسی صورت میں اگر پلاسٹک سرجری سے ان کی فطری حالت میں قدرے بہتری
آجاتی ہے تو اس میں یقینا کوئی حرج نہیں بلکہ یہ مطلوب ہے، جسمانی تکلیف
کے ازالہ کے لئے اور مظلوم کا ظالم سے بچنے کے لئے پلاسٹک سرجری کرانا جائز
ہوگا،کاسمیٹک سرجری اپنے اصل کے اعتبار سے ایک جائز عمل ہے اس لئے یعنی اگر
مقصد علاج اور ضرر کا دور کرنا ہو تو درست ہے ۔۔اللہ تعالیٰ کی خلقت میں
تغییر اور تبدیلی جس صورت میں ہو وہا ں یہ نا جا ئز ہے خواتین کے لئے زائد
با لو ں کا ہٹانا اور کریموں وغیرہ سے رنگ گورا کر نا تو جا ئز ہے اور اسطر
ح پیدائشی طور پر جو عیب ہو جس کی وجہ سے تکلیف ہو تی ہو تو اس صورت میں ان
اعضا ء کی تبدیلی کروانا درست ہو سکتی ہے اگر اپنی مرضی سے جسم کے اعضا ء
میں تبدیلی کروائی جا ئے جس کا مقصد محض خوبصورتی اور حسن ہو وہ جا ئز نہیں
ہے کیونکہ وہ دھوکہ اور تلبیس ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا اور جسم میں
ایسی ناروا تبدیلی کروانا کفران نعمت اور نا شکر ی کے زمرے میں آتا ہے جو
کہ جا ئز نہیں ہے
|