یہ با ت نا قابل یقین سی لگتی ہے کہ ایک ان دیکھے وائرس
کے آگے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں گھٹنے ٹیک کر حقیقی معنوں میں گھربیٹھ گئیں
ہیں۔ سپر پاور ہونے کے دعوے کے باوجود وہ کچھ نہیں کرپا رہیں۔
کرونا وائرس چین کے شہر ووہا ن سے شروع ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا
کے 192ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت چین کے بعد سب سے زیا دہ
اٹلی،امریکہ، اسپین،فرانس اور جرمنی جیسے طاقتور ممالک اس کا مرکز ہیں۔
جدید ٹکنالوجی اورہتھیار وں سے لیس یہ ممالک اس وائرس کی روک تھام میں نا
کام ہیں اور بالآخرانھیں بھی لاک ڈاؤن کی جانب قدم اٹھانا پڑاکیونکہ اس وبا
کوروکنے کے لئے ان کے پاس کوئی اور حل نہیں۔ لاک ڈاؤن سے پوری دنیا کی
معیشت کا پہیہ جام ہوگیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں مریضوں کی بڑھتی ہوئی
تعدادکے باعث اسپتال کم پڑگئے ہیں۔اٹلی کی حکومت یہ اعلان کر چکی ہے کہ
ہسپتال میں صرف ان مریضوں کو داخل کیا جائے جن کے صحت یاب ہونے کے امکانات
زیادہ ہوں جبکہ باقیوں کو ان کے گھروں میں قرنطینہ میں رہنے کا مشورہ دیا
جائے گااور جرمنی نے بھی مریضوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظرایک لائحہ عمل طے
کیا ہے جس کے سبب طے کیا جائے گا کہ کن مریضوں کو ترجیح دی جائے۔ امریکہ
میں وینٹیلیڑزکی کمی تشویش کا با عث ہے۔وائرس جو اتنی تیز رفتاری سے پھیلتا
جارہا ہے، یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ کب،کہاں اور کیسے ختم ہوگا؟
اس وائرس سے عالمی منڈی بری طرح گر چکی ہے غور طلب با ت یہ ہے کہ طاقتور
ممالک اس کا
مقابلہ کیوں نہیں کر پا رہے؟ان کی طاقت صرف ہتھیاروں تک محدودکیوں؟کیا طبی
میدان میں یہ تیار نہیں۔ماضی میں بھی ایسی بیماریاں آتی رہی ہیں جیسے
کہ1956میں Asian Flu جس نے20لاکھ لوگوں کو متاثر کیاپھر1948میں flu
pandemic جس سے دس لاکھ لوگ متاثر ہوئے اس کا پہلا مریض ہانگ کانگ میں سا
منے آیا۔پھر اس نے سنگاپور،ویت نام،فلپائن،انڈیا،آسٹریلیا،یورپین ممالک اور
امریکہ کو اپنی زد میں لے لیا۔جبکہ1918میں Spanish Fluنے۰ ۵ملین لوگوں
کومتاثرکیاجو کہ دنیا کے ایک بڑی آبادی کے لئے خطرناک ثابت ہوا۔
2015میں مائیکروسوفٹ کمپنی کے بانی بل گیٹس نے اپنی ٹیڈ ٹاک(TED Talk) میں
واضح طور پرپیشن گوئی کی تھی کہ دنیاکوآنے والے وقتوں میں طبی جنگ کا سامنا
ہو گا اور عالمی وباہمارے سروں پر موجود ہے۔ جس کے لئے ذہنی طور پر
تیاررہنا ہے اور اس سے بچاؤ کا انتظام بھی کرنا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل
ذکر ہے کہ 1918کی وبا سے بہت کچھ سیکھا جا سکتاہے۔طبی ماہرین پر امید ہیں
کہ کرونا سے اتنا نقصان نہیں پہنچائے گا جس قدر ’اسپینش فلو‘کی وجہ سے
پہنچاکیونکہ اس وقت دنیا ویسے بھی جنگ عظیم میں گھری ہوئی تھی اوراس وقت
ٹیکنالوجی بھی قدرے ترقی کر چکی ہے۔اس لئے بہتری کی امید کی جاسکتی ہے مگر
ہونے والے جانی و مالی نقصانات کو پھر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس تاریخ کومد نظر رکھتے ہوئے طبی ما ہرین کوئی حکمت عملی تیارکرسکتے تھے۔
یہ حقیقت ہے یہ وائرس جتنی تیزی سے پھیل رہا ہے اس میں ویسکین کی تیاری ایک
مشکل عمل ہے کیونکہ فی الحال ہر ایک اس وبا سے بچاؤ کی کوشش میں مصروف ہے۔
کیاکوئی ایسی حکمت عملی ممکن نہیں جس سے ایسی وبا پھوٹنے سے پہلے ہی بچاؤ
کی تدبیر ممکن ہو سکے اور زیادہ نقصان سے بچا جا سکے۔لوگوں میں شعور پیدا
کیا جا سکے تاکہ آنے والے وقتوں میں دنیا کو اگر اس قسم کی وبا کا سامنا کر
نا پڑے تولاک ڈاؤن ہونے کی صورت میں بھی دنیاکی معیشت کو نقصان سے بچایا جا
سکے۔ہم سرحد پر لڑنے والی جنگوں کے لئے تو تیار ہیں مگر کیا انسان کے اپنے
جسم میں وقوع پذیر ہونے والی جنگ سے بھی با خبر ہے؟
|