کورونا نے عالم انسانیت کے سامنے غیر معمولی چیلنج پیش
کیا ہے۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے ملک اور دنیا میں بہت سے قدم اٹھائے جا رہے
ہیں۔بہر حال کورونا نے دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ڈولتی معیشت کو برباد
کرکے رکھ دیا ہے۔وزیر اعظم کسی طور لاک ڈاؤن یا کرفیو کے حق میں نہیں
ہیں،مگر انہیں مجبوراًلاک ڈاؤن کافیصلہ ماننا پڑاہے۔پاکستان کی تاریخ میں
یہ پہلا لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔دنیا میں پہلا لاک ڈاؤن امریکہ نے 9/11 کے
دہشت گردی کے واقع پر تین دن تک کیا تھا۔دوسرا بوسٹن کو دہشت گردوں کی تلاش
، تیسرا پیرس حملے کے بعد مشکوک لوگ پکڑنے کے لئے بروسیلس لاک ڈاؤن کیا گیا
تھااور چوتھا جو حالیہ تاریخ کا بد ترین لاک ڈاؤن جس پر انسانیت شرمندہ
ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی وہ کشمیر میں لاک ڈاؤن جو کہ مودی سرکار کی سب سے
بڑی دہشت گردی ہے اورجس کے 240 دن ہو چکے ہیں،اس پر دنیا بھر کے ممالک اور
اعلیٰ قیادت نے مذہمتی بیانات تو دیئے ،مگر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا،لیکن
اب جو پوری دنیا لاک ڈاؤن کی جانب جا چکی ہے اس کی نوعیت مختلف ہے۔دنیا
کہتی ہے کہ یہ انسانوں کی زندگی بچانے کے لئے لاک ڈاؤن کیا جا رہا ہے،لیکن
بعض ہوشمند لوگ اسے کشمیریوں کے ساتھ زیادتی پر دنیا بھر کی خاموشی کی سزا
سمجھتے ہیں۔پاکستان نے بھی دنیا کی پیروی کرتے ہوئے پورا ملک لاک ڈاؤن
کردیا ،مگر عمران خان لاک ڈاؤن سے مطمئن نہیں ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری
حکومت اورملک لاک ڈاؤن کوبرداشت نہیں کر سکتا۔یہ حقیقت بھی ہے،کیوں کہ اگر
سب گھروں میں بیٹھ جائیں گے تو ریاست ان کے تمام تر اخراجات کی ذمہ دار ہو
گی،لیکن بقول عمران خان ریاست کے پاس عوام کو ریلیف دینے کے لئے پھوٹی کوڑی
نہیں ہے ۔ادھر وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن کے اثرات بھارت میں دیکھ لئے ہیں،جہاں
لاک ڈاؤن کے سبب بھوک نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔تجارتی و کاروباری پابندی کی
وجہ سے کروڑوں بھارتی مزدور اور غریب طبقہ بھوک سے بے حال ہے ۔حکومت کی
ناقص حکمت عملی وہاں بھی مسائل کی جڑ بن چکی ہے ۔جس کی وجہ سے اس وقت بین
الریاستی سرحدوں پر 20لاکھ سے زائد دہاڑی دار مزدور پھنس چکے ہیں۔کھانے
پینے سے محروم لاکھوں مزدور مودی کو کوس رہے ہیں اور غریب طبقہ بھوکوں مرنے
کی دہائیاں دے رہا ہے۔بھارت میں تمام مسائل مودی سرکار کی بد انتظامی کی
وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔کیوں کہ عمران خان کی حکومت بھی بد انتظامی میں اعلیٰ
درجہ رکھتی ہے۔اس لئے انہیں بھی ویسے ہی خدشات لاحق ہیں جو بھارت میں پیش آ
رہے ہیں۔اسی لئے وزیر اعظم نے بنی گالہ میں پاکستان تحریک انصاف کی کور
کمیٹی کا اجلاس طلب کیا اور فیصلہ کیا کہ ہائی ویز سمیت تمام شاہراہیں کھول
دی جائیں اور مال بردار ریل گاڑیوں کی آمدورفت بحال کرنے کا فیصلہ بھی کر
دیا گیا۔حیرت ہے کہ فی لحال مسافر ٹرینیں بند رکھنے کا کہا گیا ہے،کیوں کہ
ان ذہین کورکمیٹی ممبران کو غریب مسافروں کا درد ستا جاتا تو وائرس جلد
پھیلنے کا خدشہ ضرور تھا۔وزیراعظم کے رفقاء نے تعمیراتی انڈسٹری فوراً
آپریشنل کرنے کی تجویز دے ڈالی ۔ان کے خیال میں اس سے روزگار سمیت 40صنعیتں
کام کرنا شروع کر دیں گی۔
اب عوام اور وہ نام نہاد دانشور خوابوں کی دنیا سے باہر نکل آئیں اور حقیقت
کا سامنا کریں۔یہ جان لیا جائے کہ آپ کچھ بول لیں ،لکھ لیں یا کوس لیں،عوام
کی فلاح و بہبود یا ان کی زندگیوں کی حفاظت کے بارے میں کچھ نہیں سوچا جائے
گا۔بڑے سے بڑا واقع ہو جائے ،غریب کے بچے کو نوالہ کھیلانے کی ذمہ داری
قبول نہیں۔کورونا وائرس سے ہزاروں لاکھوں زندگیاں خطرات میں گھر
جائیں،مگرحکومت کی جانب سے زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے ٹاسک سونپے جا رہے
ہیں۔وزیراعظم کے بقول انہیں کورونا وائرس کی وبا کا کئی ماہ سے خبر
تھی،لیکن اس سے مقابلہ کرنے کے لئے لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا۔پاکستان
میں 16سو سے زائد کورونا وائرس سے متاثر سامنے آئے ہیں ۔ابھی ملک میں
کورونا ٹیسٹ کا کوئی مؤثرسسٹم موجود نہیں ۔اسرائیل نے روزانہ تیس ہزار ٹیسٹ
کی لیبارٹریاں بنا لی ہیں،مگر ہمارے ہاں ٹیسٹ پلیٹس ہی موجود نہیں۔پرائیویٹ
لیبارٹیاں بھاری رقم لے کر ٹیسٹ کرتیں ہیں،عام غریب آدمی کسی صورت ٹیسٹ
نہیں کروا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ ابھی تک متاثرین کے اصل نمبر ظاہر نہیں ہوئے
۔ہسپتالوں میں کورونا سے متاثر مریضوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا جا رہا
ہے۔انہیں بے یارومدد گار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ڈاکٹرز کے پاس سیفٹی سہولیات
میسر نہیں ہیں۔حکومت کو سرکاری کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ لیبارٹریز میں بھی
غیر معمولی تیزی سے ٹیسٹ کی سہولیت میسر کرنا چاہیے،جس سے کورونا کے خلاف
جنگ میں مدد مل سکے۔
کورونا وائرس ایک مصیبت بن کر نوع انسانی پر نازل ہوئی ہے ۔جس سے دنیا بھر
کی حکومتیں ہک کر رہ گئی ہیں۔یہاں تک کہ امریکہ جیسی طاقت ور ترین ملک جس
کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کچھ عرصہ پہلے تکبرکا بھر پورانداز رکھتا،آج اس کی ٹانگے
پھول چکی ہیں ،ہاتھ ،پاؤں شل ہو چکے ہیں۔یورپ کے تمام ممالک اس وبا کے
سامنے بے بس ہو چکے ہیں۔کسی کو بالکل اندازہ نہیں کہ یہ بحران کب ختم ہو
گا۔دنیا بھر میں صرف ایک بحث ہے کہ اس عذاب سے نجات کیسے پائی جائے ؟
پوری دنیا اس مصیبت سے نبردآزما ہونے کے لئے یکجہتی کا مظاہرہ کر رہی
ہے۔لیکن ہماری ڈگر علیحدہ ہے۔کیوں کہ ہم ’’ڈکٹیشن‘‘پر چلنے والوں کی
حکمرانی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔حکومت کی بے حسی اور عوام کے ساتھ
دشمنی کی ایسی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی،میڈیا کو دبوچ لیا گیا
ہے،حزب اختلاف پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ ڈھائے گئے،سیاسی استحکام کو چکنا
چور کر دیا گیا،نفرتوں کے ایسے بیج بوئے جو کبھی بھی کاٹے نہیں جا سکیں
گے،لیکن وزیر اعظم کا غیر سنجیدہ رویہ ملک و قوم کو دلدل میں دکھیل چکا ہے
۔حکمرانوں کو اٹلی ،ایران اور سپین جیسے ممالک سے سبق سیکھنا چاہئے
تھا،کیوں کہ ان کے غلط اور دیر سے فیصلوں کی وجہ سے وبا بے قابو ہو
گئی،ہمارے حکمرانوں نے انہیں دیکھ کر بھی سبق نہیں سیکھا ۔ہم جب تک اپنے
فیصلے خود کرنے پر قادر نہیں ہوں گے نقصان اٹھاتے رہیں گے ۔
وبائیں قوموں پر خدائی پکڑ کی صورت میں اتاری جاتی رہی ہیں،آج بھی کورونا
وائرس کی وبا پکڑ نہیں تو اور کیا ہے؟جس سے پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہو چکا
ہے۔پوری دنیا حفاظتی اقدامات میں اپنی توانائیاں صرف کر رہی ہیں ۔مگر ہم
کیا کر رہے ہیں؟ہمارے ہاں کوئی سکریننگ کا انتظام فول پروف ہے․․․ہر جگہ
کچرے کے ڈھیر ہیں ،صفائی کے نظام کو بہتر کیا گیا․․․مردہ مرغیاں پکڑی جا
رہی ہیں،کیاکسی نے اس جانب توجہ دی ہے؟عوام کے ساتھ ایسی حادثات رونما ہوتے
ہیں کہ انسانیت شرمندہ ہو جاتی ہے ،لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اﷲ تعالیٰ
ہم سب پر اپنا رحم کرے اور ہمارے ملک کو اس وبا کی تباہ کاریوں سے محفوظ
رکھے۔بس یہی سب کے لبوں پر الفاظ ہونے چاہیے۔
|