چین سے شروع ہونے والاکوروناوائرس سپین اوراٹلی میں تباہی
مچاتے ہوئے اب امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کوناکوں چنے چبوارہاہے،کرونا
وائرس کی تباہی اس وقت پوری دنیا میں عروج پر ہے،دنیابھرمیں بیس ہزار سے
زائد لوگ ہلاک ہو چکے ،پانچ لاکھ سے زائد افراد اس بیماری میں مبتلا ہو چکے
، پاکستان میں بھی 1600کے قریب افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے اور درجن سے
زائدموات بھی ہوئی ہیں گو کہ شکر کا مقام ہے کہ صورت حال اب تک ایران اور
اٹلی کی طرح کی انتہا تک نہیں پہنچی،
اس بیماری کا سب سے زیادہ اثر پھیپڑوں پر ہوتا ہے۔ اور اس وائرس کی وجہ سے
مریض کو نمونیا ہو جاتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ پھیپڑوں کا کام اتنا کم ہوجائے
کہ وہ جسم اور جان کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے کافی نہ ہو۔ ایسی صورت میں
اگر مصنوعی سانس کی مشین یا وینٹی لیٹر (Ventilator) کے ذریعہ پھیپھڑوں کو
سہارا نہ دیا جائے تو مریض زندگی کی بازی بھی ہار سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے
کورونا کے اکثر مریضوں کو داخلے کی ضرورت نہیں پڑتی اور جو داخل بھی ہوتے
ہیں ان میں سے بہت کم تعداد کو مصنوعی سانس کی مشین یا وینٹی لیٹر کی ضرورت
پڑتی ہے لیکن جو مریض موت کے منہ میں جا رہے ہوں اور اب ہزاروں مریض دنیا
بھر میں موت کے منہ میں جا رہے ہیں، ان کی زندگی بچانے کے لئے یہ مفید ترین
ذریعہ ہے۔ یہ مشین ا س وقت تک جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھ سکتی ہے جب
تک جسم کی قوت مدافعت اس وائرس کو ختم کر دے یا پھر کوئی دوائی اپنا کرشمہ
دکھا کر مرض کا خاتمہ کرے۔
اس وجہ سے اس وقت پوری دنیا کے ممالک میں اس مشین کے حصول کے لئے ایک دوڑ
لگی ہوئی ہے۔ چین اب اس وبا پر قابو پا چکا ہے اور اس مشین کو بنانے کی
صنعتی صلاحیت سب سے زیادہ چین میں ہے۔ اس لئے اس وقت پوری دنیا چین سے ان
مشینوں کی فراہمی کے لئے رجوع کر رہی ہے۔ جن ممالک میں کسی حد تک ان کو
بنانے کی صلاحیت موجود ہے وہ ان کمپنیوں پر پورا زور ڈال رہے ہیں کہ وہ
ونٹیلیٹر بنانے کی رفتار تیز کریں۔ اٹلی کی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ جو
کمپنی وہاں پر ان کو بنا رہی ہے وہ مہینے میں 125 وینٹی لیٹرز بنانے کی
صلاحیت کو فوری طور پر 500 تک لے جائے۔
اس بحران سے نکلنے کے لئے ایک اور طریقہ یہ استعمال کیا جا رہا ہے جو
فیکٹریاں ان مشینوں کو نہیں بناتی لیکن یہ صلاحیت رکھتی ہیں کہ کچھ کوشش کر
کے ان کی پیداوار شروع کر دیں وہ ہنگامی بنیاد پر ان کو بنانا شروع کریں۔
مثال کے طور پربرطانوی وزیر اعظم بورس جانسن صاحب نے گاڑیاں بنانے والی
کمپنی جیگوار تک کو ہدایت کی ہے کہ وہ ونٹیلیٹر (Ventilators) کی پیداوار
شروع کرنے کی کوشش کرے۔ اس پہلو سے تیاری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے
لگایا جا سکتا ہے کہ کل نیویارک کے گورنر نے اپنے ملک کی مرکزی حکومت اور
صدر ٹرمپ کو اس بات پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ ہمیں ہزاروں کی
تعداد میں وینٹی لیٹروں کی ضرورت تھی اور اس کی نسبت بہت کم تعداد مہیا کی
گئی۔
یہ قابل تحسین بات تھی کہ اس موضوع کی ا ہمیت کے پیش نظر 24 مارچ کو پریس
کانفرنس میں وزیر اعظم اور این ڈی ایم اے کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل افضل نے
وینٹی لیٹرز کی دستیابی کے بارے میں قوم کو اعتماد میں لیا۔ بہتر ہوتا اگر
اس پریس کانفرنس سے قبل دونوں کو اپنے پاس موجود اعداد و شمار کا موازنہ کر
لیتے۔ کیونکہ جنرل افضل صاحب فرما رہے تھے کہ پہلے ہمارا اندازہ تھا اور
میں نے اس کا ذکر بھی کیا تھا کہ ملک کے پبلک سیکٹر میں 2200 کی تعداد میں
وینٹی لیٹر موجود ہیں اور وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پہلے ہمارا خیال تھا کہ
ملک میں 1500 کی تعداد میں یہ مشینیں موجود ہیں۔ ایسے بحران میں اس قسم کے
حساس معاملے میں حکومت کے پاس معین اعداد و شمار ہونے چاہییں۔
اس کے بعد جنرل صاحب نے بتایا کہ پبلک سیکٹر میں جتنی تعداد میں یہ مشینیں
موجود تھیں ان میں سے نصف اس وقت کام نہیں کر رہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس
وقت ملک میں صرف آٹھ سو سے بارہ سو ونٹیلیٹر موجود ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے
کہ پوری دنیا کئی ہفتے سے اس بحران کا شکار ہے۔ اور کم از کم پبلک سیکٹر
میں کتنے وینٹی لیٹر کام کر رہے ہیں اور کتنے بیکار پڑے ہیں یہ اعداد و
شمار تو چند روز میں جمع ہوجانے چاہیے تھے لیکن صوبائی اور مرکزی حکومتیں
مل کر کئی ہفتے تک یہ اعداد و شمار ہی جمع نہیں کر سکیں۔یہ تو ٹھیک ہے کہ
جب کوئی مشینری استعمال ہو رہی ہو تو اس کی ایک شرح ضرور خراب ہوتی ہے لیکن
ونٹیلیٹر جیسی حساس مشینوں میں سے آدھی خراب پڑی ہوں یہ ایک ایسی صورت حال
ہے جس پر ویسی ہی تحقیق ہونی چاہیے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اور جنرل صاحب
نے اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ جب نئے وینٹی لیٹر میسر نہیں ہو رہے تو
ان کو مرمت کرانے کا کیا انتظام کیا گیا ہے؟ اور پرائیویٹ سیکٹر میں ان کی
فراہمی کی کیا صورت حال ہے، ان اعداد و شمار کا بھی ذکر نہیں کیا گیا،سب کو
معلوم ہے کہ و ینٹی لیٹر ایک مہنگی مشین ہے اور یہ ریوڑیوں کی طرح نہیں
خریدے جا سکتے۔ ایک وینٹی لیٹر خریدنے پر بیس لاکھ روپِے سے زائد خرچ ہو
سکتا ہے۔
ایک موازنہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں کتنے وینٹی لیٹر ہیں اور کتنے ٹینک
ہیں؟ اور دنیا کے مختلف ممالک میں کتنے ونیٹی لیٹر اور کتنے ٹینک ہیں؟ یہ
تو سب جانتے ہیں کہ ایک ٹینک خریدنے پر تو کروڑوں روپے خرچ آتے ہیں۔ کئی
پڑھنے والے سوچیں گے کہ کیا ہو گیا ہے؟ موجودہ حالات سے یہ کیساموازنہ
کررہاہوں لیکن میری گزارش ہے کہ اس سے کم از ہماری ترجیحات کا اندازہ ہو
جاتا ہے،روس کے پاس 42000 وینٹی لیٹر ہیں اور ان کی فوج کے پاس تیرہ ہزار
ٹینک ہیں۔ امریکہ کے پاس 62 ہزار وینٹی لیٹر اور چھ ہزار تین سو ٹینک ہیں۔
بھارت کے پاس بیالیس ہزار وینٹی لیٹر اور چار ہزار تین سو ٹینک ہیں، چین کے
پاس 2011 میں ساٹھ ہزار وینٹی لیٹر تھے اور اب ان کی تعداد بہت زیادہ ہو
چکی ہے۔ اور چین کی فوج کے پاس ساڑھے تین ہزار ٹینک ہیں۔ جرمنی کے پاس پچیس
ہزار وینٹی لیٹر اور صرف 245 ٹینک ہیں۔ برطانیہ کے پاس نو ہزار سے زاید
وینٹی لیٹر اور صرف 227 ٹینک ہیں،فرانس کے پاس پانچ ہزار وینٹی لیٹر اور
530 ٹینک ہیں۔ اور اب وطن عزیز پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں شکر ہے کہ ہمارے
پاس 2200 ٹینک موجود ہیں۔ اور اگر آپ بھول گئے ہیں تو یاد کرا دوں کہ ہمارے
پاس صرف ایک ہزار یا اس سے بھی کم وینٹی لیٹر کام کر رہے ہیں،اتنی طویل
فہرست میں صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس کے پاس موجود ٹینکوں کی تعداد
وینٹی لیٹروں کے تعداد سے زیادہ ہے ،کیاہم صرف جنگوں کی تیاریاں ہی کرتے
رہینگے؟ کیاانسانی جان بچاناہماری ترجیح کبھی ہوگایانہیں؟
یہ صورتحال صرف اس حکومت میں پیدا نہیں ہوئی، اب بحران شروع چکا ہے یہ
صورتحال کئی مہینوں میں بھی درست نہیں کی جا سکتی کیونکہ دنیا بھر میں
وینٹی لیٹرزکی ایک سال کی پیداوار پہلے ہی خریدی جا چکی ہے، ہماری تمنا ہے
کہ یہ بحران ٹل جائے اور ہمارے ملک میں تباہی نہ پھیلائے لیکن کیا اب بھی
وقت نہیں آیا کہ ہم کچھ غلطیاں درست کر لیں۔
|