کورونا وائرس ‘عبرت اور احتیاط کی ضرورت!

 کرہ ارض پر آباد دنیا کے ممالک کو آج اکیسویں صدی کی وبا کورونا وائرس کا سامنا ہے یہ ان دیکھا عجیب و غریب دشمن ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہو کر اژدھا بن کر نگلتا جا رہا ہے ۔کورونا وائرس عالمی سازش ہے یا پھر قدرتی آفت لیکن دنیا کی میڈیکل سائنس کی درماندگی کا یہ عالم ہے کہ اس وبا کی نہ کوئی ویکسین اور نہ ہی کوئی علاج دریافت ہو سکا کورونا پر نظر رکھنے والے ادارہ’’کووڈ19اسٹڈی گروپ‘‘ نے آگاہ کیا ہے کہ مئی تک اس کے اعداد و شمار تیرہ لاکھ تک پہنچ سکتے ہیں۔کورونا وائرس سے مقابلہ کرنے کے لئے دنیا اس کی ماہیت‘تشخیص اور علاج سے جڑے امور کو سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے ایشیاء سے لے کر یورپ تک جتنے بھی ممالک اس وبا سے متاثر ہوئے ہیں وہاں کے لوگوں کے لئے ان کی سر زمین تمام تر وسعتوں کے باوجود سمٹتی جا رہی ہے عسکری ‘معاشی‘سیاسی اورنیو کلئر طاقت کے ذریعے بزعم خویش کمزور ممالک کے فیصلے کرنے کی قدرت رکھنے والے طاقتور قوتیں بھی اس کورونا وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہیں۔قیامت سے قبل قیامت کی دلدوز جھلک ہے چاند پر بسیرا کرنے والے انسان کو اس وبا نے دن میں تارے دکھا دئیے دنیا کو فتح کرنے کی دعویدار طاقتیں اﷲ کی قدرت کے سامنے بونا بن گئی بلا کے ذہین دماغ ماؤف اور شل ہو گئے جنگوں میں بڑے بڑے جدید ہتھیاروں کو آزمانے والی زمینی طاقتیں میزائل اور راکٹ کی بجائے ایک ایسی دوا کی تلاش میں پاگل ہیں جو انہیں زندگی کی ضمانت فراہم کر دے۔اس وائرس کے سامنے دنیا کے عسکری عزائم کی ہوا نکل گئی اکیسویں صدی کے انسان کے لئے زندگی کی بقاء کا مسئلہ ہمالیہ بن کر کھڑا ہو گیا براعظم سنسان اور دنیا کے ممالک ویران ہو گئے شہر قبرستان بننے لگے انسان آدم بیزار ہو گیا۔کورونا وائرس جیسے دشمن سے لڑنے کا صرف ایک ہی حل ہے کہ گھروں کی چار دیواری میں قید ہو جاؤ‘دبک جاؤ اور گوشہ نشینی اختیار کر لو جس پر اس کا سایہ پڑا وہ بے سدھ ہو گیا جسم اور صحت نے ساتھ دیا تو بچ گیا ورنہ چت ہو گیا۔چین تو اس قیامت کا مرکز تھا لیکن موت کا یہ سفر اب اٹلی‘ایران‘فرانس‘جرمنی‘اسپین‘ اور برطانیہ سے ہوتا ہوا امریکہ کے ساتھ 190ممالک کو اپنے نقشہ کا حصہ بنا چکا ہے دنیا اس کی جان لیوا ہولناک آہٹ سے دبک کر بیٹھ چکی ہے دنیا آج جنگ عظیم دوئم کے بعدکورونا وائرس جیسے خطرناک دشمن کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اس وائرس سے اب تک 34ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے اور اس سے متاثرہ افراد کی تعداد آٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔دنیا کو یقین نہیں تھا کہ چین کے شہر ووہان سے انگڑائی لینے والا کورونا وائرس اژدھا بن کر بے دریغ انسانوں کو نگلنا شروع کر دے گا دنیا کے سامنے اس جنگ کو جیتنے کا صرف ایک ہی راستہ اور حل بچا ہے کہ اپنے آپ کو گھروں تک محدود کر کے خود کو محفوظ بنا لو اس کے علاؤہ ابھی تک کوئی حل موجود نہیں ہے۔طبی ماہرین نے دنیا کو خبردار کر دیا ہے کہ کورونا وائرس انتہائی سرعت کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے اس سے نمٹنے کے لئے دنیا کو سخت اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے چین اب سرخیوں سے ہٹ چکا لیکن چین کی اس وائرس کیخلاف جنگ نے دنیا کو اس سے نمٹنے کے لئے ایک سمت کا تعین کر دیا کہ اس وبا کا مقابلہ کیسے کرنا ہے خوف بڑھتا جا رہا ہے اپریل کا مہینہ مارچ سے اور مئی کا مہینہ اپریل سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔اکیسویں صدی کی اس وبا سے دن بدن یہ احتمال بڑھتا جا رہا ہے کہ اس نئے وائرس کا دائرہ اختیار بڑھتا چلا جائے گا کورونا سرحدوں کی شناخت کئے بغیر پھیل کر سیاہ موت بن کر انسانوں پر منڈلا رہا ہے ہزاروں افراد اس وائرس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہر طرف ہوکا عالم ایک مہیب سا سناٹا طاری ہے علمی ترقی اور میڈیکل سائنس پر دسترس کا دعویدار انسان آج جان چکا ہے کہ اﷲ تعالی نے اسے کتنا ضعیف خلق فرمایا ہے۔اس دور جدید میں اگر ترقی یافتہ ملک کا وزیر اعظم اس وائرس کے سامنے اپنی بے بسی کا رونا روتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ہم نے زمین کے سارے وسائل استعمال کر کے دیکھ لئے اب تو آسمان سے کسی مدد کے منتظر ہیں تو انسان کو سمجھ لینا چاہیے سائنس کے بل بوتے پر انسان جتنی چاہے ترقی کر لے لیکن قدرت کے رموز و اسرار پر دسترس حاصل نہیں کر سکتا یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسان کو قدرت کے فیصلوں کے سامنے سر خم تسلیم کرتے ہوئے رجوع الہی کی دعوت دے رہی ہے۔اکیسویں صدی کا انسان پریشان ہے کہ وہ اس وبائی مرض سے کیسے خلاصی حاصل کرے گا اسے کب راحت نصیب ہو گی لیکن یہ سوچ قبل از وقت ہے ایک چوتھائی دنیا کو اس وائرس نے لاک ڈاؤن کر دیا ہے۔تاریخ کا مشاہدہ ہمیں بتاتاہے کہ جب چھٹی صدی عیسوی میں طاعون جیسی بیماری پہلی بار چین کے ایک صوبے سے نمودار ہوئی تو اس نے 1330سے1350تک 75ملین افراد کو نگل لیا تھا مغرب میں جب یہ بیماری عام ہوئی تو اس کی آدھی آبادی لقمہ اجل بن گئی اس وبا کے سبب پورے یورپ سے ایک تہائی آبادی کا خاتمہ ہوا اس کے بعد اسپینی انفلونزا نامی وبا نے 1918سے1920کے درمیان دنیا کی تقریبا پانچ سو ملین افراد کو متاثر کیا اور پچاس سے سو ملین افراد اس وبائی مرض کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئے انیسویں صدی میں وبا المناک بیماری کے ہاتھوں پوری دنیا میں دسیویں ملین افراد لقمہ اجل بن گئے بیسویں صدی میں ایڈز جیسی بیماری کے باعث گذشتہ چار دہائیوں کے دوران اب تک 23ملین افراد موت کی آغوش میں جا چکے ہیں تحقیق کے مطابق 2025ء تک اس بیماری میں مبتلا ہونیوالے افراد کی تعداد صرف افریقہ میں نوے سے سو ملین تک پہنچ جائیگی۔تاریخ کی اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو سمجھ آتی ہے کہ وبائی امراض کا نشانہ ہر وہ انسان ہے جو اس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر نہیں اپناتا’ یہ عبرت کی جاہ ہے تماشا نہیں ہے‘ پاکستان میں حکومت کی جانب سے جاری تدابیر پر عمل کرنے کی بجائے نڈر ہو کر اسے مذاق بنا یا جا رہا ہے سوشل میڈیا کا جائزہ لے لیں خرافات اور توہمات کا بازار گرم ہے بے پر کی افواہوں پر مبنی خبروں نے انسان کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ دانشوران قوم‘حکومت اور میڈیکل ایکسپرٹس کی بتائی گئی زریں احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے نہ کہ نڈر بن کر احتیاطی تدابیر کو یکسر نظر انداز کر کے اس کا شکار ہو جائیں مؤرخ اس وائرس کی سفاکیت کے ہاتھوں انسانی اموات کی المناک تاریخ رقم کرنے کے لئے انتظار میں ہے تاریخ پر نظر رکھنے والے اور وقت کی سنگینی کا ادراک کرنے والے اس سفاک دشمن سے احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہو کر ہی بچ سکتے ہیں اگر اس وائرس کو شکست دینی ہے تو اس سے اتنا ڈرنا بھی نہیں کہ یہ ہم پر غالب آجائے کورونا سے ڈرنا نہیں لیکن احتیاطی تدابیر اپنا کر اس سے لڑنا ہے اﷲ تعالی ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اورہم سب کو اس وبا سے محفوظ رکھتے ہوئے جلد نجات عطاء کرے۔آمین

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Rao Ghulam Mustafa
About the Author: Rao Ghulam Mustafa Read More Articles by Rao Ghulam Mustafa: 22 Articles with 14725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.