کیا ہم واقعی مسلمان ہیں؟

31 دسمبر 2019 کو چین کے شہر ووہان میں ایک وائرس کا انکشاف ہوا جس کو کورونا وائرس کہتے ہیں۔ وجہ یہ بتائی گئی کے یہ وائرس چمگاڈر اور چوہے کھانے سے پھیلا ہے تو حسب معمول ہم نام نہاد مسلمانوں میں اس خوش فہمی نے جنم لیا کہ چین پہ یہ اللہ‎ کا عذاب آیا ہے کیوں کے وہ حرام جانور کھاتے ہیں اگر وہ صرف حرام جانور کھاتے ہیں تو ان پہ اتنا مشکل وقت آیا ہے تو ہم مسلمانوں کے جو اعمال ہیں ہم تو کس قدر عذاب کے حقدار ہیں۔

آج زرا ہم اپنے اوپر نظر ڈالتے ہیں ذرا سوچیں وہ کونسے گناہ ہیں جو ہم نہیں کرتے وہ کونسی ایسی برائیاں ہیں جو ہم میں موجود نہیں دوسروں کا حق ہم کھاتے ہیں۔ چوری ہم کرتے ہیں جس کے بارے میں میرے نبیؐ نے فرمایا تھا کہ "اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اسکے بھی ہاتھ کاٹ دیتا"۔ ناپ تول میں کمی ہم کرتے ہیں کہ ناپ تول میں کمی کرنے پہ ایک قوم کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ دوائیاں ہم جعلی بنا کے بیچتے ہیں۔ اور اگر ملک میں کوئی آفت یا مصیبت آ جائے تو جس چیز کی ضرورت ہو اسکو ہم اسٹور کر لیتے ہیں بلیک میں بیچنے کیلئے ۔پیسوں کے لالچ میں ہم غیر ضروری آپریشن بھی کر دیتے ہیں۔ کھانے کی ہر چیزسبزیاں پھل مصالحےملاوٹ زدہ ہیں یہاں تک کہ گدھے کتے اور مینڈک تک کا گوشت فروخت کر کے انسانی جان سے کھیلتے ہیں

سڑکوں پل اور بلڈنگ میں ہم غیر معیاری اور ناقص میٹریل استعمال کرتے ہیں۔ اور انسانی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ گیس ہم چوری کرتے ہیں بجلی ہم چوری کرتے ہیں۔ رشوت کا دور دورہ ہے سفارش کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ سود ہم لیتے ہیں۔ بلکہ ہمارے معاشی نظام کا بہت سا حصہ چل ہی اس پہ رہا ہے۔
ہر طرف فحاشی و عریانیت پھیلتی جا رہی ہے زنا عام ہو رہا ہے کہ 4 سال کی بچی محفوظ نہیں شراب ہم پیتے ہیں۔ یہاں تو عورتیں عورتوں کے پردے کا مزاق بناتی ہیں غیر مردوں اور عورتوں کی دوستیاں عروج پر ہیں۔

امیر آدمی کو قصوروار ہوتے ہوئے بھی چھوڑدیا جاتا ہے اور غریب آدمی کو بے قصور ہوتے ہوئے بھی جیل میں قید کر دیا جاتا ہے

اللہ‎ کے احکامات اور اسلامی تعلیمات کی یہاں سر عام خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ کونسی ایسی اخلاقی و معاشرتی برائیاں ہیں جو ہم میں موجود نہیں۔ ہم سے پہلی قوموں کو صرف ایک خرابی کی وجہ سے تباہ و برباد کر دیا گیا تھا۔ تو کیا ابھی بھی اللہ ہم سے ناراض نہ ہو۔ خانہ کعبہ کا طواف رک جانا، مسجدوں کو تالے لگ جانا۔ کیا یہ سب میرے رب کی ناراضگی نہیں؟ یہ جو کرونا وائرس آیا ہے اگر سمجھو تو یہ ہمارے اعمال کی سزا ہے۔ لیکن ہم تو اپنے اعمال ٹھیک کرنے کی بجائے ہر کام کی ذمہ داری دوسروں پہ ڈال کہ بری الذمہ ہو جاتے ہیں ۔

ہم نے پاکستان کو اسلام کے نام پہ حاصل کیا تھا لیکن مغرب کی نقل میں ہم نے تمام اقدار اور اسلامی روایات بھلا دیں اور پاکستان کو ایک اسلامی مملکت بنانے سے قاصر ہی رہے۔

سنبھل جائو مسلمانوں سنبھل جائو۔ ابھی بھی وقت ہے۔ ابھی تو صرف یہ کرونا وائرس آیا ہے آگے نہ جانے کون کونسے عذاب جھیلنے پڑیں گے۔ ابھی بھی وقت ہے ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں۔

کیونکہ یہ تو حقیقت ہے کہ ہم نے مرنا ہےاگر کرونا وائرس سے ہم نے سبق سیکھ لیااور ہم اپنے رب کے قریب ہو گئے تو ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر ہم نے یہ تمام خرابیاں چھوڑ دیں اور صحیح معنوں سے اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو گئے تو اللہ پاک بھی ہمیں معاف کر دیں گے۔

اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دیں۔ اور نیک راہ پر چلائیں۔ اور ہم سب کو اس کرونا وائرس اور تمام بیماریوں سے محفوظ رکھیں۔ اور ہمارا خاتمہ ایمان پہ کریں آمین یا رب العالمین


 

Ayesha Maryam
About the Author: Ayesha Maryam Read More Articles by Ayesha Maryam: 3 Articles with 3744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.