اندھوں کی نگری


صبحِ نو کا آفتاب جب مشرق سے جھانکتا ہوا بلندی کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے ،رات کی سیاہی عدم کی راہی ہوتی ہے،سارا عالم آفتاب کے نور سے منور ہوجاتا ہے تو اندھیروں میں ڈوبی ہوئی دنیا سکھ کا سانس لیتی ہے ،چڑھتے سورج کی شان وشوکت کسی تعریف و تعارف کی محتاج نہیں ہے اور نہ دن کو رات کہنے سے اس کی آب و تاب پر کوئی فرق پڑتا ہے اس کی چمک دمک اپنا لوہا خود منواتی ہے تمام اہل بصیرت اس حقیقت سے آشکار ہوتے ہیں کہ ان کی تاریک دنیا میں آج جن کرنوں نے روشنی کا انقلاب برپا کیا ہے ان کا مرکز و منبع آسمان پر چمکنے والا یہی سورج ہے ، البتہ بصارت سے محروم شخص روشنی اور تاریکی کے اس فرق کو محسوس کرنے سے قاصر رہتا ہے، جس کی قسمت میں اندھیرا ہو اس کی بلا سے اندھیری رات رہے یادنیا رنگا رنگ روشنیوں سے منور ہو جائے،کوئی جتنا بھی روزِروشن کے گُن گاتا رہے، اندھوں کے لیے سب لا یعنی ہے۔

اس کائنات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کی وحشت بڑھی تو رب العالمین نے اس دنیا کے باسیوں پر احسان عظیم فرمایا اور عرب کے افق سے ہدایت و رحمت کا وہ آفتاب ِ موعود اپنی بھرپور رفعت و عظمت کے ساتھ طلوع ہوا جس کو کبھی غروب نہیں ہونا تھا،جس کی قسمت میں ہمیشہ کا عروج تھا ،زوال سے جس کو کوئی سروکار نہیں تھا ، تاریک راتوں کی ہولناک سیاہی سے بجھتی آنکھوں نے روشنی کے آثار دیکھے تو مرجھائے ہوئے چہرے کھلنے لگے ،رحمت عالمؐ کا نور بکھرا تو گمراہی کے اندھیروں نے اپنی راہ لی، وسطِ عرب سے مہکنے والی خوشبو نے رفتہ رفتہ دنیا کو اپنے مبارک حصارمیں لے لیا،حقیقت تو یہ ہے کہ قابلِ صد تکریم نبی کریم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی قدرکو جو مقام و مرتبہ خالق کائنات نے عطا کیا اس کی بلندیوں کو الفاظ و خیالات کی حدمیں مقید کرنا تحریر و تقریر کے فن سے بالا تر ہے،
بقول شاعر ؂
میرے خیال نے جتنے بھی لفظ سوچے ہیں
تیرے مقام تیری عظمتوں سے چھوٹے ہیں

آپ ؐ کی ذات اقدس پر اﷲ تعالیٰ کے عنایت فرمودہ مقام ارفع کے موافق راسخ یقین رکھناایمان کی شرط ہے، اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کی نبوت کو کسی ایک علاقے ، طبقے یا مخصوص وقت تک محدود نہیں فرمایا بلکہ قیامت تک تمام کائنات کے لیے رحمۃللعالمین بنا کر مبعوث فرمایا، اﷲ کی قدرت جب مہربان ہوتی ہے تو بلا امتیاز ہر چیز پر رحمت کی بارش برستی ہے لیکن یہ عزت سب کو راس نہیں آتی ۔ مشت ِ خاک بن کر اﷲ کی رحمت کا اثر لینے والے مٹی کی طرح نرم پڑ جاتے ہیں لیکن پتھر دلوں کے مقدر کی سختی اس قدر شدید ہے کہ برس ہا برس کی باران رحمت بھی ان کے حق میں بے سود ہے گویا کہ اﷲ کی مُہر ثبت کر دی گئی ۔ روز روشن کو سیاہ رات سے تاویل کرکے خود کو دھوکہ دینے والے اسی دنیا میں آباد ہیں گویا سورج کی طرف تھو ک کر خود اپنی ہی ذات کو داغدار کرنے میں مصروف عمل ہیں۔نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو اپنے مذموم دنیاوی مفادات کے پیش نظر توہین کا نشانہ بنانا اور آپ ؐ کے تاج و تخت ختم نبوت پر نقب لگانے کی ملعون کوشش محض اس پرفتن دور کی اختراع نہیں بلکہ ان سازشوں کا آغاز خیر القرون ہی سے ہو گیا تھا۔ خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو سب سے پہلے اس آزمائش سے سابقہ پڑا جب آپؓ کے دور خلافت میں مسیلمہ کذاب اور اسود عسنی وغیرہ جیسے جھوٹے دعویداران نبوت نے سر اٹھایا ۔ جانشین ِ نبوت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی ہمت وجرأت کے مدمقابل یہ فتنہ خس و خاشاک ثابت ہوا ۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لیے جن تیس جھوٹوں سے امت کو خبردار فرمایا تھا یہ ان کی پہلی کڑی تھی۔تاریخ کے مختلف مراحل میں امت مسلمہ کو اس ضمن میں بارہا کٹھن امتحانات سے واسطہ رہا لیکن جب جب بھی کسی فتنے نے سر اٹھایا اﷲ والوں کی کاری ضرب نے اس کو عبرتناک انجام سے دو چار کیا ، پھرتاریخ کا ورق پلٹا تو قرب قیامت کا یہ دور بھی چشم فلک کو دیکھنا تھا جس میں ناموس رسالت کے خلاف انتہائی منظم اور خطرناک سازشیں رونما ہونے لگیں، آج ہمیں قادیانیت ،مرزائیت یا احمدیت کے نام سے جس مکروہ وملعون شرپسند گروہ کا سامنا ہے وہ بھی یقینا اسی قماش کا فتنہ ہے۔یہ وہی اندھے ہیں جو آسمان و زمین میں نورِمحمدیؐ کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ جنہوں نے دنیا کی چند روزہ زندگی کے مفادات کی لالچ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اخروی درد ناک عذاب کا انتخاب کر لیا ، حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی سے نکل کر انگریز کے غلام کو اپنا رہبر، مسیح موعود اور حتیٰ کہ اپنا نبی مان لیا،اندھوں کی نگری میں سورج کی بھرپور روشنی کے سامنے زیرو کے بلب پر انحصار کرلیاگیا جو اپنی مدھم روشنی کے لیے بھی فرنگی کرنٹ کا محتاج ہے

برطانوی سامراج نے برصغیر کے سرسبزو شاداب اور خوشحال خطے پر اپنے خونی پنجے گاڑے تو اپنے لالچ کا کنواں بھرنے کے لیے ظلم اور مکر و فریب کی کسی سازش کو بروئے کار لانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔اس بربریت کے خلاف مقامی حریت پسندوں نے جہاد کا عَلم بلند کیا ، دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ضدی کافروں کی سوچ یہ ہے کہ نماز، روزہ،حج ، ذکر الٰہی اور دیگر اسلامی عبادات ان کے لیے اس قدر خطرناک نہیں جتنا جہاد و قتال فی سبیل اﷲ ہے، جہاد ہی اﷲ تعالیٰ کا وہ حکم ہے جس سے باطل کی جان جاتی ہے اور وہ دم دبا کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے لہٰذا زمانہ ہائے قدیم و جدید میں اسلام مخالف قوتوں کی تنقید کا سب سے بڑا اور خاص نشانہ یہی فریضۂ جہاد ہے، انگریزوں نے اپنی دیرینہ مکارانہ خصلت کے تحت devide & rule کے منافقانہ اصول کو بروئے کار لاتے ہوئے جہاد پر براہ راست وار کیا۔فرنگی حکومت کی سرپرستی میں لوکل ضمیرفروش ایجنٹوں پر مشتمل ایک گینگ کو ہدف سونپ دیا گیا کہ وہ اسلام ہی کا لیبل لگاکر جہاد سے بالا بالا ایک متبادل شریعت قائم کریں۔یہی قادیانی مذہب کا نقطۂ آغاز تھا۔ظالموں نے قدم بڑھایا تو اپنی اوقا ت ہی سے باہر نکل گئے، اپنی حیثیت کی پستی کو یکسر فراموش کرکے بلندیوں پر حملے کی جسارت کی،براہ راست دینِ اسلام کے دل و جگر پر ہاتھ ڈالنے کی مذموم کوشش کی،نقب لگانے کے لیے حضرت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان ِ ختم ِنبوت کا انتخاب کر لیا،پوری امت مسلمہ کے جذبات سے کھیلنے کا ناپاک منصوبہ بنایا، اہل حق کے ایمان و صبر کو آزمانے کی ٹھان لی ۔ناموس رسالت کو نشانہ بنایا گیا تو ایمان والوں کا گویا خون کھول اٹھا۔غلاموں پر آقا ؐ کے جو حقوق ہیں وہ ایک امتی آپ ؐ کے شایان شان اداتو نہیں کرسکتا لیکن اﷲ تعالیٰ رحیم و کریم تو تھوڑی سی کوشش کو قبول فرما لیتے ہیں لہٰذا نعرہ ختم نبوت کا بلند ہوا تو محمود و ایاز اپنی انا اورترجیحات سے قطع نظر ایک ہی صف میں اکٹھے ہوتے دکھائی دیے۔دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کی تفریق پس پشت ڈال کر فتنہ ٔ انکار ختم نبوت کا مشترکہ مقابلہ ہی وقت کا اولین تقاضا تھا۔اسی بنیاد پر مسلمانوں کی صف بندی سے موثر تحریک کا آغاز ہوا جس میں قیام پاکستان کے بعدشدت پیدا ہوتی چلی گئی ۔خون کی آمیزش نے اس مہم کو سرخ کر دیا،بات حد سے بڑھنے کو آئی تو لہو کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ، بالآخر 7ستمبر1974 کا تاریخی دن وطن عزیز کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل قرار دیا گیا جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے مرزائیوں کے دونوں فرقوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔قادیان سے چناب نگر اور یورپ کے قادیانی مراکز تک شکست خوردہ طاغوت اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کرنے کی تگ و دو میں آج بھی سرگرم ہے۔مرزائی طبقہ کبھی تو اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل میں سرگرداں نظر آتا ہے اور کبھی بین الاقوامی سطح پر ان بااثر حکمرانوں کے سامنے اپنی بے چارگی کا رونا روتا ہے جن سے پاکستان کے بالواسطہ یا بلاواسطہ مفاد ات وابستہ ہیں۔یہود یوں کی بی ٹیم بن کر ملک ومذہب کے ساتھ خداری کرنے والے اس گروہ کو شدید خوش فہمی لا حق ہے کہ وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کے ذریعے پاکستانی ارباب اختیار پر دباؤڈال کر آئین میں ترمیم کروانے اور مسلمان کہلوانے میں بالآخر کامیاب ہو جائیں گے، لہٰذا یہود و ہنود بھی توہینِ مذہب کی آذادی کا راگ الاپ کر اپنے روحانی فرزندوں کی مدد کو تیار رہتے ہیں۔ان کا واویلا ہے کہ ـ’’توہین مذہب کے جرم میں قید بھگتنے والے کُل مجرموں کی 50 فی صد تعداد پاکستان کی جیلوں میں ہے جو کہ قابل مذمت ہے‘‘ گناہوں کی ریاست اور اندھوں کی نگری سے توہین مذہب یا مذہبی جنون کے عنوان پر لاکھ چیخ و پکار بلند ہوتی رہے ،دنیائے کفر کتنا ہی انتہا پسند یا بنیاد پرست کہتی رہے ،یہود و نصاریٰ کو اپنے مذہب یا اپنے انبیاء ؑ کے ناموس کا احساس ہو یا نہ ہو،بہرحال ہم ان کی طرح اپنے مذہب کو ثانوی درجہ نہیں دیتے بلکہ ہم مسلمانوں کو اپنا مذہب، تمام انبیاء اور بالخصوص اپنے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ؑکی عزت و ناموس دنیا وما فیہا سے اور حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی بڑھ کر عزیز ہے ،ان کی توہین اورختم نبوت کی تکذیب ہمارے نزدیک ناقابل معافی جرم ہے۔

1974 کے بعد آج ایک مرتبہ پھروطن عزیز ختم نبوت کے حساس معاملے میں افواہوں اور بے چینی کی زد میں ہے ۔مذہبی حلقوں کو تشویش ہے کہ کہیں تبدیلی کا جنون ہماری روح کا سودا نہ کر ڈالے ، کہیں ختم نبوت اور توہین رسالت کی قانونی شق بادشاہ سلامت کے یوٹرن کی لپیٹ میں نہ آجائے ۔ کہیں یک جنبش قلم سے اسلامیان پاکستان کے مذہبی جذبات اور احساسات کو روند نہ ڈالا جائے ۔ ہمارا ایمان اس امر کا متقاضی ہے کہ نئے پاکستان میں ختم نبوتؐ کے اسی پرانے عہدکی تجدید کی جائے جس کے نتیجہ میں 7ستمبر 1974کو پاکستان کے قانون ساز اداروں نے قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر نظریۂ پاکستان کی لاج رکھی تھی۔
 

Qazi baha ur rahman
About the Author: Qazi baha ur rahman Read More Articles by Qazi baha ur rahman: 20 Articles with 22250 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.