راشن تھمادیا کسی نے سلفی کیساتھ ساتھ
جومرنے لگاتھا بھوک سے غیرت سے مرگیا
کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے افرادکی تعدادہرگزرتے دن بڑھتی جارہی ہے
جس سے لوگ کافی فکرمندہوگئے ہیں ۔دوسری جانب تشویش کا مسئلہ یہ ہے کہ اب
روزنئے نئے معلامات سامنے آرہے ہیں ۔زنجیرکسی بھی طرح ٹوٹتی نظر نہیں آرہی
ہے ۔اس مہلک وائرس کے خلاف جنگ سرکاری اقدامات کی جنتی بھی تعریف کی جائے
کم ہے ، دن رات ڈاکٹرز ، پیرامیڈیکل سٹاف ،پولیس ، فوج ، رینجرزسمیت دوسرے
محکموں کے افسروں ، اہلکاروں ودیگر نجی اداروں کا عملہ اس کا مردانہ وار
مقابلہ کررہے ہیں جس سے دل کو تسلی ہورہی ہے ۔لیکن افسوس اور پریشانی کی
بات ہے کہ ابھی بھی بہت سے حقیقت کو چھپارہے ہیں اور اسطرح وہ پوری انسانیت
کے قاتل ثابت ہونگے ۔کیونکہ ابھی تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ کب تک یہ
صورتحا ل قائم رہے گی اور کب لو گوں کو لاک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
تاریخ گواہ ہے کہ انسان کی ترقی کی بنیاد ہی زبان ہے کیونکہ زبان کے
بغیرعلم کا حصول اور ترسیل ممکن نہیں۔ زبان کے ذریعے ہی ہم کائنات کے
پوشیدہ رازوں سے پردہ اْٹھاسکتے ہیں۔کسی قوم کی بقا اور ترقی کے لیے
زبان،ثقافت اور قومی تشخص روح رواں کی حیثیت رکھتا ہے۔ کامیاب اور ترقی
یافتہ قوموں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ، ان کی ترقی میں ان کی مادری
زبانوں کا نمایاں کردار نظر آتا ہے۔ کم و بیش ہر مہذب و ترقی یافتہ قوم نے
اپنی مادری زبان کو اپنا کر ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ تمام معاشی اور
سائنسی ترقی یافتہ ممالک کے ہاں ذریعہ تعلیم وہاں کی قومی اور مادری زبان
ہی ہے۔
اگربات کی جائے پاکستان کی تو ملکی ترقی میں شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے
افراد کا کردار اہم ہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ اپوزیشن ، سیاسی جماعتوں سمیت
وزراء ، معاشی معاونین نے جہاں کاروباری طبقہ، برامدکنندگان، صنعتکاروں،
ڈاکٹر صاحبان میڈیکل پیشہ، مزدور حضرات کو اس مشکل گھڑی میں سہارا دیا ہے
وہاں علاقائی صحافیوں کو نظر انداز کر کے انصاف کا خون کیا گیا ہے صحافت سے
وابسطہ 5 فیصد خوشحال اصحاب کے علاوہ 95 فیصد سفید پوش محنت کش، مزدور ہیں
جن کی نہ تنخواہ ہے نہ پنشن حصول روزگار کے تلخ ذرائع ہیں گورنمنٹ طرز پر
پنشن یا گریجویٹی سے محروم ہیں لیکن تاریخ پاکستان بننے سے لے کر آج تک اس
قوم کو شعور اور آگاہی میڈیا نے دی ہے جان کی پرواہ کیے بغیر، صحافی پابند
سلاسل ہونے کے باوجود شعور آگاہی حق سچ کی صدا اب بھی فضا میں قائم و دائم
ہے توکل اﷲ پر کام کرنے والے یہ مزدور لاک ڈاؤن سے آمدورفت اور وسائل
روزگار مسدود ہو گے ہیں، لیکن ان مشکل ترین حالات میں رپورٹنگ اور خدمت کا
سلسلہ اب بھی جاری ہے، علاقائی صحافیوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے ۔
حقیقت میں پاکستان ایک کثیر اللسانی ملک و معاشرہ ہے۔ پاکستان میں 77زبانیں
بولی جاتی ہیں جن میں 72 زبانیں مقامی اور قدیم ہیں۔ پاکستان میں نو بڑی
زبانیں ہیں۔ پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، اردو، بلوچی، ہندکو، براہوی،
شینا تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔پاکستان میں رائج دوسری زبانوں اور لہجوں میں،
فارسی، گجراتی، کشمیری، بروشسکی، انڈس کوہستانی، مارواڑی، میمنی، پوٹھواری،
بلتی، گوجری، دری،آیر، بدیشی، باگری، بٹیری، بھایا، براہوی، چلیسو، دامیڑی،
دیہواری، دھاتکی، ڈوماکی، گواربتی، گھیرا، گوریا، گوورو، گرگلا، ہزاراگی،
جدگلی، جنداوڑا، کبوترا، کچھی، کالامی، کالاشہ، کلکوٹی، کامویری، کاٹی،
کھیترانی، کھوار، کولی (لچھی، پرکاری اور دوھیارہ لہجے)، لہندا، لاسی،
لوارکی، اوڈ، ارمری، پھالولہ، سانسی، ساوی، توروالی، اوشوجو، واگھری، وخی،
وانیسی اور یدغہ شامل ہیں۔
پاکستان میں 48 فیصد لوگ پنجابی، 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، 8 فیصد
پشتو، 8 فیصد اردو، 3 فیصد بلوچی، 2 فیصد ہندکو، ایک فیصد براہوی اور 8
فیصد لوگ انگریزی و دیگر چھوٹی زبانیں بولتے ہیں۔ پنجابی، سندھی، سرائیکی،
پشتو، بلوچی ، ہندکو اور براہوی ہمارے خطے کی قدیم زبانیں ہیں۔
حکومت وقت نے شعبہ صحافت پر توجہ نہ تودنیا بھر کی طرح پاکستان میں سینکڑوں
زبانوں کے معدوم ہونے کا خطرہ اور بڑجائے گا کیونکہ مادری زبانوں کو درپیش
خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 28 ویں نمبر پر ہے۔مادری زبانوں کو
بچانے کیلئے اپنا پنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے
کہ لوگ اپنی مادری زبان بولنے کے ساتھ ساتھ اس زبان کو پڑھیں اور
لکھیں۔شعبہ صحافت ’’قومی و بین الاقومی اخبارات ، ٹی وی چینلز ‘‘ کے ذریعہ
عوامی مسائل حکام بالاتک پہنچاتے ہیں سب مٹ جائیں گے ۔جو دنیا کی تاریخ کسی
بھی بڑے سانحہ سے کم نہیں ہوگا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں قومی زبانوں کے کئی اساتذہ اکرام،
اہل علم و دانش ، اہل ادب قلم کاروں اور تعلیمی اداروں حکومت اور اپوزیشن
کی سیاست کی نذر ہو جائیں گے ۔ بھوک اور سفید پوشی میں شعبہ صحافت سے تعلق
رکھنے والے بہت سے لوگوں نے لوک کہانیوں، شاعری و گیت، نظم و نثر، علاقائی
ادب ، لغات و قاعدوں اور عالمی زبانوں کے قومی و علاقائی زبانوں میں تراجم
کے ذریعے زبان کی خدمت اور استحکام کے لیے اپنی اپنی خدمات سرانجام دے رہے
ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے ڈی جی پی آر سمیت تمام علاقائی ورکنگ صحافیوں کا ریکارڈ
پریس کلبز اور ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفسز میں موجود ہے وزیراعظم پاکستان وزراء
اعلی سمیت تمام متعلقہ اداریاس سلسلہ میں تمام کوششیں صرف کر کے صحافیوں کو
معاشی بدحالی سے بچانے کا بندوبست کریں بصورتِ دیگر شدید نقصان کا ازالہ نہ
ہو سکے گا۔
|