خاص لوگ

کچھ لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب انسان خودبخود رب العالمین کے آگے سجدہ ریز ہو جاتا ہے ۔ انسان بہت ناشکرا ہے یہ بات قرآن کریم میں بیان ہے جس کی بات میں شک کی گنجائش ہی نہیں ۔ " فبای آلا ربکما تکذبان " کی آیت کو کتنی بار ہم نے سنا ہے مگر کتنی بار اس کے حروف کے معانی اور مفاہیم کو ہم نے اپنے دل میں اترنے دیا ۔ ہم اچھی بات کو کتنی دیر تک اپنے ذہن کے پردے پر تروتازہ رکھتے ہیں یہ کبھی سچے دل سے سوچیں تو ہمیں خود سے بھی شرمندگی ہو گی ۔ اچھی بات پڑھتے ہیں سنتے ہیں اثر بھی لیتے ہیں مگر دنیا کی رنگینیاں اتنی جلدی ہمیں اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں کہ ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ۔ ہم مال و دولت ، اعلی سے اعلی تعلیم اور جاب کے لیے دن رات کوشاں رہتے ہیں اور رہنا بھی چاہئیے کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ بہتر سے بہترین کی خواہش اور تلاش میں لگا رہے اسی سے ترقی کا پہیہ چلتا ہے ۔ مگر یہ سب کرتے ہوئے ہم مادیت میں اتنا کھو جاتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو محسوس کرنے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں ۔ زندگی میں کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جو ہمیں ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی یاد دلاتے ہیں جن کو شاید ہم کبھی یاد بھی نہیں کرتے ۔ ہم اللّٰہ تعالیٰ سے بڑے محل ، بھری تجوریاں ، قیمتی گاڑیاں اور شان و شوکت نہ ملنے پر شکوے کرتے ہیں اور اپنی غریبی اور بے کسی کا رونا روتے ہیں ۔ جو ہمیں اللّٰہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے اس کا شکر ادا کرنا ہمیں یاد بھی نہیں رہتا ۔ یہ احساس خصوصی بچوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے اور زیادہ بڑھ گیا ہے ۔ کبھی ہم نے سوچا کہ ہم جو کان سے سنتے ہیں کتنی بڑی نعمت ہے یہ ان سے پوچھیں جو سن اور بول نہیں سکتے ۔ خصوصی بچوں کے فنکشن میں کچھ بچوں کی والدین نہیں آئے اور ان کے نہ آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جو جواب دیا وہ ماں باپ کے دل کا درد بیان کرتے تھے انہوں نے کانپتی آواز سے کہا ہم سے برداشت نہیں ہوتا بچوں کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ نہ بول سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں ۔ ہم بحیثیت اساتذہ ان کو حوصلہ اور ہمت دے سکتے ہیں ۔ ان کی مدد کر سکتے ہیں ۔ ان بچوں کے لیے بہتری کے راستے کھول سکتے ہیں مگر والدین اور گھر والے جس پریشانی سے گزرتے ہیں اس کو ہم ختم نہیں کر سکتے ۔ جب ایک بچی کے والدین صرف ہاتھ پکڑ کر سڑک پار کرانے پر رو رو کر شکریہ ادا کریں ۔ جب ایک ڈیف بچی کی ماں فنکشن میں اس لیے نہ آئے کہ مجھے پریشان دیکھ کر میری بچی پریشان ہوگی اور وہ پرفارم نہیں کر سکے گی ۔ کیا ہم اس ماں کے درد کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ نابینا بچے دنیا کو کس طرح دیکھتے ہیں محسوس کرتے ہیں وہ شاید ہم بینا لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے ۔ جنہوں نے دنیا کی رنگینیاں اس طرح نہیں دیکھیں ۔ مگر وہ ہم سے زیادہ حساس اور خوبصورت دل کے مالک ہوتے ہیں ۔ مگر ہم بس ذرا سا افسوس اور ہمدردی کا اظہار کر کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں ۔ ان کو دیکھ کر کیا ہم پر سجدہ ٔ شکر لازم نہیں ہوتا کہ ہم اپنی آنکھوں کی بینائی پر شکر ادا کریں ۔ وہ بچے جو ذہنی طور پر نارمل نہیں ہوتے اور جسمانی طور پر کسی مسئلے کا شکار ہوں ۔ کبھی ان کے گھر میں جائیں تو ان کے والدین جن حالات سے گذرتے ہیں وہ ہم نہیں جان سکتے ۔ خاص بچوں خاص طور پر بچیوں کے والدین کی پریشانی ان کی عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہیں ۔ ان کے مستقبل کے بارے میں سوچ کر والدین کی نیندیں اڑ جاتی ہیں ۔ اللّٰہ تعالیٰ خصوصی افراد کے ذریعے ہمیں سکھانا چاہتا ہے کہ وہ رب العالمین ہے ۔ وہ جس کو جیسے چاہے بنا سکتا ہے ۔ کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کسی سے لے کر آزماتا ہے ۔ خصوصی افراد کے ذریعے ہماری آزمائش ہوتی ہے کہ ہم ان کو دیکھیں تو اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ہر دم شکر ادا کریں ۔ ان کو اپنے ساتھ لے کر چلیں ۔ ہم ان کے ساتھ کیسا رویہ رکھتے ہیں کیسا برتاؤ کرتے ہیں یہ ہماری آزمائش ہے ۔ ہم مختلف قسم کے بڑے بڑے فنکشن اور تقریبات کرتے ہیں تو ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے بڑے بڑے لوگوں کو مہمان بناتے ہوئے ان خصوصی اداروں کے بچوں کو کبھی خصوصی طور پر مدعو کیا ۔ سکولوں کالجوں میں مختلف اداروں میں فنکشن ہوتے ہیں سب ایک دوسرے کو اور دوسرے اداروں کو مدعو بھی کرتے ہیں وہ اتنا تو کر سکتے ہیں کہ کبھی ان بچوں کو بھی اپنے ساتھ خوشیوں میں شامل کریں ۔ ان بچوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے احساس پیدا ہوتا ہے کہ پوری دنیا کے محل اور تجوریاں ایک سننے والے کان ، دیکھنے والی آنکھ ، نارمل ذہن اور تندرست جسم سے بڑھ کر نہیں ۔ ان خاص افراد کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ ہم اپنا حصہ ڈال کر بہتری کی امید جگا سکتے ہیں ۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں ہماری نیت اور کوشش کو دیکھا جاتا ہے ۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنا شکر گزار بندہ بنائے اور ان خاص لوگوں کے لیے اپنا حصّہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

 

Zulikha Ghani
About the Author: Zulikha Ghani Read More Articles by Zulikha Ghani: 13 Articles with 13329 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.