عالمی وبا کورونا نے دنیا کے گلوبل ویلیج کے
تصور کو یکلخت ختم کردیا ہے اور دنیا بھر کے تمام ممالک اپنے شہریوں کو
واپس لانے اور انہیں اپنے مقام پر محفوظ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ دنیا
نے برسوں کی کوشش کے بعد دنیا کو ایک دیہات میں تبدیل کرنے کی کامیاب کوشش
کی تھی اور اس کوشش میں اس حد تک کامیابی حاصل ہوئی تھی کہ دنیا کے ترقی
یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان مسابقت کا دور شروع ہوگیا تھا
اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے دقیانوسی خیال کے حامل لوگوں
کی جانب سے اس مسابقت کے خلاف نسل پرستی کی ایک جنگ چھیڑ دی گئی تھی جسے
دنیا کے ہر ملک اور سنجیدہ شہری نے مسترد کرتے ہوئے انسان کو اس کے حق کی
فراہمی کے اقدامات کی بات کررہا تھا لیکن دسمبر 2019 کے بعد سے دنیا کے
حالات یکسر تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اور ہر ملک اپنے باشندوںکو تحفظ فراہم
کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔عالمی سطح پر تیزی سے پھیل رہی اس وبا پر قابو
پانے کیلئے لازمی ہے کہ فوری احتیاطی اقدامات کئے جائیں اور ان اقدامات کو
سختی کے ساتھ نافذالعمل بنایا جائے اور حکومت کی جانب سے تاخیر سے ہی سہی
لیکن اقدامات کا آغاز کیا گیا ہے اور انہیں سختی کے ساتھ نافذالعمل بنانے
کے لئے کوششیں بھی کی جارہی ہیں مگر اس کے نتائج کس حد تک مثبت برآمد ہوں
گے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ عوامی کوتاہی کے سبب یہ وبا رکنا
ممکن نہیں ہے۔ دنیا بھر میں کورنا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہی
ہوتا جا رہاہے اور دنیا میں جب تک کورونا کا ایک بھی مریض باقی رہے گادنیا
ایک طرح سے مفلوج ہی رہے گی اور آمد و رفت کے ذرائع بند ہی رہنے کا خدشہ ہے
کیونکہ کورونا کا ایک مریض کئی افرا د کو متاثر کرنے کا سبب بن رہا ہے اسی
لئے عالمی سطح پر ان لوگوں کو نقل وحمل سے روکنے کے لئے لاک ڈاون کیا جا
رہا ہے اور جو لوگ لاک ڈاون میں ہیں وہ یہ تصور کر رہے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں
تو کیوں ان پر لاک ڈاون مسلط کیا جارہا ہے۔ اٹلی نے جو کوتاہی کی ہے اس
کوتاہی کا وہ خمیازہ بھگت رہا ہے اسی طر ح ایران نے بھی زائرین کو روکنے کے
اقدامات نہیں کئے تھے جس کے سبب ایران کی حالت بھی بتدریج ابتر ہوتی جا رہی
ہے ۔ خلیجی ممالک میں تیز رفتار حرکت میں آتے ہوئے اگر کسی مملکت نے
اقدامات کئے ہیں تو وہ سعودی عرب اور قطر ہیں جنہوں نے حالات کی نزاکت کو
محسوس کرتے ہوئے کئی ایک اہم فیصلے کئے اور کورونا وائرس کو پھیلنے سے
روکنے کی احتیاطی تدابیر اختیار کرلی۔عالم عرب میں کورونا کا اتنا قہر نہیں
ہے جتنا یوروپ اور امریکہ میں دیکھا جا رہاہے لیکن اس کے باوجود بھی خلیجی
ممالک نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے مسئلہ کی نوعیت کے مطابق اقدامات
کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں وہ تشہیر کے بجائے عملی اقدامات اختیار کررہے
ہیں۔
پاکستان میں حکومت کی جانب سے مذہبی اجتماعات پرعائد کی گئی پابندیو ںمیں
مساجد میں بھی بڑے اجتماعات نہ کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں اور عوام سے
اپیل کی گئی ہے کہ وہ جمعہ کے موقع پر گھروں میں نماز ادا کریں اور حکومت
کی پابندی اور علما کے فیصلہ کا عوام نے بصد احترام خیر مقدم کیا ہے لیکن
جس طرع کرنا چاہے تھا شاہد نہیں ہو سکا ۔ کورونا وائرس ایک وبائی مرض ہے اس
بات کی توثیق کے بعد کئی شرعی احکام ہم پرعائد ہوجاتے ہیں اور ان کے مطابق
عمل کرنا بھی باعث ثواب ہے اسی لئے علما اکرام نے جو فتوی جاری کیا ہے اس
میں عوام سے اپیل کی کہ وہ گھروں میں عبادتوں کو انجام دیں۔ مساجد میں یکجا
ہونے اور اجتماع کے سبب کورونا وائرس کے پھیلنے کے خدشات سامنے آنے کے بعد
ہی یہ سخت گیر فیصلہ کیا گیا ہے اور اس فیصلہ نے امت مسلمہ کے دلوں کو چاک
کردیا ہے لیکن وقت کی اس اہم ضرورت کے تحت ماہرین سے مشاورت کے بعد ہی یہ
فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندی پر اگر عمل کیا جاتا
ہے تو اس کا وبال ان پر ہی ہوگا جن لوگوں نے مساجد کو مقفل کیا ہے اور اس
کی ہدایت دی ہے۔ وبا یا آفت کے دور میں اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کی ضرورت
ہے لیکن جو احتیاط کے امور بتائے گئے ہیں ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ سے
تعلق کو مضبوط کیا جائے تو دین اور دنیا دونوں میں کامیابی ہوگی۔ بندگان
خدا خالق حقیقی کو تنہائی میں راضی کرواسکتے ہیں اوراس کی کئی ایک مثالیں
اور حکایات موجود ہیں کہ اللہ کو راضی کرنے کے لئے بزرگان دین نے تنہائی
اختیار کی تھی اور اگر دور حاضر میں کوئی اہل دل تنہائی میںہی اپنے مالک
حقیقی کو راضی کرواتے ہوئے اس مصیبت سے نجات کے لئے دعا کرتا ہے تو یہ بات
یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اللہ رب العزت اس کے تنہائی میں اٹھنے والے ہاتھ
اور آنکھ سے بہنے والے آنسووں کی لاج ضرور رکھیں گے۔حج بیت اللہ کی اہمیت
اور فرضیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن اگر کورونا وائرس پرقابو پانے میں ناکامی
ہوتی ہے توسعودی حکومت کی جانب سے تنسیخ حج کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔بیرونی
سفر پر عائد پابندی کے دوران اس بات کے بھی اشارے دئیے جارہے ہیں کہ حکومت
سعودی عرب نے حج بیت اللہ کے سلسلہ میںکسی بھی فیصلہ کو قطعیت نہیںدی ہے
اور نہ ہی اس سلسلہ میں کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے کیونکہ موجودہ حالات
میں کچھ بھی کہنا اور اقدام قبل از وقت قرار دیا جا رہاہے اور کہا جا رہاہے
کہ حکومت کو جوانتظامات درکا ر ہوتے ہیں ان کی انجام دہی میں6ماہ کا وقت
لگتا ہے اور اگرماہ رمضان المبارک کے اختتام تک دنیا بھر میں کوروناوائرس
پر قابو پایا جاتا ہے تو ایسی صورت میں حج بیت اللہ کی تیاریاں کی جاسکتی
ہیںاور اگر ماہ رمضان المبارک کے بعدبھی کورونا وائرس کا قہر جاری رہتا ہے
تو ایسی صورت میں تنسیخ حج کا بھی ناگزیر حالات میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے
کیونکہ حج بیت اللہ کے لئے کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ دنیاکے ہر ملک سے
مسلمان پہنچتے ہیں۔وبائی امراض کے سلسلہ میں موجود احکام کی روشنی میں
حکومت سعودی عرب کی جانب سے قطعی فیصلہ کئے جانے کا امکان ہے کہا جا رہاہے
کہ ماہرین نے اس سلسلہ میں تجاویز حکومت سعودی عرب کو روانہ کرنا شروع کردی
ہیں اور حکومت کی جانب سے شرعی و فقہی مسائل کا جائزہ لینے کی بھی ہدایات
جاری کردی ہیں۔وزارت الحج سعودی عرب کے ذرائع کا کہناہے کہ حکومت سعودی عرب
کوصرف اپنے شہریوں کی نہیں بلکہ دنیا بھر کے شہریوں کا خیال رکھنا ہے اور
کورونا وائرس سے احتیاط کی اولین تدبیر سماجی فاصلہ اور دوری اختیار
کرناہے۔اسی لئے حکومت کی جانب سے حج بیت اللہ کے سلسلہ میں کافی باریکی سے
غور کرنے کے بعد ہی قطعی فیصلہ کیا جائے گا اور اگر دنیا بھر میں جاری بین
الاقوامی مسافرین کے سفر پر عائدپابندی برقرار رہتی ہے تو ایسی صورت میںحج
دنیا کے دیگرممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے عملی طور پر منسوخ ہی
تصور کیا جائے گا اور مقامی سعودی شہریوں کے لئے حکومت کی جانب سے فیصلہ
کیا جائے گا۔
عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس سے جو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی
ہدایات دی ہیںان میں گھر میں رہنے اور صفائی کا خصوصی خیال رکھنے کی ہدایت
شامل ہے اور دن بھر میں متعدد مرتبہ ہاتھ دھونے کی تلقین کی جا رہی ہے ۔
عام دنو ںمیں مسلسل گھر میں رہنے والوں کو نکما نااہل اور کندہ ناتراش کہا
جاتا تھا لیکن اب جبکہ کورونا کاخوف طاری ہے تو جو گھر میں رہتا ہے اسے
سمجھ دارقابل اور سرکاری احکامات پر عمل کرنے کے ساتھ صحت کے متعلق احتیاط
کرنے والا کہا جا رہاہے۔ اس وقت ہم سب کو چاہے کہ اپنے سمیت پوری انسانیت
کو اس وبا سے بچانے کے کیے کردار ادا کریں۔
|