اﷲ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے۔ کُلُّ نَفْسٍ ذَ ٓائِقَۃُ
الْمَوْتِ ط (آلِ عمران ۱۸۵) ترجمہ۔ ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے۔
حضرت انس ؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے زمین پر کچھ لکیریں
کھینچیں اور فرمایا ۔ یہ انسان کی امیدیں ہیں اور یہ انسان کی اجل یعنی موت
ہے۔انسان ابھی امیدوں میں مشغول ہوتا ہے کہ یہ لکیر یعنی موت انسان کو
آلیتی ہے۔ ( صحیح بخاری کتاب الرقاق)
جانے کس وقت کوچ کرنا ہو
اپنا سامان مختصر رکھیے
زندگی کیا ہے ایک ننھاسا دیاجس کو ہوا کا ایک جھونکاپل میں گرا دے۔کسی نے
کہا ہے کہ ’’ زندگی کو زیادہ سیریس لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں سے بچ
کر کوئی نہیں گیا ‘‘۔
موت کا نام سن کر ہی اکثر لوگوں پر ایک ہیبت سی طاری ہو جاتی ہے ۔ غالب نے
کہا ہے ۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟
انسانی زندگی کے متعلق اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کی
زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک اس دنیا کی زندگی جو دارالعمل ہے ۔
دوسرے آخرت کی زندگی جو دار الجزاء ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان موت کا پردہ
حائل ہے۔
روزِ ازل سے ہے یہاں موت و فنا کا سلسلہ
سنتے ہیں اُس جہاں میں ہے جاری بقا کا سلسلہ
ہزاروں ہیں جو اس منزل پہ ہمت ہار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
اﷲ تعالیٰ نے وَالْآخِرَۃُ خَیْرٌوَّ اَبْقٰی (الاعلیٰ آیت ۱۷) فرما کر
آخرت کی زندگی کو دنیاوی زندگی سے بہتر اور دیرپا قرار دیا ہے۔
حیاتِ آخرت پر ایمان موت سے نڈر بنا دیتا ہے۔جب ایک مومن حیات آخرت کو اسی
زندگی کا ایک تسلسل مانتا ہے جو مستقل او ر دائمی ہو گی تو انسان اس کے
حصول کے لئے کوشش کرتا ہے۔ اس طرح اس دنیا کو چھوڑنا یا بالفاظِ دیگر موت
کو قبول کرنا مومن کو ناگوار نہیں گزرتا بلکہ اس دنیا کوچھوڑ کر دوسری دنیا
یعنی آخرت میں جانے کے لئے ایک دلیری اور تیاری محسوس کرتا ہے۔
موت کے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر سجا دی جائے ؟
خلافت کے بعد حضرت علیؓ نے پہلے خطبہ میں اطاعت کے بارے میں فرمایا:۔۔۔تم
لوگ موت کے آنے سے قبل اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرو جبکہ موت تمہیں
گھیر تی چلی آرہی ہے اس لئے تم لوگ گناہوں سے ہلکے ہو کر موت سے ملو۔۔۔(تاریخ
طبری جلد سوم حصہ دوم۔صفحہ441)
ایک مفکر کا کہنا ہے۔ ’’ بڑھاپا ایک خونخوار بھیڑیے کی طرح دروازے کے اندر
جھانک رہا ہے ، بیماریوں نے دشمنوں کی طرح محبت کے قلعے کا محاصرہ کرلیا ہے
‘ زندگی پانی کی طرح ٹوٹے ہوئے برتن سے قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے۔‘‘
موت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ ، کل ہماری باری ہے
موت ایک ایسی چیز ہے جو عزیزسے عزیز چیز کو بھی چھین لیتی ہے ۔ زندگی جیسی
قیمتی دولت دے کر موت نصیب ہوتی ہے۔
موت انسانی زندگی کے خاتمے کا نام نہیں بلکہ یہ تو انسانی زندگی کے اگلے
دَور کا نام ہے۔موت کے دروازے سے گزر کر انسان اگلے دَور میں داخل ہو جاتا
ہے۔موت کا ذائقہ ہر کسی نے چھکنا ہے۔ذائقہ ایک کیفیت کا نام ہوتا ہے اِس کا
وجود مستقل نہیں ہوتا۔جیسے اگر کوئی مشروب پیا جائے تو اُس کا ذائقہ کچھ
دیر تک رہتا ہے لیکن اُس کے بعد اُس مشروب کے ذائقے والی کیفیت ختم ہوجاتی
ہے ۔ یہی حال موت کا ہے کہ انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، مرنا نہیں
ہے۔چونکہ ذائقہ ایک بے حقیقت شے ہے ۔ ایک دن میں کئی مرتبہ ذائقہ آتا ہے
اور ختم ہوجاتا ہے۔اِس لیے تو موت ذائقہ بن کر آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ اِس
ذائقہ موت کی کیا مجال کہ وہ انسان کی حقیقت کو ختم کر سکے۔
کون کہتا ہے موت آئی تومر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندرمیں اترجاؤں گا
اس کا مطلب ہے موت ، زندگی کے تسلسل کا ہی نام ہے ۔ کوئی فوت ہو جائے تو
کہاجاتاہے فلاں کا انتقال ہوگیا یعنی وہ اس دنیا سے اگلی دنیا میں
ٹرانسفرہوگیا انتقال کی ٹرم زمین کی خریدو فروخت میں بھی استعمال کی جاتی
ہے آپ نے یہ بھی سناہوگا فلاں بزرگ کا وصال ہوگیا وصال کے معانی ہی ملنے کے
ہیں ہجروصال سے اولیاء کرام، شاعروں اور عاشقوں کا گہرا رشتہ ہے۔ مرزا غالب
نے اس ضمن میں بڑے مزے کی بات کی ہے اورصوفی تبسم نے پنجابی میں اس کا
منظوم ترجمہ کرکے حق ادا کردیاہے ۔
بھاویں ہجرتے بھاویں وصال ہوئے
وکھوں وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں
خلیل جبران کہتا ہے کہ ’’ میں نے بار بار اس پر غور کیا ۔ موت کیا ہے ، اس
کا زندگی سے کیا رشتہ ہے ؟ ایک دفعہ میں نے ایک سمندری جہاز دیکھا جب وہ
ساحل سے دور ہوتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیا تب وہاں پر موجود لوگ کہنے لگے
’’ چلاگیا ‘‘ میں نے سوچا دور ایک بندر گاہ ہوگی وہاں پر لوگ جہاز کو دیکھ
کر کہہ رہے ہوں گے ’’ آگیا ‘‘ اور شاید اسی کانام موت ہے ۔ایک پرانی زندگی
کا خاتمہ اور ایک نئی زندگی کی ابتداء ۔‘‘
یقینا ہر زندہ نے موت کا مزا چکھناہے ، زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے جس
سے انکارممکن نہیں ، دنیا فانی ہے اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے۔
نہ کر تکیہ یہاں کی زندگی پر یہ ہے نادانی
یہاں کی زندگی دھوکہ ‘ یہاں کی زندگی فانی
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب رسول اﷲ ﷺ مدینہ
تشریف لائے تو ابوبکرؓ اور بلالؓ کو بخار ہو گیا۔ حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ
میں ان کی عیادت کو گئی تو میں نے حضرت ابوبکرؓ کو مخاطب کر کے کہا اے
اَبَّا! آپ کا کیا حال ہے؟ اور اے بلال تمہارا کیا حال ہے؟
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ کو بخار ہوتا تھا
تو وہ یہ شعر پڑھتے تھے۔
کُلُّ امْرِیٍٔ مُصَبَّحٌ فِیْ اَھْلِہٖ وَالْمَوْتُ اَدْنٰی مِنْ شِرَاکِ
نَعْلِہٖ
ہر شخص اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے۔ اور موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی
زیادہ قریب ہوتی ہے۔
اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کا جب بخار ٹوٹتا تھا تو وہ اپنی چادر اٹھا کر جو
شعر پڑھتے تھے ان کا یہ مفہوم ہے۔
ہائے مجھ پر وہ دن بھی آئے گا جب کہ میں رات ایسی وادی میں گزاروں گا جب
میرے اردگرد اِزْخِرْ گھاس اور جلیل اُگی ہوئی ہوگی…………
(الادب المفرد للبخاری باب ما یقول للمریض۔ حدیث نمبر۵۲۵)
موت کوئی ڈرنے والی چیز نہیں ہے ۔ یہ دعا کرنی چاہئے کہ جب موت کا وقت آئے
تو زبان پر جزع فزع کی بجائے حمدِ الٰہی اور درود کا ورد ہو ۔
اوڑھ کر مٹی کی چادر بے نشاں ہو جائیں گے
ایک دن آئے گا ہم بھی داستاں ہو جائیں گے
ہر مومن کی خواہش ہے کہ اس عارضی زندگی کے اختتام پر انسان کا خاتمہ بالخیر
ہو۔ اﷲ تعالیٰ نے خاتمہ بالخیر کے لئے تقوٰی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
فرمایا: وَالعَاقِبَۃُلِلْمُتَّقِیْن o (الاعراف:۱۲۸) کہ اچھا انجام متقیوں
کے لئے ہی مقدر ہے۔ پھر جنت کا حصول اور چشموں اور نعمتوں کی عطا بھی
متقیوں کا ہی نصیبہ ہے۔ (الفرقان:۷۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|