تحریر:محمدرضاایڈدوکیٹ
ہائی کورٹ لاہور
دنیا بھر میں کووڈ-19 نامی کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی
سے اضافہ ہو رہا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کووڈ-19
کوعالمی وباء قرار دے کر ہیلتھ ایمرجنسی نافذکی جاچکی ہے ابھی تک چین میں
اس کے نئے متاثرین کی تعداد کم ہونے کے بعد امریکہ اس کا نیا مرکز بن چکا
ہے۔اب تک یہ مرض دنیا کے200 سے زیادہ ممالک میں پھیل چکا ہے اس وائرس سے
متاثر کی تعداددس لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے جن میں سے 70 ہزار سے زیادہ
جان کی بازی ہرگئے ہیں جبکہ صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 2لاکھ70ہزارسے
زیادہ ہے جسے حوصلہ افزاء کہاجاسکتاہے ۔کیااس حقیقت کاکوئی انکارکرسکتاہے
کہ اس دنیامیں بھوک سے بڑی کوئی وباء نہیں؟ یہ سچ ہے کہ دنیامیں انسان کوبے
شمارمسائل کاسامناہے پریہ بھی حقیقت ہے کہ ہرریاست ہرشہر اورہرگاؤں کے
مسائل الگ الگ ہیں اوروسائل بھی مختلف ہیں جبکہ بھوک ایسا مسئلہ جسے عالمی
مسئلہ یاوباء تصورکیاجاناچاہیے دنیا کی بہت بڑی آبادی کو دووقت کی روٹی تو
درکنار ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ اس حوالے سے گلوبل ہنگری
انڈیکس کی یہ رپورٹ دنیا بھر کے صاحبان اقتدارکے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ جس کے
مطابق دنیا کے کل 70 کروڑ 95 لاکھ سے زیادہ انسان بھوک کا شکار
ہیں۔انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے بھوک کے شکار 118
ممالک کی جو فہرست جاری کی جاچکی ہے، اس رپورٹ میں پاکستان 11 ویں نمبر پر
ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کے 33.4 پوائنٹس تھے، رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ
پاکستان میں کل آبادی کا 22 فیصد حصہ غذا کی کمی کا شکار ہے اور 8 اعشاریہ
ایک فیصد بچے پانچ سال سے کم عمر میں ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔بھوک
اور غربت کا عفریت ہمارے بچوں کو ان کے بچپن ہی سے گھن کی طرح چاٹنے لگتا
ہے پاکستان میں غربت کے خاتمے کے نعروں کے ساتھ حکمران اقتدارکے سنگھاسن تک
پہنچتے جاتے ہیں پر آج تک کسی حکمران نے غربت کے آسیب کاسامناکرنے کی جرات
نہیں کی وعدوں اوردعوؤں کے درجنوں ادوارگزرگئے پر آج بھی غریبوں کا وہی حال
ہے۔ سیاست دانوں کے دلفریب نعرے، وعدے اور دعوے بارجھوٹے ثابت ہوتے رہے
ہیں۔دن بدن امیر، امیر تر،اورغریب،غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ شاید اسی لیے
ہمارے حکمراں اب یہ نعرہ زیادہ شدت سے لگانے لگے ہیں کہ ملک سے غربت جلد
ختم ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ جب غریب ہی نہیں رہے گا تو غربت کیسے باقی رہے
گی؟اس بات سے بھی انکارممکن نہیں کہ کائنات کی تلخ ترین اور سفاک ترین
حقیقت بھوک ہیاورانسان کویہ یاد رہناچاہیے کہ بھوک کاکوئی مذہب،مسلک،رن
ونسل یاقوم وقبیلہ نہیں ہوتا دنیابھرمیں کمزورطقبات بھوک پٹانے کے لیے رات
دن مزدوری کرتے ہیں جبکہ آج کل دنیابھرکو کوروناوائرس کے پیش نظرلاک ڈاؤن
کاسامناہے جس میں غریب جوپہلے ہی دووقت کی روٹی کیلئے پریشان تھے اوربھی
زیادہ پستے جارہے ہیں پیٹ جب کھانے کومانگتاہے یعنی بھوک لگتی ہے توفقط
کھانے کی ضرورت ہوتی مسلسل بھوک وافلاس انسان انسانی تقاضے بھلادیتی ہے
اورانسان یہ سمجھنے سے قاصرہوجاتے ہیں کہ اچھاہے اورکیا برا کیاحلال ہے
اورکیاحرام کوروناوائرس کے پیش نظر لگائے جانے والے لاک ڈاؤن سے متاثرہونے
والے غریبوں کی کی امدادکرناہرصاحب حیثیت انسان کافرض ہے کوروناوائرس سے
بچاؤپھیلاؤ کی روک تھام کے لئے ماہرین اورحکومت کی ہدایات کافی ہیں انہیں
پرعمل کریں جبکہ راقم آج صلہ رحمی اختیارکرنے کی اپیل کرناچاہتاہے صلہ رحمی
سے کاملے کہ نہ صرف دنیابلکہ آخرت کے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں صلہ رحمی اﷲ
تعالیٰ اوراُس کے حبیب ﷺ کی خوشنودی کاذریعہ ہے۔رشتوں کا لحاظ رکھنا، رشتوں
کو جوڑ کر رکھنا اور ان کا احترام کرنا دوسروں کی ضروریات خیال رکھنا،اﷲ
تعالیٰ کے عطاکردہ مال ودولت میں سے کمزوروں پرخرچ کرنے کا قرآن کریم نے
حکم دیا ہے اور جرسول اﷲ ﷺ نے بھی اپنے قول و عمل سے اس کی تعلیم دی ہے۔
قرآن کریم نے اپنے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کو صلہ رحمی سے تعبیر کیا
ہے۔ گھر کی چار دیواری سے باہر کا دائرہ خاندان کا دائرہ ہوتا ہے جس میں
باپ کی طرف کے رشتہ دار چچا، پھوپھیاں، چچا زاد، پھوپھی زاد ، اور اسی طرح
ماں کی طرف کے رشتہ دار خالہ، ماموں، خالہ زاد اور ماموں زاد وغیرہ آتے
ہیں۔اسلام نے زندگی کے بہت سے معاملات میں اس دائرے کا لحاظ رکھنے کا حکم
دیا ہے، قرآن کریم میں ہے کہ’’ اور وہ لوگ جو ملاتے ہیں جس کے ملانے کو اﷲ
نے فرمایا ہے اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور برے حساب کا خوف رکھتے ہیں(سور?
الرعد ۱۲)اسلام میں صلہ رحمی کو مستقل نیکی قرار دیا گیا ہے۔ رشتہ داروں کے
ساتھ تعلقات بحال رکھنے کے حوالے سے ان کے ساتھ امداد و تعاون کے حوالے سے
آپس میں ایک دوسرے کی عزت و احترام کو ملحوظ رکھنے کے حوالے سے اور دیگر
معاشرتی حوالوں سے رسول اﷲﷺ نے بہت سے ارشادات فرمائے ہیں۔ مثلاً رسول اﷲﷺ
نے زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات کے حوالے سے فرمایا کہ آدمی اﷲ تعالیٰ کی
خوشنودی کے لیے لوگوں پر خرچ کرتا ہے تو یہ اجر و ثواب کی بات ہے وہی خرچ
اپنے رشتے داروں پر کرے گا تو دوہرے اجر کا مستحق ہوگا اسے صدقے کا اجر بھی
ملے گا اور صلہ رحمی کا ثواب بھی حاصل ہوگا۔ جناب نبی کریم ﷺنے صدقہ و
خیرات میں رشتہ داروں اور قرابت داروں کو ترجیح دینے کاحکم دیا۔ محدثین
فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے جو صدقہ و خیرات کے معاملے میں رشتہ داروں اور
پڑوسیوں کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے اس کی دو وجوہات ہیں۔پہلی وجہ تو یہ
ہے کہ دو نیکیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں،ایک صدقہ و خیرات کی اور دوسری صلہ رحمی
کی۔دوسری وجہ یہ ہے کہ آدمی جب صدقہ و خیرات کرتا ہے تو کوشش ہوتی ہے کہ
مستحق کو ملے۔ جبکہ رشتہ داروں کے عمومی حالات کے متعلق ہر آدمی جانتا ہے
کہ کون شخص یا خاندان امداد کا زیادہ مستحق ہے۔قریبی پڑوسیوں کی حالت کے
متعلق بھی معلوم ہوتا ہے اور رشتہ داروں کے متعلق بھی، یا یوں کہہ لیں کہ
ان کے حالات آدمی زیادہ آسانی سے معلوم کر سکتا ہے۔ رشتہ داروں کے علاوہ
خرچ کرنے کا بھی ثواب ہے پروہاں اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ معلوم نہیں کہ
امداد کسی مستحق کو ملی ہے یا غیر مستحق کو۔ اپنے رشتہ داروں میں آدمی کو
اندازہ ہوتا ہے کہ کس کی معاشی حالت کیا ہے اس لیے خرچ کرتے وقت آدمی زیادہ
اطمینان و اعتماد کے ساتھ خرچ کرتا ہے۔یہی معاملہ پڑوسیوں کے ساتھ بھی ہے۔
چنانچہ صلہ رحمی کا نہ صرف حکم دیا گیا ہے بلکہ اسے مسلمان معاشرے کے
بنیادی تقاضوں میں سے قرار دیا گیا ہے۔ آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں رشتے،
برادری اور تعلقات کے وہ سلسلے ختم ہو کر رہ گئے ہیں جو اچھے زمانوں میں
ہوا کرتے تھے۔ اسلام نے بطور خاص رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور میل جول
رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جناب رسول اﷲﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ جس آدمی نے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ میل جول حقارت کی وجہ سے ترک
کیا وہ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہے گا یعنی صلہ رحمی میں
نجات ہے
|